اہم خبریں

ہسپتالوں کے کچرے سے چوسنیوں سمیت کئی اشیاء بنائی جاتی ہیں جو انتہائی خطرناک ہے،فضل حکیم خان وزیر ماحولیات خیبر پختونخوا

اسپتال کے کچرے میں خطرناک اور بے ضرر دونوں طرح باقیات ہوتی ہیں۔ بے ضرر کچرے میں کاغذ، گتے، پیکیجنگ اور اسی طرح کی اشیاء شامل ہیں جبکہ خطرناک اشیاء میں دستانے،یورین بیگ، سرنجیں،پیتھالوجیکل، شارپس، فارماسیوٹیکل ویسٹ شامل ہیں۔اس کے علاوہ زائدالمیعاد ادویات ،ویکسین اور دوا ساز سامان کو سنبھالنے میں استعمال ہونے والی ضائع شدہ اشیاء جیسے بوتلیں، بکس، دستانے، ماسک، ٹیوبیں  بھی خطرناک ویسٹ میں شامل ہیں۔جن فیکٹریوں میں یہ کچرا جاتا ہے وہ بلا امتیاز بے ضرر اور خطرناک کے،  ری  سائیکل کر کے نئی مصنوعات بناتی ہیں جن میں برتن بچوں کے کھلونے اور چوسنی بھی شامل ہیں۔چوسنی شیر خوار بچے کو بہلانے اور مصروف رکھنے کے لیے مائیں اس کے منہ میں ان دنوں ڈال دیتی ہیں جب اسے ذائقے کا احساس نہیں ہوتا۔بچہ تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو چوسنی کی جگہ لولی پاپ کا تقاضہ کرتا ہے۔چوسنیاں اچھے مٹیریل سے ھی بنتی ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ ہسپتال کے خطرناک کچرے سے بھی بنائی جاتی ہیں۔ویسے  کچرے سے نہ جانے کیا کیا بنتا ہے۔نرم ملائم رنگدار اور خوشبودار ٹشو بھی ایسے یا ویسے کچرے سے بنائے جاتے ہیں۔مارکیٹ میں دستیاب  کھلا اچار بنتا کوئی دیکھ لے تو اس کے کھانے سے ہی دل اچاٹ ہو جائے۔دیسی چینی بنانے کے لیے گڑ اور شکر کا خام مال ڈرموں میں ڈال کر کئی دنوں کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔جس دن چینی بنانی ہو اس روز اس خام مال کو بڑے کڑاہے میں ڈال کر ایک یا دو افراد پاؤں دھو کر کڑاہے میں داخل ہوتے ہیں۔ پاؤں دھونا  لازمی شرط نہیں ہے۔دنیا کی سب سے مہنگی کافی ہاتھی کے ذریعے پراسس  کر کے تیارکی جاتی ہے۔ہاتھی کو کافی کے بیچ کھلا دیئے جاتے ہیں اس کے بعد کی کافی نوش نہ ہی سنیں۔

بل زیادہ آنے پر رکشہ ڈرائیور نے رکشہ سڑک کے درمیان کھڑا کر کے ڈانس شروع کر دیا۔

احتجاج کا اپنا اپنا طریقہ اورطرز  ہے۔ یہ عقل مند ڈرائیور تھا۔ چالان ہونے پر ایک رکشہ ڈرائیور نے اپنے رکشہ کو آگ لگا دی تھی۔ گویا روزی کا اڈا جلا ڈالا۔ فیصل آبادی رکشے والے نے سرِ بازار رکشہ کھڑا کر کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ اس پر تماشائیوں نے چند جگتیں لگائیں جواس کے جسم کے مختلف حصوں پر لگیں تو کہیں کھجلی اور کہیں گدگدی ہونے لگی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے کپڑے اتار پھینکے اب وہ صرف جانگیے میں تھا اور ساتھ ہی احتجاجاً رقص کرنے لگا۔ اس کا مقصد لوگوں کو خاص طور بجلی کے بل کی جانب متوجہ کرنا تھا جس میں وہ کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنا کام کر دیا آ گے تیرے بھاگ لچھیے۔ یہ ڈرائیور صاحب کا جانگیہ ڈانس تھا۔ ایسے ہی ایک سردار جی کے ڈانس کا قصہ مشہور ہے۔ سردار جی میلے پر گئے۔ وہاں ایک جگہ لوک رقص ہو رہا تھا۔ سردار جی نے جوش میں آکر تہہ بند اتارپھینکا ۔ اب وہ کچھے میں تھے اور محو رقص ہو گئے۔ رقص پر تماشائیوں میں سے کو ئی عش عش کر رہا تھا کوئی بس بس کہہ رہا تھا۔ اس نے گھر آکر اپنی پتنی کو بتایا کہ آج میں ناچ رہا تھا تو لوگ میرا کھچا دیکھ دیکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ سردارنی  نے حیرانی سے اپنے نچلے ہونٹ پر انگلی رکھتے ہوئے صحن میں تار پر لٹکے کچھے کی طرف اشارہ کیا تو سردار جی نے کہا ہائیں!

وزیر تجارت چوہدری شافع حسین نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا  واحد حل بتا دیا۔

ایسے نابغہ روزگاراورر دیدہ ور ہر معاشرے کی قسمت میں کہاں۔ ایسا حل بتایا کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی طرح کل ہی سستی بجلی دستیاب ہوگی۔ اس کے لیے کھمبے لگانے کی ضرورت ہے نہ تاروں کے جال کی جو وبال بن جاتی ہیں۔ ان کا بتایاہوا حل سنیں گے تو قرض خواہ کی طرح آپ کے لبوں پر بھی مسکراہٹ رقص کرنے لگے گی۔مقروض سڑک کے کنارے اپنی اراضی میں پہاڑی کیکر کے پودے لگا رہا تھا۔ قرض خواہ نے آکر رقم کا تقاضہ کیا تو اس نے لنگی کا لنگوٹ سنبھالتے ہوئے کہا ”لے سمجھ اب تیرا قرض اتر گیا، میں کیکر کے درخت لگا رہا ہوں۔ یہ بڑے ہونگے سڑک سے روئی کے گڈے ٹرالیاں گزریں گی۔ ان سے روئی کانٹوں میں پھنسے گی۔ میں اتار کر بیچوں گا اور تیرا قرض ادا کروں گا۔ اس کی دانشمندی پر قرض خواہ بے ساختہ ہنس پڑاتو مقروض نے اتراتے ہوئے کہا قرض واپس ملتا نظر آیا ہے تو دندیاں نکل رہی ہیں۔
چوہدری شافع حسین پنجاب حکومت کے وزیر صنعت و تجارت ہیں اور یہ دونوں  فارموں پر الیکشن ڈنکے کی چوٹ کے بغیر جیتے ہیں کیونکہ اس دن ڈنکا بجانے والا ووٹ ڈالنے گیا ہوا تھا۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ سستی بجلی کا ایک ہی حل  سولر انرجی ہے۔ سولر بجلی  کیسے بنتی ہے ۔ کیا دیگچی ، تانبہ کڑاہی، توا دھوپ میں رکھ کے بجلی حاصل کر لیں؟ سولر کی سہولت حکومت شاید اگلے 20 سال میں ہر صارف تک پہنچا سکے گی۔
 کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔

غیرمقبول بجٹ پیش کرنے کا مقصد آئی ایم ایف سے پروگرام حاصل کرنا ہے۔ علی پرویز،وزیر مملکت برائے خزانہ

علی پرویزخزانے کی وزارت کے چھوٹے وزیر ہیں۔ اتنے بھی چھوٹے نہیں کہ نان اور پان میں فرق نہ کر سکیں۔ آئی ایم ایف سے پروگرام حاصل کرنے کے شوق میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ غیر مقبول بجٹ پیش کیا ہے۔ غیر مقبول کو کوئی سخت کہتا ہے کوئی عوام دشمن قرار دیتا ہے۔ بڑے نام  والے  "سائنسدانوں"کے بنائے بجٹ کے بھی مہینوں بعد ضمنی بجٹ آنا شروع ہوتے ہیں۔ علی پرویز کی حکومت نے تین دن میں ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا ضمنی بجٹ لا پھینکا۔ عوام کو دلاسہ دیاہے یا اشرافیہ کو سنہرا خواب دکھایا ہے۔ کہتے ہیں کوشش ہے چھ ارب سے زیادہ کا پیکج ملے۔ یہ رمضان میں مخیر حضرات کی طرف سے غربا میں تقسیم ہونے والا راشن کا پیکج نہیں جو مستحق افراد ، بیواؤں ، رنڈووں ، جھولے لال اور بے جمالو کہنے والوں سمیت " مستحقین" کندھے پر رکھ کر  لے جاتے ہیں۔ یہ پیکج ادھار ہے مگر ایسا ادھار جو چھوٹے وزیر نے واپس کرنا ہے اور نہ بڑے وزیر خزانہ نے اور نہ ہی ان وزیر وں کے مہاراجہ نے، اس چھ ارب میں سے عام آدمی کے حصے میں کیا آئے گا۔ حساب کریں تو 24 ڈالر  فی پاکستانی بنتے ہیں۔ جو ایک بلب اور پنکھا چلانے والے صارف کو آنے والے بل کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ اگر وہ پنکھی جھل لے تو ایک ماہ کا بل ادا کر سکتا ہے۔ یہ چھ ارب اگر 25کروڑ عوام میں تقسیم کرنے کے بجائے چند سو خواص میں بانٹ دیئے جائیں تو ان کا کچھ بن جُڑ سکتا ہے۔ عوام کے حصے میں تو بھاگتے چور کی لنگوٹی ھی  آنی ہے جو تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ قرض کل ملنا ہے یا نہ جانے کب ملناہے ۔بجٹ میں عوام کو گیلی جگہ پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ان کے سامنے گرم توا ہے۔ بندہ شکر کرتا ہے کہ گیلی جگہ پر ہی کھڑا ہے۔ حکومت کہتی ہےقرض ملے گا تو عوام کو ریلیف دیں گے مگر کب....؟  

