اہم خبریں

اینٹ کا جواب: پتھر یاپھول

پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے ازلی اور ابدی دشمنی پالنے والا بھارت نہ صرف مواقع کی تلاش میں رہتا ہے بلکہ ممبئی،پٹھان کوٹ، پلوامہ حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے سانحات بھی خودبرپا کر دیتا ہے۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کروانے میں بھارتی مودی سرکار پیش پیش رہی۔ گرے سے بلیک میں دھکیلنے کے لیے پورا زور لگایا۔ پاکستان کو دو لخت کیا، دہشت گردی سے دو چار کیا۔ امریکی پابندیوں میں اسی کا ہاتھ تھا۔ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلانا، ہمارے پڑوسی اور دشمن کا مطمحِ نظر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف ہندوستان کی طرف سے جو بھی پراپیگنڈا کر کے پاکستان کو بد نام، دنیا میں تنہا کرنے کی سازش کی جاتی ہے ایسی تمام بیماریات اورمُہلکات کے قلزم میں بھارت گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ مگر زبان درازی، تیزی طراری، سازش عیاری اور مکاری اس کی سرشت میں بھری ہے۔ وہ پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرا کر دنیا کو دھوکہ دینے اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایسے دشمن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہم غنیمت جانیں اگر اینٹ کا جواب اینٹ سے ہی دیدیا جائے۔ جہاں تو ایسے حاکم بھی رہے جو دشمن کی اینٹ کا جواب پھولوں سے دیا کرتے تھے۔ یہ بہرحال جب کی بات ہے تب کی بات ہے۔

کیا پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوسکتی ہے۔۔؟؟ - شفقنا اردو نیوز
نیو یارک ٹائمز نے19اگست1999ءکو یہ خبر دی تھی: انڈین فائٹر جیٹ نے پاک بحریہ کا اٹلانٹک ایئر کرافٹ مار گرایا جس میں12افراد سوار تھے۔ یہ طیارہ تربیتی پرواز پر تھا۔ اسے پاکستان کے علاقے میں پرواز کے دوران میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ یہی خبر ہندوستان ٹائمز نے بھی اُنہی دنوں شائع کی تھی۔ اس واقعہ پر ہماری سفارتکاری سرد رہی۔26فروری2019ءکو سب کو یاد ہے بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کی ۔ اگلے روزپاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دو جہاز گرا کر دیا ۔ جس کے حکم پر قومی و ملی غیرت کا عظیم الشان مظاہرہ ہوا وہ جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔پٹھان کوٹ حملے کا مقدمہ گوجرانوالا میں درج اور ممبئی حملوں کا الزام اپنی ہی فورسز پر لگانے والوں کی پروازیں ہیں آسماں پر....۔
رواں سال 8جون کو کینیڈا میں خالصتان تحریک کے لیڈر ہر دیپ سنگھ نجر کو قتل کر دیا گیا۔ یہ بھارت کو دہشت گردی میں مطلوب تھا۔ نجر بھارت سے کینیڈا منتقل ہوئے۔ ان کو پناہ دی گئی اور اپنا شہری بھی تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے قتل کی شاید مکمل تحقیقات کی گئیں۔ بھارت کو خالصتان تحریک کے زیر اہتمام دنیا بھر کے بڑے ممالک میں ہونے والے ریفرنڈم سے شدیداختلاف ہے۔ کشمیر اور پنجاب میں وہ سکھوں اور کشمیریوں کی نسل کشی کر سکتا ہے۔ دوسرے ممالک میں ایسے دھونس نہیں چلتی۔وہ دہشتگردی سے اپنے لیے خطرہ بننے والوں کو قتل کرا رہا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جی ٹوئنٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی آئے تھے۔ جہاں ان کے ساتھ مودی کا رویہ نامناسب رہا۔مودی حکومت خالصتان تحریک کی کینیڈا میں سرگرمیوں پر اعتراض کرتی رہی۔ جسٹن ٹروڈو کے وزیرخارجہ نے ہردیپ سنگھ کے قتل کا جواب مانگا۔ جسٹن ٹروڈو کے مودی انتظامیہ کی طرف سے جہاز میں خرابی پیدا کرنے کی خبریں نشر ہو چکی ہیں۔ ٹروڈو اور مودی کے مابین جو کچھ دہلی میں ہوا اس کی تپش کینیڈا میں محسوس کی گئی۔ پھر تو ٹروڈو پھٹ ہی پڑے۔ مودی سرکارپر اپنے ملک میں دہشتگردی کے ذریعے ہر دیپ سنگھ کے قتل کا الزام لگا کر، سفارتخانے میں تعینات”را“ کے افسرکو ملک بدر کر دیا۔ جواب میں بھارت نے بھی ایسا ہی کیا۔ دونوں ممالک کے تعلقات ماضی میں کسی بھی دور کے مقابلے میں بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ نہ صرف کینیڈا سے بھارت کے تعلقات بگاڑ کے عروج پر ہیں بلکہ بھارت کے آج تک کسی بھی مغربی ملک کے ساتھ ایسے بد تر معاملات کبھی نہیں رہے۔

خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما ہردیپ سنگھ نیجر کینیڈا میں قتل
بھارت کی طرف سے یہ کینیڈا میں کی گئی دہشتگردی کی بہت بڑی واردات ہے۔ آگے چل کر معاملات کو بھارت کو دہشتگرد ریاست قرار دینے پرمنتج ہو سکتے ہیں۔ سوال جہاں یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کہاں ہے؟۔
یہی موقع ہے بھارت کی غیر ریاست میں ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے کا مگر ہمارے نگرانوں نے تو ڈیپ سلیپ میں رہنا ہی ہے۔ ریاست کہاں ہے؟ کیوں دشمن کو ایکسپوز کرنے کا موقع گنوایا جا رہا ہے ؟۔آج وزارتِ خارجہ نے جماہی لیتے ہوئے بس اتنا کہا۔"بھارت پاکستان کے اندر بھی کارروائیوں میں ملوث ہے"
حیران کن طور پر اس واقعہ سے صرف ایک ماہ قبل لاہور میں بھی ایسی ہی واردات ہو چکی ہے۔ پرم جیت سنگھ پنجوار کا قتل ہوا۔یہ بھی خالصتان لیڈر اور پاکستان میں چھپا ہوا تھا۔بھارت خالصتان تحریک کو دبانے کیلئے ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سکھوں کو مار اور مروا چکا ہے۔آخری ڈیڑھ دو سال میں پانچ بڑے لیڈر بیرون ممالک دہشتگردی کا نشانہ بنائے گئے ۔ان میں رپودمن سنگھ ملک بھی شامل ہے۔یہ 1985ءمیں ایئر انڈیا کو دھماکے میں تباہ کرنے میں مبینہ طورپر ملوث تھا،اس فلائٹ میں329مسافر ہلاک ہوئے۔دمن کو عدالت نے بے قصور قرار دیا مگر" را " نے کینڈا میں اسے جالیا۔ 
جسٹن ٹروڈو کاا چانک سے بھارت سے ٹکرانا بھی حیرتوں کے در کھول دیتا ہے۔ بھارت دو ارب صارفین کی مارکیٹ ہے جو ایک سکھ لیڈر کی خاطر کھودی جائے ؟۔ جسٹن ٹروڈو اپنی جگہ جتنے بھی درست ہوں، حق پر ہوں، سچ پر ہوں ، ان کے ہتھوڑا مار بیانات سے قربتیں دوریوںبلکہ دشمنی میں ڈھل جائیں، یہ کیا دانشمندی ہوئی؟۔معاملہ سفارت کاری کے ذریعے حل ہوسکتا تھا تھامگر بڑی تیزی اور تُندی دکھائی گئی۔یہ اچانک ایسا کچھ کیوں ہوا؟

کینیڈا اور بھارت کے مابین کشیدگی طول پکڑ گئی ٰوزیراعظم جسٹن ٹروڈوکومودی نے جی  20 سربراہی اجلاس کے دوران دو طرفہ ملاقاتوں میں دھتکاردیا تھا
 جی ٹوئنٹی کے اعلامیہ میں جو بائیڈن یو کرین جنگ میں روس کی مذمت کرنا چاہتے تھے۔گزشتہ سال بالی کانفرنس میں ایسا ہی ہوا تھا۔امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے جے شنکر سے بات کی۔شنکر نے کہا"یہ بالی نہیں نیو دہلی ہے۔روس کی مذمت نہیں کرینگے" جوبائیڈن یہ زخم لے کر دہلی سے گئے تھے ، انہوں نے اختتامی تقریب بھی مکمل نہیں کی تھی۔ مودی کے اب بُرے دن شروع ہو گئے۔ میری دو تین ایسے معاملات سے باخبر رہنے والے دوستوں سے بات ہوئی ، وہ کہتے ہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ نے مودی سے جو کام لینا تھا لے لیا۔ اب ان کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے۔ مودی جی ٹوئنٹی کانفرنس کے کریڈٹ پر اگلے سال ایک بار پھر الیکشن جیتنا چاہتے تھے مگر اس ناگہانی افتاد کا شکار ہو گئے۔امریکہ کے جال سے نکلنا مودی کیلئے ممکن نظر نہیں آتا۔ان کے ساتھ جو بھی ہونا ہے یہ الگ بحث ہے ، مودی کے انسانیت کا قاتل ہونے میں دورائے نہیں مگرانہوں نے روس کے خلاف مذمت کی ڈکٹیشن نہ لے کر خود داری اور خود مختاری ضرور دکھائی ہے۔ 

26 جنوری کو بھارتی پرچم کی توہین پر ملک کو بہت دکھ پہنچا: نریندر مودی |  Independent Urdu

دشمن مرے تاں خوشی نہ کرئیے.....اتے سجنڑاں وی مرجانڑا

پی ٹی آئی سے نفرت کیا آپ کو اتنا رزیل بنارہی ہے کہ آپ ایک معصوم بچے کی موت پہ ہوٹنگ کررہے ہیں؟؟

میں بھی پی ٹی آئی کی مخالف ہوں مگر شکر ہے پروردگار کا کہ اللہ نے انسانیت کے اعلیٰ مقام پہ فائز کیا ہے مجھے کچھ سمجھدار لوگ جذباتی کم عقل بےوقوف بھی کہتے ہیں اور میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ان جتنی سمجھدار (مکار)نہیں ہوں. میں پہلے سمجھتی تھی کہ اولاد والے ہی اولاد کا درد سمجھتے ہیں مگر نہیں. اس بچے پہ وہ لوگ بھی ہوٹنگ کر رہے ہیں جن کے اپنے بچے ہیں. فیس بک پہ کچھ سمجھدار لوگوں کی وال پہ ایسے فقرے گردش کر رہے ہیں.

"بچہ بیمار تھا مرگیا اس پہ اتنا واویلا کیوں؟"

"پنجابی کے بچے کے مرنے پہ تم لوگ واویلا کر رہے ہو بلوچستان کے لیے تو نہیں کرتے"

"بچے کا باپ دہشت گرد تھا "

"بچے کا باپ کروڑ پتی تھا"

"جان بوجھ کر شوکت خانم میں علاج نہ کروایا چاہتے تھے کہ بچے پہ سیاست کریں "وغیرہ.

