سگریٹ رگوں میں پھیلتا زہر ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 07, 2016 | 19:18 شام

نیویارک (شفق ڈیسک) کتنے بے خبر ہیں ہم لوگ خود رو اس راستے پر قدم رکھ ہی چکے ہوتے ہیں جو زندگی کااختتام ہے، ساتھ ہی اپنے سے جڑے رشتوں کو بھی اس اذیت میں مبتلا کرجاتے ہین کہ بالآخر ان کا انجام بھی یہی ہوتا ہے۔ کمرے میں ناگوار بوہر بات کاآغاز کھانسی سے اور ابھی بات مکمل نہیں ہونے پاتی تھی کہ پھر کھانسی کا دورہ اور تمباکو نوشی ایسی بلا ہے جو آپ سے ساتھ آپکے اردگرد رہنے والوں کو جان لیوا مرض میں مبتلا کر جاتی ہے۔ مگر ہم کب سوچتے ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ 50 لاکھ۔ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ افراد ت

مباکو نوشی میں مبتلا ہو کر اموات کا شکار ہو رہے ہیں جن میں 90 فیصد مرد اور 80 فیصد عورتوں میں کینسر کا سبب تمباکو نوشی ہے۔ 60 فیصد لوگوں کی عمریں 15سے 30 سال کے درمیان ہے، خواتین میں زیادہ تر پڑھی لکھی یونیورسٹی اور کالجز کی گریجویٹ ہیں، جو شوقیہ یادوستوں کی وجہ سے سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں ہرسال تمباکو نوشی کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے، نوجوان نسل خاص طور پر اس سے متاثر ہورہی ہے۔ اسکی بنیادی وجہ اسکے استعمال کے نقصانات سے بے خبری حالات کا جبر، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور روز افزوں مہنگائی سے ہونیوالی فرسٹریشن اور ڈپریشن ہے۔ تبھی ذہنی پریشانیوں سے سکون پانے کیلئے ان عارضی سہاروں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ آئیے ایک نظران کی اصلیت اور اثرات پر ڈالتے ہیں۔ پرتگال میں فرانس کے سفیر جان نیکور 1560ء میں اس سے واقف ہوئے۔ انہوں نے تمباکو کے پتوں کو علاج شقیقہ کیلئے استعمال کیا۔ اس وقت اسکو پانی میں گھول کر منہ کے ذریعے استعمال کیا جاتا تھا 17 ویں صدی میں پہلی مرتبہ پائپ کیساتھ اسکا رواج شروع ہوا۔ تمباکو کے پودے کو خشک کر کے خمیرہ کیا جاتا ہے۔ پھر سگریٹ بنانے یا پائپ حسب ضرورت مطلوبہ شکل میں کاٹ لیاجاتا ہے پھر اس میں خوشبو ملائی جاتی ہے۔ کئی ملکوں میں حشیش اور افیون ملائی جاتی ہے۔ نکوٹین! سب سے زیادہ میں ملائی جاتی ہے جو سگریٹ میں استعمال کیا جانیوالا سب سے اہم عنصر ہے سگریٹ میں جو 10 زہر پائے جاتے ہیں۔ ان میں یہ فہرست ہے۔ 2 کاربن مونو آکسائیڈا دھوئیں میں 2/1 فیصد خون کے سرخ مادے میں جذب ہو کر سانس روکتی ہے اور موت کا سبب بنتی ہے۔ 3 کارسینو جنک کینسر پیدا کرنیوالے 16 کیمیائی مادوں میں سے ایک ہے جسکے دھوئیں سے کینسر ہونا ثابت ہوا ہے۔ 4 بھاپ بن کر اڑانے والا مہک تیزاب۔ 5 سائینائڈ! یہ بھی ایک مہلک زہر ہے۔ 6 سنکھیا! جو سگریٹ کے دھوئیں میں ہوتا ہے۔ 7 امونیا! مضر صحت ہے، دم گھٹنے لگتا ہے، پھیپھڑوں کو دائمی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ 8 کولتار! یہ بھی زہر ہے۔ ایک کلو روزانہ سیال شکیل میں پینے سے مہروں کو جانے والی باریک نالیوں کو مفلوج کر دیتی ہے۔ 9 فضول اور الکحل! یہ بھی مہلک زہر ہیں۔ یہ وہ تمام زہر ہیں جو سگریٹ نوش کے جسم میں جذب ہوتے ہیں جو اس کی شاداب زندگی کو خشک کر دیتی ہیں۔ خوف، وحشت، کمزوری، ذہنی الجھن، کشمکش اور انتشار کا شکار کر دیتی ہے۔ وہ زندہ ہو کر بھی زندگی کو ترستے ہیں۔ ایک تازہ ترین ریسرچ سے سگریٹ نوشی کے ان نقصانات کا بھی پتا چلا ہے جو پہلے معلوم نہیں تھے۔ ان سے پھیپھڑوں کا کینسر ہی نہیں اندھا پن، ذیابیطس، جگر اور بڑی آنت کے کینسر جیسی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے۔ اس کے دھوئیں میں سانس لینے سے ان میں دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں روزے کے فوری بعد سگریٹ نوشی کرنے سے امراض قلب، جسمانی جھٹکوں، ہاتھ پاؤں میں کپکپاہٹ بڑھنے کے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے اس حوالے سے عام آدمی کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ہر سال 31 مئی کو عالمی انسداد تمباکو نوشی کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ تمباکو کے استعمال سے پرہیز اور حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ شیشہ! حقے کی جدید قسم ہے جو شیشہ سموکنگ کے نام سے مشہور ہے۔ آج کل نوجوانوں میں شیشے کا رحجان بڑھتا رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے دنیا بھر میں شیشہ کی بڑھتی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ شیشہ کو سگریٹ سے کم مضر صحت مانا جاتا ہے جب کہ طبی ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں کہ یہ کسی طور پر سگریٹ سے کم خطرناک نہیں۔ سگریٹ کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ٹار، 1۔7 فیصد نکوٹین اور 8۔3 فیصد کاربن مونو آکسائیڈ ہوتی ہے۔ شیشہ سگریٹ پینے والے افراد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ کینسر اور ٹی۔بی جیسے مہلک مرض کا سبب ہے سگریٹ سے اوسطاََ 20 کش لگائے جاتے ہیں جبکہ شیشہ سے 200 کش۔ شیشہ میں موجود کاکول جس میں زہریلا نوکین موجود ہوتا ہے۔ وہ سانس سے جسم میں داخل ہو کر نظام تنفس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ کم عمر لڑکے لڑکیاں ہوٹلوں، کیفیز، تفریحی مقامات کالجوں یونیوسٹیوں میں سموکنگ کرتے نظر آتے ہیں لیکن انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا اور نہ ہی آپریشن کیاجاتا ہے۔ گٹگا۔ اس نشے کو پورا کرنے کیلئے کھجور کی گھٹلی اور املی کی گھٹلی کو چھالیہ کے متبادل کے طور پر جبکہ پالک کے پتے اور لہسوڑے کے پتے اور امرود کے پتوں کو استعمال کیا گیا اور اسے گٹگا کا نام دیا گیا یہ منہ اور گلے کے کینسر کا ایک بڑا سبب ہے۔ نسوار۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں استعمال کی جاتی ہے۔ نسوار PaneRoman نامی راہب نے ایجاد کی۔ نسوار استعمال کرنیوالوں میں نپولین بونا پارٹ، کنگ جارج، تھری ملکہ شارلٹ اور کئی ملکوں کے بادشاہ شامل ہیں۔ ہندوستان میں غیرملکی کمپنیوں کی آمد کیساتھ برصغیر پاک و ہند میں عام ہوئی۔ نسوار کی موجود اقسام میں ہری نسوار اور کالی نسوار کا استعمال عام ہے۔ جو تمباکو کوئلے کی راکھ اور چونے کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔ کالی نسوارکیلئے خصوصی تمباکو صوابی سے آتا ہے جس پر حکومت ٹیکس لیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ملک میں تمباکو نوشی گٹکا نسوار اور پان کے بڑھتے مضر اثرات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے رفاق اور چادروں صوبائی آئی جیز کو انکے خلاف کرنیوالے اقدامات کی رپورٹ طلب کی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ انکی ترسیل اور تقسیم کو قانون والے ادارے اور ایجنسیاں کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