انڈین ایئر لائنز پرواز 814 کا اغواء
یہ24 دسمبر 1999ء کے روز کی المناک کہانی ہے۔ انڈین ایئر لائنز کی فلائٹ آئی سی 814 کھٹمنڈو سے ٹیک آف کرتی ہے۔ یہ فلائٹ دلی جا رہی ہے اور عام طور پر کھٹمنڈو سے دلی جانے میں قریباً دو گھنٹے کا وقت لگتا ہے لیکن اس فلائٹ میں بیٹھے پیسنجرز اور کریو ممبرز اس بات سے انجان ہیں کہ ان کے لیے دلی کی یہ دوری بہت دور ہونے والی ہے۔
اس جہاز کو پانچ لوگ اغواء کرتے ہیں اور یہ ہائی جیکرز یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے انڈین سرکار سے 200 ملین ڈالرز کی رقم مانگتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ اور بڑے مطالبات جیسے کہ کچھ شدت پسندوں کو جیل سے رہا کرنا ہوتا ہے۔
اگلے سات دن تک پورا ملک دل تھام کر اس ہنگامے کو ٹیلی ویژن نیوز پر ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ایک ایسی ہائی جیکنگ جو انڈیا کی تاریخ میں سب سے بڑی ہائی جیکنگ اور اب تک کی آخری پلین ہائی جیکنگ تھی۔
24 دسمبر 1999ء کو اس فلائٹ کے کھٹمنڈو سے ٹیک آف ہونے کے کچھ ہی دیر بعد فلائٹ میں پیسنجرز کو کھانا سرو کیا جاتا ہے اور جب پیسنجرز اپنا لنچ کر رہے تھے تبھی اچانک سے چار ماسک پہنے لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کا کھانا چھیننا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ساتھ ہی فلائٹ میں اعلان کیا جاتا ہے کہ اس جہاز کو اب ہائی جیک کیا جا چکا ہے۔ ہائی جیکرز بڑی جلدی پائلٹ کیبن میں گھس جاتے ہیں اور کیپٹن دیوی شرن کو گن پوائنٹ پر رکھ کر انہیں ہدایات دی جاتی ہیں کہ مغرب کی جانب جہاز اڑاتے رہو۔ دراصل ہائی جیکرز اس جہاز کو پاکستان لے جانا چاہتے تھے۔ یہ جہاز دلی سے آگے پاکستان کی جانب نکل پڑتا ہے۔ خاص طور پر لاہور کے ایئرپورٹ کی طرف۔ لیکن لاہور کے ایئرپورٹ میں جو پاکستانی ایئر ٹریفک کنٹرول والے تھے انہوں نے اسے سختی سے منع کر دیا کہ ہم یہاں لینڈ نہیں کرنے دیں گے دوسری طرف انڈیا میں ایئر ٹریفک کنٹرول کو ہائی جیکنگ کی ایک خبر پتہ چلتی ہے چار بج کے 40 منٹ پر۔ اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ انڈیا کے تب کے پردھان منتری اٹل بہاری واجپائی اور ان کے پرنسپل سیکرٹری برجیش مشرا کو اس کے بارے میں قریب ایک گھنٹے بعد یعنی پانچ بج کے 20 منٹ پر ہی پتہ چل جاتا ہے۔
چھ بج کے چار منٹ انڈین ایئر ٹریفک کنٹرول فلائٹ آئی سی 814 کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیپٹن دیوی شرن انہیں بتاتے ہیں کہ پلین میں فیول کم ہو رہا ہے اور لاہور میں انہیں لینڈ کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ کیپٹن انڈین ٹریفک کنٹرول سے کہتے ہیں کہ پلیز پاکستان والوں کو کہیں ہمیں لینڈ کرنے کی اجازت دیں۔ کیونکہ ہائی جیکرز دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ پیسنجرز کو مارنا شروع کر دیں گے اگر ہمیں پاکستان میں لینڈ نہیں کرنے دیا گیا۔
شام کے ٹھیک ساڑھے چھ بجے انڈین ہائی کمیشن پاکستان سے گزارش کرتا ہے کہ جہاز کو لاہور میں لینڈ کرنے دیا جائے لیکن اجازت نہیں دی جاتی۔ اسی دوران جہاز میں بیٹھے کیپٹن دیوی شرن ہائی جیکر سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جہاز میں اب فیول بہت کم بچا ہے۔ ہم یہاں پر اجازت ملنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ہمیں جہاز کو ری فیول کرنے کے لیے کہیں پر لینڈ کرنا ہی پڑے گا ۔ کیپٹن ہائی جیکرز کو قائل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ہائی جیکرز جہاز کو ری فیولنگ کروانے کے لیے مان جاتے ہیں اور کہتے ہیں ٹھیک ہے جہاز کو امرتسر میں ہم لینڈ کرا دیں گے۔شام چھ بج کر 44 منٹ پر فلائٹ امرتسر کی جانب بڑھنے لگتی ہے۔