پہلی بات اگر کوئی بیمار بھی ہو اور مرجائے کیا اس پہ ہوٹنگ کی جاتی ہے. بیمار کی موت پہ افسوس نہیں ہوتا؟ آپ کا بچہ بیمار ہو کیا آپ چاہیں گے وہ مرجائے؟. کون کہتا ہے کہ ہم لوگ بلوچستان کے لوگوں کا درد نہیں سمجھتے؟ میں نے بلوچستان کے لیے اتنا لکھا ہے کہ میری تو آئی ڈی ہی بند کروادی گئی تھی؟ بلوچستان کہاں ہے؟ کیا وہ پاکستان میں نہیں ہے ؟ بلوچستان میں کون دہشت گردی کروارہا ہے؟؟؟ بلوچستان کے لیے درد رکھنے والو بلوچستان کے مجرموں کے نام سرعام لو. ہر باشعور انسان ظلم پہ احتجاج کرتا ہے۔ آواز بلند کرتا ہے۔ ظلم چاہے جس پہ بھی ہو۔

بچے کا باپ دہشت گرد تھا۔

کتنا دہشت گرد تھا؟؟؟ کیا بچے کے باپ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کروایا؟ کیا بچے کے باپ نے سانحہ ساہیوال کروایا ؟ کیا بچے کے باپ نے گھر میں رکھی دس سالہ ملازمہ کے ساتھ ریپ کرکے اس کا قتل کیا؟ کیا بچے کے باپ نے دس سالہ رضوانہ کو تشدد کرکے موت کے منہ میں پہنچایا؟؟ کیا بچے کے باپ نے مساجد میں دھماکے کروائے؟ کیا بچے کے باپ نے پشاور سکول میں بچوں کو شہید کروایا؟؟ یہ وہی ملک ہے ناں جس میں یہ سب کچھ ہورہا ہے؟؟ ارے ان سانحات کے ذمہ داران کا نام لیتے تو تمہاری روح کانپتی ہے۔ 

بچے کا باپ کروڑ پتی تھا سو یہ بھی بچے کا جرم ہے کیا؟؟ اس کے باپ نے چوری ڈاکہ کرکے پیسے کمائے تھے؟ کیا اس پہ کوئی ایسا چوری ڈاکے کا کیس تھا؟ کیا بچے کے باپ نے عوام کے ٹیکس پہ باہر جاکر جائیدادیں خریدی ہیں؟ کیا بچے کے باپ نے کرپشن کی ہے؟

یہ وہی عدل پسند ملک ہے ناں جہاں رضوانہ کی مجرمہ کی ضمانت ہوچکی ہے۔ یہ وہی ملک ہے ناں جس نے سانحہ ساہیوال کے قاتلوں کو انعامات سے نوازاہے۔ یہ وہی ملک ہے ناں جہاں سے ایک کرپشن کے مجرم کو جیل سے نکال کر وزیراعظم بنایا گیا۔ یہ وہی ملک ہے ناں جس میں جیل سے نکال کے ایک شخص کو سیدھا صدر بنایا گیا۔ یہ وہی ملک ہے ناں جس عورت کا باپ چور ہے اور وہ عوام کے ٹیکس سے سرجریاں کروا رہی ہے۔ یہ وہی ملک ہے ناں کہ کرپٹ بھاگ کے لندن عیاشیاں کررہا پے۔ یہ وہی انصاف پسند ملک ہے ناں جو اسحاق ڈار چور تھا۔ کرپٹ تھا۔ اسے چور کو لاکرخزانے پہ سانپ بناکے بٹھادیا۔ اگر کوئی کروڑ پتی ہے تو کیا اس کی اولاد تڑپ تڑپ کے مرجائے؟؟

اور یہ بات کہہ کر تو حد ہی ختم کردیتے ہیں کینہ پرور لوگ کہ بچے کا علاج جان بوجھ کر شوکت خانم میں نہ کروایا۔ باپ بچے پہ سیاست کرنا چاہتا تھا۔

ہائے! کوئی جان بوجھ کر بھی بھلا اپنا بچہ مارنا چاہتا ہے ؟؟

ہائے! پتھر دل لوگو! جو کہہ رہے ہیں کہ بھلا کوئی بچہ باپ کی جدائی میں بھی اس حال میں پہنچ سکتا ہے۔ وہ بے حس لوگ ہیں۔

کل کی بات ہے میری چھ سالہ ربیع الایمان کو اس کے بہن بھائی پیار سے چھیڑ رہے تھے، وہ میرے پاس دوسرے کمرے میں آئی میں موبائل پہ لکھ رہی تھی۔ اس نے مجھے متوجہ کیا کہ بہن بھائی چھیڑ رہے ہیں۔ میں نے جب اس کی نہ سنی تو اس نے احتجاجا میرے پیٹ میں ہلکا سا مکا مار دیا۔ میں نے جان بوجھ کر ایکٹنگ کی اور آنکھیں بند کرلیں۔ پہلے تو اس نے آہستہ سی مجھے امی کہا۔ میں نہ بولی تو اس نے زور زور سے امی امی کہا میں پھر بھی آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی۔ تو چیخ چیخ کے رونے لگی۔ ماں آنکھیں کھولیں۔ پھر بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئی اور بہن بھائیوں کو لیکر آئی ماما کیوں نہیں بول رہی میں نے تو تھوڑا سا مکا مارا تھا۔ میری ماما کیوں آنکھیں نہیں کھول رہیں۔

میں نے آنکھیں کھولیں وہ دوڑ کے آئی مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کا وجود کانپ رہا تھا۔ چہرہ سہما ہوا تھا اور اس کے دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ میں مزید دس منٹ آنکھیں نہ کھولتی تو نجانے اس کا کیا حال ہوتا۔ اس کی اس حالت نے مجھے اتنا رلایا میں اسے خود سے لپٹائے روتی رہی۔ میں نے سوچا کہ اگر میں مرگئی اور ربیع مجھے ایسے پکارتی رہی تو کیا ہوگا؟؟اس سے آگے سوچوں تو روح کانپ جاتی ہے۔ یہ تو چھ سال کی ہے میری سب سے بڑی دعاءالخیر تیرہ سال کی ہے۔ میں جب بھی بیمار ہوتی ہوں وہ میرے ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ اس کے ہاتھ بالکل اس طرح کانپ رہے ہوتے ہیں جیسے ویڈیو میں اس بچے کو کانپتا دکھایا گیا ہے۔

سو خدا کی لاٹھی سے ڈرو۔ یہ بے آواز ہے۔ جن کی محبت میں تم لوگ مردہ بچے پہ ہوٹنگ کررہے ہو جب تم پہ وقت آیا ناں تو وہ تھوکیں گے بھی نہیں۔ کاپی پیسٹ کرتے وقت تھوڑا اللہ کا خوف بھی کرلیا کرو۔ بلوچستان والے تو نہ دہںشت گرد ہیں نہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز، ان پہ کیوں قیامت ڈھارکھی ہے آپ کے عزیزوں نے؟؟؟؟

یہاں سچ بولنے پہ زبان کٹتی ہے۔ سچ لکھنے پہ گردن کٹتی ہے۔ یہاں گونگے بہرے اندھے بن کے رہو۔ یہاں وہی عیش میں ہے جو خوشامدی ہے۔ دل میں اتنا کینہ بھرا ہے کہ جس نے دماغ کی کھڑکیاں بند کردی ہیں۔

بچے کے باپ کو پکڑا گیا اوکے۔ وہ دہشت گرد تھا۔

بچے کی ماں بھی دہشت گرد تھی؟ اسے کیوں پکڑا؟؟

بچے کی دادی بھی دہشت گرد تھی ؟؟ اسے کیوں پکڑا؟

فرض کیا آپ ہی سچے ہو، بچہ بیمار تھا، پھر تواور بھی بچے پہ رحم کیا جانا تھا پھر تو اور بھی ظالم ہو۔ بیمار بچے کے سامنے بچے کی ماں اور دادی سے بے جا تحقیق و تفتیش ۔۔۔۔۔ یہ کہاں کا قانون ہے؟ جو مجرم تھا وہ جیل میں تھا گھر میں کیا لینے آتے تھے عورتوں کے پاس ؟؟

خیر اگر تم لوگوں میں اتنی غیرت ہوتی تو آج ہم دلدل میں نہ دھنسے ہوتے۔ چور بازاری، ملاوٹ، لوٹ مار، قتل وغارت،ریپ کرپشن ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم نہ ہوتا۔ تم لوگ کبھی متحد نہ ہونا بلکہ آواز اٹھانے والے کی آواز بھی دبا دینا۔ بزدل قوم۔

اس کے ساتھ ہی میں بچے کے باپ سے بھی کہوں گی کہ ملک کے املاک کو نقصان پہنچا کر سڑکیں بلاک کرکے انقلاب نہیں آتے۔ نہ ہی اس سے آپ کے لیڈر کو فائدہ پہنچتا ہے۔ لیڈر اتنےاچھے نہیں ہیں کہ ان پہ اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی عزت، اپنے بچے قربان کردو۔ اگر یہ لٹیرے اتنے اچھے ہوتے تو ملک کب کا سنور نہ چکا ہوتا ۔ انھی لیڈروں گیدڑوں نے تو برباد کیا ہے جو بھی آیا لوٹ گیا جس کو جتناموقع ملا اتنا ہی کھاگیا ۔۔۔۔

جی ٹونٹی : قرض اور الیکشن مرض

پاکستان کے پڑوس میں جی ٹونٹی کانفرنس ہوئی۔اس کے بطن سے چین کے سی پیک کی مخالفت زہریلے ناگ کی مانند نکلی۔ بھارت سی پیک کی شدید مخالفت کرتا آیاہے۔ امریکہ کو بھی اس کے خلاف بیان بازی پر آمادہ کیا۔جی ٹونٹی اجلاس میں ایک اور ”سی پیک“ بنانے کافیصلہ کیا گیا جو ایشیا یورپ اور افریقہ براعظموں کو شاہراہوں کے ذریعے مربوط کریگا، چین کے سی پیک کے مقابلے میں امریکہ انڈین سی پیک۔


 اس سربراہی کانفرنس میں چینی اور روسی صدور شریک نہ ہوئے۔بائیڈن کو دلہے کا سہرا سجانے کا موقع مل گیا۔ سعودی ولی عہد کانفرنس کے خاتمے کے بعد بھی بھارت میں رہے۔ مودی، محمد بن سلمان ملاقات میں ایک سو ارب ڈالر کے 50معاہدے طے ہوئے۔ دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے کے لیے والہانہ پن کا اظہار کیا۔ بھارت دنیا کے لیے ڈیڑھ ارب لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ اس کی اکانومی اب دنیا میں چوتھے نمبر پر آ گئی ہے۔ برطانیہ چوتھے سے پانچویں نمبر پر چلا گیا۔ بھارتی زرمبادلہ کے ذخائر600ارب ڈالر، ہمارے دو سال میں17سے تین ارب پر آگئے۔ اب دس 12ارب ڈالر تک پہنچے ہیں۔ بھارت بڑی مارکیٹ ، پیچھے والا پَلّو،ہم سامنے کا دامن اور نیچے والا ہاتھ ہیں۔
 ہمارے برادر مسلم ممالک منظر نامے کو اخوت کے جذبے کی رو میں بہہ کر نہیں حقیقت کی نظر اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ محمد بن سلطان جاتے اور آتے ہوئے ہماری فضاؤں سے گزرے ۔ ہم دیدہ و دل فراش راہ کئے رہے۔وہ چلے گئے ہم رہے وضو کرتے۔امارات کے صدر محمد بن زید ہمیں ہماری اہمیت جنوری میں باور کرا گئے تھے جب وہ رحیم یار خان میں موجود تھے۔ اسلام آباد آنے کاعندیہ دیا۔ “امپورٹڈ حکومت“ نے اسلام آباد کو اس قدر سجایا اور سیکورٹی کے انتظامات کئے جس کی نقل مودی سرکار نے جی ٹونٹی کانفرنس کے موقع پر دہلی کو سنواراور حصار میں لے کر کی۔ اسلام آباد میں چھٹی کا اعلان کیا گیا مگر امارات کے صدر کو اسلام آباد میں ”اکھیاں اڈیکتی“ ہی رہ گئیں۔
میاں نواز شریف نے جی ٹونٹی کانفرنس بارے بڑا دلچسپ بیان دیا ہے۔ ”2017ءکا تسلسل رہتا تو یہ جی20اجلاس پاکستان میں ہوتا“۔ آج کے تناظر میں تو یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اسے میاں صاحب کیسے ممکن بناتے؟۔ مودی کے ساتھ میاں صاحب کے خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔آموں کا تحفہ،ساڑھیوں کا تبادلہ۔ اُدھر حلف برداری اِدھر شادی میں شرکت۔ 
جی-20 میں امریکہ، روس، چین، انڈیا، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اندونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں مودی کی خصوصی دعوت پر کانفرنس میں بنگلہ دیش، مصر، نائجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشیئس نے مہمان اور مبصر کے طور اس شرکت کی۔میاں نواز شریف کی حکمرانی کا تسلسل رہتا تو پاکستان یقینی طور پر مبصر تو ضرور ہوتا۔ پاکستان بھارت تعلقات اس نہج پر بھی جا سکتے تھے کہ مودی اپنی باری میں محمدنواز شریف کے پاکستان کو دے دیتے۔

