2022 ,نومبر 24
6 ستمبر کویوم شہداءسیلاب کی نذر ہو گیا۔ جنرل باجوہ صاحب اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل یہ دن منانا چاہتے تھے تو اس کا اہتمام انہوں نے23نومبر کو اس روز کروالیاجب میاں شہباز شریف نے لندن کی عدالت میں ڈیلی میل جریدے کے خلاف خود دائر کردہ کیس میں ڈیڑھ کروڑ روپے جرمانہ ادا کیا۔ جنرل باجوہ شاید اس تقریب میں کچھ حساب بھی چکتا اور برابر کرنا چاہتے تھے۔ اس موقع پر صرف اور صرف شہداءکی بات کی جاتی ہے۔
جنرل باجوہ نے سیاسی تقریر کر ڈالی وہ ذرا غصے میں نظر آئے اور ڈسٹرب بھی دکھائی دے رہے تھے۔عمران خان کا نام لئے بغیر ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ساتھ دھمکی بھی لگا دی کہ صبر کی بھی حد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینئرملٹری لیڈر شپ کو مختلف القابات سے نوازا گیا۔ جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان پیدا کیا گیا۔ اب راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان اپنے بیانیے سے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔
ایسا کسی اور کو نظر نہیں آتا صرف مسلم لیگ ن اور ان کے حامیوں کو دِکھتا ہے۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ گزشتہ سال فروری کے بعد فوج نے سیاست میں غیر جانبدار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا کیا وہ غیر سیاسی تھا؟۔ تحریک عدم اعتماد، لوگوں کو ہوٹل اور سندھ ہاؤس میں رکھنا۔ جب عدم اعتماد ہو رہا تھا اس رات قیدی وین کا پارلیمنٹ ہاؤس آنا۔ سواتی ، شہباز گل پر تشدد،صحافیوں کے خلاف مقدمات اور گرفتاریاں....
ایسی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ عمران خان سے کہیں زیادہ نام لے کر لیگی لیڈروں نے کہا تھا اس پر جنرل صاحب نہیں بولے۔ ان کی دانست میں اس پر بولنا شاید سیاسی ہوتا۔ عمران خان نے جب بھی بات کی فوج کی مضبوطی کی بات کی وہ ان کرداروں کا ذکر کر کے تنقید کرتے ہیں جو سیاست میں ملوث ہیں۔نواز شریف اور ان کے ساتھی بھی ایسا ہی کرتے اور کہتے رہے ہیں مگر وہ اشتعال میں پھسل جاتے اور پاک فوج کے خلاف زہر بھی اگل دیتے تھے جیسے نواز شریف کہتے تھے فوج نے اپنے لوگوں کو ہی فتح کیا ۔
خواجہ آصف جو2018کے الیکشن میں ڈوب رہے تھے ان کو جنرل باجوہ نے بچایا وہ کہتے ہیں فوج نے کوئی جنگ ہی نہیں جیتی۔