یہود اور ان کے عقائد

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مئی 30, 2020 | 19:05 شام

یہودیت کی وجہ تسمیہ ان کا یہوداسے منسوب ہونا ہے جو حضرت یعقوبؑ چوتھے بیٹے تھے اور جن کی والدہ لائقہ تھیں۔ تورات اور تلمود کے تمام پیروکاروں کو آج یہودی کہا جاتا ہے چاہے وہ حضرت یعقوبؑ کی اولاد سے ہوں یا دیگر اقوام سے، انھوںنے پہلے یہودی مذہب قبول کیا ہو یا بعد میں۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا ایک نام ہے جس کا معنی ہے” عبداللہ“ یا” اللہ کا بندہ“ ۔ اس وقت 90فیصد ی

ہودی غیراسرائیلی ہیں اور زیادہ تر تا تاری مغلوںکی نسل سے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں یہ لوگ بحرخزر کے علاقے میں رہتے تھے اور چونکہ ان کے بادشاہ نے یہودی مذہب اختیار کرلیا تھا اس لئے وہ بھی یہودی بن گئے۔ اس علاقے سے وہ مشرقی یورپ میں داخل ہوئے پھرمغربی یورپ میں پہنچے اوروہاں سے ان میں سے کچھ لوگ امریکہ منتقل ہوگئے۔ اس طرح تمام مغربی ممالک میں ان کی کچھ نہ کچھ آبادی طویل عرصے تک موجود رہی اورآج بھی ہے ۔اسرائیل کے قیام کیلئے ان علاقوں سے اور دیگر دنیا سے بہت بڑی تعداد میں یہودی سرزمین فلسطین میں منتقل کیے گئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے بیشتر یہودیوں کا تعلق حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے نہیں ہے۔ یہودیوں کی تحریک صہیونزم تمام یہودیوں پر مشتمل نہیں ہے تاہم بیشتر یہودی عملی اور نظریاتی طور پر اس سے وابستہ ہیں۔ تمام تر جائز یا ناجائز ذرائع بروئے کار لا کر یہودیوں کی ریاست اسرائیل کا قیام اسی تحریک کا مطمح نظر تھا جس نے بیسویں صدی عیسوی کے شروع میں دہشت گردیوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اس کی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیموں میں ”آرگن“ ”ہاگانا“ اور”ایشٹرن“مشہور ہیں۔ ظلم وستم دہشت گردی، بربریت، فریب، دھوکا ،پروپیگنڈہ اور رشوت اس تحریک کے ہتھیار رہے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے بعد انہی تنظیموں کے بیشتر افراد اسرائیل کی سیاست اورفوج میں نمایاں رہے۔ اسرائیل کے قیام کے لئے سب سے نمایاں کردار برطانیہ نے ادا کیا جو بیسویں صدی کے پہلے حصہ میں دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت تھا۔ بعدازاں برطانیہ کا سامراجی کردار امریکہ کی طرف منتقل ہوگیا، اگرچہ برطانیہ کی بھی امریکہ کو مسلسل حمایت حاصل رہی ہے ۔آج اسرائیل کی تمام تر فوجی، سیاسی اور اقتصادی طاقت امریکہ کی سرپرستی ہی کی مرہون منت ہے ۔اسرائیل کی بقا کا دارومدار امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی آشیرباد پر رہا ہے اور آئندہ بھی اس کی بقا کا دارومدار انہی کی حمایت پر ہے۔سرزمین فلسطین کے ساتھ یہودیوں کی مذہبی وابستگی جاننے کے لئے ان کی تاریخ پرایک سرسری نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔
    حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بھتیجے حضرت لوطؑ کے ساتھ عراق سے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔ قرآن حکیم کی یہ آیت اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے:
ونجیناہ ولوطاً الی الارض التی بارکنافیھا للعالمین (الانبیاء۔۱۷)
”اور ہم نے اسے اس سرزمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے سب جہانوں کے لئے برکت رکھی ہے“۔