بھارت کی جی ٹوئنٹی کی صدارت کے تحت تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق پہلے  ورکنگ گروپ کی میٹنگ ممبئی میں شروع ہورہی ہے۔ | Urdu
 میاں نوا ز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے کی ایک وجہ ان کا بھارت کی طرف جھکاؤ بھی تھا ۔یہ جنرل راحیل شریف کو پسند نہ آیا تو ان کی لٹیا ڈبونے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا جو جنرل باجوہ کے دورِ مارشل میں انجام پذیر ہوا۔ بھارت کے بارے میں جنرل باجوہ کی سوچ بھی جب وہی ہوگئی جو میاں صاحب کی تھی تو انہوں نے" سائڈ بدل لی"۔پھراوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ہی نہیں بلکہ اندر والے باہر اور باہر والے اندر ہو گئے۔
آج الیکشن کی تاریخ کا اعلان قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ نوے روز میں الیکشن کی کل مخالفت کرنے والے آج آئین کھول کر بلندآہنگ ہیں ۔ نوے روز کو ڈیڑھ دو سو روز تک لے جانے والے بھی آئین اور ”روایت“ کا سہارا لے رہے ہیں۔ کچھ کو مسائل کا حل دو تین سال کے عبوری سیٹ اپ کی تشکیل میں نظر آتا ہے۔ اعلان کس نے کرنا ہے۔ کوئی نئے قانون کا حوالہ اور کسی کو پرانے قانون میں قوی دلیل نظر آ تی ہے۔ کوئی نئے قانون کو عدالتوں سمیت قانون ہی نہیں مانتا۔عدالت کا بر سرسبیل تذکرہ آ گیا۔ عدالتوں کی کون مانتا ہے ؟۔
صدر عارف علوی اپنی مدت پوری کر چکے۔ انتخابی کالج مکمل ہونے اور نئے صدر کے انتخاب تک وہ صدر ہیں۔ سرِ دست تو صدر ہیں ،بھلے عبوری ہی سہی۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کے حوالے سے ان سے کہیں سے دباؤڈالا جا رہاتھا اور کہیں سے خبردار کیا جا رہا ہے۔ نگران حکومت وزیر اعظم اور وزیر قانون سمیت ان کو اپنے اعلان کے اختیار سے تہی قرار دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی یہی سمجھتا ہے۔ مسلم لیگ ن صدر علوی کو پی ٹی آئی کا ورکر جبکہ پی ٹی آئی نے اعلان نہ کرنے پر آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا تھا۔صدرنے عواقب و نتائج کے جائز لیتے ہوئے ”معتدل“ سا بیان جاری کردیا۔الیکشن ۶ نومبر کو ہونے چاہئیں۔یہ حکم نامہ نہیں تجویز ہے۔اگر حکم جاری کرتے تو کیا گارنٹی تھی کہ اس حکم نامے کی آتما یکم اپریل کو الیکشن کے انعقاد کے حکم نامے کی طرح نہ رُلتی۔اب تجویز کی بھی دھول اُڑائی جارہی ہے۔الیکشن نہ ہوا قومی جسد کو لگا مرض ہوگیا۔

پوری قوم دہشتگردی کے مکمل خاتمےکیلئے متحد ہے: صدر عارف علوی
لاہور ہائیکورٹ کے11ججوں کو 36کروڑ کا ہاؤس فنانسنگ سکیم کے تحت بلا سود قرض دیا جارہا ہے۔ اس پر اعتراض ، احتجاج اوررٹیں ہو رہی ہیں۔ علمائے کرام سودی کاروبار کو حرام قرار دیتے ہیں۔ یہ قرضہ بلا سود ہے۔ چلیں یہاں تو اللہ کے ساتھ جنگ سے پَرے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض سے ترقیاتی کاموں کے لئے کل تک کے ارکان قومی اسمبلی کو ایک ایک ارب روپے دیئے گئے ، ناقابل واپسی۔ ججوں نے یہ پیسے قسطوں میں لوٹانے ہیں۔ دس گیارہ یا بارہ سال میں ڈھائی لاکھ ماہانہ قسط ہے۔ ججوں کی بڑی بڑی تنخواہیں اور پینشن ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قسطیں ادا کرتے رہیں گے۔ ان کی دیانت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ اور دیگر بھی کئی جج دیانتداری کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتے ہیں۔

سیشن جج کا اپنے ہی سول جج اور اس کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ

ججوں کی دس لاکھ سے زاید تنخواہ اور دیگر مراعات اس لیے ہیں کہ وہ دو نمبری پر مائل نہ ہوں۔ کسی بھی جج کے لیے ارب پتی بن جانا بڑا آسان ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں۔ یہ11جج صاحبان ایک ایک کیس سے کئی گھروں کی تعمیر جتنی رقم بٹور سکتے ہیں۔ انہوں نے جائز راستہ چنا۔ قرض لے رہے ہیں۔ ایسا باقی اداروں کے ملازموں کے لیے بھی ہو جائے تو بہتر ہے۔اگر نہیں تو ان کو بھی محروم رکھنا ان کو کوئی اور راستہ دکھانے والی بات ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے راستے پر پختہ کار اور پکے کردار کے مالک نہیں چلتے۔

.....شاہِ ایران، مصدق:مکافات عمل مگر

جیل اور عقوبت خانے کا فرق سیلن زدہ سیل نے ختم کر دیا تھا۔کل کا وزیر اعظم آج تاریک کوٹھڑی میں چھدی ہوئی چٹائی پر بازوگھٹنوں کے گرد حمائل کئے گہری سوچ میں گم بیٹھاتھا۔ حبس کی شدت اور گرمی کی حدت کا احساس سوچوں تلے دب چکا تھا۔ بندآنکھوں کے سامنے اپنے جنرل کا چہرہ گھوم رہا تھا جس نے امریکہ کی سازش کو عملی جامہ پہنایا اور وزیر اعظم کو مجرم بنا کرکال کوٹھڑی میں لا بٹھایا۔"

میری قوم کو مشکلات سے نکالنے وطن کو ترقی و خوشحالی کی منزل سے بھی آگے پہنچانے کی خواہش اور اس کی طرف سے تیزی سے سفر ،جرم کیوں بن گیا!۔"یہ سوچیں ڈاکٹرمحمد مصدق کے دل میں اُچھل، دماغ میں اُبل رہی تھیں۔ ان کی حکومت پر انیس ستمبر1953ءکو شب خون ماراگیا۔ یہ سب کیسے ہو گیا؟ ۔ شروع میں سب کچھ مخفی تھا۔ اخفا کا پردہ امریکہ کی طرف سے اس واردات کے ساٹھ سال ہونے پر اٹھایا گیا ۔اب تو ستر سال ہوچکے ۔مزید براں کچھ کتابیں بھی لکھی گئیں۔جن سے پتا چلتا ہے، اقتدار کی غلام گردشوں اور راہداریوں میں کیسے سازشیںپنپتیں اور سنپولیئے سے سیاہ ناگ بن کر ڈس لیتی ہیں۔
یہ امریکی سی آئی اور برطانوی ایم آئی 6 کا مشترکہ آپریشن ایجیکس تھا۔ جس میں اپنے مہروں کے ذریعے وزیر اعظم محمد مصدق کو تختہ مشق بنایا گیا۔ حیران کن طور پر شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کو بڑے مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ دوسرا بڑا جنرل فضل اللہ زاہدی اور باقی بھی کئی ملاؤں سمیت ڈالرپرست نظر آئے۔ اصل مسئلہ برطانیہ کو تھا جس نے امریکہ کو ساتھ ملایا۔ 

Iran's George Washington: Remembering and Preserving the Legacy of 1953
ڈاکٹرمصدق اسمبلی میں12کے مقابلے میں79 کی بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ وہ جلد ہی آئل انڈسٹری کو قومیانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگئے: 1908ءمیں اینگلو پرشین آئل کمپنی نامی برطانوی فرم نے ایران کے خوزستان صوبے میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت کئے۔ 1914 میں برطانوی حکومت نے کمپنی کے 51 فیصد حصص خرید کر اجارہ داری قائم کرلی۔ بعد میں اس کا نام بدل کر اینگلو ایرانین آئل کمپنی کر دیا گیا۔ اس کمپنی نے آبادان میں دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری تعمیر کی۔ایرانی تیل سے برطانیہ مالا مال ہوگیا۔ رائل نیوی کے سربراہ ونسٹن چرچل نے فیصلہ کیا کہ بحری ایندھن کوئلے سے بدل کر تیل کر لیا جائے، جس سے تیل کی مانگ اور ایران کی اہمیت میں بلندی تک پہنچ گئی۔ ایران میں تیل کے تواتر کیساتھ ذخائر برآمد ہوتے گئے۔ اس تیل میں سے ایران کا کل حصہ 17 فیصد جبکہ اے آئی او سی کمپنی کا 83 فیصدتھا۔ ٹیکس، تنخواہیں اور دیگراخراجات بھی کمپنی کل رقم سے منہا کرتی تھی۔
 1951 میں اس کمپنی نے کل چار کروڑ پاؤنڈ کمائے۔ اس میں سے ایران کو صرف 70 لاکھ پاؤنڈ دیے گئے۔اسے دیکھتے ہوئے ہی ڈاکٹر مصدق نے قومیانے کی پالسی بنائی گئی۔جس پر برطانیہ کاغصہ یکدم نکتہ کھولاﺅ تک پہنچ گیا۔صورت حال کو ریورس کرنے کے لئے کئی پلان زیر غور لائے گئے۔ آبادان پر حملہ کر کے قبضے کا منصوبہ بنایا گیا مگر امریکی صدر ہیری ٹرومین نے کوریا میں جاری جنگ کے باعث حمایت نہ کی۔ برطانیہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا ۔ یہ کاوش بے سود رہی۔خلیج میں جنگی جہاز بھیج کر ایران کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی، ایرانی تیل خریدے والے ملکوں کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دیں، مگر ڈاکٹر مصدق نے ہر ایسی کوشش کے جواب میں ابسولیوٹلی ناٹ کہا۔
آخر کار برطانوی حکومت مصدق کا تختہ الٹ کر مقاصد حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے لیے امریکی سی آئی اے کی ضرورت تھی۔ وہاں ٹرومین بیٹھے تھے۔ برطانیہ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ٹرومین کوریا میں سبکی کے باعث مقبولیت گرنے پر وہ انتخابی عمل سے الگ ہو گئے۔ ری پبلکن پارٹی کے آئزن ہاور صدر چن لئے گئے۔اُدھر چرچل برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ وہ فوری طور پر امریکہ جا پہنچے۔ نومنتخب صدرکو یہ کہہ کر تعاون پر آمادہ کیا کہ مصدق چھپے ہوئے کمیونسٹ ہیں۔ کسی بھی وقت روس کے دامن سے وابستہ ہو سکتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ تھا جس پر آئزن ہاور اور ڈلس برادران( جان ڈلس وزیر خارجہ ، ایلن ڈلس سی آئی اے ڈائریکٹر) نے یقین کر لیا۔ آئزن ہاورنے آپریشن ایجیکس کی منظوری دیکر سابق صدر روز ویلٹ کے پوتے کرمٹ روز ویلٹ کومصدق کُشی پر مامورکردیا۔

محمد مصدق — الفنون والثقافة من Google
یہ آپریشن ایم آئی 6اور سی آئی اے نے مل کر کیا۔مؤرخ سٹیون کنزر اپنی کتاب” شاہ کے آدمی“میں لکھتے کہ سی آئی اے نے جنرل فضل اللہ زاہدی کو ایک لاکھ ڈالر دے کر مصدق کی جگہ وزیر اعظم بننے پر آمادہ کیا۔ اُدھر ڈالروں کے ذریعے تہران میں الاؤ دہکا دیا گیا۔ گلی گلی مرگ بر مصدق اور شاہ زندہ باد کے نعرے گونجنے اور کتبے لہرائے جانے لگے۔ قلمکار بھی حقِ نمک ادا کرتے نظر آئے۔ ملا مصطفےٰ کاشانی قومیانے کی پالیسی کے حامی اور سامراج کے سخت خلاف تھے۔انہیںکرمٹ روز ویلٹ نے دس ہزار ڈالر گفٹ کئے تو ان کا ایگریشن الفت میں بدل گیا۔ بہت بڑے عالم آیت اللہ بہبہانی کے ذریعے بلواؤں کو آمادہ فساد کیا گیا۔تہران کے پولیس چیف جنرل افشار طوس کو اغوا کے بعد قتل کر کے مسخ نعش سڑک پر پھینک کر تاثر دیا گیا کہ مصدق کے ہاتھ سے طاقت پھسل گئی ہے۔
شہنشاہِ ایران شروع میںامریکہ اور برطانیہ کے ساتھ تعاون پر تیار نہیں تھا۔ ان سے کر مٹ روز ویلٹ نے رات کے اندھیرے میں گاڑی میں خفیہ ملاقات کی۔ ان کو لالچ دینے کے ساتھ دھمکایا بھی تو وہ خوف کے سائے میں آمادہ ہو گئے۔طے شدہ منصوبے کے تحت وہ سرحدی شہررامسر چلے گئے تاکہ ناگوار صورت حال پر فرار ہو سکیں۔ وہیں انہوں نے مصدق کی معزولی کے نوٹیفیکیشن پر دستخط کئے۔ حالات ناموافق دیکھ کر شاہ ایرانِ ملک سے فرار ہو گئے۔
15اگست1953ءکرنل نعمت اللہ نصیری معزولی نامہ لے کر مصدق کے پاس پہنچے جسے متوقع طور پر مصدق نے مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی جنرل زاہدی نے اپنے وزیر اعظم ہونے کا اعلان کر دیا۔ یہی وہ چار روز تھے جبکہ ایران میں خونریزی ہونے لگی۔ مصدق کے حامی مظاہرے کر رہے تھے۔ ان کا مقابلہ ڈالر پسندوں نے مذہب کارڈ کھیل کر کیا۔ پھر وہ دن آگیا: 19اگست، جب ٹینکوں کے ذریعے مصدق کے گھر کو گھیر لیا گیا۔ وہ گرفتار ہوئے جو آج کے روز 8 ستمبر1953ءکو سیلن زدہ سیل میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ جرم گناہی کی سزا کیوں دی گئی!۔