دروازے بند

ہر طرف بے یقینی اور ابہام کا موسم۔۔۔ ساتھیوں کی زمانہ سازی اور چھپی نفرتوں کا اظہار۔۔۔افسوس،شرمندگی۔۔ مشکل وقت وہ پیمانہ ہے جو دوستوں اور دشمنوں کے اصل رویوں کا تعین کرتا ہے۔۔۔
کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں 
بندے بھی ہو گئے ہیں خدا تیرے شہر میں 
ایک شخص نے بچھڑا ذبح کیا اور اسے آگ پر پکا کر اپنے بھائی سے کہا کہ ہمارے دوستوں اور پڑوسیوں کو دعوت دو تاکہ وہ ہمارے ساتھ مل کر اس کو کھائیں۔
اس کا بھائی باہر گیا اور پکار کر کہا۔
اے لوگو !!
ہماری مدد کرو میرے بھائی کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، کچھ ہی دیر میں لوگوں کا ایک مجمع نکلا اور باقی لوگ کام میں لگے رہے جیسے انہوں نے کچھ نہ سنا ہو،وہ لوگ جو آگ بجھانے میں مدد کو آئے تھے انہوں نے سیر ہوکر کھایا پیا۔ جب تمام لوگ چلے گئے تو وہ شخص اپنے بھائی کی طرف تعجب سے دیکھ کر کہنے لگا۔۔!!یہ جو لوگ آئے تھے میں تو انہیں نہیں پہچانتا اور نہ میں نے پہلے ان کو دیکھا ہے پھر ہمارے دوست احباب کہاں ہیں؟بھائی نے جواب دیا کہ یہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ہمارے گھر میں لگی آگ بجھانے میں ہماری مدد کو آئے تھے، ناں کہ دعوت میں،اس لیے یہی لوگ مہمانی اور مہربانی کے مستحق ہیں، یہی ہمارے دوست ہیں، جومدد کرنے کی آواز پرنہیں آئے وہ کیسے ہمارے دوست ہوسکتے ہیں ؟ برا وقت تو ایسی لیب ہے جو اپنے اور بیگانوں کی پہچان کرا دیتا ہے۔
نومئی جہاں تحریک انصاف کیلئےبربریت کی آندھی، زیادتی کاطوفان، لاقانونیت کا سیلاب، ظلم وستم کی داستانیں ،جبر کے قصےلیکر آیا،وہاں ایک بھلا بھی ہوا،لشکر عمرانی سےبزدل، کمزور،موقع پرست،لالچی افراد نکل گئے۔پارٹی کو کیا فرق پڑا؟ کپتان توجس پر ہاتھ رکھے وہ پتھر بھی ہیرا بن جائے،شیر افضل مروت کا کسی نے نام سناتھا ؟جب ماؤزے تنگ  نے لانگ مارچ شروع کیا،تعداد لاکھوں میں تھی،اختتام تک چند ہزار افراد باقی رہ گئے تھے،سیکرٹری سے پوچھا،کیا ہم کامیاب ٹھہرے یا ناکام ؟ سیکرٹری بولا !! جب ہم چلے تھے لاکھوں میں تھے،اب ہزاروں میں ہیں،کامیاب کیسے ہوئے؟ماؤزے مسکرائے،کہا !! ہم کامیاب ہوئے ہیں،اب ہمارے ساتھ بہادر لوگ رہ گئے ہیں،سب بزدل اور کمزور لوگ بھاگ گئے۔تحریک انصاف  اور اس کا کپتان نو مئی کے بعد ناکام نہیں،کامیاب ہوئے ہیں،پارٹی بزدلوں ،کمزوروں،موقع پرستوں  سے پاک ہوگئی۔ہاں !! اب بھی پارٹی میں کچھ رانگ نمبر ہیں،لیکن اتنا مارجن تو ہوتا ہے،آخر سب انسان ہیں،کچھ بشری کمزوریاں  تو ہوتی ہیں،فرشتے تو نہیں۔بات ہمیشہ اکثریت کی ،کی جاتی ہے۔اصل موضوع کی طرف آتے ہیں،پارٹی کے  بھگوڑے اچانک منظر عام پر آگئے ہیں،فواد چوہدری،عمران اسماعیل،علی زیدی وغیرہ وغیرہ،شیخ رشید بھی میدان میں آگئے ہیں۔شیری مزاری نے بھی جھلک دکھا دی ہے۔پارٹی کی موجودہ قائم مقام قیادت پر شدید تنقید اور اپنی صلاحیتوں اور قربانیوں کا ذکرکررہے ہیں۔ پتا نہیں،یہ لوگ خود بدھو ہیں یا دوسروں کو بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟ کیا کپتان اتنا بے خبر ہے کہ انہیں معلوم نہیں،فواد چوہدری کونسی اور کیسی جیل میں رہا،کونسا اس پر تشدد ہوا؟سب جانتے ہیں،ایسا ہی علی زیدی کے بارے میں۔ یہ لوگ توکمپنی کےجاسوس اور مخبر تھے،آنے والے دنو ں میں ساری تفصیلات منظر عام پر آجائینگی۔ان لوگوں کو کبھی بھی پارٹی میں واپس نہیں لیا جاسکے گا،کپتان چاہے بھی تو انہیں واپس نہیں لے سکتا،کارکن اور فالورزتو انکے کپڑے پھاڑ ڈالیں گے،انہیں قبو ل کون کرے گا؟دیکھا نہیں،جب بہاؤلنگر سے امتیاز عالم کو ٹکٹ دیا گیا تھا،کیا ہوا تھا ؟ 24گھنٹے میں ٹکٹ واپس لینا پڑا تھا۔حال ہی میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں جب ’’ عزم استحکام‘‘ آپریش کا فیصلہ ہوا تھا،اجلاس میں گنڈا پور بھی شامل تھے،چند گھنٹوں بعد علی امین اپنی صفائیاں دینے پرمجبورہوگئے تھے۔پچھلے دنوں عمر ایوب اسلام آبادمیں کارکنوں کے ہاتھوں پٹتے پٹتے رہ گئے تھے۔پی ٹی آئی کی طاقت نوجوان ہیں،انہیں پر عمران خان کا اعتماد اور یقین ہے۔پارٹی کے فیصلے ان کی مرضی سے ہی چلیں گے ۔کپتان کی وہی طاقت ہیں،جنہیں کبھی ختم نہیں کیا جائے گا،یہی پالیسی عمران خان کو شہرت کے آسمان پر بٹھائے ہوئے ہے۔فواد وغیرہ  بات کرتے وقت کم از کم  عالیہ حمزہ،یاسمین راشد،صنم جاوید،اعجاز چوہدری،محمود الرشید،سرفراز چیمہ کے چہرے ہی چشم تصور میں دیکھ لیا کریں،حرف آخر یہی ہے،انہیں بس ایسے ہی مصروف رکھا جائے گا جبکہ ان لئے پارٹی کے دروازے بند ہوچکے ہیں،جنہیں کھولنے والے بھی نہیں کھول سکیں گے۔ان لوگوں نے سیاسی خودکشی کی ہوئی،یہ مردے ہیں،دنیا زندہ انسانوں کی ہوتی ہے،مردوں کی نہیں۔