اب یہ ایک ایسی چیز تھی جو ہائی جیکرز بالکل نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے انڈیا کے جہاز کو ہائی جیک کیا تھا اور انڈیا میں ہی اس کا لینڈ ہو جانا مطلب انڈین گورنمنٹ اتھارٹیز کے پاس ایک بڑا اپر ہینڈ ہوگا. ایسی صورتِ حال انڈیا کے لیے بہت ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔ انڈین فورسز اب شاید بڑی آسانی سے صورت حال کو کنٹرول میں لا سکتی ہیں کیونکہ جہاز انڈیا میں لینڈ ہونے جا رہا ہے۔ لیکن آگے جو ہوتا ہے وہ ایک بہت ہی تاریخی بلنڈر ہے۔
سبرامینم سوامی اس حادثے کو اس طرح بیان کرتے ہیں
"A worst capitulation to terrorists in india’s modern history"
انڈین اتھارٹیز ایسی کیا غلطی کر بیٹھتی ہیں۔ غلطی ایک نہیں بلکہ کئی ہوتی ہیں۔
سات بج کر ایک منٹ پر امرتسر ایئرپورٹ پر فلائٹ لینڈ کرتی ہے اور فوری طور پر درخواست کی جاتی ہے کہ فلائٹ میں فیولنگ کر دی جائے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سرںجیت سنگھ کو اس ہائی جیکنگ کے بارے میں صرف ایک گھنٹے پہلے چھ بجے ہی پتہ چلتا ہے اور وہ بھی باقی حکام کے ذریعے نہیں بلکہ ٹی وی نیوز کے ذریعے۔
کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں کتنا بڑا کمیونیکیشن فیلر تھا کہ اتنے امپورٹنٹ آدمی کو اس ہائی جیکنگ کی خبر ٹی وی دیکھ کر پتہ چلتی ہے۔ ہائی جیکنگ کے بعد ایک کرائسس مینجمنٹ گروپ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک لوکل کمیٹی بنائی جاتی ہے جس کا کام ہوتا ہے کہ جہاز کو زیادہ سے زیادہ لیٹ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے کمانڈوز کو زیادہ ٹائم مل پائے گا ایک سٹریٹجی ڈویلپ کرنے کا۔ اور کچھ گراؤنڈ پر آپریشن کنڈکٹ کرنے کا۔ لیکن جہاز میں بیٹھے ہائی جیکرز لوکل پولیس آفیشل سے رابطہ کرنے سے ہی منع کر دیتے ہیں۔ وہ صرف دلی میں بیٹھے آفیشلز کے ساتھ رابطہ کرنا چاہ رہے تھے اور اس رابطے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔
کیپٹن دیوی شرن ایک بار پھر سے گزارش کرتے ہیں کہ جہاز کو پلیز ری فیول کر دیجئے۔ اگر ری فیول نہیں کیا جائے گا تو یہاں پر شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ لوگوں پر حملہ کرنا شروع کر دیں گے۔ پیسنجرز کو مارنا شروع کر دیں گے۔ پانچ منٹ گزرتے ہیں، 10 منٹ، 15 منٹ، کوئی ری فیولنگ نہیں کی جاتی۔
ہائی جیکرز حقیقت میں ایک آدمی پر حملہ کر دیتے ہیں۔ جس کا نام ست نام سنگھ ہے۔ ایک چاقو سے ان کی گردن پر زخم لگایا جاتا ہے۔
کیپٹن دیوی شرن ایک بار پھر ریکویسٹ کرتے ہیں کہ جہاز کی ری فیولنگ جلدی سے جلدی کی جائے۔ اسی دوران 40 منٹ گزر جاتے ہیں۔ 7:45 کرائسز مینجمنٹ گروپ ایک پلان بناتا ہے اور پنجاب پولیس کو آرڈر دیتا ہے۔ یہ سوچتے ہیں کیوں نہ جب ہم جہاز کی فیولنگ کر رہے ہوں، اس فیول ٹینکر میں ہم پنجاب پولیس کے کچھ آفسرز کو چھپا کر لے جائیں اور چپکے سے جا کر وہ جہاز کے ٹائر پنکچر کر دیں۔ ٹائر پُھس ہونے سے جہاز دوبارہ ہوا میں نہیں اڑ پائے گا۔ اچھا منصوبہ ہے لیکن اس منصوبے کو ایکشن میں لانے سے پہلے اے ٹی سی کے پاس ایک اور پلان ہوتا ہے۔ ہم کیوں نہ جہاز کے سامنے ایک فیول ٹینکر لے جا کر کھڑا کر دیں۔