محمد مصدق — الفنون والثقافة من Google
شہنشاہِ ایران مصدق سے "نجات" کے بعد بہت مضبوط اور طاقتور ہوگئے تھے۔روزویلٹ نے انہیں مطلق العنان بنانے یقین دلایا تھا۔یہ وعدہ پورا کیاگیا۔جنرل زاہدی کی حیثیت نمائشی وزیراعظم کی تھی۔مصدق کو غداری کے مقدمہ میں سزائے موت سنا دی گئی۔شہنشاہ نے ازراہِ ہمدردی یا پھر ضمیر کے کسی حصے سے اُٹھنے والی صدائے ملامت پر یہ سزا تین سال میں بدل دی۔بعد ازاں شائد اس اندیشے کے پیش نظر کہ رہائی کے بعد مصدق کی مقبولیت عود نہ کر آئے،عمر بھر کیلئے نظر بند کردیا۔شہنشاہ ایران کو شاید ایسے ہی اعمال پر ذلت آمیز حالات کا سامنا کرنا۔مکافات عمل شایداسی کو کہتے ہیں مگر اسے دیکھنے کیلئے ڈاکٹر مصدق دنیا میں نہیں تھے۔

ماہِ ستمبر:پاکستان ،عالمی منظر نامہ اور لیلیٰ خالد

ستمبر کے مہینے کا آغاز ہو گیا۔ ہماری سیاست سنبھالے نہیں سنبھل رہی ۔ ایسی افراتفری انارکی اور طوائف الملوکی ہماری پون صدی کی تاریخ کبھی دیکھی گئی ، سنی گئی نہ ہی پڑھی گئی ۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو الزام دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا وعدہ وفا نہ کرنے پر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں۔ اُس دور میں معاہدے پر عمل کر کے اگر یہی کچھ ہونا تھا جوا ب ”امپورٹڈ“ حکومت کے کئے معاہدے پر عمل کر کے ہو رہا ہے تو ”سیلکٹڈ“عمران خان کو شاباش دینا بنتی ہے۔

بجلی کے جس طرح بل آئے ہیں اور نگران حکومت ریلیف کو آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کر رہی تھی۔ایم ایم ایف نے سرِ دست ”سُکّا“جواب دے دیاہے۔بلوں نے عام آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ پہلے مہنگائی کا تذکرہ کرتے ہوئے محاورتاً کہا جاتا تھا لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اب بلز نے کئی لوگوں کو اپنے ہاتھوں جان لینے پر مجبور کر دیا۔ سیاسی پارٹیاں ہرمعاملے پر اپنی سیاست چمکاتی ہیں۔ احتجاج اور مظاہروں کو لیڈ کرنے کا شوق پورا کرتی ہیں مگر آج صارفین بے قیادت شہر شہر نکلے ہیں۔آج نگرانوں کے ہاتھ میںزمامِ کارہے۔یہ ڈنگ ٹپانے والے اداکار ہیں۔ ان کو موردِ الزام ٹھہرانا بیکارہے مگر وہ کچھ نہ کچھ بہتر کرنا ضرورچاہتے ہیں۔ نگران کیا ہر سیاسی حکومت عوام کی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی مگر کوئی تو اس ”پرکاری“ کا ذمہ دار ہے۔ بجلی کے نرخ اوج پر کیسے پہنچے؟ پٹرولیم کی قیمتیں زقندیں کیوں بھر رہی ہیں۔ ڈالر بے لگام کیوں کر ہو گیا؟جو بھی دِکھتا ہے بلز پر سیاپا کررہا ہے۔ہمارے گھر کا بل ٹیکس ملا کر66روپے یونٹ کے حساب سے آیا ہے۔ گاڑی پٹرول آدھی ٹینکی ہونے پر فِل کروالی جاتی ہے جو اب 9ہزار میں ،ڈیڑھ سال قبل 5میں ہوتی تھی۔

پیٹرول 190 روپے فی لیٹر اور بجلی 300 یونٹ تک مفت کرنے کی ہدایت
 مشتعل لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ اس سے نگرانوں کی صحت پر اثر نہیںپڑنے والا مگر مظاہرین کی سعی لا حاصل و رائیگا ں بھی جاتی نظر نہیں آتی۔ یہ سب نقشِ کہن جیسے نظام کے لیے تباہ کن ہو سکتا۔ اللہ کرے ستمبر کسی کے لیے بھی ستم گر ثابت نہ ہو۔
 11ستمبر کو بابائے قوم دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ نے دارِ فانی سے پردہ کیا فرمایا ۔ قائداعظم جن مشکلات اور مسائل کو سمیٹ رہے تھے وہ بے قابو ہونے لگے۔قائد جیسا ایک بھی لیڈر آ جاتا تو پاکستان کی ترقی کا ستارہ اوجِ ثریا پر جگمگا رہا ہوتا۔ پاکستان میں اچھے لیڈر بھی آئے جنہوں نے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں پر نالائق اور نا اہل لیڈر شپ نے پانی پھیر دیا۔ ایسے میں 11ستمبر کو وفات پانے والے قائد بے طرح سے یاد آتے ہیں۔
6ستمبردو حوالوں سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔6ستمبر جنگ کی یادیں پاکستانیوں کے لیے استقلال کا باعث ہیں۔6ستمبر کو یوم دفاع ،7یوم بحریہ اور8یوم فضائیہ منایا جاتا ہے۔ سات ستمبر یوم ختم نبوت کے طور پر اسلام عالم میں منایا جاتا ہے تب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پارلیمنٹ نے1973ءمیں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔
عالمی سطح پر6ستمبر کو ایک بہت بڑا واقعہ پیش آیا۔ اس روز فلسطینی عسکریت پسندوں نے بیک وقت4مسافر طیارے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ ایک کے سوا سب ہائی جیک کر لئے گئے۔جس طیارے کے اغوا کی کوشش ناکام ہوئی اس کی ٹیم لیڈ لیلیٰ خالد تھیں 13ستمبر کو ان کی رہائی کے لیے بھارت سے بیروت جانے والا جہاز اغوا کیا گیا اور پھر اسی ماہ ان طیاروں سے جڑے واقعات بھی بلیک ستمبر کا سبب بنے تھے۔بلیک ستمبر سولہ سے ستائیس ستمبر1970کے اُس دورانیئے کا نام ہے جب اُردن میں فلسطینیوں کے خلاف شاہ حسین نے اپریشن کیا اسے جنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔جس میں تین سے چار ہزار فلسطینی عسکریت چھ سواردنی فوجی مارے گئے تھے۔یاسر عرفات جاں بحق ہونے والے فدائین کی تعداد بیس سے 25 ہزار بتایا کرتے تھے۔

خصوصی رپورٹ: فلسطین اور اسرائیل کی پوری کہانی
لیلیٰ خالد اور ان کے ساتھیوں نے 1968ءاور1971ءکے درمیانی عرصے میں 4 جہازاغوا کئے۔ فلسطین لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد لیلیٰ خالد نے پہلاجہاز 29اگست 1969ءکو اغوا کیا یہ بوئنگ 707جہاز تھاجواٹلی سے اسرائیل کے دالحکومت تل ابیب جا رہا تھا۔ اطلاع یہ تھی کہ اسرائیل کے وزیر اعظم اضحاک رابن بھی اس فلائیٹ کے مسافروں میں شامل ہیں ۔ایشیاءکی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی نقاب پوش لیلیٰ خالد نے جہاز کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا....۔یہ جہاز دمشق میں اتارا گیا۔اسرائیل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شرط مسافروں کو رہا کرکے جہاز تباہ کردیا گیا۔ 6ستمبر 1970ءکو لیلیٰ خالد نے اپنے پیٹرک گیلیو کے ساتھ مل کر ایمسٹرڈیم سے نیویارک جانے والی اسرائیلی پرواز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔لیلیٰ نے اپنی شناخت چھپانے کیلئے چہرے کی چھ جگہ سے پلاسٹک سرجری کرائی تھی۔یہ اس لئے بھی ناکام ہوئی کہ ان کے دو ساتھیوں کو اس پرواز کا ٹکٹ نہیں مل سکا تھا۔طیارے کو برطانیہ کے ہیتھرو ائرپرپورٹ پر اتار لیا گیا۔ لیلیٰ کے ساتھی پیٹرک گیلیو کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ اسے گرفتار کرلیا گیا۔چند دن بعد تیرہ ستمبر کو فلسطینی جانبازوں نے بھارت سے اُڑان بھرنے والا طیارے کو یرغمال بنالیا جس میں 65برطانوی مسافر تھے۔ مذاکرات کی میز پر لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کیاگیا۔ یوں لیلیٰ خالد کو ستمبر کے مہینے میں برطانیہ کی قید سے رہائی ملی۔

لیلیٰ خالد: اسرائیلی طیارے کو اغوا کرنے والی فلسطینی خاتون کو رہا کیسے  کروایا گیا؟ - BBC News اردو
لیلیٰ خالد پاکستان بھی آچکی ہی۔اُس وقت لیلیٰ خالد کی زندگی کا انقلابی دور تمام ہو چکا تھا۔ 1995ءیہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کا دورانیہ تھا۔ سپیکرقومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی نے مسلم ممالک کی خواتین ارکان پارلیمنٹ کی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ فلسطینی ارکان کے وفد کی قیادت لیلیٰ خالد کر رہی تھیں۔ اس وفد کا پاکستان میں والہانہ استقبال کیا گیا۔ احترامات کا ایک مکمل پروٹوکول تھا۔ جس پر لیلیٰ خالد کی خوشی دیدنی تھی۔ اسلام آباد میں مہمانوں کے اعزاز میں تقریب رکھی گئی۔ استقبال کرنے والوں کے والہانہ پن کا انداز اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ لیلیٰ خالد تیس منٹ میں سٹیج تک پہنچ پائی تھیں۔

اَج سِک متراں دی

نعت گوئی کی ابتدا سرورِ کائنات کی حیاتِ مبارکہ میں ہی ہوگئی تھی۔ جلیل القدر صحابہؓ اور صحابیاتؓ نے سرکارِ دو عالم کی تعریف و توصیف کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ حضرت حسان بن ثابتؓ کو خصوصی شرف حاصل ہے کہ انہوں نے فخرِ موجودات کے سامنے نعت پڑھی۔ اُس زمانے سے لیکر آج تک رسول کریم کی شانِ اقدس میں گلہائے عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور انشاءاللہ تاقیامت جاری رہے گا۔

سرورِ کونینﷺ سے لازوال محبت و نسبت سید پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کا جزوِ ایمان ہے۔ اسی جذبہ محبت کے تحت سفر حج کے دوران وادی حمرا میں ”اَج سک متراں دی ودھیری اے“ سے شروع ہونیوالی الہامی اور آفاقی نعت کا نزول ہوا جو روزِ محشر تک اہل ایمان کے قلب و نظر کو منور کرتی رہے گی۔ یہ اللہ کی خاص عطا ہے۔ یہ نعت ترنم سے پڑھی جائے یا تحت الفظ، سننے والے پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اگر مطالب و مفاہیم بھی واضح ہوں تو لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اس نعت کے الفاظ کی تاثیر اپنی جگہ لیکن پوری نعت کے الفاظ کے مطالب اور مفاہیم بہت سے لوگوں پر واضح نہیں۔ یہ مشکل جناب مفتی خان محمد قادری صاحب نے حل کردی۔ انہوں نے پیر سید غلام معین الحق شاہ صاحب کی خواہش پر نعت کی شرح لکھ دی۔ اس سے قبل علامہ خان محمد قادری صاحب ”شرح سلام رضا“ لکھ چکے ہیں۔ ”شرح اَج سک متراں دی“ کمال کی شرح ہے۔ اس نعت میں حضور اکرمﷺ کے رخِ انور کی اس طرح سے عکاسی کی گئی ہے کہ نعت معنی سمجھ میں آجائیں تو گویا حضرت گولڑویؒ نے آپ کو زیارتِ رسولﷺ مقبول کرا دی۔

علامہ قادری نے اپنے طریقے سے تشریح کرتے ہوئے قاری کی علمی استعداد کو مدنظر رکھا۔ یہ عام سے قاری سے لے کر محققین کیلئے یکساں لائقِ استفادہ ہے۔ انہوں نے پہلا شعر لیا‘ اسکے الفاظ کے معنی لکھے اور اس کا مفہوم بیان کرنے کے بعد تشریح لکھی ہے۔ کیا زبردست لغت اور تشریح ہے۔ حضور کے چہرہ مبارک کے بارے میں جو لکھا ہے وہ حدیثوں سے بھی ثابت کیا ہے۔ پیر مہر علی شاہ صاحبؒ نے نعت سے قبل بھرپور تحقیق اور مطالعہ کیا۔ یوں لگتا ہے کہ حضور پُرنور ان کے سامنے تھے اور وہ وجد میں پڑھتے گئے۔ آئیے نعت‘ الفاظ کے معانی اور مفہوم پر نظر ڈالتے ہیں