دنیا کا اکلوتا جج

جوصبح خود عدالت میں ملزم بن کر پیش ہوتا  تھا۔۔۔اگلی صبح جج بن کر دوسرے ملزموں کا منصف بن جاتا تھا۔۔۔ جوصبح خود اپنی ناجائز جائیداد کی صفائیاں دیتا تھا۔۔۔اگلی صبح دوسروں کی ناجائز جائیداد پر ان کو سزائیں سناتا تھا۔۔۔جوصبح خود عدالت میں پیش ہو کر اخلاقیات کا جنازہ نکالتا تھا۔۔۔اگلی صبح جج بن کر دوسروں کو اخلاقیات سکھاتا تھا۔۔۔  جوصبح خود عدالتی کاروائی کے بارے میں میڈیا پر پابندی لگاتا تھا۔۔۔اگلی صبح ملزم بن کر میڈیا پر جھوٹی ریاستی پابندیوں کا رونا روتا تھا۔۔۔ جوصبح خود جج بن کر گندگی پھیلا کر نظام انصاف کو گٹر بنادیتا   تھا۔۔۔اگلی صبح ملزم بن کر پاکستان کو گٹر سے تشبیہہ دیتا تھا۔۔۔
 جوصبح جج بن کر اپنے نظام انصاف کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنتا تھا۔۔۔اگلی صبح جج بن کر حکومتی کارکردگی پر سوال اٹھاتا تھا۔۔۔جوصبح خود جج بن کر عدالتی نظام پر دھبہ بن جاتا ہے۔۔۔ اگلی صبح ملزم بن کر اپنے عدالتی نظام میں اپنے بچاٶ کے لئے نکتے ڈھونڈتا تھا۔۔۔ جو روزانہ میرٹ کی باتیں کرتاتھا۔۔۔لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ  کے بجائے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کوسپریم کورٹ کا جسٹس بنا دیتے ہیں۔۔۔ پھر اس سے اور آگے بڑھتے ہوئے۔۔۔تیسرے نمبر والی کو لاہور ہائی کورٹ کاچیف جسٹس بنا دیتے ہیں۔۔۔مزے کی بات۔۔۔وہ سماعت کے دوران جج کے ساتھ  ساتھ کبھی کبھی  ملزموں  کےوکیل بھی بن جاتے ہیں۔۔۔سادگی بھی دکھاتے رہتے ہیں۔۔۔لیکن پیدل چلتے ہوئے کچھ کیمرہ مینوں  سےویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر تشہیر بھی کرواتے ہین۔۔۔ جو ایک  دن بات کرنے کے ڈھنگ اور اصول اپنانے کا درس دیتے ہیں۔۔۔دوسری صبح اپنے ساتھی ججوں کی بات کاٹ کراپنی کہانی بیان کرنے لگتے ہیں۔۔۔وفادار کمال کے ہیں۔۔۔ ’’ اتحادی ‘‘ جہاں  پھنسنے لگتے ہیں انہیں ایسے نکال لیتے ہیں جیسے مکھن سےبال کو نکالاجاتا ہے۔۔۔ اور تمام کئے گئے وعدوں،معاہدوں پر سوفیصد عمل کررہےہیں۔۔۔دلیر بھی بہت ہیں۔۔۔اپنے سابق باس کے کئے گئے فیصلوں کو پاؤں تلے روندھ دیتےہیں۔۔۔بہادر اتنے ہیں۔۔۔کسی وکیل کی بات پسندنہ آئے تو اسے لائسنس معطل کرنے کی دھمکی لگادیتے ہیں۔۔۔طاقتوراتنے ہیں۔۔۔اپنے مرضی کے کیسز سماعت کیلئے مقرر کرتے ہیں،باقی داخل دفتر کردیتے ہیں۔۔۔ضدی بھی بلا کےہیں ۔۔۔روکے جانے کے باوجود مخصوص پارٹی کے کیسز سننے سے بازنہیں آرہے۔۔۔مخلص انتہا کے  ہیں ۔۔۔برے وقت میں ساتھ دینے والوں کو پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں  بلکہ کہتے ہیں آپ کون ہیں ؟۔۔۔کرپشن،بدعنوانی،سفارش کے انتہائی خلاف ہیں، بلکہ رشوت لینے  اور دینے والوں کوپکے جہنمی تصور کرتے ہیں۔۔۔لیکن !!    ۔۔۔ابھی تک لندن والے اپنے فلائٹس کا حساب نہیں دے سکے۔۔۔ یہ ہیں ایک مثالی جج۔۔۔  دنیا کےاکلوتے جج۔۔۔ اور رہا   ہمارے ’’ قاضی ‘‘ کا انصاف۔۔۔ایک  کہانی یاد آگئی۔
جنگل میں شیر نے حکم جاری کر دیا کہ آج سے ہر سینئر جانور جونیئر جانور کو چیک کر سکتا ہے بلکہ سزا بھی دے سکتا
باقی جانورں نے تو اسے نارمل لیا پر بندر نے خرگوش پکڑ لیا اور رکھ کے چپیڑ ماری اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں نہیں پہنی ؟ 
خرگوش بولا سر میرے کان لمبے ہیں اس لیے نہیں پہن سکتا۔۔۔باندر نے کہا اوکے جاؤ۔۔۔اگلے دن فیر خرگوش چہل قدمی کررہا تھا۔۔۔بندر نے اسے بلایااور رکھ کر ایک کان کے نیچے تھی اور پوچھا ٹوپی کیوں نہیں پہنی؟۔۔خرگوش نے روتے ہوئے کہا سر!! کل بھی بتایا تھا کہ کان لمبے ہیں نہیں پہن سکتا۔۔۔بندر نے کہا اوکے گیٹ لاسٹ ۔۔۔۔تیسرے دن فیر بندر نے یہی حرکت کی تو خرگوش شیر کے پاس گیا اور ساری کہانی سنائی ۔۔۔شیر نے بندر کو بلایا اور کہا ایسے تھوڑی چیک کرتے اور بھی سو طریقے ہیں۔۔۔ جیسا کہ تم خرگوش کو بلاؤ اور کہو جاؤ سموسے لاؤ اگر وہ صرف سموسے لائے تو پھڑکا دو چپیڑ اور کہو چٹنی کیوں نہیں لائے۔۔۔؟فرض کرو اگر وہ دہی والی چٹنی لے آئے تو لگاؤ چپیڑ اور کہو آلو بخارے والی کیوں نہیں لائے اور اگر وہ آلو بخارے والی لے آئے تو ٹکا دینا کہ دہی والی کیوں نہیں لائے۔۔۔خرگوش نے یہ ساری گفتگو سن لی۔۔
اگلے دن بندر نے خرگوش کو بلایا اور کہا جاؤ سموسے لاؤ ۔۔۔خرگوش بھاگا بھاگا سموسے لے آیا۔۔۔بندر نے پوچھا چٹنی لائے ہو۔۔ ؟خرگوش بولا یس سر۔۔۔ بندر نے فیر پوچھا کون سی ؟خرگوش بولا سر دہی والی اور آلو بخارے والی دونوں لے کر آیا
بندر نے رکھ کے ایک چپیڑ ماری اور پوچھا۔۔۔توں اے دس ٹوپی کیوں نہی پائی۔۔۔ ؟
یہ ہے ہمارے ’’ قاضی‘‘ کا انصاف !!
یہ ہیں ایک مثالی جج۔۔۔ 
اور
 دنیا کےاکلوتے جج ۔

معطلی، برطرفی، تنزلی

ڈی ایس پی کو کانسٹیبل بنا دیا گیا۔ یہ خبر بڑی دلچسپی سے پڑھی اور سنی جا رہی ہے ۔یہ وقوعہ بھارت میں رونما ہوا۔کانپور میں ڈی ایس پی کرپا شنکر کنوجیاہوٹل میں  لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ پکڑا گیا۔ شنکر  نے گھریلو مصروفیات کا بہانہ بناکر  رخصت لی اور گھرپر سرکاری ڈیوٹی پر جانے کا کہہ کر  ہوٹل چلا گیا۔  بیوی کو شبہ تھا۔ اس نے پولیس کو مطلع کیا تو پکڑا گیا۔وہ  بیگھاپور میں سرکل آفیسر ہوا کرتا تھا۔ اب گورکھ پور میں کانسٹیبل ہے ۔


معطلی سزاؤں میں کوئی سزا نہیں ہے بلکہ یہ بعض افسران کو ایسے ہی اقدامات مزید کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ برطرفی  البتّہ ایک سزا ضرور ہے۔ ایسی ہی یا اس سے کم و بیش اثرات رکھنے والی اور مجرم کو عبرت کا نشان بنا دینے والی سزا ڈیموشن یعنی تنزلی ہے۔جنرل پرویز مشرف اپنی صدارت کے خاتمے پر جب جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زیر عتاب آئے تو ان دنوں "کسی نے"ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ سزا کے طور پر جنرل مشرف کو کیپٹن بنا کر ان کی پیرنٹ یونٹ میں تعینات کر دیا جائے۔ دو چار ماہ کے لیے وہاں وہ وردی میں سروس کریں' ان کو وردی سے بڑی محبت تھی ایک مرتبہ انہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ یعنی وردی اتارنے کی تاریخ دی اور وہ تاریخ قریب آئی تو  مکر گئے ۔کہنے لگے  وردی تو میری کھال ہے۔پھر جنرل  کو کھال اتارتے ہی بنی۔


ڈیموشن کے حوالے سے ایک اور بھی دلچسپ اور یادگار واقعہ ہے۔ 2009ء میں عطاربانی کی کتاب پر تبصرے ہونے لگے جس میں قائد اعظم کی تین غلطیوں کی عطاربانی نے نشاندہی کی تھی ۔عطاربانی گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان ایئر فورس کی جانب سے اے ڈی سی  تھے۔ قائد اعظم کے اے ڈی سی کی طرف سے ان پر غلطیوں کے الزامات ناپسندیدہ تھے۔ پاکستان میں آج بھی ملامتی طبقہ موجود ہے جو قائدا اعظم اور تحریک پاکستان پر ملامت اور تبرا کرتا رہتا ہے۔ وہ  قیام پاکستان کا کریڈٹ جواہر لال نہرو کو دیتا ہے۔ایسے لوگوں نے قائد اعظم کی تین غلطیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔2009ء میں اخبارات میں اس کا بڑا تذکرہ ہوا۔ مجید نظامی صاحب نے مجھے قائد کے خلاف شائع ہونے والے  ارشاد حقانی صاحب کے کالموں کا جواب دینے کی ہدایت کی ۔میرے کالم میں حقائق سے زیادہ جذبات تھے۔ اس  کالم کے جواب میں ربانی صاحب نے مجھے اشتعال زدہ خط لکھا۔وہ بھی  نوائے وقت میں شائع کیا گیا تھا۔میں نے ان دنوں تین غلطیوں کے حوالے سے کافی کالم اکٹھے کیے تھے جو کتابی صورت میں محفوظ ہیں مگر وہ کتاب کبھی شائع نہیں ہو سکی۔ ان کالموں میں خلیل الرحمن صاحب کا کالم بھی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عطاربانی صاحب کی ڈیموشن کیوں ہوئی تھی۔
خلیل الرحمن لکھتے ہیں :ارشادحقانی صاحب نے گروپ کیپٹن ریٹائرڈ عطا ربانی قائداعظم کے اے ڈی سی کی کتاب پر انحصار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قائداعظم نے  تین غلطیاں کیں:
1 - غلام محمد کو وزیر خزانہ نامزد کیا۔ 2 -جنرل گریسی کو کشمیر میں فوجیں بھجوانے سے انکار پر برطرف نہ کیا۔3 -ڈھاکہ میں اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا۔
 یوں تو مندرجہ بالا امور کا جواب کافی تفصیل سے دے دیا گیا ہے تاہم میں عطا ربانی کی ذات اور حیثیت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں تاکہ پڑھنے والے خود فیصلہ کریں کہ ایسے شخص کو قائداعظم پر کسی بھی نقطہ نظر سے درست یا غلط انگلی اٹھانے کا حق ہے یا نہیں؟