جہاز کا راستہ روکنے کے لیے تو ایک فیول ٹینکر جہاز کی جانب بڑھنا شروع کرتا ہے۔ فیول ٹینکر کا ڈرائیور تھوڑی تیز گاڑی چلا رہا تھا۔ اے ٹی سی والوں کو لگا اگر اتنی تیزی سے ہم لوگ جائیں گے تو کہیں ہائی جیکرز کو یہ نہ لگے کہ یہاں پر کچھ غلط ہونے والا ہے۔ لہٰذا ڈرائیور کو آہستہ گاڑی چلانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ لیکن وہ ڈرائیور مس کمیونیکیشن کہیں یا کچھ اور وہ اچانک فیول ٹینکر کو روک دیتا ہے۔
جہاز کے کاکپٹ میں بیٹھے ہائی جیکرز اور کیپٹن اس حرکت کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ہائی جیکرز یہ سب دیکھ کر سوچنے لگتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پہلے یہ گاڑی بڑی تیزی سے ہماری طرف آ رہی تھی اور پھر اچانک سے رک گئی۔ یہاں پر کچھ تو مسئلہ ہے۔ یہ کچھ نہ کچھ کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حرکت کے بعد ہائی جیکرز مایوس ہوگئے۔
انہوں نے کہا بہت ہوئی ری فیولنگ جہاز کو دوبارہ ہوا میں لے جایا جائے گا۔ بنا ری فیولنگ کے۔ کیپٹن شرن پر فوری دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ جہاز کو دوبارہ سے ہوا میں اڑایا جائے۔ اوراس فیول ٹینک کو جو جہاز کے سامنے کھڑا ہے اسے اگنور کردیں۔ ٹکر مار دو، جو کرنا ہے کرو، لیکن جہاز کو دوبارہ سے ہوا میں اڑاؤ۔
دباؤ میں آکر کیپٹن شرن پھر سے پلین کو ٹیک آف کے لیے تیار کرتے ہیں۔ رن وے پر سپیڈ کرتے وقت وہ بال بال اس فیول ٹینکر سے بچتے ہیں جو جہاز کے سامنے تھا۔ تقریباً اس ایکسیڈنٹ سے بچنے کے بعد جہاز ایک بار پھر سے ہوا میں چلے جاتا ہے۔
یہ سب 7:49 پر ہوتا ہے۔ اسی وقت جب این ایس جی کے کمانڈوز ایئرپورٹ پر پہنچتے ہیں۔ آپریشن پورے طریقے سے بیک فائر کر جاتا ہے۔ این ایس جی کے کمانڈوز کو کوئی موقع ہی نہیں مل پاتا ایکشن لینے کا۔ اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ جہاز میں ابھی بھی فیول نہیں ڈلا۔
ٹیک آف کے وقت کیپٹن دیوی شرن اے ٹی سی کو میسج بھیجتے ہیں "ہم سب مرنے والے ہیں"۔
امرت سر سے لاہور صرف 50 کلومیٹر دور ہے اور یہ فلائٹ ایک بار پھر سے پاکستان کی طرف مڑتی ہے۔ ایک بار پھر پاکستان کے ایئر ٹریفک کنٹرول اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہم اس جہاز کو پاکستان میں لینڈ نہیں ہونے دیں گے۔ انہیں خطرہ تھا کہ ہائی جیکرز پائلٹ پر دباؤ ڈال کر زبردستی لاہور ایئر پورٹ پر لینڈنگ کرائیں گے۔ لہٰذا لاہور کے ایئرپورٹ پر ساری لائٹس کو بند کر دیا جاتا ہے۔ جو بھی نیویگیشنل ایڈز اور لائٹیں موجود تھیں ایئرپورٹ پر سب ٹرن آف۔ تاکہ جہاز اگر لینڈ کرنا بھی چاہے تو لائٹوں کے بنا لینڈ کرنا بہت مشکل ہو جائے۔ لیکن کیپٹن شرن کے اوپر پریشر اتنا زیادہ ہوتا ہے ہائی جیکرز کی طرف سے ۔ وہ کہتے ہیں ہمیں نہیں فرق پڑتا ہے یہاں رن وے دکھ رہا ہے یا نہیں دکھ رہا۔ ہمیں جہاز کو لینڈ کرانا ہے کہیں بھی کرا لو۔
اب فلائٹ دھیرے دھیرے نیچے آتی ہے اور اچانک کیپٹن شرن کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ہائی وے کے اوپر کریش لینڈ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ ایک آخری درخواست پاکستان کے ایئر ٹریفک کنٹرول سے کرتے ہیں۔ ہم ایک ہائی وے پر کریش لینڈ کر جائیں گے اگر ہمیں آپ نے اپنے ایئرپورٹ پر لینڈ نہیں کرنے دیا۔ یہ سن کر آخر کار لاہور ایئر پورٹ کا ایئر ٹریفک کنٹرول مان جاتا ہے اور یہ جہاز لاہور میں لینڈ کرتا ہے۔
