یااللہ یا سلام

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 13, 2021 | 19:44 شام

شیخوپورہ سے کبھی کبھی مسعود جمال صاحب کا فون آتا ہے۔ زیادہ تر مذہبی باتیں کرتے ہیں۔ پاکستان کی باتیں کرتے ہیں۔ ریٹائرڈ سکواڈرن لیڈر ہیں۔ عمر کے اس حصے میں جہاں یہ مصرعہ صادق آتا ہے …

وقت پیری گرگ ظالم مے شود پرہیزگا ر

an style="font-family:Times New Roman,Times,serif">فون پر نان سٹاپ گفتگو کرتے ہیں۔ بھلے کی باتیں‘ خیر کی باتیں جوانی کی باتیں‘ سروس کی باتیں‘ گھر اور بڑھاپے کی باتیں۔ سفر ہم سفر کالم میں پولیس مین کا تذکرہ تھا۔ اس پر انہوں نے تیس، 35 سال قبل کراچی میں انسپکٹر کا تذکرہ کیا جو ایک سڑک پر ڈیوٹی پر تھا۔ اس سے انہوں نے پوچھا صاحب زندگی کے معاملات کیسے چلتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا ’’ظہر کی نماز قضاء پڑھتا ہوں ، عصر کی کبھی قضا نہیں ہوئی۔ درود ابراہیمی کا وظیفہ شعار ہے۔ اہلیہ کو کہہ رکھا ہے روٹی مرچ نمک یا پانی کے ساتھ ملے‘ اسی تنخواہ میں گزارہ کرنا ہے اور الحمد للہ گزارا ہو رہا ہے۔‘‘ 

مسعود جمالی کی ایک بھاوج جرمنی سے تعلق رکھتی ہیں اور وہیں بھائی بھی مقیم ہیں۔ وہ خاتون پاکستان آئیں ، بجلی چلی گئی تو ہم لوگ لالٹین جلا کر آنگن میں آ گئے۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور مسرت و حیرت سے آسمان پر دمکتے ستاروں کو دیکھتی رہ گئیں۔ ان کا کہنا تھا ایسا آسمان وہاں نہیں ہوتا۔ میں صرف ان ستاروں کی وجہ سے پاکستان میں بیتانے کو ترجیح دوں گی۔ 

پاکستان کا آسمان ہی نہیں اور بھی بہت کچھ بہت سہانا اور سندر ہے۔ زمین کی گہرائی میں کیا کچھ نہیں۔ وسیع فضائوں میں گنگناتی ہوائیں ، کہکشائوں کا جھرمٹ لیے آسمان ، دریا ، سمندر، صحرا ، جنگلات سبزوں اور برف سے ڈھکے دلفریب نظارے پیش کرتے پہاڑ۔ 

مسعود جمال نے اپنی جوانی کے دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوپر روڈ پر ایک گرلز کالج میں ٹیچر تھے۔ کلاس میں ہی پانی منگوا کر پی لیا۔ ایک سٹوڈنٹ نے کہا ’’سر شہادت کی انگشت برتن میں ہونی چاہئے۔ میری والدہ اس طرح پانی پیتا دیکھ لیتیں تو انگلی دُہری کر دیتیں۔‘‘ اسکے بعد مسعود صاحب نے اس کو اپنی عادت بنا لیا۔ …سال گزرے۔ دہائیاں بیتیں۔  یہ اپنے بیٹے کے ساتھ سی ایم ایچ گئے۔ وہاں کنٹین پر چلے گئے۔ چائے منگوا لی۔ میز پر ساتھ دو اور افراد بھی براجمان تھے۔ ان سے انگشت شہادت کو برتن کے ساتھ رکھ کر پانی یا چائے پینے کی بات کی۔ وہ شکر گزار ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا ’’جناب! تو ایک تحفہ ہم سے بھی وصول فرمائیے: ایک صاحب گورنر ہائوس کے قریب باغ جناح میں پریشان بیٹھے تھے۔ ساتھی ہی نئے ماڈل کی مرسڈیز گاڑی کھڑی تھی۔ اسی دوران ایک چھوٹی گاڑی میں کوئی صاحب آئے۔ انکے قریب اجازت لے کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے انکے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھتے ہوئے وجہ پوچھی تو ان صاحب کا کہنا تھا ، میں اس شہر کا امیر آدمی ہوں جو اسکی بڑی گاڑی سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ تو پریشانی کیا ہے صاحب! نئے آنیوالے نے دریافت کیا۔ امیر شخص نے بتایا کہ بیمار ہوں چیک اپ کرایا تو پتہ چلا کینسر ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے دو ماہ زیادہ سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اسکی آواز بھرا گئی۔ آنکھوں میں پانی بھر آیا اور آخری فقرہ بڑی مشکل سے ادا ہوا۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ نووارد نے اسے تسلی دی اور ساتھ بیٹھ گیا۔ آپ موت کے منہ میں جاتا ہوا خود کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہ دو الفاظ پڑھ لیا کریں۔ ’’یا اللہ یا سلام‘‘ بڑے صاحب نے ان الفاظ کو اپنا لیا ، وظیفہ بنا لیا۔ دو ماہ گزرے ، تیسرا مہینہ بھی آیا اور گزر گیا۔ یہ صاحب پھر ہسپتال گئے۔ ٹیسٹ کرائے تو کینسر کا نام بھی نہیں تھا۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ان الفاظ کے ورد کو زندگی کا جزو لازم بنا لیا۔مسعود جمال صاحب اس واقعہ کو خصوصی طور پر چاغی کے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ایٹمی دھماکے کے بعد گردو نواح کے لوگوں میں کینسر کے اثرات نمودار ہو رہے ہیں۔ 

