2022 ,فروری 18
پاناما کا فیصلہ آنے کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے گلے شکووں کی ایک ٹرین چل نکلی ہے۔ ان بے شمار گلے شکووں کی بنیاد اس دلیل پر ہے کہ عوام کی عدالت کسی بھی دنیاوی عدالت سے بڑی عدالت ہے اور یہ عدالت اپنا فیصلہ ووٹ کے ذریعے سناتی ہے۔ لہذا کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ووٹ کی عزت و تکریم کو پامال کر کے ایک منتخب وزیرِ اعظم کو نکال باہر کرے۔ شاہ کے ساتھ شاہ کے وفادار بھی جی حضوری کرتے ہوئے مشن جی ٹی روڈ سے لے کر اب تک بغلیں بجاتے عوام کی عدالت، عوام کی عدالت کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ناصرف حکمران جماعت بلکہ کسی بھی سیاست دان پر جب بھی احتساب کی بات آتی ہے تو جواب میں عوام کی عدالت کا نعرہ بلند ہوتا ہے اور اس گومگو کی صورتحال میں یہ سوال یقیناً ذہنوں میں ضرور جنم لیتا ہے کہ آخر کار کونسی عدالت حقیت میں بڑی ہے عوام کی یا پھر انصاف کی؟ یہ سوال جتنا دلچسپ ہے اتنا ہی پراثر بھی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جن کا جائزہ لے کر اس سوال کا جواب جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔ آپ جرمنی کی ہی مثال لے لیجیے۔ 1933ء جرمنی میں الیکشن کا سال تھا۔ نومبر میں ہونے والے الیکشن میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ووٹنگ ٹرن آؤٹ تاریخی طور پر 95 فیصد رہا۔ اس اس الیکشن میں نازی پارٹی نے تمام کی تمام 661 سیٹیں حاصل کیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ 100 فیصد کامیابی حاصل کر کے اقتدار میں آنے والی اس پارٹی کا سربراہ کوئی اور نہیں بلکہ بدنام زمانہ ایڈولف ہٹلر تھا۔ بعد میں اسی ہٹلر پر جنگ عظیم دوئم میں 60 لاکھ لوگوں کے قتل کا الزام آیا۔ جرمنی کے ہٹلر سے پہلے 1924ء میں اٹلی میں ہونے والے انتخابات کے بھی ملتے جلتے نتائج سامنے آئے۔ اس الیکشن میں نیشنلسٹ فاشسٹ پارٹی نے 374 سیٹیں حاصل کیں اور 65 فیصد عوامی ووٹ حاصل کر کے بینٹومسولینی اقتدار پر براجمان ہوا۔ یہ وہ ہی مسولینی تھا جس نے بعد میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام کر کے تاریخ کے ورق لال کیے۔مذکورہ بالا دونوں کیسز میں عوامی عدالت کا فیصلہ ووٹ کی صورت میں مکمل طور پر مسولینی اور ہٹلر کے حق میں تھا۔ اب آپ تاریخ کے آئینے میں دیکھ کر یہ فیصلہ کیجیے کہ کیا انھیں بے گناہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح آپ ماضی قریب کی ہی مثال لے لیں۔ 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں نریندر مودی نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 800 مسلمانوں کو دن دیہاڑے قتل اور مسلم خواتین کی عزت تار تار کر دی گئی۔ دنیا بھر میں مودی کو گجرات کے قصائی کا لقب دے کر تھو تھو کیا گیا لیکن قبل اس کے انصاف کی عدالت میں مجرم پشیماں ہوتا، عوام کی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے گجرات کے قصائی کو چیف منسٹر سے ترقی دیتے ہوئے پرائم منسٹر بنا دیا۔ تو کیا مودی کا احتساب ہو گیا ؟ کیا عوامی عدالت کے آگے سر تسلیم خم کر دیا جائے اور شہداء کے لواحقین اپنے مقدمات سے دستبراد ہو جائیں؟ یقیناً نہیں، کیونکہ ووٹ کی طاقت قاضی کے ترازو میں جھول نہیں ڈال سکتی۔ اب اسی ووٹ کی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے حالیہ سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیے تو آپ محسوس کریں گے کہ دور حاضر کے سیاستدانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا یا ان پر منی لانڈرنگ، کالا دھن کمانے یا کرپشن جیسا کوئی بھی الزام ہے تو سزا کے طور پر عوام انھیں الیکشن میں منتخب کر کے اسمبلیوں میں نہیں بھیجے گی۔ یہی سب سے بڑا احتساب ہے تو حضور والا عرض یہ ہے کہ احتساب اسے نہیں کہتے، احتساب تو یہ ہے کہ اگر آپ پر کوئی الزام ہے تو آپ انصاف کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور اگر جرم ثابت ہو جائے تو قانون کے مطابق سزا بھی بھگتیں لیکن ہنوز دلی دور است، یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ معاف کیجیے گا! اس ماڈل کے مطابق سیاستدان عوامی خدمت کار کم اور بالی ووڈ فلم “سنگھم” کے ولن “جے کانت شکرے” کے مشابہہ زیادہ نظر آتے ہیں کہ قانون جس کے گھر کی لونڈی اور ادارے جس کے غلام ہوں۔ اگر کسی ادارے نے حقیقی احتساب کی بات کی تو پھر عوامی طاقت سے اس ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہمیں انصاف کی عدالت کی سر بلندی چاہیے کہ جہاں آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہے یا پھر عوامی عدالت کی سر بلندی جہاں یہ جمہوری جے کانت شکرے ہمیشہ قانون سے بالاتر رہیں گے۔