    حضرت ابراہیمؑ کے بڑے فرزند حضرت اسحاقؑ نے فلسطین میں رہائش اختیار کی جبکہ دوسرے بیٹے حضرت اسماعیلؑ مکہ میں مقیم ہوئے۔ حضرت اسحاقؑ کے دو بیٹے تھے جن میں سے چھوٹے یعقوبؑ تھے۔ وہ فلسطین میں رہتے تھے وہاں سے وہ مصر چلے گئے۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے سب سے چھوٹے حضرت یوسفؑ تھے۔ حضرت یعقوبؑ ہی کی نسل سے حضرت موسیٰؑ اورہارونؑ مبعوث ہوئے۔ موسیٰؑ اپنی قوم بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکلے اورفلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔ البتہ وہ فلسطین میں داخل ہونے سے پہلے فوت ہوگئے۔ ان کے بعد یو شعؑ بن نون بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے۔ شدید جنگ کے بعد وہ فلسطین میں داخل ہوسکے۔ بعد میں بھی بنی اسرائیل کی تاریخ جنگ وجدل سے بھری ہوئی ہے۔
    یہودیوں کے موجودہ طرز عمل کی بنیاد ان کے تین اصول ہیں۔ پہلا ان کی نسل پرستی پرمبنی ہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کا برگزیدہ سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک غیر یہودیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان کا دوسرا اصول یہ ہے کہ سرزمین فلسطین ان کے لئے ارض موعود کی حیثیت رکھتی ہے جس پر ایک روز تمام یہودیوں کے اکٹھا ہونے کے بعد کے قیام کا اللہ کی طرف سے وعدہ کیا گیا ہے ۔لہٰذا کسی غیر یہودی نسل کو فلسطین پر کوئی حق حاصل نہیں۔ ان کا تیسرا اصول اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تباہ کن جنگ سمیت ہر طرح کے جرم اورظلم وستم کا ان کے لئے روا ہونا ہے۔ ان کی نسل پرستی کے حوالے سے قرآن حکیم میں ان کے بارے میں گواہی دی گئی ہے:
وقالت الیھود نحن ابناءاللہ واحبائہ (مائدہ۔۸۱)
 یہودیوں کا کہنا ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔
    اللہ کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ خاص یہودیوں کا خدا ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ یہودی اللہ کی روح سے پیدا کیے گئے ہیں اور یہ کہ فقط یہودی جنت میں جائیں گے، باقی سب دوزخ میں جائیں گے۔ یہودیوں کے نزدیک ان کی حیثیت فرشتوں سے بڑھ کر ہے۔ جو کوئی یہودیوں کو مارے یا انھیں برا بھلا کہے وہ اللہ کی عزت وجبروت پر حملہ کرتا ہے۔ ایسا شخص موت کا مستحق ہے۔ زمین کے سارے وسائل فقط ان کے لئے پیدا کیے گئے ہیں۔لہٰذا جو کوئی دوسروں کے ہاتھ میں ہے وہ بھی دراصل یہودیوں کا ہی ہے۔اگر اللہ یہودیوں کونہ پیدا کرتا تو زمین پر خیروبرکت ختم ہوجاتی اور دیگر مخلوقات کے لئے زندگی ممکن نہ رہتی۔ یہودی دوسروں کے جان ومال پر حق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی یہودی کسی غیر یہودی کو قتل کردے تو یہ جرم نہیں ہے بلکہ یہ کام رضائے الٰہی کا باعث بنتا ہے۔ کسی یہودی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسری قوم کے فرد کو ہلاکت سے بچائے۔کوئی یہودی کسی غیر یہودی عورت یا مرد سے بدفعلی کرے تواسے سزا نہیں دی جاسکتی کیونکہ غیر یہودی کی حیثیت حیوانات سے زیادہ نہیں ہے۔
اسرائیل کا مستقبل
    عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسرائیل ایک بہت طاقتوراورمضبوط ریاست ہے۔ اس لئے بھی کہ اسے دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے نیز وہ ایک ایسی متحد قوم ہے جو بے پناہ اقتصادی وسائل رکھتی ہے، جس کا امریکہ جیسی طاقت کے اوپر بہت اثرورسوخ ہے اورجس کے پاس نہایت جدید اورطاقتور ذرائع ابلاغ موجود ہیں۔ اس لئے بھی کہ آج اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے۔علاوہ ازیں وہ بڑے بڑے عرب ممالک کوزبردست فوجی شکستوں سے ہمکنار کرچکا ہے۔ بیشتر عرب اور مسلمان ممالک جو پہلے اسرائیل کو تسلیم نہیںکرتے تھے اب اُسے ظاہراً یا باطناً تسلیم کرنے لگے ہیں۔سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ ترکی کے ساتھ اسرائیل کے فوجی تعلقات ہیں۔ پاکستان کے بعض اہم عہدیدار اسرائیل کو مشروط طورپر تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کر چکے ہیں۔پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اسرائیلی وزیر خارجہ سے ترکی میں ملاقات کر چکے ہیں۔صدر جنرل پرویز مشرف یہودیوں کی گڈبکس میں سمجھتے جاتے ہیں۔ ان تمام عناصر کے پیش نظریہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ اسرائیل ایک کامیاب ریاست کی حیثیت سے باقی رہے گا۔ تاہم دوسری طرف تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ بعض مبصرین، بعض اہم عالمی مدبرین اور عالمی سیاست کے بعض اہم کھلاڑیوں کی رائے ہے کہ اسرائیل باقی نہیں رہے گا۔ ہم سطور ذیل میں ان آراءودلائل کی طرف اشارہ کریں گے جن کے مطابق اسرائیل بالآخر نابود ہوجائے گا:
۱۔ اسرائیل فلسطینی سرزمین پر ایک خود ساختہ اور مسلط کی گئی (IMPOSED) ریاست ہے۔ یہ ایک حقیقی ریاست نہیں بلکہ دنیا بھر سے،مختلف براعظموں سے، مختلف ممالک سے، مختلف حیثیت اور مزاج کے لوگوں کوطویل عرصے میں یہودیوں کو اکٹھا کرکے بنائی گئی ہے۔ وہ بھی اس طرح سے کہ اس کے اصل باسیوں کو ان کے گھر بار اور زمینوں سے محروم کرکے ،انھیں ظلم ،دھونس،دھاندلی اور جبر سے دربدر کرکے اسرائیل نام کی ایک نئی قوم کھڑی کی گئی ہے۔ صدیوں پرانے عرب جواصلاً اسی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں وہ یا جلا وطنی کی زندگی گزاررہے ہیں یا چھوٹے چھوٹے علاقوں میں محصورکردیے گئے ہیں لیکن ایک طویل مدت گزرنے کے باوجود ان کے دل کو اپنے گھر بار کی طرف لوٹ جانے کی امنگ سے محروم نہیں کیا جاسکا۔
۲۔ صہیونی ریاست کے پہلے صدر ڈیوڈبن گورین(DAVID BIN GURIAON )نے کہا تھا کہ اسرائیل اس دن ٹوٹ جائے گا جب اسرائیل کو اپنی پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کون نہیں جانتا کہ یہ پہلی شکست اسرائیل کو جولائی 2006ءمیں حزب اللہ کے ہاتھوں ہوچکی ہے۔ حزب اللہ کسی حکومت کا نام نہیں بلکہ صرف چندہزار سرپر کفن باندھے ان سر فرشوں کی ایک تنظیم ہے جن کا تعلق جنوبی لبنان سے ہے اور جو اپنی سرزمین کواسرائیلی قبضے سے نجات دلانے کے لئے معرض وجود میں آئی تھی، جس کے پاس نہ ٹینک ہیں، نہ فضائیہ ہے، نہ بحریہ ہے اورنہ اعلیٰ جدید اسلحہ سے مسلح کوئی باقاعدہ فوج ہے۔ یہ جنگ غزہ میں فلسطینیوں پر ہونے والے بدترین تشدد کا بدلہ لینے کے لئے حزب اللہ کے ہاتھوں 2اسرائیلی فوجیوں کے اغواءکے جواب میں شروع ہوئی۔ 33روزہ اس جنگ کا نتیجہ اسرائیل کا اپنا اعتراف شکست ہے۔ 
۳۔ اسرائیل کی فوجی شکست کے بعد عرب عوام اور فلسطینی عوام کے اندرایک نیا اعتماد پیدا ہوگیا ہے۔ اب وہ اسرائیل کو ناقابل شکست نہیں سمجھتے۔ غزہ اس وقت فلیش پوائنٹ کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ 18لاکھ سے زائد آبادی کا یہ خطہ حماس کواپنا ترجمان اور نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ اس علاقے پر بار بار اسرائیل کی وحشیانہ حملوں اور قتل وغارت کے باوجود یہاں کے باسی نہ اسرائیل کے سامنے سر جھکانے پرآمادہ ہیں اورنہ حماس کی حمایت ترک کرنے پر۔ یہ خطہ مکمل طور پر حماس کے کنٹرول میں ہے اور یہ بات اسرائیل کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ حماس نے اپنے شہدا کا انتقام لینے کے لئے مارچ 2008ءمیں جن راکٹ حملوں کا سلسلہ شروع کیا وہ مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں اور 30سے 35کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسرائیل آج تک ان حملوں کوروکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ صرف مارچ کے قتل عام کے جواب میں اسرائیل پر 2روز میں 24سے زیادہ راکٹ داغے گئے۔ مالی نقصان سے بڑھ کر یہ اسرائیل کیلئے نفسیاتی نقصان تھا کہ وہ حزب اللہ کے راکٹ حملوں کی طرح سے اب غزہ سے آنے والے راکٹوں کو بھی روکنے میں ناکام ہے۔اس وقت مقبوضہ فلسطین میں زیادہ صہیونی ان راکٹوں کی زد میں آچکے ہیں اور وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اسرائیل اگر ان کوکہیں اور بسانے کا منصوبہ بناتا ہے تو یہ اس کی ایک اوربہت بڑی شکست ہوگی اور اسرائیل کی ساری آبادی اپنے آپ کو مزید غیرمحفوظ سمجھنا شروع ہوجائے گی۔فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کو پیچھے کی طرف جاتی ہوئی اور تنزل پذیر ریاست کی سطح پر لاکھڑا کیا ہے۔
۴۔ لبنان جنگ کے بعد پہلی مرتبہ اسرائیلی معاشی خسارے سے دوچار ہوا جبکہ غزہ میں انتفاضہ نے جہاں اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاروں کو خطرے سے دوچار کردیا ہے وہاں فلسطینی بھی ایک نئے عزم سے روشناس ہوئے ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کا بت چکنا چور ہورہاہے اوراس کی معیشت کے غبارے سے بھی ہوابڑی تیزی سے نکل رہی ہے۔
۵۔ اسرائیلی یونیورسٹیوں میں ہونے والے ایک جدید سروے کے مطابق نوجوان اسرائیلیوں کے لازمی فوجی تربیت کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے اور وہ اس سے چھٹکارہ چاہتے ہیں اسرائیل سوسائٹی کا بالعموم اور اسرائیلی افواج کا بالخصوص حالیہ ناکامیوں کے نتیجے میں حوصلہ پست ہوا ہے۔
۶۔فلسطینی عوام میں حزب اللہ اور ایران کے لئے محبت اوراعتماد کا جذبہ بڑھا ہے ان کے روابط بہترسے بہتر ہورہے ہیں جبکہ عرب حکمرانوں کو وہ لوگ بے وفا اورمصلحت کوش سمجھتے ہیں اوران سے کسی قسم کی توقع نہیں رکھتے جبکہ ایران کا موقف اسرائیل کے حوالے سے پوری دنیا کو معلوم ہے۔
۷۔ ایران کا ذکر آیا تو یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایرانی قیادت اسرائیل کے وجود کو ناجائز سمجھتی ہے اور ایرانی قائدین بارہا واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل آخر کار ختم ہو جائے گا۔ قبل ازیں ایران کی اسلامی حکومت کے بانی امام خمینیؒ بھی یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ اسرائیل نابود ہو کر رہے گا۔ عالم سیاست کے حوالے سے امام خمینیؒ کی کئی ایک پیش گوئیاں پہلے ہی پوری ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے سوویت یونین کے زوال کی پیش گوئی کی تھی جو جلد پوری ہوگئی اور اسی طرح انھوں نے عرب ریاستوں کو خبردار کیا تھا کہ صدام ایران سے فارغ ہوکر ان پر حملہ کرے گا۔کویت پر عراقی افواج کی چڑھائی کی صورت میں یہ پیش گوئی بھی پوری ہوگئی۔ علاوہ ازیں دن بدن ایران کو مشرق وسطٰی میں زیادہ پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور اس کی تازہ ترین مثال عراق میں امریکہ منفور ہو چکا ہے اور عراقی حکومت اور عوام کے ساتھ ایران کے بہتر روابط ہیں۔ آج یہی ایران فلسطینی کاز کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔
۸۔ اپریل میں لبنان میں متعین برطانوی سابق سفیر محترمہ فرانسز گانی نے ایک سیمینار میں لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطین میں ہمارے پیش روﺅں نے جو غلطیاں کی ہیں ان کو سدھارنا ہمارے لئے ناممکن ہے لیکن عدل و انصاف پر مبنی امن و سلامتی کے لئے کوشش کرنا ہمارے لئے یقیناً ممکن ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ دیگر ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کا دورہ وہاں کے عوام کی زبوں حالی اور خواری کو دیکھنے اور سمجھنے کی نیت سے اور اس نیت سے کریں کہ ایسی پالیسی اختیار کی جاسکے جس سے اہل فلسطین اس صورتحال سے باہر آجائیں۔ اگرچہ اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاتھ بند ھے ہوئے ہیں لیکن اس سے یہ ضرورمعلوم ہوگیا ہے کہ فلسطینیوں کی مظلو میت اور ان کی مبنی برحق جدوجہد کو بیدار ضمیر رکھنے والے آخر کار قبول کررہے ہیں۔
۹۔ اسرائیل میں ایک سروے میں 25فیصد رائے دہندگان نے اسرائیل کے مستقبل سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان شہریوں نے کہا کہ انھیں یقین نہیں کہ اسرائیل ایک طویل عرصے تک قائم رہ سکے گا۔ 
۰۱۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہونی چاہیے کہ دنیا میںیہودیوں کی ایک قابل ذکر تعداد اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کے وجود کو تورات کی تعلیمات کے خلاف سمجھتی ہے ۔ امریکہ میں مقیم ایک اہم یہودی مذہبی پیشوا یسرائیل نے اسرائیلی ریاست کو ایک غیر شرعی ریاست قرار دیا ہے۔مڈل ایسٹ سٹڈی سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک میں ایک پریس بریفینگ کے دوران انھوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست تورات کی رو سے غیر شرعی ہے کیونکہ ہماری شریعت میں کسی قومی اور یہودی سلطنت کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ یہودی پیشوا نے کہا کہ فلسطین جائز طور پر مسلمانوں کا ملک ہے اور مسجد اقصٰی انہی کی ہے۔ رہا، ہیکل سلیمانی ، تو وہ اب مٹ چکا ہے لہٰذا یہودیوں کو مسجد اقصٰی کی زمین نہیں کھودنی چاہیے۔ انھوںنے کہا کہ دنیا بھر سے یہودیوں کو مروانے کےلئے فلسطین پر مسلط کرگیاہے۔
ان تمام نکات کا جائزہ لیا جائے تو ان لوگون کی رائے مشکوک نظر آتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اس سرزمین پر اسی طرح باقی رہے گا۔ اسرائیل کو امام خمینیؒ نے بجا طور پرایک ناسور قرار دیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بعض مبصرین کی رائے میں مغربی سامراج نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے یہودیوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کرکے انھیں خطرے میں جھونک دیا۔ آج مسلمانوں اور خاص طور پر عرب عوام کی ساری نفرتوں کا شکار اسرائیل میں باہر سے لاکر بسائے گئے یہودی ہیں اور جو عرب حکمران اسرائیل کے حامی ہیں وہ خود تیز رفتاری سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اگر کسی دن مغربی رائے عامہ تبدیل ہوگئی یا عرب عوام اٹھ کھڑے ہوئے یا فلسطینی زیادہ منظم اور موثر ہوگئے تو اسرائیل کا وجود ہرگز باقی نہیں رہے گا۔ فلسطین کی سرزمین پر باہر سے آنے والے یہودیوں کا مفاد آج بھی اس میں ہے کہ وہ اپنی اپنی سرزمینوں کی طرف لوٹ جائیں اور امن و اطمینان کی زندگی بسر کریں۔