آٹھ بج کے سات منٹ پر انڈیا کی طرف سے پاکستان کے ایئرپورٹ آفیشلز کو بولا جاتا ہے کہ پلیز اس جہاز کو دوبارہ سے مت اڑنے دینا۔ انڈیا کا پلان تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھے انڈین ہائی کمشنر جی پارتھا سارتھی کو ہائی جیکرز کے ساتھ گفت و شنید کرنے کے لیے بھیجا جائے گا۔ یہاں پاکستان کے ایئرپورٹ پر آخر کار اس طیارے کو ری فیول کیا جاتا ہے اور پلین کو دوبارہ ٹیک آف ہونے سے روکنے کے لیے پھر سے لائٹیں سوچ آف کر دی جاتی ہیں اور کمانڈوز اس جہاز کو گھیر لیتے ہیں۔ بظاہر ہائی جیکرز کے ساتھ گفت و شنید کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستانی فورسز کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ عورتوں اور بچوں کو چھوڑ دو۔ لیکن یہ گفت و شنید ناکام ہو جاتی ہے۔
ہائی جیکرز اس بات سے مشتعل ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کی گفت و شنید کا کوئی حل نہیں نکل رہا۔ ابھی تک ان کے مطالبات کو پورا نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اسی غصے میں ہائی جیکرز ایک اور پیسنجر پر حملہ کرتے ہیں۔ اس کا نام روپن کٹیال ہے، اس کی عمر 25 سال ہوتی ہے، وہ آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ہنی مون سے لوٹ رہا تھا۔ بعد میں چل کر روپن کا انتقال بھی ہو جاتا ہے۔
بھارتی انالسٹس کا شکوہ ہے کہ پاکستان کا یہاں پر کام تھا انڈین ہائی کمشنر کو ہیلی کاپٹر فراہم کرنا تاکہ وہ جلدی سے جلدی یہاں پر گفت و شنید کے لیے آسکے ۔ لیکن تین گھنٹے لیٹ وہ ہیلی کاپٹر فراہم کیا جاتا ہے۔ جب تک وہ لاہور پہنچتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ جہاز دوبارہ سے ٹیک آف کر چکا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو پایا؟ جب وہاں ایئرپورٹ پر ساری لائٹیں سوئچ آف کر دی گئی تھیں۔ کمانڈوز نے پورے جہاز کو گھیر لیا تھا۔ پھر کیسے جہاز ٹیک آف کر گیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کسی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔اسی لیے سرے سے جہاز کو لینڈ کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جا رہی تھی مگر انسانی ہمدردی کے تحت صرف ری فیولنگ کے لیے اسے لینڈ کرنے دیا گیا اور پھر اسے ٹیک آف کروا دیا گیا کہ جہاں اس نے جانا ہے چلا جائے۔پاکستان کی طرف سے یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا تھا کہ 1971 میں بھارت نے سازش کے تحت گنگا جہاز اغوا کروایا اور نام نہاد مجاہدین اسے پاکستان لے آئے۔اسے مسافروں سے خالی کروا کے اگ لگا دی گئی۔ اس کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے لیے فضائی حدود استعمال کرنے کی پابندی لگا دی تھی۔پاکستان کسی ایسے ہی صورتحال سے اب بچنا چاہتا تھا۔
فلائٹ کو اب لاہور سے عمان کی طرف لے جایا جاتا ہے لیکن وہاں بھی لینڈنگ کی اجازت نہیں دی جاتی۔اس فلائٹ کی اگلی لینڈنگ دبئی کے المنہاد ایئر بیس پر ہوتی ہے۔ رات کے قریب تین بجے یہاں پر مذاکرات کے بعد آخر کار ہائی جیکرز 26 پیسنجرز کو رہا کرتے ہیں۔ انڈین ایئر لائنز کا ایک سپیشل ریلیف ایئر کرافٹ دبئی میں بلایا جاتا ہے وہ ان پیسنجرز کو لے جا کر واپس انڈیا چھوڑ کے آتا ہے۔ اس وقت کے سول ایوییشن منسٹر شرد یادیو بھی اس فلائٹ میں موجود تھے اور پیسنجرز کو واپس گھر پہنچانے تک ساتھ دے رہے تھے۔ یہ پیسنجرز جو دبئی سے لوٹ کر آئے تھے ان کی مدد سے ہائی جیک فلائٹ کے بارے میں کافی اہم معلومات پتہ چلتی ہیں۔