ہو سکتا ہے اس معاملے پر کچھ لوگ طنز و تضحیک کی بندوقیں نکال لیں۔ ان کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ یہ الفاظ یقیناً خیر کا باعث تو ہو سکتے ہیں۔ ان سے کسی منفی پہلو کے سامنے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الفاظ کا یقیناًاثر ہوتا ہے۔ 

جادو کیا ہے؟ الفاظ ہی کا گورکھ دھندہ ہے۔ جادو کا توڑ بھی، الفاظ ہی سے ہوتا ہے۔ الفاظ کا انسانی جسم پر ہی نہیں، ان سے نکلنے والی لہروں سے پانی تک میں بھی اترا ہوتا ہے ۔ اور پانی کے اثرات انسانوں پر بھی منطبق ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے جاپان کے مصنف ماسارو ایموتو کی 1999ء کی تحریر چشم کشا ہے۔ ’’دی میسج فرام وار‘‘ کتا ب میں وہ لکھتے ہیں۔ 

پانی بھی زندگی رکھتا ہے۔ یہ آپ کی سوچ، خیالات، گفتگو، الفاظ اور ماحول سے متاثر بھی ہوتا ہے۔یہ انسانی جسم سے نکلنے والی شعاعوں اور الفاظ کے اثر کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور یہ شعائیں پانی کی تاثیر پر اثرانداز ہوتی ہیں اور پھر جب یہی پانی انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ انسانی ذہن اور صحت میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ پانی پر ہونے والے ان اثرات کو ہیڈو افیکٹس کا نام دیا تھا۔ہیڈو  انسٹیٹیوٹ اس بات کا دعوٰی کرتا ہے کہ پانی کے 2 نمونے لیے گئے اور ان میں سے ایک پر انگریزی لفظ You love, family, thank. اور دوسرے پر You Made Me Sickکا جملہ تحریر کیا گیا۔ کچھ دیر بعد، اْس پانی کو جما دیا گیا، جب یہ پانی مکمل طور پر برف بن گیا تو جدید خوردبین کے ذریعے اس برف کے ذرات کی تصویر لی گئی اور نتائج حیران کن تھے، جس پانی پر لفظ ’فیملی‘، ’لو‘ اور ’شکریہ‘ لکھا گیا تھا اْسکے کرسٹلز نہایت خوبصورت، متوازن اور دلکش تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ پانی حقیقت میں زندگی رکھتا ہے اور ہمارے الفاظ اور رویے اس پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔ اسکے بعد 350 افراد کی ایک ٹیم نے جاپان میں ایک جھیل پر یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ اس جھیل کا نام ’بیوا‘ تھا اور 1999ء میں یہ جھیل اپنی تمام تر خوبصورتی کھو چکی تھی، اسکے پانی سے شدید بدبو آتی۔HADO تحقیق میں شامل افراد نے جھیل کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے آپ میں سے تمام تر غلاظت اور زہریلے کیمیات کو صاف کردے۔ مثبت خیالات کو جھیل کے پانی میں ٹرانسمٹ کرنے کیلئے انہوں نے جھیل کے گرد گھیرا بنایا اور اْسے اپنے ذہن اور جسم سے نکلنی والی شعاؤں کے ذریعے پیغام بھیجنے لگے۔حیران کن طور پر اْس جھیل نے نہ صرف وہ پیغامات قبول کیے اور اْن کا اثر لیا بلکہ ان افراد کو اْنکے پیغام کا جواب بھی دیا۔ تقریباً 2 ہفتے بعد جب اْس پانی کے نمونے لے کر اْنہیں جما کر اْسکے ذرات کا مشاہدہ کیا گیا تو اسکے کرسٹلز میں بہت عمدہ تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ پیغامات بھیجنے کا سلسلہ جاری رہا اور آہستہ آہستہ جھیل خود بہ خود صاف ہوتی گئی، اْسکی رعنائی لوٹتی رہی اور وہ اپنی اصلی شکل میں واپس آگئی۔

برسبیل تذکرہ :  جاپان ہی میں ایک بڑے برتن میں چند قطرے آب زم زم کے ڈالے گئے تو سارے پانی میں آب زم زم کی خصوصیت پیدا ہو چکی تھی۔ یہ واحد پانی ہے جس میں غدائیت بھی تحقیق کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے۔