اَج سک متراں دی ودھیری اے کیوں دلڑی اداس گھنیری اے

لوں لوں وچ شوق چنگیری اے اَج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں

معانی:۔ سک‘ محبت۔ متراں‘ محبوب۔ ودھیری‘ بہت زیادہ۔ دلڑی‘ دل۔ گھنیری‘ بہت زیادہ۔ لوں لوں‘ رواں رواں۔ چنگیری‘ آگ کا بھڑکنا۔ نیناں‘ آنکھیں۔ جھڑیاں‘ بارش‘ آنسو۔

مفہوم:۔ آج دل بہت زیادہ اداس‘ جسم کے ہر روئیں میں شوق کی بہار اور آنکھوں سے آنسو کیوں رواں ہیں۔ اس لئے کہ محبوب کی یاد نے آستایا ہے۔

ROZA MUBARAK MASJID-E-NABVI Madina | Prophet Muhammad (pbuh)… | Flickr

الطیف سرٰی من طلعتہ والشذ و بدٰی من و فرتہ

فسکرت ھنا من نظر تہ نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں

معانی:۔ الطیف‘ خواب و خیال۔ سرٰی‘ واحد مذکر غائب فعل از سرایة ظاہر ہونا‘ سرایت کرنا۔ من‘ سے۔ طلعتہ‘ رخ انور۔ الشذو‘ کستوری۔ بدٰی‘ واحد مذکر غائب فعل ماضی ازبدایة ظاہر ہونا۔ مہکنا‘ غالب آنا۔ وفرة‘ زلفیں۔ سکرت‘ میں مست و بے خود ہو گیا۔ ھنا‘ اسی جگہ‘ ھنالک دعاز کریا ربہ (اس جگہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی) نظرة‘ نگاہ۔ نیناں‘ آنکھیں۔ دیاں‘ کی۔ فوجاں‘ لشکر۔ یہاں محبوب کی نگاہوں کا حسن و جمال مراد ہے۔ سر چڑھیاں‘ غالب آنا۔

مفہوم:۔ خواب میں محبوب کی نورانی صورت دیکھنے کا شرف ملا۔ آپ کی زلفوں کی خوشبو کستوری سے بڑھ کر تھی‘ محبوب کے نوری نین دیکھ کر میں بے خود ہو گیا کیونکہ ان کے حسن و جمال کا جلوہ غالب آ گیا۔ اس شعر کا ترجمہ ”آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ جانا“ مناسب نہیں‘ ورنہ یہ تکرار ہو گا کیونکہ پیچھے ”اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں“ آ چکا ہے‘ ہم نے جو مفہوم بیان کیا ہے یہ ”سکرت“ کے بھی مناسب ہے۔

مُکھ چند بدر شعشانی اے

متھے چمکے لاٹ نورانی اے

کالی زلف تے اکھ مستانی اے

مخمور اکھیں ہَن مدھ بھریاں

معانی:۔ مُکھ‘ چہرہ اقدس‘ چندبدر‘ چودھویں کا چاند۔ شعشانی‘ پرنور۔ متھے‘ جبین اقدس۔ اکھ مستانی‘ آنکھ مست کردینے والی‘ مخمور‘ آنکھیں‘ ہَن‘ ہیں‘ مدھ بھریاں‘ سرمگیں آنکھیں۔

مفہوم:۔ حضور علیہ السلام کا چہرہ اقدس چودھویں کے چاند سے بڑھ کر تاباں۔ جبینِ اقدس نور‘ مکی نور‘ زلفیں سیاہ اور آنکھیں مست اور سرمگیں ہیں۔

دو ابرو قوس مثال دسن

میں تو نوک مژہ دے تری چھٹن

لباں سرخ آکھاں کہ لعلِ یمن

چٹے دند موتی دیاں ہِن لڑیاں

معانی:۔ قوس‘ کمان۔ مثال‘ مانند۔ دِسن‘ نظر آنا۔ جیں تو‘ جن سے۔ مژہ‘ پلک۔ چھٹن‘ نکلنا۔ لباں‘ ہونٹ۔ آکھاں‘ کہوں۔ لعلِ یمن‘ یمن کے موتی۔ چٹے‘ سفید۔ دند‘ دانت۔ لڑیاں‘ لڑی کی جمع۔

مفہوم:۔ آپ کے دونوں ابرو کمان کی مانند ہیں۔ مقدس آنکھوں کی حسین پلکیں تیر کی نوک‘ ہونٹ یمن کے موتیوں کی طرح سرخ ہیں۔ دانت مبارک نہایت سفید‘ حسنِ ترتیب اور جڑاﺅ میں موتیوں کی لڑی کی طرح ہیں۔

اس صورت نوں میں جان آکھاں

جانان کہ جانِ جہان آکھاں

سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں

جس شان تو شاناں سب بنیاں

مفہوم:۔ محبوب کریم کی صورتِ اقدس میری جان بلکہ تمام کائنات کی جان ہیں۔ اگر میں حقیقت بیان کردوں تو یہ رب کی ہی شان ہیں جس سے دیگر شانیں وجود پاتی ہیں۔

الطیف سرٰی من طلعتہ

والشذ و بدٰی من و فرتہ

فسکرت ھنا من نظر تہ

نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں

معانی:۔ الطیف‘ خواب و خیال۔ سرٰی‘ واحد مذکر غائب فعل از سرایة ظاہر ہونا‘ سرایت کرنا۔ من‘ سے۔ طلعتہ‘ رخ انور۔ الشذو‘ کستوری۔ بدٰی‘ واحد مذکر غائب فعل ماضی ازبدایة ظاہر ہونا۔ مہکنا‘ غالب آنا۔ وفرة‘ زلفیں۔ سکرت‘ میں مست و بے خود ہو گیا۔ ھنا‘ اسی جگہ‘ ھنالک دعاز کریا ربہ (اس جگہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی) نظرة‘ نگاہ۔ نیناں‘ آنکھیں۔ دیاں‘ کی۔ فوجاں‘ لشکر۔ یہاں محبوب کی نگاہوں کا حسن و جمال مراد ہے۔ سر چڑھیاں‘ غالب آنا۔

مفہوم:۔ خواب میں محبوب کی نورانی صورت دیکھنے کا شرف ملا۔ آپ کی زلفوں کی خوشبو کستوری سے بڑھ کر تھی‘ محبوب کے نوری نین دیکھ کر میں بے خود ہو گیا کیونکہ ان کے حسن و جمال کا جلوہ غالب آ گیا۔ اس شعر کا ترجمہ ”آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ جانا“ مناسب نہیں‘ ورنہ یہ تکرار ہو گا کیونکہ پیچھے ”اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں“ آ چکا ہے‘ ہم نے جو مفہوم بیان کیا ہے یہ ”سکرت“ کے بھی مناسب ہے۔

Visiting the Prophet ﷺ | Hajj and Umrah Planner

ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں

بے صورت ظاہر صورت تھیں

بے رنگ دسے اس مورت تھیں

وچ وحدت پھٹیاں جد گھڑیاں

معانی:۔ ایھہ‘ یہ۔ صورت‘ مراد صورت محبوب خدا علیہ الصلوٰة السلام ہے۔ بے صورت‘ ذاتِ خداوندی‘ بے رنگ‘ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات۔ وچ‘ میں۔ وحدت‘ ذات باری تعالیٰ‘ پھٹیاں‘ ظاہر ہونا‘ پھوٹنا۔ جد‘ جس وقت‘ گھڑیاں‘ خوبصورت اور نئی شاخیں۔

مفہوم:۔ یہ صورت‘ جان جہاں‘ رب کی شان اور تمام شانوں کی اصل (وسیلہ) کیوں نہ ہو؟ یہ تو حقیقتاً بے صورت رب سبحانہ و تعالیٰ کی نشاندہی کرنے والی ہے۔ آپ کی صورت ہے‘ اللہ تعالیٰ کی بے صورت ذاتِ اقدس کا اظہارِ کامل اسی صورت سے ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریمﷺ کو تخلیق فرمایا تو ان کے ذریعے مخلوق کو معرفت خداوندی نصیب ہوئی‘ ورنہ کہاں خالق اور کہاں مخلوق؟ وہ اس صورت میں بے رنگ نظر آتا ہے گویا آپ سراپا مظہر خداوندی ہیں۔

دسے صورت راہ بے صورت دا

توبہ راہ کی عین حقیقت دا

پر کم نہیں بے سو جھت دا

کوئی ورلیاں موتی لے تریاں

معانی:۔ دسے‘ بتانا۔ صورت‘ ذات محبوب کریمﷺ۔ راہ‘ راستہ۔ بے صورت‘ ذاتِ باری تعالیٰ۔ توبہ‘ رجوع کرنا۔ عین حقیقت‘ ذات باری تعالیٰ۔ پر‘ لیکن۔ کم‘ کام۔ بے سوجھت‘ بے سمجھ۔ نااہل‘ یہاں مراد باطنی اندھا ہے۔ دا‘ کا۔ ورلیاں‘ ورلی کی جمع ہے بہت تھوڑے۔ لے‘ حاصل کرنا۔ تریاں‘ سلامتی سے پار ہو جانا۔ لے تریاں‘ یعنی گوہر مقصود حاصل کر لیا۔

مفہوم:۔ آپﷺ اللہ رب العزت کی طرف سے وحی‘ شریعت اور ایسی تعلیمات لے کر مبعوث ہوئے کہ کوئی بھی آدمی اگر آپ کی بتائی ہوئی راہ پر چل پڑے تو اسے مقام محبوبیت نصیب ہو جائے گا۔ پھر آپﷺ جیسا دردمند‘ غم خوار اور تمام مخلوق کی بھلائی چاہنے والا کہاں؟ آپ کی یہی تمنا رہی اور ہے کہ ہر کوئی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توحید سے وابستہ ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوار لے مگر بہت سے لوگوں نے اپنی بے عقلی‘ بے سمجھی اور غفلت کی وجہ سے آپ کی مبارک آواز و تعلیمات کی طرف کان نہ لگایا لیکن جنہوں نے غلامی اختیار کی وہ تمام کائنات کے راہبر و راہنما بن گئے اور انہوں نے گوہر مقصود حاصل کر لیا۔

ایہا صورت شالا پیش نظر

رہے وقت نزع تے روز حشر

وچ قبر تے پل تھیں جد ہوسی گذر

سب کھوٹیاں تھیلسن تد کھریاں

معانی:۔ ایھا‘ یہی۔ شالا‘ اللہ کرے۔ وقت نزع‘ موت کا وقت۔ روز حشر‘ روز قیامت۔ پل‘ پل صراط۔ تھیسن‘ ہو جائیں گی۔ تد‘ اس وقت۔ کھریاں‘ اصل‘ قیمتی‘ صحیح

مفہوم:۔ محبوب کرمیﷺ کی شان و مرتبہ اور سراپا بیان کرنے کے بعد‘ اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں حضرت قبلہ¿ عالم دعا کر رہے ہیں یا اللہ مشکل مقامات پر تیرے اس حبیبﷺ کی سنگت و شفقت نصیب رہے تو کامیابی مل سکتی ہے ورنہ نہیں اور وہ مقامات یہ ہیں

After Eid ul fitar at roza mubarak in madina| Madina saudi arabia Eid ul  fitar - YouTube

1۔ موت کا وقت‘ 2۔ قبر‘ 3 قیامت کا دن‘ 4۔ پل صراط سے گزرنا۔

یعطیک ربک داس تساں

فترضٰی تھیں پوری آس اساں

لج پال کریسی پاس اساں

واشفع تشفع صحیح پڑھیاں

معانی:۔ یعطیک ربک‘ آپ کا رب آپ کو عطا فرمائے گا۔ داس‘ اطلاع۔ آگاہی‘ دینا‘ بتایا‘ بشارت۔ تساں‘ آپ کو۔ فترضٰی‘ پس تم خوش ہو جاﺅ گے۔ تھیں‘ سے۔ آس‘ امید۔ اساں‘ ہمیں‘ ہم کو۔ لج پال‘ لاج رکھنے والے‘ رسول اللہﷺ۔ کریسی‘ کریں گے۔ اشفع‘ تم شفاعت کرو۔ تشفع‘ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ پڑھیاں‘ پڑھنا

مفہوم:۔ حضرت اعلیٰ نے پچھلے اشعار میں اس حقیقت کو آشکار کیا کہ کامیابی کے لئے دنیا و آخرت کے ہر موڑ پر حبیب خداﷺ کا سہارا ضروری و لازمی ہے اس کے بغیر کامیابی و کامرانی اور نجات کا وہاں سوچا بھی نہیں جا سکتا اگر کوئی آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ان کے بغیر کام چل جائے گا تو وہ آج ہی اپنے عقیدہ کی اصلاح کرے ورنہ وہاں سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے

کل نہ مانیں گے قیامت کو اگر مان گیا

لاہو مکھ توں مخطط بردیمن

من بھانوری جھلک دکھاﺅ سجن

اوہا مٹھیاں گالیں الاﺅ مٹھن

جو حمرا وادی سن کریاں

معانی:۔ لاھو‘ ہٹاﺅ‘ اٹھاﺅ‘ اتارو۔ مکھ‘ چہرہ¿ انور۔ توں‘ سے۔ مخطط‘ دھاری دار۔ بردیمن‘ یمنی چادر۔ من بھانوری‘ دل موہ لینے والی۔ اوھا‘ وہی۔ گالیں‘ باتیں۔ الاﺅ‘ بولو۔ مٹھن‘ من ٹھار۔ حمراوادی‘ مدینہ طیبہ کے قریب جگہ کا نام۔ سن‘ تھیں۔ کریاں‘ کیں تھیں

مفہوم:۔ اے محبوبﷺ! اپنے چہرہ¿ انور سے یمنی چادر کا نقاب اٹھا کر دل موہ لینے والی زیارت عطا فرمائیں اور حمرا کے مقام پر جو شفقت و کرم کرتے ہوئے میٹھی میٹھی باتیںارشاد فرمائی تھیں ایسی عنایت و مہربانی پھر نصیب ہو۔

حجرے توں مسجد آﺅ ڈھولن

نوری جھات دے کارن سارے سکن

دو جگ اکھیاں راہ دا فرش کرن

سب انس و ملک حوراں پریاں

معانی:۔ حجرے‘ کاشانہ نبوی۔ ڈھولن‘ محبوب کریم۔ نوری جھات‘ نورانی جھلک کی زیارت۔ کارن‘ کے لئے۔ سکن‘ بے تابی۔ دو جگ‘ دونوں جہان۔ فرش کرن‘ بچھنا۔ انس‘ انسان۔ ملک‘ فرشتے۔ حوراں‘ جنتی حوریں۔ پریاں‘ خوبصورت جنات

مفہوم:۔ یا رسول اللہ حجرہ¿ انور سے مسجد نبوی میں تشریف لائیں تاکہ آپ کے چہرہ¿ انور کی زیارت کا شرف پا سکیں۔ دونوں جہان کی تمام مخلوق خواہ وہ انسان ہیں یا جنات‘ ملائکہ ہیں یا حوران بہشتی وہ تمام کی تمام آپ کی راہ میں آنکھیں فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔

Hazrat Muhammad Roza Mubarak Inside

انہاں سکدیاں تے کرلاندیاں تے

لکھ واری صدقے جاندیاں تے

انہاں بریاں مفت وکاندیاں تے

شالا آون وت بھی اوہ گھڑیاں

معنی:۔ انھاں‘ ان۔ سکدیاں‘ بے تاب اور منتظر۔ کرلاندیاں‘ زار و قطار رونے والیاں۔ صدقے‘ قربان۔ بردیاں‘ باندیاں‘ غلام۔ وکاندیاں‘ بک جانے والیاں۔ شالا‘ اللہ کرے۔ آون‘ آئیں۔ وت‘ پھر۔

مفہوم:۔ پہلے شعر میں شوقِ وصال کی طلب بیان کی گئی تھی اس شعر میں اس طلب رکھنے والے طلب گاروں کا تذکرہ ہے کہ آرزوئے وصال کی تڑپ اور سوز میں کس حال میں ہیں اور دعا کی گئی ہے کہ وہ دوبارہ فیض یاب دید ہوں۔ اس ضمن میں آنحضورﷺ کے مرض وصال میں ملاقات و زیارت کا شرف پانے پر عشاق کی قلبی واردات کا تذکرہ ہو چکا جوکہ مسجد نبوی میں نماز کے وقت حجرہ انور کی طرف اس آس میں تکتے کہ کب محبوب کریمﷺ جماعت کروانے کےلئے آئیں تو ہماری بھی عید ہو گی‘ بعینہ یہی حالت آپ کے ان غلاموں کی ہے جنہیں اللہ نے حبِ نبی سے نوازا ہے وہ محبوب پاک کی جدائی میں آہ وزاری کرتے اور گریاں رہتے ہیں اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو آپﷺ پر فدا اور نثار کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آخری شعر ہے

سبحان اللہ ما اجملک

ما احسنک ما اکملک

کِتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں

معانی:۔ سبحان اللہ‘ تمام پاکیزگی اللہ کےلئے۔ مااجملک‘ آپ کتنے جمیل ہیں‘ مااحسنک‘ آپ کتنے حسین ہیں۔ مااکملک‘ آپ کس قدر کامل ہیں۔ کتھے ‘ کہاں۔ اڑیاں‘ لگ گئیں۔

مفہوم:۔ آپ اس قدر صاحبِ حسن و جمال اور صاحبِ کمال ہیں کہ مجھ جیسے حقیر سے آپ کی ثنا ممکن ہی نہیں۔ بلکہ اس سے میری کوئی مناسبت نہیں۔ کہاں میں اور کہاں آپ کی ذاتِ اقدس‘ زیارت و دیدار کا شرف فقط آپ کی کرم نوازی ہے ورنہ میری آنکھیں اس لائق کہاںآپ کو دیکھنے کی جسارت کرسکیں۔

شوکت خانم ہسپتال:اعتماد کا سفر

کبھی کچھ حادثات اور سانحات خیر کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ گلاب دیوی تپ دق سے موت کے منہ میں چلی گئی تو اس کے بیٹے لا جپت رائے نے ان کی یاد میں لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال ایسے لوگوں کے لیے بنانے کا عہد کیا جو ایسے مرض میں مبتلا ہوں ۔ گلاب دیوی کا انتقال1927ءمیں ہوا۔ ایک سال بعد لا جپت رائے بھی چل بسا، مگر اس نے جو پودا لگایا تھا اس کی آبیاری ہوتی رہی جو سات سال بعد تناور درخت بن کر سایہ فگن ہو گیا۔ اب تک لاکھوں مریضوں کا علاج اس ہسپتال سے ہو چکا ہے۔

First lady visits Gulab Devi hospital, says healthy citizens create good  society - Daily Times
شوکت خانم کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں ۔ پاکستان میں کینسر کا علاج ان دنوں ممکن نہیں تھا۔ شوکت خانم کا خاندان امیر کبیر تھا۔ان کا بیٹاعمران خان انہیں لندن لے گیا۔ کینسر کا علاج آج بھی بہت مہنگا ہے۔ شوکت خانم کینسر سے سروائیو نہ کر سکیں۔ کینسر کی تکلیف دہ بیماری اور اس پر آنے والے بے شمار اخراجات کو دیکھتے ہوئے انسانیت کے تحت شوکت خانم مرحومہ کے بیٹے نے پاکستان میں کینسر ہسپتال بنانے کا عہد کیا۔ جس حد تک ممکن تھا اپنے ذاتی وسائل بروئے کار لائے۔اپنے دوستوں ، عزیزوں اور عوام سے فنڈز کی اپیل کی۔ ماہرین کی طرف سے اس منصوبے کو ناممکن قرار دیا گیا۔ مگراس پراجیکٹ کی تکمیل کا عزم صیمم تھا۔ بالآخر یہ منصوبہ مکمل ہوگیا۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں 75فیصد مریضوں کا علاج فری کیا جاتا ہے۔

شوکت خانم ہسپتال کی 28 ویں سالگرہ منائی گئی
میں گزشتہ بارہ تیرہ سال سے اس ہسپتال کی سالانہ فنڈریزنگ تقریبات میں شرکت کرتا آ رہا ہوں۔ جتنا بھی ٹارگٹ رکھا جاتا، وہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں دو تقریبات ہوتی ہیں۔ دس روپے سے کروڑہا روپے دینے والے لوگ دیکھے جاتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا اور انڈین لیجنڈ ایکٹر عامر خان پاکستان آکر ایسی تقریبات میں شرکت کر چکے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں ان لوگوں کی کاوش شامل ہے۔ فریال گوہر نے اپنے حصے میں آنے والی وراثتی کوٹھی ہسپتال کو عطیہ کر دی تھی جو 2010ءمیں سوا کروڑ کی فروخت ہوئی۔ عتیقہ اوڈھوکی کی طرف سے انہی برسوں ایک کروڑ روپے کا فنڈ دیا گیا۔ چار پانچ سال قبل علیم خان نے چھ کروڑ روپے جمع کرائے تھے۔
 دعا تو یہ ہے کہ ہربیماری کا خاتمہ ہو اور وطن میں ایک بھی ہسپتال نہ رہے ۔ مگر یہ ایسی خواہش ہے جو صرف جنت میں ہی پوری ہو سکتی ہے اور یہ دنیا جنت نہیں ہے۔آزمائش جا ہے۔خوشی غمی، مصیبت آسائش، عُسرت عِشرت، ظلم انصاف،تاریکی روشنی،تنگ دستی و فراوانی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔اوپر والاہاتھ وسیلے والا، نیچے کا ہاتھ کسمپرسی کا عکاس۔خودداری ہاتھ پھیلانے کی روادار نہیں ہوتی۔بڑا پن ہے کی کسی کا ہاتھ اُٹھنے سے قبل مداوہ کردیا جائے۔شوکت خانم ہسپتال جیسے ادارے ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے چل رہے ہیں۔اس ہسپتال نے اب تک کیا کچھ کیا؟ مزید کیا کرنے کا ارادہ ہے اس کی ضرویات کیا ہیں؟ آپ کیا کرسکتے ہیں؟ اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ 
شوکت خانم ہسپتال لاہورنے 29دسمبر 1994کو اپنے دروازے مریضوں کے لیے کھولے اور اس وقت سے آج تک خدمت کا یہ سفر کبھی نہیں رکا بلکہ وقت کے ساتھ اور لوگ بھی اس مشن کا حصہ بنتے گئے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا اور مارچ 2011ء میں پشاور میں دوسرے شوکت خانم ہسپتال بنیاد رکھی گئی جس میں 29دسمبر 2015 کومریضوں کو خدمات فراہم کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔

شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال میں کینسر کا علاج ریڈیو تھراپی سے شروع
انتظامیہ کے مطابق شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹرز پاکستانی قوم کی سخاوت کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ ہسپتا ل کی جانب سے اب تک قوم کے تعاون سے مستحق مریضوں کے علاج پر 60ارب سے زائد کی رقم خرچ کی جا چکی ہے جو ہسپتال کے نظام پر عوام کے اعتماد کی زندہ مثال ہے۔ 
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کی سال 1989سے آج تک کی آڈٹ رپورٹ ویب سائٹ پر موجود ہے تا کہ ہر شخص ادارے کو ملنے والے عطیات اور اس کے لوگوں کی زندگی پر اثرات کابا آسانی جائزہ لے سکے۔
ہسپتال کی عالمی سطح پر ساکھ کاتعین اسے ملنے والے بین الاقوامی سرٹیفیکیٹ سے کیا جاسکتا ہے۔ جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کی جانب سے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کو صحت کے شعبے میں بین الاقوامی معیارقائم اور برقرار رکھنے پراینٹر پرائز ایکرڈیٹیشنری سرٹیفکیٹ دیا گیا۔یہ ہسپتال کے ڈونرز اور ملک کے لیے بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ نے باقاعدہ شریعہ کمپلائنس سرٹیفیکیشن حاصل کی ہے جو اس بات کی تائید کرتی ہے ہسپتال کے زکوٰة کے حصو ل، استعمال اورزکوٰة فنڈ کی مینجمنٹ کا نظام شرعی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ 
 سال 2023کے لیے ہسپتال کا کل بجٹ 39ارب روپے ہے جس میں سے تقریباً نصف پاکستانی عوام کی مدد سے پورا ہوتا ہے۔
کراچی میں پاکستان کا تیسرا اور سب سے بڑا کینسر ہسپتال زیرِ تعمیر ہے۔ اس وقت اس ہسپتال کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور فنشنگ کا کام جاری ہے۔ اس ہسپتال کی مکمل لاگت کا تخمینہ تقریباً 22ارب روپے ہے جس میں سے 16ارب روپے تعمیراتی کاموں اوربقایا جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں کے لیے درکار ہے۔کراچی کا یہ ہسپتال لاہور کے شوکت خانم ہسپتال سے رقبے اور سہولیات کے اعتبار سے تقریباً دو گنا بڑا ہے۔یہاں کے ریڈی ایشن ڈپارٹمنٹ میں 10لینئیر ایکسلیریٹربیک وقت مریضوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہوں گی۔ 
 لاہور پشاور کی طرح کراچی میں بھی 75فیصد سے زائد مریضوں کو کینسر کی تشخیص و علاج کی اعلیٰ ترین سہولیات بلا معاوضہ فراہم کی جائیں گی۔ 