پتہ چلتا ہے کہ جہاز کے اندر آدمیوں، عورتوں اور بچوں کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ اور سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ کچھ عورتوں نے بتایا کہ ہائی جیکرز اچھا برتاؤ کر رہے تھے ان کے ساتھ۔ بچوں کو لے کر کافی نرم مزاج تھے۔
ان کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ پانچ ہائی جیکرز تھے جنہوں نے اپنے الگ الگ نام رکھے ہوئے تھے۔ سب سے بڑا ان کا لیڈر جو اپنے آپ کو چیف کر کے پکارتا تھا اور اس کے علاوہ جو چار تھے وہ برگر، ڈاکٹر، شنکر، اور بھولا۔ یہ ان کے فرضی نام تھے جو ہائی جیکنگ کے وقت یہ استعمال کر رہے تھے۔ لیکن ان کے اصلی نام بعد میں پتہ چلتے ہیں: ابراہیم اختر، شاہد اختر سعید، سنی احمد قاضی، ظہور مستری اور صغیر۔ زیادہ تر ہائی جیکرز پاکستان تھے۔ بعد میں کیپٹن اور ہوسٹیجز دونوں ہائی جیکر برگر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس نے لوگوں کا دل جیت لیا تھا۔ فلائٹ پر، گانا گا کر، جوک سنا کر، اور ان کے ساتھ بات چیت کر کے۔ کافی حیرانی والی بات تھی کہ کچھ ہائی جیکرز اس طریقے سے برتاؤ کر رہے تھے، کیونکہ دوسری طرف سے ایسی بھی کہانی آ رہی تھی کہ ٹھیک سے کھانا نہیں دیا جا رہا۔ ایک عورت بتاتی ہیں کہ ان کا بچہ رو رہا تھا بھوک کے مارے اور ہائی جیکر نے چیخ کر بولا کہ اسے چپ کرواؤ۔
ایک دن گزر جاتا ہے۔ جو پیسنجرز ابھی تک جہاز کے اندر موجود ہیں۔ ان کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ کھانے اور پانی کی سخت کمی ہے۔ ٹوائلٹس کی بری حالت ہے۔ جہاز دوبارہ سے ٹیک آف کرتا ہے اور اس بار یہ افغانستان کی طرف جاتا ہے۔
26 دسمبر صبح کے اٹھ بجے جہاز کندھار انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے۔ لینڈنگ کے بعد یہاں موجود طالبان کی اتھارٹیز آفر کرتے ہیں کہ وہ ہائی جیکرز اور انڈیا کے بیچ میڈیئیٹ ثالثی کریں گے۔
اس وقت افغانستان میں طالبان کا راج تھا۔ لیکن انڈیا اس وقت تک طالبان کی سرکار کو تسلیم نہیں کر رکھا تھا۔ لہٰذا انڈیا اپنے اسلام آباد کے ہائی کمیشن کے ایک آفیشل کو کندھار مذاکرات کے لیے بھیجتا ہے۔ اگلے چھ دن تک جہاز میں بیٹھے لوگ یہیں پر رہتے ہیں۔ کوئی اندازہ نہیں انہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ ان کا مستقبل کیا ہے۔ کیا وہ یہیں پر مارے جائیں گے۔
انڈین گورنمنٹ کو طالبان کے اصلی ارادے پر شک ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ اس جہاز کو طالبان کے لوگوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ ان طالبان نے ہتھیار پکڑ رکھے ہیں۔ طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ہائی جیکرز کے خلاف کر رکھا ہے، تاکہ کوئی بھی ہائی جیکر یہاں پر لاپرواہی سے برتاؤ نہ کریں۔ اس لیے ہم نے سیکیورٹی کے لیے چاروں طرف اپنے لوگ لگا دیئے۔
لیکن انڈین تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ انڈیا اپنی طرف سے ہائی جیکرز کیخلاف کوئی ملٹری آپریشن نہ کر پائے۔ اجیت دووال جو اس وقت ایک سپیشل ٹیم کا حصہ تھے ،انہیں کندھار ہائی جیکرزکے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہائی جیکرز کو آئی ایس آئی سے کندھار میں سپورٹ مل رہا تھا۔ انہیں ضمانت دی جا رہی تھی کہ انہیں محفوظ باہر نکالا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایس آئی یہاں مداخلت نہیں کرتی تو انڈیا اس ہائی جیکنگ کو حل کر پاتا۔انڈیا سے جو امرتسر میں نہ ہو سکا وہ اجیت دوول نے کندھار میں کر لینا تھا۔