عطا ربانی کو 1958ء-59ء میں بطور گروپ کیپٹن جوائنٹ سروسز سٹاف کالج کورس برطانیہ بھیجا گیا جہاں سے واپسی پر انہیں ایئر کموڈور کے عہدہ پر ترقی دے کر پاکستان ایئر فورس ہیڈ کوارٹر میں ایئر چیف آف سٹاف(ایڈمن) لگایا گیا۔ اس وقت کے قواعد کے مطابق یہ ضروری تھا کہ  کورس پر جانے والے افراد کورس کے بعد جرمنی جائیں اور جرمن شہروں میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی تباہی کا مشاہدہ کریں۔ عطا ربانی نے ایسا نہ کیا۔
 ایئر مارشل اصغر خان جو اس وقت پاکستان ایئر فورس کے کمانڈر۔ ان چیف تھے انکو  گمنام خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ عطا ربانی نے جرمنی کے دورے والی شرط پوری نہیں کی۔ مگر سفری اور دیگر اخراجات حاصل کر لیے ہیں۔
 ایئر چیف نے عطا ربانی کو طلب کیا اور پوچھا کہ کورس کے قواعد کے مطابق اس نے جرمنی کا دورہ کیا تھا؟ عطا ربانی کا جواب ”ہاں“ میں تھا! انہوں نے عطا ربانی کو حکم دیا کہ پاسپورٹ پیش کریں۔ پاسپورٹ میں جرمنی جانے کا کوئی اندراج نہ تھا۔ قواعد کے مطابق تنظیمی کارروائی کے بعد ایئر مارشل اصغر خان نے عطا ربانی کو ایئر کموڈورکے عہدے سے معزول کرکے فلائیٹ لیفٹیننٹ (بریگیڈیئر سے کیپٹن )بنانے کا حکم دیا۔ اس وقت ایئر وائس مارشل رحمان۔ جنرل سٹاف آفیسر  پی ایف ہیڈ کوارٹرز میں تعینات تھے۔ جنہوں نے ایئر مارشل اصغر خاں کو بتایا کہ عطا ربانی مستقل  ونگ کمانڈر کا عہدہ رکھتے ہیں۔ اس لئے اس سے نیچے تنزلی سے قواعد و ضوابط کے مطابق مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔چنانچہ انہیں ایئر کموڈور سے تنزلی کرکے ونگ کمانڈر بنا  دیا گیا۔ چند سال بعد گروپ کیپٹن بطور بیس کمانڈر کوہاٹ ریٹائر ہوگئے۔
 اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسا شخص جو قسمت کا تکالگنے سے آزادی کے وقت قائداعظم کے بطور گورنر جنرل عملہ میں شامل ہوگیا۔ جس کی ملازمت کا کچھ کردار اوپر بیان کیا گیا ہے۔ان کو قائداعظم کے کردار پر رائے زنی کرنے اور وہ بھی اس طرح جس طرح انہوں نے کی،  اس کا حق ہے یا نہیں؟ مزید برآں رضا ربانی کے والد محترم عطاربانی کیساتھ نیوی کی جانب سے  تعینات  کیے گئے اے ڈی سی احسن نیول چیف اور آرمی سے گل حسن  آرمی چیف بنے جبکہ عطاربانی جو  قوم کے باپ قائد اعظم کی غلطیاں تلاش کرتے رہے  تنزلی کے سزاوار ٹھہرے۔

بے ضمیری

اتنی تیزی سے انسان کی صحت نہیں گرتی، جتنے کم وقت میں وہ خود گر جاتا ہے، یہ آواز ایک سٹور سے اُس آدمی کو آئی، جو ابھی ابھی جعلی ادویات کی سپلائی کرکے دروازے کی طرف پلٹا تھا، اِس سپلائر کی وجہ سے نہ جانے کتنے ہی افراد مختلف بیماریوں اور موت کے جنگل میں جاچکے تھے، اِس کے ہاتھ دروازے کے ہینڈل اور قدم زمین پر ہی جمے رہ گئے، یہ چونک پڑا، یہاں تو کوئی بھی نہ تھا، فقط اِس کا ضمیر تھا، جو اس سے باتیں کررہا تھا: 

خوش فہمی میں جینے والے ہم کو سن کر چونک پڑے

ان کو یہ معلوم نہیں تھا ہم بھی باتیں کرتے ہیں

ہر انسان کی 2 شکلیں ہوتی ہیں، ایک وہ جو دوسروں کو نظر آتی ہے اور دوسری وہ' جو ہم خود اپنی دیکھتے ہیں، انسانی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے، آدمی کا ضمیر بھی دو ہی صورتوں میں جاگتا ہے، اپنے ہاتھوں کسی کا نقصان دیکھ کر ہمارے اندر کی صورت یعنی ہمارا دل بے چین ہوجائے، نہیں تو پھر ظاہری طور پر ردعمل یا سزا کے خوف سے، وہ انسان کتنے خوبصوت ہوتے ہیں جو اپنی اندرونی صورت کو بھی بنا سنورا رکھتے ہیں، زندگی کے مقصد، اپنے رویوں پر غور اور کتابوں کے مطالعے سے خود کے دل اور دماغ کھلے رکھتے ہیں، اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، کوئی خطا ہوجائے تو معافی کے طلبگار ہوتے ہیں، کوئی غلطی کر کے احساس ندامت میں دِکھے تو اسے گلے لگا لیا کرتے ہیں۔ ایسوں کی تعریف کرنی چاہیے۔

مگر وہ لوگ جو اپنے غیرقانونی رویوں، غیرآئینی چال چلن کے ذریعے' اپنے معاشرے، اپنے ملک کو ہی کھوکھلا کرنے پر تلے رہتے ہیں، ایسی بھولی بھالی دکھتی صورتوں کو ہمیں بے نقاب کرنا چاہیے، اپنے وطن کو کھوکھلا کرنے میں سب سے بڑا کردار اُن بے ضمیروں کا ہوتا ہے، جو ہم وطنوں کی صحت کیساتھ کھیلتے ہیں، اگر ہم وطن ہی جسمانی و دماغی طور پر صحتمند نہیں رہیں گے تو بتائیے ایک تندرست و توانا، ایک کامیاب اور روشن معاشرہ اور وطن کیسے قائم ہوگا؟ کئی دن میں اس پر غور کرتا رہا، تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ آج کل، جب عالمی ادارہ صحت نے غیر معیاری ادویہ سازی سے متعلق جن 13ممالک پر سرخ لکیر لگائی ہے، ان میں ہمارا وطن بھی شامل ہے، تو ایسے بیمار ماحول میں،کون سا ملک اور کون سا معاشرہ ایسا ہے، جو ترقی کرسکتا ہے؟

ہم بیمار ہوجائیں تو علاج کے مراحل تک رسائی کیلئے دنیا کے 195ممالک میں ہمارا نمبر 154ویں پر آتا ہے، یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارے ہاں علاج کی سہولتوں کا کیا معیار ہے۔ ایسی صورتحال میں جو مریض ہسپتال جائے گا، اور ان کیساتھ جو لواحقین ہوں گے، پہلے سے ہی منتشر ان اذہان پر مزید کیا کیا نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہوں گے؟ ہم کس قدر بے ضمیر، بے حس ہوگئے ہیں کہ ہسپتالوں میں ہڑتالوں کے ذریعے بیمار ہوئے لوگوں کی رہی سہی عزت نفس بھی مجروح کرتےہیں، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

ایک خبر یہ ہے کہ پاکستانی سماج خطرناک حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس حد تک کہ 2023 میں 3 کروڑ سے زائد پاکستانی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوئے۔ ڈپریشن' ان نفسیاتی امراض میں پہلے نمبر پر آیا۔ ہمارے وطن کی کل آبادی کا 35 فیصد ڈپریشن، خوف یا فکر میں مبتلا ہوکر انزائٹی کا مریض بن گیا ہے۔ ہر چار میں سے ایک پاکستانی کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان خودکشی کے اعتبار سے دنیا میں سولہویں نمبر پر ہے۔ جب ہم بطور معاشرہ ایک دوسرے کی مدد میں ناکام ہوجائیں۔ مذہبی رواداری، محبت اور ایک دوسرے کے احترام کی اپنی صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت سے ہم بے وفائی کرنے لگیں۔ جب سرکاری اداروں میں لوگ اپنے جائز کاموں کیلئے دھکے کھانے پر مجبور ہوں۔ جب ریاست قانون کی رٹ برقرار رکھنے، اپنے لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام دکھائی دے، تو ایسے ملک کے شہری مایوسی اور ڈپریشن میں مبتلا نہ ہوں تو کدھر جائیں؟