Facing cancer and coronavirus, Shaukat Khanum hospital battles two-front  war | Arab News PK
 ہسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی سمیت پور ے سندھ اور جنوبی بلوچستان کے لوگوں کو کینسر کے علاج کی جدید ترین سہولیات ایک ہی چھت تلے فراہم ہو جائیں گی۔
شوکت خانم ہسپتال کا کیا اتنا ہی کام اور مشن تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ہم مادی دنیا کے مکین ہیں۔ بیماریوں اور مشکلات کا خاتمہ دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ہی ہونا ہے۔صحت اور مرض ساتھ ساتھ، امراض پرکسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔امیر لوگ کہیں سے بھی پیسہ خرچ کے علاج کرسکتے ہیں۔پیسے سے علاج ممکن ہے مگر شفا کی گارنٹی کسی کے پاس نہیں۔یہ امیر غریب سب پر منطبق ہے۔شوکت خانم کی تیسری اور سب سے بڑی برانچ مکمل ہونے کے بعد اگلی کہاں بنے گی۔اس کا فیصلہ بورڈ پورے ملک کا جائزہ اور وسائل کو دیکھ کر کرسکتا ہے۔۔شاید بلوچستان کے کسی شہر میں یا جنوبی پنجاب میں سندھ کے پی کے اور بلوچستان کے سنگم پرتعمیر کیا جاسکتا ہے۔سرِ دست کراچی ہسپتال کی تکمیل اور لاہور وپشاورکے ہسپتالوں کو چلائے رکھنے کی ضرورت ہے۔دیکھنا ہے کہ اس حوالے سے میں کیا کرسکتا ہوں آپ کیا کرسکتے ہیں۔یہ ہمارے اوپر اللہ کریم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ہم ایسے اداروں کے ڈونر ہیں ان کے ”کلائنٹ“ نہیں۔ہو سکتا ہے خدا ہے آپ کی کمائی میں کئی مستحق افراد کی شفا رکھی ہو۔

شب سنہری تھی یا تاریک:بیت گئی

فرعون، نمرود، ہلاکو خان اپنے اپنے دور میں طاقت کے منابع اورمحورو مرکز تھے۔ ظلم روا رکھنے میں بھی لاثانی تھے۔ ان سب کا اور ان جیسوں کا انجام بھی ایک سے بڑھ کر عبرت ناک ہوا۔ ہلاکو کے رحم کا ایک قصہ مشہور ہوا۔ خاتون نے فریاد کی کہ اس کا نوزائیدہ تالاب میں گر گیا ہے ۔

ہلاکو نے نیزے میں پرو کر اس کے حوالے کر دیا ۔رحم بھی کرتا تو ایسا! کھوپڑیوں کے مینار بھی ہلاکو خان ہی بنایا کرتا تھا۔ مرا تو ایسے کہ لشکر کے درمیان تھا ۔ لیکن اسے کوئی بھی بچا نہ سکا۔مظلوموں کی صف میں کھڑے ایک بوڑھے لاغرمسلمان کوقتل کرنے کیلئے گرز مارنے لگا،گرزہاتھ سے چھوٹی پکڑنے کیلئے ایک طرف جھکا تو گھوڑا بدک کر بھگٹٹ بھاگنے لگا۔پورا لشکر دیکھ رہا تھا۔بچاتے تو کیسے بچاتے۔! ہلا کوکا سر پتھروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔
ہلاکو، نمرود، فرعون ، یزید ظلم جبر اور بے رحمی کے استعارے بن گئے۔ یہ آج بھی اپنے کرداروں کی عکاسی کی صورت میں کہیں نہ کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ اقتدار میں ہوں تو خود کو خدا رعایا کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ اپنے انجام سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ جب قدرت کا کوڑا برستا ہے توآنکھوں سے پٹی اترتی ہے۔اقتدار سے نکال باہر کیا جانا تو معمول ہے۔جلا وطن اور پسِ زنداں بھی کردیا جاتا ہے۔وہاں خدا یاد آتا اوراقتدار کے دور کا ہر منظر آنکھوں کے سامنے لہراتاہے ۔بدلے سے تائب اوراصلاح کا عہد کیا جاتا ہے مگر اقتدار ملتا ہے تو تائب ہونا اور اصلاح کا عہد تلخ یاد ماضی کی طرح بھلا دیا جاتا ہے۔تاریخ سے سبق نہ سیکھنا ہی تاریخ ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام پاکباز شخص کے ساتھ سفرکر رہے تھے۔ ایک خوبرونابینا شخص کو دیکھا تو رنجیدہ ہوئے۔ عرض کیا یہ اس حال میں کیوں ؟ اس میں کیا حکمت؟ اس شخص کی بینائی واپس آگئی تو اس نے کمزوروں کو پکڑ کر دریا میں پھینکنا شروع کر دیا۔ ہمارے ہاں ایسے ہی لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو ظلم کی اخیر کر دیتے ہیں۔اقتدارکو اللہ کی امانت اور سیاست کو عبادت ضرور کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ سننے کی حد تک ہی ملتا ہے۔ عملاً عموماً اس کے برعکس ہی دیکھا گیا ہے۔ 
آج عمران خان زیر عتاب ہیں۔کل ان کے پشیروؤں کو ایسے ہی حالات کا سامنا تھا۔ قائداعظم کے مختصر دور کے سوا ہر دور انتقام سے لتھڑا دِکھتا ہے۔ اب تو حدیں عبور ہو گئی ہیں۔ نواز شریف کو سزا ہوئی۔ ضابطے کی کارروائی پوری کی گئی۔ بھٹو کو پھانسی لگا دیا گیا۔ ان کو صفائی کا پورا موقع دیا گیا۔ مقدمہ میں بھٹو صاحب کی پھانسی نہیں بنتی تھی۔ بنتی تو نو رکنی کورٹ کا متفقہ فیصلہ ہوتا۔ فائنل فیصلہ 7ججوں نے دیا۔ تین سزائے موت کے مخالف تھے۔ بھٹو صاحب کو صفائی کا موقع دیا گیا۔ یہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھا یا جو بھی تھا جج تقسیم ہوگئے۔ نسیم حسن شاہ زندگی سے جاتے ہوئے بتا گئے۔”بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ دباؤ پر دیا“۔
عمران خان سے اتنا انتقام کم نہیں کہ ان کی حکومت ہی جاتی رہی۔ نواز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اُن کو اقتدار سے الگ کرنے کے پیچھے جنرل باجوہ صاحب تھے۔ پاناماکیس اتنا مضبوط تھا کہ سزا ہونی تھی۔ جنرل باجوہ صاحب نے یہ پراسس آسان بنانے میں معاونت کی۔ عمران خان کو استعمال کیا گیا۔ پھر باجوہ صاحب نے سائیڈ بدل لی۔ نواز شریف سے کیا مسئلہ تھا؟۔ عمران خان کیوں دل سے اترے کہ ان کو کرسی سے اتارنا پڑا۔ ان کی جگہ ”تجربہ کار“ آگئے۔ جنہوں نے ملک کو تجربہ گاہ بنا دیا۔کل وہ ایک سال چار ماہ بعد اقتدار سے الگ ہوگئے ہیں۔

توہین الیکشن کمیشن کیس: عمران خان پر 22 اگست کو فرد جرم عائد ہوگی -  Pakistan - AAJ
یہ لوگ کچھ بھی کہیں۔ عمرا ن خان کا ماضی کے مقابلے میں مہنگائی کا دور تھا۔ یہ تجربہ کارلائے گئے تو مہنگائی دُگنا ہو گئی۔ ایک ایک چیز پر بحث لا حاصل ہے۔ سب کچھ سامنے ہے۔یہ لوگ اور ان کے کچھ حامی سوا سال کے دور کو سنہرا بھی کہتے ہونگے۔ اس دور کو تاریک رات سے تشبیہ دینے والے بھی موجود ہیں۔سنہری رات تھی تو بھی کٹ گئی۔تاریک شب تھی تو بھی بیت گئی۔ نئے آنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے ماہ و سال ایسے ہوں کہ شہباز شریف کا سوا سال سب کو سنہرا دِکھنے لگے۔ 
توشہ کیس میں عمران خان کو تین سال سزا جرمانہ اور نااہل قرار دے دیا گیا۔ عمران خان بھی اس کے بعد نواز شریف اور زرداری کی طرح ”چوروں“کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ اگر یہی مقصد تھا تو سرِ دست حاصل ہو گیا۔ میاں نواز شریف کی سزا ختم ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پراسس شروع ہے۔ ہمارے ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ”سائڈ“ کسی بھی مرحلے پر بدلی جا سکتی ہے۔ اِ دھر سائڈ بدلے گی اُدھر پانامہ کی طرح توشہ خانہ القادر سائفر،قتل،اقدام قتل، غداری و دہشتگردی ایسے مقدمات کے گالے اڑتے نظر آئیں گے کیونکہ یہ پاکستان ہے اور کسی بھی وقت کچھ بھی بعید نہیں۔

نواز شریف سے لندن میں ملاقات کرنیوالی بااثر شخصیات کون نکلیں؟ن لیگ نے خود  ہی تصدیق کر دی- روزنامہ اوصاف
 انتخابات محض بادی النظر میں التوا میں جاتے ہوئے اس لیے نظر آ رہے ہیں کہ عمران خان کو عوامی پذیرائی حاصل ہے۔یہ ایک طرح کا خوف ہے جس میں حویلیاںاور پشاور کے بلدیاتی ضمنی الیکشن نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ حالانکہ عام انتخابات میں کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ ان کا تجزیہ کیا جائے تو ضروری نہیں مقبولیت کی بلندیوں پر نظر آنے والی پارٹی کلین سوپ کر جائے۔ بہر حال پشاور اور حویلیاں کے ضمنی الیکشن سے یہ ضرور ثابت ہو گیا ہے کہ جب تمام راستے بند کر دیئے جائیں، احتجاج کا حق بھی نہ ہو تو عوام اس طرح خاموش احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔

انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر عمران خان کو سزا

ایڈیشنل جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی۔ سزا کے ساتھ ہی عمران خان پانچ سال کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کے نا اہل بھی ٹھہرے ۔ یہ فیصلہ برقرار رہتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ مگر اس کے نتائج و عواقب کا آغاز ہو گیا۔ خان کو اسلام آباد کی پولیس نے فیصلے کے بعدایک گھنٹے میں گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری لاہور سے ہوئی۔ نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے کہا کہ پنجاب پولیس نے عمران خان کی گرفتاری میں معاونت کی۔ اسلام آباد پولیس کو کیا کنفرم کیا گیا تھا کہ عمران خان کو سزا ہو گی لہٰذا لاہور چلی جائے۔

عمران خان نے ہمایوں دلاور پرعدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ ایک تو انہوں نے عمران خان ان کی عدم موجودگی میں فردِ جرم لگائی تھی ، دوسرے ان کی فیس بک پر عمران خان کے خلاف فحش اور نازیبا پوسٹیں لگائی گئیں۔ پی ٹی آئی نے معاملہ اٹھایا تو فیس بک لاک کر دی گئی۔ اُدھر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کے سامنے یہ معاملات رکھے گئے۔ انہوں نے یہی کیس ہمایوں دلاور کو بھیج دیا کہ وہ اس کے قابلِ سماعت ہونے کا فیصلہ کریں۔ جو ایک بار پہلے بھی یہ فیصلہ کر چکے تھے۔ اب ایک بار پھر جسٹس عامر فاروق نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور پھر تیسری بار انہی کو کہا کہ عمران خان کے وکلاءکو سن کر کیس کے قابلِ سماعت ہونے کا فیصلہ کریں۔ ساتھ ان کو کیس جاری رکھنے کی بھی اجازت دے دی۔ عمران خان جسٹس عامر فاروق پر بھی عدم اعتمادکا اظہار کر چکے ہیں۔ مگر وہ خود بھی کیس سن رہے ہیں اور ہمایوں دلاور سے کیس کسی دوسری عدالت لگانے سے بھی انکار کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ان کے پاس جتنے عمران خان کے کیس تھے سب ایک ساتھ سننے کی ہدایت کی مگر وہ اس کے بجائے مرضی کے کیسزپر سماعت اور فیصلے کرتے رہے۔ انہوں نے کیس کو ٹرانسفر کرنے کی درخواست کو مسترد کرنے کا تین اگست کو لکھا گیا فیصلہ 4اگست کی شام اس وقت سنایا جب سپریم کورٹ میں اس حوالے سے کیس کی سماعت اختتام پذیر ہوگئی، صرف اس لیے کہ اگر صبح یا دوپہر کو فیصلہ سنایا جاتا تو سپریم کورٹ اس پر نوٹس لے سکتی تھی۔ جسٹس عامر فاروق اور ہمایوں دلاور میں اس منظر نامے تو مدِ نظر رکھتے ہوئے ملی بھگت نظر آتی ہے۔ ہمایوں دلاور نے5اگست کو ساڑھے 8بجے سماعت شروع کی عمران خان کے وکلا نیب کورٹ میں مصروف تھے۔ ہمایوں دلاور نے بارہ بجے تک کا وقت دیا وہ نہیں آئے تو ساڑھے 12بجے فیصلہ سنا دیا۔ دوچار دن زیادہ لگ جاتے تو کیا قیامت آجاتی۔ انصاف کے تقاضے تو پورے ہو جاتے ۔ عمران خان کو گواہ بھی پیش نہیں کرنے دیئے گئے۔ یہ انصاف کا بول بالا نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہے۔ البتہ سپریم کورٹ میں عمران خان کو انصاف مل سکتا ؟۔