یہ سال 1999ء کی بات ہے ۔ وہی سال جب کارگل کی جنگ بھی ہوئی تھی۔وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کوشش بھی کی تھی پاکستان کے ساتھ پُر امن تعلقات بنانے کی۔ لیکن وہ ناکام رہے اور یہ ہائی جیک پرائم منسٹر کی شہرت کو لے کر بڑا حساس مسئلہ تھا۔ کافی چیزیں آج تک پوری طریقے سے کلیئر نہیں ہیں۔ اس کیس کے بارے میں ہم یہ نہیں جانتے آج کے دن تک کہ کٹھمنڈو کے ایئرپورٹ پر سیکیورٹی بریچ کیسے ہوا۔
بولا جاتا ہے کہ داؤد ابراہیم کے نیپال نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا تھا۔ انڈین اتھارٹیز کو غلط استعمال کر کے بھی ایک تھیوری بتائی جاتی ہے۔
ابھی اپنی ٹائم لائن میں واپس آئیں تو کندھار میں ہائی جیکرز اپنے مطالبات بتاتے ہیں۔ 200 ملین ڈالرز یعنی 1650 کروڑ انہیں دیئے جائیں اور ساتھ ساتھ وہ 36 قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ساجد افغانی حرکت المجاہدین کے بانی کی لاش کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ بہت اشتعال انگیز مطالبات تھے کہ اتنی ساری چیزیں اور پیسہ مانگاجا رہا ہے۔ لیکن انڈیا میں سرکار پر الگ طریقے کا ہی پریشر چل رہا تھا۔
26 دسمبر کو اس ہائی جیکنگ کو لے کر وزیر خارجہ جسونت سنگھ ایک پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ اچانک سے اس پریس کانفرنس میں کچھ لوگوں کی بھیڑ گھس جاتی ہے۔ یہ لوگ اس جہاز میں بیٹھے پیسنجرز کے گھر والے اور رشتے دار تھے۔ پریس کانفرنس میں گھس کر یہ منسٹر کے سامنے کہتے ہیں جو جو ہائی جیکرز نے کہا ہے ان کے مطالبات پورے کرو۔ ہم چاہتے ہیں ہمارے گھر والے محفوظ ہوں۔
وہ ریفرنس دیتے ہیں دسمبر 1989ء کا۔ 10 سال پہلے جب یونین منسٹر مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو چھڑوانے کے لیے سرکار نے حریت پسندوں کو رہا کیا تھا۔ شہریوں کی زندگیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے وہ سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلدی سے جلدی ایکشن لو اور ہمارے گھر والوں کو بحفاظت واپس لاؤ۔ ان کا ماننا تھا کہ جہاز میں بیٹھے پیسنجرز کی حفاظت سب سے پہلی ترجیح ہے، باقی کسی بھی اور چیز سے اوپر ان کی حفاظت آتی ہے چاہے وہ کسی قیدی کی رہائی کا مطالبہ کریں، پیسے کا مطالبہ کریں، وہ سب دوسرے نمبر پر ہے۔ اور یہ سب اس وقت کے فارن منسٹر جسونت سنگھ کے سامنے ہو رہا تھا۔ لیکن کندھار میں انڈین مذاکرات کار ابھی تک پہنچے تک نہیں تھے۔ وہ اگلے دن 27 دسمبر کو پہنچتے ہیں ۔
مذاکرات کار کی اس ٹیم کو ویویک کاتجور کی جانب سے لیڈ کیا جا رہا تھا۔ وہ اس وقت منسٹری آف ہوم آفیئرز میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ ہوم منسٹری کے آفیشل اجیت دوول اور سرکار کے اوپر اسی دن دباؤ بڑھتا ہے، جب کچھ یرغمالیوں کے رشتے دار گیٹ گرا کر راجیو گاندھی بھون میں گھس جاتے ہے۔ وہاں کرائسس مینجمنٹ گروپ کی میٹنگ چل رہی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پرائم منسٹر کے گھر کے سامنے احتجاج کرتے ہیں۔