وزرا صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کی جانب سے ہڑتالی ڈاکٹروں سے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ ہو، یا جعلساز مافیا کیخلاف چھاپے، ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کا قدم ہو، کرپٹ اور کام چوروں کیخلاف نوٹالرینس پالیسی، یا ایم ایس کی تعیناتی کیلئے 9 رکنی کمیٹی کا قیام، ایسے کاموں سے نظام صحت کا بگڑا چہرہ سنورے گا، اس کے نکھار میں آہستہ آہستہ بہتری آتی جائیگی۔ کلینک آن ویلز،ادویات کی گھروں تک فراہمی،ایئرایمبولینس کے وجیہہ منصوبے، جن پر سرکاری اہلکار بہتر طور پر عمل کرواسکیں، تو یہ شہریوں کی ذہنی، جسمانی، سماجی اور روحانی صحت پر نہایت اچھے اثرات مرتب کریں گے۔

اچھے اور برے کی تمیز ختم ہوجانا بے ضمیری کہلاتی ہے۔ ہمارے ملک کا نظام حکومت جمہوری ہے۔ جو بڑے سے بڑے بُرے فرد کو بھی جزا اور سزا کے ذریعے اچھا انسان بنانے کی صلاحیت رکھنے والا ایک بہترین نظام حکومت ہے۔مساوات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ جمہوری نہیں بن پارہا۔ اگر کوئی غلط کام کرتا ہے تو وہ کیوں بچ نکلتا ہے؟ اچھا کام کرنے والے سراہے جانے کی بجائے عدم تحفظ کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟

کئی بار میرا دل چاہا کہ اُن لوگوں سے باتیں کروں جو جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ کہلاتے ہیں۔ پھر ان کی عادات و اطوار آپ کے سامنے رکھوں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک روز میری ملاقات ہمارے "نظام صحت کی پرچھائی سے ہو ہی گئی، میں نے آپ کی طرح نظام صحت کی تصویر پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ بس یہی سن رکھا تھا کہ ہمارا صحت کا نظام بھی انتہائی خراب ہے۔ یہ بھی کہ جیب بھاری ہو تو یہ ملک جعلسازوں کیلئے جنت ہے۔ اُس پرچھائی کا دعوٰی تھا کہ وہ دماغ کا سب سے بڑا ڈاکٹر ہے۔ اور واقعی اُسے لوگوں کو اپنی طبی لیاقت و صلاحیت کے سمندر میں ڈبو دینے کا فن بخوبی آتا بھی تھا۔ اپنے اپنے شعبہ میں نامور مریض اس کے کلینک کے بستر پر پڑے رہتے تھے۔ پھر ایک دن انکشاف ہوا، یہ تو ایک جعلی ڈاکٹر ہے۔ 14 سال تک جو جیل روڈ پر بیٹھ کر صحت کے اداروں کی زمینی کارکردگی پر جعلی پریکٹس کا ہل چلاکر مریضوں کے جسموں میں اپنی نقلی ادویات بوتا رہا۔ پی ایچ سی نے جس کیخلاف جعلسازی کا پرچہ بھی کٹوایا۔ لیکن یہ ہمارے عدالتی نظام کی مہربانی سے پھر بھی آزاد ہے۔ جعلی پریکٹس کا کوئی ایک شاہد نہیں، آپ کو بھی ایسی پرچھائیوں کے نظاروں کا موقع ملا ہوگا۔ قومی اسملبی میں ہوا وہ انکشاف ابھی تک کیا ہمارے کانوں میں رس گھول رہا ہے کہ' بہت سے ڈاکٹرز  نے بیرون ملک جائے بغیر ہی' ایم بی بی ایس کی جعلی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں؟

آج جو دن ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہی یونان پر آیا تھا۔ وہی یونان، جو دنیا کو جمہوری طرز حکومت کا تحفہ دینے والی سلطنت سمجھی جاتی ہے۔ ایک دن جب یونانی غیرجمہوری ہوکر ایسے بے ضمیر ہوئے،کہ ہماری طرح تقسیم در تقسیم ہوکر آپس میں ہی لڑنے لگ گئے تھے۔ وہاں کے حکمران معاشرے میں امن و انصاف قائم کرنے کی بجائے ستم کی ایسی پالیسیاں بناتے رہے کہ روم کو اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا۔ پھر داخلی طور پر کمزور ہوجانے والے یونان نے اپنی مضبوط ترین افواج کے باوجود رومیوں کے ہاتھوں ایسی عبرت ناک شکست اٹھائی کہ ایک عظیم الشان سلطنت صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے:جہاں کے لوگ ایک دوسرے کو لوٹ کھانے کی بجائے اچھے اور برے کی پہچان کریں، اورجہاں کی حکومتیں کرپٹ نظام کیساتھ کمزور طرز حکمرانی پیش کرنے کی بجائے' مساوات، انصاف کو روزمرہ کے معمولات میں ضم کرنے کی پالیسیاں اختیارکریں، تو صرف ایسے ہی ملک اور صرف ایسے ہی معاشرے ہوتے ہیں، جو دنیا میں قائم رہتے ہیں۔

ناکام کون ہوا: تحریک انصاف یا اسٹیبلشمنٹ ؟

اسٹبلشمنٹ  اپنے اسپ تازیوں کی معیت میں مکمل ناکامیوں کے بعد اب اپنے آخری راؤنڈ کی جانب گامزن ہے جہاں ایک جانب اینٹی اسٹبلشمنٹ ووٹر کو انگیج کرنے کےلیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پرانے سیاستدانوں کو میدان میں اتارا جانا ہے جبکہ تحریک انصاف کو کرش کرنے میں مکمل ناکامی کے بعد اب حکومت میں اسے کنٹرول کرنے کی پلاننگ کے تحت اپنے لوگوں کو پھر سے پارٹی کے اندر داخل کرنے کا پلان ہے۔ کچھ لوگ اس حوالے سے فواد چوہدری کا اور کچھ زبیر عمر کا نام لے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کےلیے اب نئی صورتحال پیدا ہو رہی ہے ۔ سیاسی سپیس بھی بڑھ رہی ہے۔ عمر ایوب اور شبلی فراز نے مشکل ترین وقت میں پارٹی کو سنبھالا اور گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ خصوصاً عمر ایوب کی لیڈرشپ کو  خان صاحب قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ جیسے نو مئی کے بعد نئی قیادت کو سامنے لایا گیا ، اب دوبارہ نئی سیاسی صورتحال میں  پرانی قیادت کو آگے لانے کا وقت آ چکا ہے۔ شیر افضل مروت جیسے جنونی افراد بھی تحریک انصاف میں ایک اچھا اضافہ تھے لیکن وہ دماغ کی بجائے زیادہ تر دل سے اور کبھی کبھی اپنے ٹخنوں یعنی گٹوں سے سوچ کر بات کرتے ہیں تو پارٹی کے لیے آسانی کی بجائے مشکلات پیدا کر دیتے ہیں۔
عارف علوی یا اعظم سواتی میں سے کسی کو جنرل سیکٹری کا عہدہ دینا ہو گا جبکہ اسد قیصر ، عاطف خان ، علی امین گنڈاپور ، میاں اسلم اقبال ، شیخ وقاص اکرم  اور علی محمد خان کا استعمال کرتے ہوئے نئی سیاسی صورتحال پہ نئی سیاسی حکمت عملی کا اطلاق کرنا ہو گا۔  اب اسٹبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست ٹکر کے بجائے سیاسی چالوں کا وقت آ چکا ہے لہذا اسٹبلشمنٹ کے بارے میں نرم رویہ رکھنے والوں کو بھی استعمال کرنا ہو گا ۔ یہی گیم کا سب سے اہم حصہ ہے ۔ شاہ محمود قریشی اگر اس صورتحال میں باہر آتے ہیں تو تحریک انصاف ایک بہترین سیاسی گیم کھیل سکتی ہے اور موجودہ چھوٹے بڑے مسائل پہ آسانی سے قابو پا سکتی ہے ۔ 
اسٹبلشمنٹ کو ادراک ہو چکا ہے کہ تحریک انصاف کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہا۔ اب اس گیم کو وہ جلدی کلوز کرتے ہیں یا سال ڈیڑھ پہ محیط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کا اندازہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے سے ہو جائے گا۔ 
اگر تحریک انصاف کی سیٹیں دوسری پارٹیوں کو دی جاتی ہیں تو پھر اسٹبلشمنٹ اگلے ایک ڈیڑھ سال تک تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہچانے کے حصے پہ عملدرآمد کرے گی لیکن بدترین معیشت میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ اگر مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو مل جاتی ہیں تو پھر یہ اسٹبلشمنٹ کی جانب سے قدم پیچھے ہٹانے کا اعلان ہو گا۔ اگر سیٹیں کسی کو نہیں ملتیں جس کا امکان بہت زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ اسٹبلشمنٹ تحریک انصاف کا راستہ روکنے کے بجائے تحریک انصاف کو اگلی حکومت میں مفلوج اور قابو کرنے جبکہ اس کا ووٹ توڑنے اور پارٹی میں تقسیم پیدا کرنے کے منصوبوں پہ عمل پیرا رہے گی ۔ فیصلہ یہ بھی آ سکتا ہے کہ جتنے لوگوں تحریک انصاف کے ساتھ اپنے کاغذات نامزدگی میں وابستگی ظاہر کی جن کی تعداد دو سے تین درجن ہے ان کے مطابق تحریک انصاف کو مخصوص سیٹیں دے دی جائیں۔
اس دوران تحریک انصاف سے مذاکرات اور کچھ حد تک مزید سیاسی سپیس کے بڑھنے کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔ 

ایک بات ہمیشہ ذہن نشین کیجیے کہ تحریک انصاف کو ملنے والی سیاسی سپیس کبھی بھی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں ہونی بلکہ عمران خان کی استقامت ، آٹھ فروری کو قوم کا فیصلہ ، جبکہ امپورٹڈ ٹولے کی بدترین خارجہ اور داخلی محاذ پہ ناکامی اور بدترین معاشی کارکردگی کے باعث ہو گی ۔ بادی النظر میں ادارے کی جانب سے حافظ کا بوجھ اتارنے کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں ۔ فی الحال تحریک انصاف کے کارکنان کو کسی ڈیل شیل کی خبروں پہ یقین کرنے کے بجائے سیاسی جدوجہد پہ یقین رکھنا ہےاور پارٹی تقسیم کی سازشوں ، نئی اینٹی اسٹبلشمنٹ قوتوں کی انٹری ، حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات اور لفافوں کی جانب سے نئے بیانیوں کی لانچنگ پہ نظر رکھنی ہے!

