2019 ,نومبر 21
پھولوں کی دکانوں میں بہت رش تھا اسے پارکنگ کی جگہ دور ملی۔ پھول والے بھی آج کئی گنا زیادہ قیمت وصول کر رہے تھے مگر دل والے بھی ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھے۔ ایک دوکان میں داخل ہو کر سرخ گلاب پسند کرنے لگا۔ طیفے پتر بارش رک گئی ہے دوکان کے سامنے کھڑے پانی کو جلدی جلدی صاف کر دے گاہکوں کو مشکل ہو رہی ہے دوکان والا پھول دکھاتے ہوئے بولا۔ ایک دس گیارہ سال کا بچہ جو سرخ گلاب کی کلیوں سے کانٹے چن رہا تھا اور جس کے ہاتھوں میں کانٹے چبھنے سے کئی جگہوں سے خون بھی رس رہا تھا، اچھا استاد جی کہتا ہوا اٹھا اور جھاڑو اٹھا کر باہر نکل گیا۔
نوجوان نے سرخ گلاب کی کلیوں کا گلدستہ بنوایا اس کو ہر زاویے سے پرکھا۔ دوکاندار کو منہ مانگی قیمت ادا کر کے باہرنکلا ۔ طیفا جس کا لباس بارش کے بعد چلنے والی سرد ہوا کا مقابلہ کرنے کے لٗے ناکافی تھا کپکپاتے ہوا اپنے کام تیزی سے ختم کرنے کے لئے تیز تیز ہاتھ چلا رہا تھا اور نوجوان کی آمد سے بے خبر چھپڑیوں سے پانی نکال رہا تھا کہ جھاڑو سے گدلے پانی کے چھینٹے اڑے اور سیدھے اس نوجوان کے سوٹ پر جا گرے۔ اپنے لباس کا یہ حال دیکھ کر سب سے پہلے اس کی ہنسی غائب ہوئی اور اگلے ہی لمحے اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ غصے سے ایسا سرخ ہو گیاجیسے سرخ گلاب کا رنگ چڑھ گیا ہو۔ تڑاخ، تڑاخ، تڑاخ طیفے کے نرم رخسار نوجوان کےطمانچوں کی زد میں تھے۔ اس کی زبان پر رومانوی نغموں کی جگہ مغلظات نے لے لی تھی۔ طیفا بابو جی بابو جی کہتا ہوا خود کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
نوجوان کی مسکراتی آنکھیں اب نفرت اور حقارت کے شعلے اگل رہیں تھی اور طیفے کا بدن سردی اور دھشت سے بری طرح کانپ رہا تھا مسلسل طمانچے کھانے سے اس کے رخسارسوج گئے تھے اور نوجوان کے ہاتھ میں پکڑے گلابوں کی مانند سرخ ہو رہے تھے اور طیفے کی آنکھوں سے بہتا پانی جیسےانہیں تروتازہ کر رہا تھا۔ طیفا کانٹوں سےگھائل ہاتھوں سے اپنے گلاب بنے رخساروں کو سہلاتے ہوئے اس نوجوان کے ہاتھ میں پکڑی گلاب کی کلیوں کو دیکھ رہا تھا اور نوجوان غصے میں چیخ رہا تھا بدبخت تو نے میرا سارا پروگرام برباد کر دیا بد ذات تجھے اتنا بھی نہیں معلوم آج کیا ہے۔
طیفا درد سے کراھتے اور آنسو پونچتے ہوئے بولا معلوم ہے بابو جی معلوم ہے سب کہہ رہے ہیں
آج یوم محبت ہے