طالبان واضح طور پر ہائی جیکرز کو بتا دیتے ہیں کہ وہ انڈین فورسز کو کوئی ریسکیو آپریشن کنڈکٹ کرنے نہیں دیں گے۔ جس کے جواب میں ہائی جیکرز کہتے ہیں کہ ہم تمہارے کہنے پر مذاکرات کر لیں گے۔ مذاکرات اس طریقے سے آگے چلتے ہیں۔ طالبان کے لیڈر مولانا محمد عمر پاکستانی اخبار کو بتاتے ہیں کہ ہائی جیکرز کو یا تو جہاز چھوڑ کر چلے جانا چاہیے یا اپنے ہتھیار نیچے رکھ دینے چاہئیں۔یہ واقعہ ماہِ رمضان میں پیش آیا تھا۔جب صحافی سحری کے لیے اٹھے تو ہوٹل میں موجود لوگ انہیں گھور کر دیکھنے لگے کہ بغیر داڑھی کے یہ مخلوق کہاں سے آئی ہے۔ ہوٹل میں موجود لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ کسی انڈین طیارے کو اغوا کر کے ان کے شہر کے ایئرپورٹ پر لایا گیا ہے۔ قندھار ایئرپورٹ پر جو سب سے عجیب و غریب چیز دیکھی گئی وہ ایک شخص کا سائیکل پر ایئرپورٹ آنا اور اسی سائیکل پر طیارے کے گرد چکر لگانا تھا۔ وہاں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینے والے سائیکل یا موٹر سائیکل پر ہی گشت کرتے تھے۔ایسے موقعوں پر تو بکتر بند گاڑیاں اور سکیورٹی کے جدید آلات ہونے چاہئیں لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔جو شخص زیادہ تر سائیکل پر چکر لگاتا تھا وہ ایئرپورٹ کے علاقے کی پولیس میں ایس ایچ او کے رتبے کا اہلکار تھا۔ ان دنوں غضب کی سردی تھی اور رہائش کا مناسب انتظام نہیں تھا۔جتنے دن صحافی وہاں رہے ان کے پاس جو گاڑیاں تھیں انھوں نے سردی سے بچنے کے لیے ان کو مستقل اسٹارٹ رکھا اوروہ گاڑیوں کے اندر بیٹھ کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔
چونکہ ایئرپورٹ بالخصوص طیارے کے قریب سردی سے بچنے کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں تھا جس کے باعث سکیورٹی پر مامور طالبان اہلکاروں نے اس کا حل میدان میں لکڑیاں جلا کر نکالا۔ یہ لکڑیاں بہت زیادہ دور نہیں بلکہ جہاز کے بالکل قریب جلائی جاتی تھیں۔کسی بھی طیارے کے نیچے آگ جلانا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوتا ہے لیکن طالبان کو اس بات کی بالکل پرواہ نہیں تھی۔ طالبان کی جانب سے طیارے میں موجود مسافروں اور دیگر افراد کو طالبان کی جانب سے کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جاتی رہیں۔ طالبان کا فوڈ پیکیج ایک پلاسٹک کی تھیلی میں ایک روٹی، ایک چکن لیگ پیس اور ایک مالٹے پر مشتمل ہوتا تھا۔ مسافروں نے اس کھانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر وقت یہ کھانا نہیں کھا سکتے۔ اس کے بعد کھانے کا مسئلہ حل ہوا کیونکہ اسلام آباد سے اقوام متحدہ کے ایک طیارے میں فائیو اسٹار ہوٹلوں سے کھانا آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
یہاں پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ کئی دنوں سے انڈین مذاکرات کی ٹیم یہاں ہے، درمیان میں طالبان بھی ہیں اور وہاں دوسری طرف ہائی جیکرز۔ بالآخر ہائی جیکرز کے مطالبات کو کافی حد تک نیرو ڈاؤن یعنی کم کر دیا جاتا ہے۔ 36 قیدیوں کی جگہ صرف تین افراد رہا کیے جائیں گے۔ ہائی جیکرز کے مطالبات کو کم کرنے کا کریڈٹ انڈین مذاکرات کار اور طالبان دونوں کو دیا جاتا ہے۔
ہائی جیکنگ پر واپس آئیں تو پانچویں دن تک جہاز میں ٹوائلٹس اوور فلو کرنے لگ گئے تھے۔ لوگ اپنی امید کھو رہے تھے۔
30 دسمبر کو اس وقت کے را چیف اے ایس دلت جموں میں پہنچتے ہیں۔ وہ چیف منسٹر فاروق عبداللہ کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو دو قیدی یہاں پر ہیں انہیں رہا کر دو۔ فاروق عبداللہ بہت ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ وہ بحث کرتے ہیں کہ اس کا بعد میں بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس وقت دباؤ اتنا تھا کہ انہیں یہ مجبوراً سننی پڑتی ہے۔ ان قیدیوں کو دلی لے جایا جاتا ہے اور وزیر داخلہ جسونت سنگھ کے ساتھ ایک فلائٹ پر بٹھا کر قندھار بھیجا جاتا ہے۔