بریگیڈیر حمزہ کا قتل:را موساداور ریڈ پرنس

موساد کے لیے کام کرنے والی ایریکا میری چیمبرز کا بظاہر تعلق لبنان میں فلسطینیوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والی تنظیم سے تھا۔اس کا زیادہ تر وقت برطانیہ میں گزرتا۔اسے خصوصی مشن پر بیروت جانے کو کہا گیا۔بیروت میں وہ علی حسن سلامہ کے معمولات کو نوٹ کرنے اور ریکارڈ رکھنے لگی۔ سلامہ کو یاسر عرفات کا متبنیٰ تھا وہ انہیں اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے۔تربیت کے طور پر وہ رنگین مزاجی سمیت ساری سرگرمیاں چھوڑ کر بیروت میں رہائش پزیر ہوگئے۔  سلامہ  کے اپارٹمنٹ کے قریب ایریکا نےآٹھویں منزل پر ایک فلیٹ کرائے پر لیا تھا۔ موساد کےدیگر لوگ بھی کینیڈین اور برطانوی پاسپورٹ پر بیروت میں داخل ہوئے۔ 
ایک اندھیری رات  اسرائیلی بحریہ کی ایک کشتی بیروت کے قریب ایک ویران ساحل پر اتری ۔کشتی میں دھماکہ خیز مواد تھا، جو کرائے کی کاروں میں لادا گیا تھا۔ٹیم لیڈر نے ایک کار میں بارود نصب کیا۔ یہ کاریں اس لین میں کھڑی کی گئيں جہاں سے سلامہ کا قافلہ روزانہ گزرتا تھا۔
یہ 22 جنوری 1979 کی سرد صبح تھی۔ایریکا اپنے فلیٹ سے گاڑی دیکھ سکتی تھی۔ علی حسن کی شیورلیٹ جیسے ہی معمول کے مطابق تیز رفتاری سے گزری ایریکا ژونگ نے ریڈیو پر بٹن دبا دیا۔ زور دار دھماکہ ہوا اور علی حسن کی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے۔انکا باڈی گارڈ مر چکا تھا،  وہ ابھی تک سانس لے رہے تھے۔ انھیں ہسپتال لے جایا گیا مگر بچ نہ پائے۔دھماکے کی رات، ایریکا اور انکا دوست اسی سنسان ساحل پر اسرائیلی بحریہ کی کشتی پر سوار ہوئے اور لبنان میں اپنا جرم چھوڑ کر  نکل گئے ۔

1972 سے 1979 کے درمیان یورپ اور عرب ممالک میں ایک درجن سے زائد فلسطینیوں کو ’ریتھ آف گاڈ‘ مہم کے تحت قتل کیا گیا۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بلیک ستمبر اپریشن میں ملوث تھے جس کے تحت جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والے اولمپکس گیمز کے دوران 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو فلسطینی جنگجوؤں نے اغوا کرنے کے بعد اسرائیل میں قید سیکڑوں فلسطینیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر ایک ایک کر کے دو کو ہلاک کیا باقی جرمن اداروں کے آپریشن میں ان کے اناڑی پن کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ آٹھ میں سے پانچ اغوا کار بھی مارے گئے تھے۔تین گرفتار ہوئے جن کو فلسطینیوں نے جرمن لفتھانسا طیارہ اغوا کر کے چھڑا لیا تھا۔
اپنے 11 کھلاڑیوں کی ہلاکت   کا بدلہ لینے کے لیے موساد نے اپریشن ریتھ آف گاڈ لانچ کیا۔16 اکتوبر 1972 کو فلسطینی مترجم وائل زیویٹر یورپ میں آپریشن ’خدا کا غضب‘ کا پہلا ہدف بنے جبکہ علی حسن سلامہ عرف ریڈ پرنس آخری ٹارگٹ تھے۔اسرائیل اور اس کے حامی اس اپریشن کو  بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل کسی بھی وقت کہیں بھی پہنچ سکتا ہے اور کسی کو بھی مار سکتا ہے۔مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔حملہ آوروں میں ایک جمال الگاشی  بھی تھے۔ 90 کی دہائی کے اواخر تک روپوشی میں انٹرویوز بھی دیتے رہے۔


چند روز قبل برگیڈیئر ریٹائرڈ امیر حمزہ کو جہلم کے قریب قتل کر دیا گیا تھا ۔لاہور کے رہائشی امیر حمزہ اپنی اہلیہ صفیہ اور بیٹی مسکان کے ہمراہ دوسری بیٹی سے عید پر ملنے  للا ٹائون سےچکوال جارہے تھے۔بھیرا انٹر چینج کے قریب  دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار  افراد نے گاڑی پر فائرنگ شروع کردی، سر اور جسم کے دیگر حصوں پر گولیاں لگنے سے بریگیڈیئر صاحب موقع پر دم توڑ گئےجبکہ بیٹی اور اہلیہ  شدید زخمی ہوئیں۔مقتول کے بھائی کی طرف سے درج کرائی گئی ایف ائی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے فائرنگ کے بعد گاڑی کے پاس جاکر باقاعدہ تسلی بھی کی بھائی زندہ تو نہیں ہے۔
بھارتی میڈیا  کہہ رہا ہے کہ بریگیڈیئر امیر حمزہ سنجوان کیمپ حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ وہ آئی ایس آئی کے اعلی عہدے پر فائز تھے۔ایک بھارتی اردو اخبار نے تو سرخ جمائی ہے پاکستانی سرزمین پر ہندوستان کے ایک اور دشمن کا خاتمہ کر دیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کے جموں شہر کے وسط میں سنجوان فوجی کیمپ پر 11 فروری 2018 کو جنگجوئوں نے دھاوا بول کر چھ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔زخمیوں میں پانچ خواتین سمیت نو افراد شامل تھے حملہ اوروں کی تعداد چار تھی بھارتی ''سورما" فورس نے ان پر قابو پانے کے لیے 30 گھنٹے لیے .بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے مقابلے میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کا تعلق جیش محمد سے بتایا گیا تھا۔
سب سے پہلے ٹائمز اف انڈیا کی طرف سے بریگیڈیئر حمزہ کا تعلق آئی ایس آئی آئی سے جوڑاتھا۔بھارتی میڈیا کے جھوٹ کی قلعی امیر حمزہ کے جاننے والوں اور پاک فوج کی طرف سے کھول دی گئی۔ امیر حمزہ پاک فوج سے 2016 میں ریٹائر ہوئے۔2018 تک 1122  کے ڈائریکٹر جنرل رہے ۔اس کے بعد انہوں نے کوئی دوسرا ادارہ جوائن کر لیا ۔سنجوان حملہ 11 فروری 2018 میں ہوا ۔مزید برآں برگیڈیئر امیر حمزہ کبھی آئی ایس آئی کا حصہ نہیں رہے ۔بھارتی را  بڑے بڑے آپریشن اور دہشتگردی کی وارداتیں کرتی ہے۔ گارڈین اپنی بھارتی دہشت گردی میں پاکستان کے اندر 20 افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی رپورٹ دے چکا ہے۔ ان 20 لوگوں کے خون کا بدلہ اداروں پر ادھار ہے ۔برگیڈیئر امیر حمزہ کے مرڈر میں بھارتی ہاتھ نظر نہیں آتا "را " اس قتل کا کریڈٹ سمیٹ رہی ہے۔ اگر اس نے واقعی یہ سارا کچھ کیا ہوتا تو اپنے  میڈیا کو مکمل تفصیل جاری کر چکا ہوتا ہے کہ برگیڈیئر امیر حمزہ کب اور کہاں کہاں سروس کرتے رہے۔ سنجوان کیمپ حملے میں ان کا کیا کردار تھا ؟؟ را خود کو موساد کی طرح منصوبہ ساز باور کروانا چاہتی ہے۔ 

پنڈدادنخان میں سابق ڈی جی ریسکیو بریگیڈیر (ر) امیر حمزہ کے قتل کا مقدمہ درج
امیر حمزہ کی بظاہر کسی سے ایسی دشمنی نہیں تھی کہ مخالف ان کی جان کے در پہ ہو جاتے مگر ان کی ایک دو ایسی مخالفتیں ضرور تھیں جو سیٹل ہو چکی تھیں ۔بھارت کے بے بنیاد دعوے کو باطل ثابت کرنے کے لیے برگیڈیئر امیر حمزہ کے قتل کے محرکات کو سامنے لانا نہایت ضروری ہے۔

2025 کو انتخابات

اچانک آندھی چلی،نمبردار کی بیٹی کا دوپٹہ اڑ کرمراسی کے گھر جاگرا،مراسی نے ادب واحترام سے اٹھایا،مٹی لگی ہوئی تھی،سرف ایکسل سے دھویا،خشک ہوا تو سوچا اب اسے نمبردارکے گھر دے آتاہوں،لیکن غور سے دوپٹہ دیکھا تو معلوم ہوا اسے پیکو ہونےوالی ہے،مراثی بھاگ کر شہر گیا اور دوپٹے کو پیکو کرالایا،ساتھ اس کی خوبصورت پیکنگ بھی کرالی،گھر واپس آیا۔شام کونمبردارکے دروازے پر دستخط دی،نمبردارباہرآیااور بولا،او اللہ دتیہ !!

