واجد شمس الحسن کندھوں پر زرداری کے گناہوں کا بوجھ لاد کر کوچ کر گئے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 29, 2021 | 20:26 شام

برطانیہ میں پاکستان کے دو مرتبہ سفیر رہنے والے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن آصف علی زرداری کے گناہوں کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھا کر دنیا سے کوچ کر گئے۔ وہ ایک عرصہ سے لندن میں موجود تھے اور وہیں مر گئے۔ انہوں نے خود کو دفنانے کا کہا تھا یا جلانے کی وصیت کی تھی اس بارے میں میڈیا میں کوئی خبر یا اطلاع نہیں آئی۔ واجد شمس الحسن صاحب تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور قائد اعظم کے ساتھی نواب شمس الحسن کے بیٹے تھ

ے۔ان کی شروع سے وابستگی پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی۔ بنیادی طور پر وہ ایک بہت بڑے صحافی تھے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ان کو شملہ بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ انیس سو چورانوے میں بے نظیر بھٹو نے شمس الحسن کو پہلی بار لندن میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا۔پھر زرداری بینظیر بھٹو کے مرنے کے بعد اقتدار میں آئے توانہوں نے واجد شمس الحسن کو ایک بار پھر برطانیہ میں پاکستان کا ہائی کمشنر یعنی سفیر لگا دیا۔واجد شمس الحسن کی حیثیت کو آصف علی زرداری نے اپنے مفادات کے لیے بے دریغ استعمال کیا اور واجد شمس الحسن خود بھی آصف علی زرداری کے لیے اپنے ضمیر کو سلا کر دل و جان سے سے استعمال ہوئے۔2008 ءکے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آئے تو یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنائے گئے آئے۔اس دوارن عدالت میں ایک معاملہ آیا کہ آصف علی زرداری کے سوئس اکاؤنٹ میں میں 60 کروڑ روپے موجود ہیں ان کو پاکستان لائے جانے کے لیے گیلانی حکومت اُس حکومت کو خط لکھے۔ یوسف رضا گیلانی نے یہ خط لکھنے سے سے انکار کر دیا یا تو سپریم کورٹ کی طرف سے آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں میں بنائے گئے پانچ رکنی بینچ نے ان کو عدالت میں موجودگی تک قید کی سزا سنادی۔ جو تقریبا15 سیکنڈ کے دورانیے کی تھی لیکن سزا تھی،لہٰذا یوسف رضا گیلانی صاحب کو نااہلیت کا سامنا کرنا پڑا۔ 
گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف جو راجہ رینٹل کے نام سے مشہور تھے ان کو وزیر اعظم بنایا گیا۔راجہ رینٹل نے خط لکھ دیا لیکن اس وقت تک ایسے خطوں کی افادیت ختم ہو چکی تھی۔چنانچہ زرداری کا بال بھی بیکا نہیں ہوا ہے۔ وہ ٹائم گزر چکا تھا جس دوران خط لکھا جانا ضروری تھا۔
 اس کے بعد پھر ایک اور منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ اُدھر سپریم کورٹ کی طرف سے خاموشی اختیار کرلی گئی تھی۔آصف علی زرداری کے ایک اور قریبی ساتھی اور ان کے وکیل ، وکیل سے زیادہ ان کے ذاتی ملازم نما غلام فاروق ایچ نائیک واجد شمس الحسن کو لندن سے ساتھ لیتے ہیں اور سوئٹزر لینڈ میں جینیوا پہنچ جاتے ہیں۔وہاں سے ایک ایک دستاویز اٹھا کر ٹرک میں لندن لے جاتے ہیں۔ سوئس اکاؤنٹ میں موجود ساری رقم بھی یہ ٹیم وہاں لے کر لندن آ جاتی ہے۔ لندن میں وہ دستاویزات وہ ریکارڈ جو پاکستان کے مفاد کے لئے کسی وقت بھی کام آسکتا تھا اس کو ضائع کردیا جاتا ہے۔اب آصف علی زرداری کے گناہوں کا بوجھ لے کر واجد صاحب اس دنیا سے کوچ کر گئے۔قبر میں ان کا زرداری نے حساب دینا ہے نہ بے نظیر میں نہ ذوالفقارعلی بھٹو نے ۔اب اسی سے خدا پوچھے گا۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور رہنما شمس الحسن کے بیٹے واجد شمس الحسن سے جب کسی نے بہت عرصے بعد یہ پوچھا کہ انہوں نے یہ کیا کیا کہ سارا ریکارڈ لے آئے تو اس نے کہا یار غلطی ہوگئی۔ یہ وہ غلطی ہے جو کوئی معاف نہیں کر سکتا ۔یہ ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ کسی ایک کو نہیں بلکہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ واجد نے ایک کتاب " بھٹو خاندان میری یادوں میں" لکھی۔وہ بھٹو خاندان کے شیدائی تھے۔اب وہ دنیا میں نہیں رہے لیکن باقی لوگوں کے لئے وہ سبق کی حیثیت ضرور رکھتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ انہوں نے وصیت کی ہو کہ کتاب کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دیں جسے وہ توشہ آخرت کے طور پر فرشتوں کے سامنے پیش کر دیں ۔وہ مرگئے فاروق ایچ نائیک زندہ ہیں۔ان کیلئے ایک مشورہ ہے کہ وہ اپنے گناہ کا تدارک کرنے کی کوشش کریں یاکتاب لکھیں جس میں زرداری کو اوتار کے طور پر پیش کریں۔