اگلا دن 31 دسمبر ہائی جیکرز کا مطالبہ مان لیا جاتا ہے اور تین قیدیوں مولانا مسعود اظہر,عمر سعید شیخ اور کشمیری رہنما مشتاق زرگر کو کندھار میں رہا کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہائی جیکرز بھی جہاز میں بیٹھے پیسنجرز کو رہا کر دیتے ہیں۔ اس وقت انڈین ٹیم نے توقع کی تھی کہ ہائی جیکرز کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ لیکن طالبان کے مطابق وہ ایسا کرتے نہیں ہیں۔ طالبان سپریم لیڈر ایک اور طالبان کے ممبر کے ساتھ ہائی جیکرز کو اور جو رہا کیے گئے مجاہدین ہیں جنہیں بھارت دہشت گرد کہتا ہے،انہیں گاڑی میں بٹھا کر پاکستان کے بارڈر کی طرف نکل پڑتا ہے۔ اس وقت انڈیا الزام عائد کرتا ہے کہ پاکستان اس ہائی جیکنگ میں انوالو تھا ۔یہ ہائی جیکرز بحفاظت بارڈر کراس کر کے پاکستان میں بچ کر نکل جاتے ہیں۔ دوسری طرف پیسنجرز کی جان میں جان آتی ہے۔ کئی پیسنجرز زخمی ہیں، چوٹ لگی ہوئی ہے اور زیادہ تر بہت بُرے طریقے سے بھوکے ہیں۔ 31 دسمبر کو یہ واپس گھر لوٹ کے آتے ہیں۔
بھارتی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس پورے واقعہ کا الزام ہائی جیکرز پر جاتا ہے اور ان کو سپورٹ کرنے والے اسٹیک ہولڈرز پر،چاہے وہ طالبان ہوں یا پاکستانی فورسز۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس وقت کی سرکار پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں کہ کیسے وہ اس خوفناک بحران سے نمٹنے میں برے طریقے سے ناکام رہے۔ جہاز جب امرتسر میں موجود تھا تب انڈین فورسز کے پاس ایک بہترین موقع تھا جہاز کا کنٹرول واپس لینے کا۔ لیکن سرکار کی طرف سے جو بڑی غلطیاں ہوئیں انہیں کمیونیکیشن گیپ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان غلطیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ جیشِ محمد گروپ تشکیل دیا گیا اور یہ باقی سارے حملے ہمیں دیکھنے کو ملے۔
امرتسر کے تنازعہ کو لے کر ایک اور بڑا انکشاف ہوتا ہے۔ اس وقت کے را چیف بتاتے ہیں کہ کیسے جہاز میں بیٹھے پیسنجرز میں سے ایک پیسنجر سشی بھوشن سنگھ تومر جو برادر ان لا تھے این کے سنگھ کے اور این کے سنگھ پرائم منسٹر واجپائی کے سیکرٹری تھے۔کہا جاتا ہے کہ جہاز کو امرتسر سے ٹیک آف کرنے دیا گیا تو عمر کی سیفٹی انشور کرنے کے لیے۔ اگر عمر کی حفاظت کا فیصلہ تھوڑا سا بھی امرتسر میں ہائی جیکرز کو پکڑنے کا موقع کھو دینے والے کیس میں کوئی کردارادا کرتا ہے تو یہ اتھارٹیز کی جانب سے ایک بہت ہی شرمناک عمل ہوگا۔
دوسری حیرت انگیز چیز یہ تھی کہ بہت سے ٹاپ لیڈرز کو وطن میں ہائی جیکنگ کے واقعہ کے بارے میں نیوز کے ذریعے پتہ چلتا ہے، اپنے کمیونیکیشن چینلز کے ذریعے نہیں۔ جیسے کہ ایل کے ایڈوانی جو کہ اس وقت ہوم منسٹر تھے بتاتے ہیں کہ کیسے انہیں اس واقعہ کے بارے میں پتہ چلا نیوز کے ذریعے کرائسز مینجمنٹ گروپ سے نہیں.
1971 میں گنگا طیارہ پاکستان میں اغوا کر کے لایا گیا۔ اشرف قریشی نے اپنے ساڑھے سترہ سالہ کزن کیساتھ یہ اغواء لکڑی کے پسٹل اور گرنیڈ کیساتھ کیا۔یہ بی ایس ایف میں انسپکٹر تھا۔اس اغوا کے بعد جو کچھ ہوا پاکستان نے اس سے سبق سیکھتے ہوئے پرواز 81 4 کے ریسکیو میں کردار ادا کرنے سے گریز کیا۔ اس پر بات کریں گے اگلی ویڈیو میں۔