خیر اے۔۔۔مراثی بولا،نمبردارصاحب رات کو جب آندھی چلی تھی بیٹی کا دوپٹہ اڑکر ہمارے گھر چلا گیا تھا،اسے واپس کرنے آیا ہوں،نمبردار کی بیٹی بھی ساتھ کھڑی تھی،مراثی نے اسے پیکٹ تھما دیا،سکینہ نے پیکٹ کھولا،دیکھا،مراثی بولا،بیٹی !! دیکھو میں نے آپ کے دوپٹے کو پیکو بھی کروادی تھی،سکینہ کی ہنسی نکل گئی،مراثی پریشان ہوگیا، کہ۔۔۔اس نے کتنی محنت اور محبت ،خلوص،احترام سے یہ سب کچھ کیا کہ نمبرداراوراسکی بیٹی خوش ہوجائے اور کچھ حاصل کرسکوں،لیکن ۔۔۔۔ مراثی بولا،بیٹی آپ ہنسی کیوں ہیں۔۔۔ ؟مریم کیوں ہنسی ؟ بعد میں بتاتا ہوں،اس سے ملتی جلتی ایک خبر یاد آگئی۔۔۔

عام انتخابات2025 کو ہونے جارہے ہیں ۔۔۔ کیسے اور کیوں ؟ آپ نے سنا ہوگا ’’کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی ‘‘ ۔۔۔ ن لیگ نے جتنے بھی الیکشن جیتے سب دھاندلی سے جیتے،پہلی بار جے یوآئی بنا کر میدان مارا،جے یوآئی کیسے بنی،کس نے بنائی،سب جانتے ہیں،لکھنے کی ضرورت نہیں،دوسری بارپیپلز پارٹی کودیوار سے لگانے کیلئے فرمائشی طور پر دوتہائی اکثریت دلوائی گئی،تیسری بار سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مہربانیوں سے آر اوز کے ذریعے عوام مینیڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا۔۔۔اب کی بارقاضی اور کمپنی کی مدد سے ایک بارپھر آر اوزکے ذریعے واردات ڈالی گئی۔۔۔ اور اس بار کاٹھ کی ہنڈیا کو آگ لگ گئی ہے۔۔۔اس بار عدلیہ کے بجائےبیوروکریٹس کوآراوز بنایا گیا تھا،قاضی صاحب کی مہربانی سے۔۔۔ وہ کیوں؟وارداتیوں کوخبرمل گئی تھی،اس بارججز انکے مطلوبہ نتائج نہیں فراہم کرینگے،سول ججزپکا ارادہ کرچکے تھے کہ دھاندلی نہیں ہونے دینگے،اس لئے بیوروکریٹ سے انتخابات کروائے گئے۔۔۔

رات کے 12بجے تک کوئی حلقہ ایسا نہیں تھا جہاں پی ٹی آئی کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کا امیدوار جیت رہا ہو،اسکے بعد نتائج روک لیئے گئے اورآراوز کے پیچھے ٹیمیں چڑھ گئیں،کسی کوبلیک میل کرکے،کسی کو لالچ دیکر،کسی سے زبردستی مرضی کے نتائج حاصل کرلئے گئے،تحریک انصاف نے بھی پلاننگ کی ہوئی تھی ،انہوں نے فارم45حاصل کئے بغیر پولنگ اسٹیشنز نہ چھوڑے،جب آراوز نے فارم47 جاری کئے تو ٹیمپرنگ پکڑی گئی،چور چوری کرتے وقت کچھ نشانات ضرورچھوڑ جاتاہے جس سے وہ پکڑا جاتا ہے،اگلی غلطی الیکشن کمیشن سے ہوئی ،اس نے وہی ٹیمپرڈ فارم47 اپنی ویب سائٹس پرڈاؤن لوڈ کردیئے۔۔۔بات ٹربیونل تک پہنچ گئی،اس میں ہائی کورٹس کےججز شامل ہیں،اسلام آبادکے تین حلقوں سے بات شروع ہوئی،جب ٹربیونل نے حکم دیا کہ ن لیگ کے رکن اسمبلی اپنےاصل فارم45جمع کرائیں اور ساتھ حلف نامہ بھی جمع کرائیں،اس حکم نے لیگی ارکان کی نیندیں اڑا دیں،وہ جانتے ہیں فارم45 میں تو وہ ہارے ہوئے ہیں،فارم45ٹیمپرڈ ہے،اس سے ان کی ایم این اے شپ ختم ہوجائے گی اور رہا حلف نامہ وہ جھوٹا ثابت ہوجائے گا،جس کی سزا تین سال قید ہے،تین سال قید کے ساتھ پانچ سال کیلئے نااہلی بھی ہوجائے گی،یعنی کہ رکن قومی اسمبلی بھی نہ رہے،ساتھ تین سال قید اور پانچ سال کیلئے نااہلی۔یہ سب کچھ خوفناک حد تک معاملہ جارہا تھا،تینوں ایم این ایز الیکشن کمیشن کے پاؤں پڑ گئے کہ بچاؤ حضور،الیکشن کمیشن نے ٹربیونل کوکام سے روک دیا اور نئےٹربیونل کے پاس کیس بھیجنے کا حکم جاری کردیا،پی ٹی آئی کے ارکان ہائی کورٹ پہنچ گئے،اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکش کمیشن کاحکم معطل کرکے پرانےٹربیونل کو کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔۔۔

آگے چلتے ہیں لاہور کے ٹربیونل کی طرف،یہاں صرف دوججوں کو ٹربیونل کیلئے تعینات کیا گیا تھا،لیکن چیف جسٹس شہزاد ملک میں اس ٹربیونل میں مزید ججزبھیج دیئے تاکہ کیس جلدنمٹا دیئے جائیں،اس پر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ چلا گیا ،لیکن عدالت عظمیٰ نے سٹے آرڈر نہیں دیا،ٹربیونل کوکام جاری رکھنے کاحکم دے دیا،اس ٹربیونل نے مریم نواز،حمزہ شہباز،عون چوہدری ،علیم خان کو حکم دےدیاہے کہ اپنے فارم45جمع کرائیں اور ساتھ حلف نامے بھی جمع کرائیں۔اس حکم پر چاروں ارکان،خاص طور پر وزیراعلیٰ مریم نواز دیواروں سے سرٹکرا رہے ہیں۔مریم نواز چیخ رہی ہیں،اوپر بلکہ بہت اوپر رابطےکررہی ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟اب تک کی اطلاعات کے مطابق کوئی حل نہیں نکل رہا۔یہ سات ارکان ٹریلر ہے،فلم اس کے بعدچلے گی کیونکہ تحقیقات کے مطابق ن لیگ نے صرف سترہ سیٹیں جیتی ہیں۔۔۔

ایک توایوان سے فارغ ہوں گے،دوسرا تین سال قید اور پانچ سال کیلئے نااہلی،اس طرح اگلےالیکشن میں ن لیگ کی طرف سے کوئی الیکشن لڑنے والانہیں ہوگا،پورا شریف خاندان سزا بھی کاٹے گا اور پانچ سال نااہلی بھی ۔۔۔ جہاں ن لیگ کنویں میں گرے گئی ،وہاں وہ بیوکریٹس جنہوں نے جعلی فارم 47 تیار کئے وہ بھی مارے جائیں گے،الیکشن کمیشن بھی پھنس جائے گا،عدلیہ کاموڈ آجکل بڑا جارحانہ ہے۔ اب ن لیگ کے پاس آخری آپشن کیا بچا ہے؟ جس سے وہ قید اور نااہلی سےبچ پائیں، آخری حل صرف ایک ہی بچتا ہے کہ اسمبلی توڑ دیں اور نئے انتخابات کااعلان کردیں،نواز شریف عزت بچانے کیلئےپریس کانفرنس کریں کہ وہ بے اختیارحکومت نہیں چلانا چاہتے۔۔۔نوازشریف کے قریبی ساتھی جاوید لطیف نے ایک چینل پر کہہ دیا ہےنئے اتخابات کا اعلان کیا جائے۔۔۔بس آپ سمجھیں 2025عام انتخابات کا سال ہے۔
یادآیا نمبردار کی بیٹی ہنسی کیوں؟۔۔۔۔اللہ دتہ نے پوچھا،بیٹی آپ ہنسی کیوں ہیں؟سکینہ کازوردار قہقہ نکل گیا،کہنی لگی،چاچا جی!!یہ میرا دوپٹہ نہیں،میرے ابا جی کی دھوتی ہے۔نوازشریف ہمیشہ  نمبردارکی دھوتی اس کی بیٹی کا دوپٹہ سمجھ کر پیکو کراتے رہے ہیں،اس بار تو مریم نواز نے ساتھ دیتے ہوئے پیکو کے ساتھ گوٹا کناری بھی کئی تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔اس بارراز کھل گیا وہ سکینہ کا دوپٹہ نہیں،نمبردار کی دھوتی ہے۔

2025 کو انتخابات

اچانک آندھی چلی،نمبردار کی بیٹی کا دوپٹہ اڑ کرمراسی کے گھر جاگرا،مراسی نے ادب واحترام سے اٹھایا،مٹی لگی ہوئی تھی،سرف ایکسل سے دھویا،خشک ہوا تو سوچا اب اسے نمبردارکے گھر دے آتاہوں،لیکن غور سے دوپٹہ دیکھا تو معلوم ہوا اسے پیکو ہونےوالی ہے،مراثی بھاگ کر شہر گیا اور دوپٹے کو پیکو کرالایا،ساتھ اس کی خوبصورت پیکنگ بھی کرالی،گھر واپس آیا۔شام کونمبردارکے دروازے پر دستخط دی،نمبردارباہرآیااور بولا،او اللہ دتیہ !!

خیر اے۔۔۔مراثی بولا،نمبردارصاحب رات کو جب آندھی چلی تھی بیٹی کا دوپٹہ اڑکر ہمارے گھر چلا گیا تھا،اسے واپس کرنے آیا ہوں،نمبردار کی بیٹی بھی ساتھ کھڑی تھی،مراثی نے اسے پیکٹ تھما دیا،سکینہ نے پیکٹ کھولا،دیکھا،مراثی بولا،بیٹی !! دیکھو میں نے آپ کے دوپٹے کو پیکو بھی کروادی تھی،سکینہ کی ہنسی نکل گئی،مراثی پریشان ہوگیا، کہ۔۔۔اس نے کتنی محنت اور محبت ،خلوص،احترام سے یہ سب کچھ کیا کہ نمبرداراوراسکی بیٹی خوش ہوجائے اور کچھ حاصل کرسکوں،لیکن ۔۔۔۔ مراثی بولا،بیٹی آپ ہنسی کیوں ہیں۔۔۔ ؟مریم کیوں ہنسی ؟ بعد میں بتاتا ہوں،اس سے ملتی جلتی ایک خبر یاد آگئی۔۔۔

عام انتخابات2025 کو ہونے جارہے ہیں ۔۔۔ کیسے اور کیوں ؟ آپ نے سنا ہوگا ’’کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی ‘‘ ۔۔۔ ن لیگ نے جتنے بھی الیکشن جیتے سب دھاندلی سے جیتے،پہلی بار جے یوآئی بنا کر میدان مارا،جے یوآئی کیسے بنی،کس نے بنائی،سب جانتے ہیں،لکھنے کی ضرورت نہیں،دوسری بارپیپلز پارٹی کودیوار سے لگانے کیلئے فرمائشی طور پر دوتہائی اکثریت دلوائی گئی،تیسری بار سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مہربانیوں سے آر اوز کے ذریعے عوام مینیڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا۔۔۔اب کی بارقاضی اور کمپنی کی مدد سے ایک بارپھر آر اوزکے ذریعے واردات ڈالی گئی۔۔۔ اور اس بار کاٹھ کی ہنڈیا کو آگ لگ گئی ہے۔۔۔اس بار عدلیہ کے بجائےبیوروکریٹس کوآراوز بنایا گیا تھا،قاضی صاحب کی مہربانی سے۔۔۔ وہ کیوں؟وارداتیوں کوخبرمل گئی تھی،اس بارججز انکے مطلوبہ نتائج نہیں فراہم کرینگے،سول ججزپکا ارادہ کرچکے تھے کہ دھاندلی نہیں ہونے دینگے،اس لئے بیوروکریٹ سے انتخابات کروائے گئے۔۔۔

رات کے 12بجے تک کوئی حلقہ ایسا نہیں تھا جہاں پی ٹی آئی کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کا امیدوار جیت رہا ہو،اسکے بعد نتائج روک لیئے گئے اورآراوز کے پیچھے ٹیمیں چڑھ گئیں،کسی کوبلیک میل کرکے،کسی کو لالچ دیکر،کسی سے زبردستی مرضی کے نتائج حاصل کرلئے گئے،تحریک انصاف نے بھی پلاننگ کی ہوئی تھی ،انہوں نے فارم45حاصل کئے بغیر پولنگ اسٹیشنز نہ چھوڑے،جب آراوز نے فارم47 جاری کئے تو ٹیمپرنگ پکڑی گئی،چور چوری کرتے وقت کچھ نشانات ضرورچھوڑ جاتاہے جس سے وہ پکڑا جاتا ہے،اگلی غلطی الیکشن کمیشن سے ہوئی ،اس نے وہی ٹیمپرڈ فارم47 اپنی ویب سائٹس پرڈاؤن لوڈ کردیئے۔۔۔بات ٹربیونل تک پہنچ گئی،اس میں ہائی کورٹس کےججز شامل ہیں،اسلام آبادکے تین حلقوں سے بات شروع ہوئی،جب ٹربیونل نے حکم دیا کہ ن لیگ کے رکن اسمبلی اپنےاصل فارم45جمع کرائیں اور ساتھ حلف نامہ بھی جمع کرائیں،اس حکم نے لیگی ارکان کی نیندیں اڑا دیں،وہ جانتے ہیں فارم45 میں تو وہ ہارے ہوئے ہیں،فارم45ٹیمپرڈ ہے،اس سے ان کی ایم این اے شپ ختم ہوجائے گی اور رہا حلف نامہ وہ جھوٹا ثابت ہوجائے گا،جس کی سزا تین سال قید ہے،تین سال قید کے ساتھ پانچ سال کیلئے نااہلی بھی ہوجائے گی،یعنی کہ رکن قومی اسمبلی بھی نہ رہے،ساتھ تین سال قید اور پانچ سال کیلئے نااہلی۔یہ سب کچھ خوفناک حد تک معاملہ جارہا تھا،تینوں ایم این ایز الیکشن کمیشن کے پاؤں پڑ گئے کہ بچاؤ حضور،الیکشن کمیشن نے ٹربیونل کوکام سے روک دیا اور نئےٹربیونل کے پاس کیس بھیجنے کا حکم جاری کردیا،پی ٹی آئی کے ارکان ہائی کورٹ پہنچ گئے،اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکش کمیشن کاحکم معطل کرکے پرانےٹربیونل کو کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔۔۔

آگے چلتے ہیں لاہور کے ٹربیونل کی طرف،یہاں صرف دوججوں کو ٹربیونل کیلئے تعینات کیا گیا تھا،لیکن چیف جسٹس شہزاد ملک میں اس ٹربیونل میں مزید ججزبھیج دیئے تاکہ کیس جلدنمٹا دیئے جائیں،اس پر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ چلا گیا ،لیکن عدالت عظمیٰ نے سٹے آرڈر نہیں دیا،ٹربیونل کوکام جاری رکھنے کاحکم دے دیا،اس ٹربیونل نے مریم نواز،حمزہ شہباز،عون چوہدری ،علیم خان کو حکم دےدیاہے کہ اپنے فارم45جمع کرائیں اور ساتھ حلف نامے بھی جمع کرائیں۔اس حکم پر چاروں ارکان،خاص طور پر وزیراعلیٰ مریم نواز دیواروں سے سرٹکرا رہے ہیں۔مریم نواز چیخ رہی ہیں،اوپر بلکہ بہت اوپر رابطےکررہی ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟اب تک کی اطلاعات کے مطابق کوئی حل نہیں نکل رہا۔یہ سات ارکان ٹریلر ہے،فلم اس کے بعدچلے گی کیونکہ تحقیقات کے مطابق ن لیگ نے صرف سترہ سیٹیں جیتی ہیں۔۔۔

ایک توایوان سے فارغ ہوں گے،دوسرا تین سال قید اور پانچ سال کیلئے نااہلی،اس طرح اگلےالیکشن میں ن لیگ کی طرف سے کوئی الیکشن لڑنے والانہیں ہوگا،پورا شریف خاندان سزا بھی کاٹے گا اور پانچ سال نااہلی بھی ۔۔۔ جہاں ن لیگ کنویں میں گرے گئی ،وہاں وہ بیوکریٹس جنہوں نے جعلی فارم 47 تیار کئے وہ بھی مارے جائیں گے،الیکشن کمیشن بھی پھنس جائے گا،عدلیہ کاموڈ آجکل بڑا جارحانہ ہے۔ اب ن لیگ کے پاس آخری آپشن کیا بچا ہے؟ جس سے وہ قید اور نااہلی سےبچ پائیں، آخری حل صرف ایک ہی بچتا ہے کہ اسمبلی توڑ دیں اور نئے انتخابات کااعلان کردیں،نواز شریف عزت بچانے کیلئےپریس کانفرنس کریں کہ وہ بے اختیارحکومت نہیں چلانا چاہتے۔۔۔نوازشریف کے قریبی ساتھی جاوید لطیف نے ایک چینل پر کہہ دیا ہےنئے اتخابات کا اعلان کیا جائے۔۔۔بس آپ سمجھیں 2025عام انتخابات کا سال ہے۔
یادآیا نمبردار کی بیٹی ہنسی کیوں؟۔۔۔۔اللہ دتہ نے پوچھا،بیٹی آپ ہنسی کیوں ہیں؟سکینہ کازوردار قہقہ نکل گیا،کہنی لگی،چاچا جی!!یہ میرا دوپٹہ نہیں،میرے ابا جی کی دھوتی ہے۔نوازشریف ہمیشہ  نمبردارکی دھوتی اس کی بیٹی کا دوپٹہ سمجھ کر پیکو کراتے رہے ہیں،اس بار تو مریم نواز نے ساتھ دیتے ہوئے پیکو کے ساتھ گوٹا کناری بھی کئی تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔اس بارراز کھل گیا وہ سکینہ کا دوپٹہ نہیں،نمبردار کی دھوتی ہے۔