فقیر ایپی،گورا قبرستان:ہیلومیڈم جین میرٹ

یاغستان کئی علاقوں پر محیط ہے۔کوہستانی زبانوں میں ”یاغی“ سرکش اورباغی کو کہتے ہیں۔لہٰذا یاغستان کا مطلب ”سرکشتان“ ہوا۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں برطانوی راج کے مخالف مجاہدین کے زیر کنٹرول وہ علاقے جو آج کے خیبرپختونخوا کے سوات، دیر، کوہستان، ہزارہ، چمرکند اورافغانستان کے صوبہ کنڑ پر مشتمل تھے ”یاغستان“ کہلاتے ۔ انعام اللہ مزید لکھتے ہیں کہ یاغستان صرف مجاہدین کے زیرکنٹرول علاقہ نہیں تھا، اس میں وہ تمام دشوارگذار علاقے شامل تھے جن کی جغرافیائی خصوصیات اور مقامی لوگوں کے مخصوص مزاج کی وجہ سے ان میں حکام رٹ قائم کرنے سے قاصر رہتے تھے۔ ان علاقوں میں ، انڈس کوہستان، چلاس، استور اور تانگیر سے لے کر موجودہ ضلع تورغر تک کا یہ سارا علاقہ یاغستان تھا۔ ”سرکش لوگوں کا علاقہ“ یہ کبھی جغرافیائی اکائی نہیں رہی بلکہ ہر وہ علاقہ ”یاغستان“ کہلایا جو کسی حکومتی عملداری میں نہ آتا تھا۔ لہٰذا گلگت سے لے کر افغانستان تک کے شمالی پاکستان کے بعض علاقوں کے علاوہ بھی یاغستان موجود تھے۔ اس لحاظ سے ہر”علاقہ غیر“ یاغستان ہی کہلایا۔
یاغستان میںسرکاری ملازم شیخ اکرم صدیقی کواغوا کرکے لے جایا گیا۔انہوں نے 1912ءاپنے اغوا اور اس دوران سختیوں کی دلدوز داستان کو کتابی شکل دی۔فقیر ایپی کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔فقیر ایپی یاغی تھاوہ مزاحمت استعارہ بنا۔ انگریز سرکارکیخلاف برسرِِ پیکار رہا۔تقسیم کے بعد پشتونستان تحریک کا سرگروہ بن کے ایک عرصہ پاکستان کیخلاف ہتھیار بند رہا۔پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے بھارتی اورافغان حکمرانوں نے اسے استعمال کیا۔زندگی کے آخری دنوں میں پاکستان کیخلاف اُٹھائے ہتھیار حجرے میں لٹکا دیئے گئے۔1890ءکی دہائی میںشمالی وزیرستان کے ایک بڑے قبیلے اتمان زئی کی شاخ بنگال خیل میں پیدا ہونے والے میرزا علی خان کوئی سیاسی شخصیت تھے اور نہ ان کا کوئی عسکری پس منظر تھا بلکہ وہ ایک عام سی مذہبی شخصیت تھے جو اس زمانے کی روایت کے مطابق دینی تعلیم کے حصول کے بعد بنوں اور رزمک کے درمیان ایپی کے مقام پر ایک مسجد کے پیش امام بنے۔ایپی ان کے نام کا مستقل حصہ بن گیا۔اس نے قبائلی وعلاقائی روایتی غیرت کی خاطر انگریز سرکار کیخلاف علمِ جہد بلند کیا۔آج ہم بات کرتے ہیں ان گوروں کی جو اس کے مقابلے میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔


میرزا علی خان وزیر المعروف فقیر ایپی اور برطانوی فوج کے مابین تنازع نے میوہ رام کی بیٹی رام کوری کے مسلمان ہو کر بنوں کے سید امیر نور علی شاہ سے شادی کرنے سے جڑ پکڑی۔ رام کوری کا اسلامی نام اسلام بی بی رکھا گیا۔ لڑکی کی ماں کی طرف سے معاملہ عدالت لے جایا گیا۔ عدالت نے لڑکی والدین کے حوالے کر دی۔ عمائدین نے لڑکی کی اس کے خاوند کو واپسی پر زور دیا۔ مگر نہ صرف لڑکی کی واپسی نہ ہوئی بلکہ امیر نور علی کو سزا بھی ہو گئی۔ اس سے وزیرستان میں غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔جرگہ ہوا اور فقیر ایپی نے سرکار کے خلاف ہتھیار اٹھالئے۔1936ءمیں بنوں سے شروع ہونے والی جنگ نے جنوبی وزیرستان کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ اس معرکہ میں جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل نے فقیر ایپی کا ساتھ دیا۔ اوائل جنگ میں انگریزسرکار نے دو ڈویژن فوج روانہ کی ۔ شروع میں4دن کی جھڑپوں میں 20انگریز مارے گئے۔ لڑائی میں فضائی قوت بھی استعمال ہوئی۔ جنگ میں قبائلی بھی کام آئے،20کو گرفتار کیا گیا۔ اگلے سال اپریل میں باغیوں نے شہور تنگی(جنوبی وزیرستان) میں قافلے پر حملہ کر کے53 فوجیوں کو پیوندِ خاک کر دیا۔ ان میں میجرٹینڈال اور کیپٹن بائیڈ سمیت سات افسرشامل تھے۔ ان سب کو ضلع ٹانک کے علاقے منزئی کے قلعہ میں دفن کیا گیا۔یہ قلعہ اٹھارہویں صدی میں دو سو ایکڑ پر تعمیرکیاگیا۔تقسیم کے بعد ملیشیا فورس کے پاس تھا، آج کل ایف سی کے تسلط میں ہے۔ بی بی سی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق اس لڑائی میں ایک ہزار کے قریب انگریز فوج کے وابستگان جبکہ 35 یاغی ہلاک ہوئے۔ایپی کو گرفتار کرنے کی ہرممکن کوشش بے سود رہی۔


ایپی کی کامیابی کی وجہ سینہ بہ سینہ پھیلنے والی مبالغہ آمیز داستانیں تھیں۔24 جون 1937 کو ارسال کی جانے والی برطانوی حکام کی انٹیلیجنس رپورٹ میں دلچسپ تذکرہ کیا گیا:۔ قبائلیوں کو یقین ہے، فقیرکو قدرت نے غیر معمولی طاقت عطا کر رکھی ہے۔ اُس کے چھاپہ مار ساتھی درخت کی چھڑی اسے پیش کرتے ہیں تو وہ اسے بندوق میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اگر وہ چند روٹیوں کو ڈھانپ دے تو یہ پورے لشکر کی کیلئے کافی ہوتی ہیں۔ جہازوں سے گرائے جانے والے بم روئی کے گالوں میں بدل جاتے ہیں۔ایسے تصورات اور قصے کہانیوں سے اسے تقدس حاصل ہو گیا۔ اسے جنگجو کے علاوہ دیومالائی روحانی شخصیت کا درجہ بھی دیا جانے لگا۔اسی بنا پرقبائلی عوام کا تعلق بھی اس پر غیر متزلزل ہوگیا۔


    مزید جھڑپیں اور ہلاکتیں ہوتی رہیں۔ جن میں مرنے والے گوروں کو منزئی کے اس قبرستان میں لا کر دفنایا جاتا رہا۔ منزئی قلعہ گویا قبرستان بن گیا۔ انگریز فوجیوں کا قبرستان۔ گورا قبرستان۔ آج9دہائیاں گزرنے کو ہیں ۔ اس دوران کئی قبریں مٹ گئیں ، بے نشاں ہوگئیں یا بیٹھ گئیں، مگر43اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ اسی علاقے کے دلاور خان وزیر نے آرٹیکل میں لکھا کہ قبروں کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ قبرستان شاید مکمل طور پر بے نشان ہو جاتالیکن قلعہ کے اندر اور مزید براں چاردیواری کی وجہ سے محفوظ ہے۔ خستہ حالی کے باوجود کئی کتبوں کی عبارت واضح پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ قبرستان آخر کار کب تک وقت کے بے رحم تھپیڑوں کا مقابلہ کرسکے گا؟۔ عدم توجہی کے باعث یہ بے نشاں ہو جائے گا۔


انگریز اپنے ورثے کا ہی نہیں اپنے وابستگان کا ان کی معاشی ضروتوں تک کابھی خیال رکھتے ہیں۔ منزئی کے گورا قبرستان سے کیسے صرفِ نظر ہوگیا؟۔ کرسچن ٹرنر پاکستان میں ہائی کمشنر رہے۔ پاکستان اور برطانیہ کے مابین تعلقات کو نئی جہتیں دینے کیلئے کردار بخوبی نبھاتے رہے۔ شاہی خاندان کے اہم افراد کے دوروں کا اہتمام تک کیا۔ اب ان کی جگہ جین میرٹ کو ہائی کمشنر تعینات کیا گیاہے۔ ان کا زبردست سفارتی کیریئر ہے۔بڑی انرجیٹک ہیں۔ یقینا اپنے پیشر وکی طرح پاکستان اوربرطانیہ کے تعلقات میں مزید قربتوں کے لیے کردار ادا کریںگی۔ وہ ایک کام گورا قبرستان کی بحالی اور تحفظ کے لیے بھی کریں۔ حالیہ دنوں فقیر ایپی کے مزار کی تزئین کی گئی۔ پاک فوج کی طرف سے مزار کے ساتھ میوزیم بنایا گیاہے۔ہلاکتیں دونوں طرف ہوئیں ۔قبائلی اپنی غیرت پر کٹے گورے وطن کی خاطر مرے۔ جین میرٹ منزئی گورا قبرستان تشریف لے جائیں ، قبروں کی زبوں حالی دیکھیں۔ اپنے وطن کی خاطر لڑنے والوں کو خراج عقیدت پیش کریں۔ ہر قبر کا فریم سیدھا کرائیں۔جس سے خاک نشینوںکی روحوں کو تسکین ملے گی اور یہ ایک یادگارسیاحتی مقام بھی بن سکے گا۔ 

گورا قبرستان۔۔۔۔۔ لڑکی کی خاطر جنگ میں فقیر ایپی کے ہاتھوں مرنے والے انگریزفوجیوں کا خستہ حال قبرستان برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ کی توجہ کا متقاضی۔

پارٹ 2

جب محسود قبائل کی طرف سے برطانوی فوج پر حملے شروع ہوئے تواس دوران انگریزوں نے نومبر 1936 میں دو بریگیڈ فوج جنوبی وزیرستان بھیجی اور مختلف علاقوں میں محسود قبائل کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں جن میں انگریزوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
جنوبی وزیرستان میں قبائلیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے برطانوی فوجیوں کی قبریں ضلع ٹانک کے علاقے منزئی قلعہ میں ایک تاریخی یاد کے طور پر محفوظ ہیں۔برطانوی دور حکومت کے دوران جنوبی وزیرستان میں بنی یہ 43 قبریں قدرے بہتر حالت میں ہیں جن میں ایک میجر، دو کیپٹن اور دو لیفٹینینٹس کی قبریں بھی شامل ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی کمانڈنٹ منزئی، رحمت خان محسودکا کہنا ہے کہ اس گورا قبرستان میں برطانوی فوج کے وہ اہلکار دفن ہیں جو جنوبی وزیرستان میں قبائلی لشکروں کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے تھے۔


ایک چھوٹے سے قبرستان میں دفن ہونے والے انگریزوں کی یہ قبریں ایک چاردیواری کے اندر واقع ہیں جن میں سے چند بری حالت میں ہیں مگر پھر بھی جن قبروں پر کتبے آویزاں تھے ان کی تحریریں اب بھی واضح طور پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ برطانوی فوج اور (حاجی)غازی میرزاعلی خان وزیر المعروف فقیرایپی کے درمیان یہ جنگ تب شروع ہوئی جب مارچ 1936 میں ایک ہندو لڑکی رام کوری نے مذہب تبدیل کرنے کے بعد بنوں کے ایک مسلمان ٹیچر سید امیر نور علی شاہ سے شادی کی، ان کا نام اسلام بی بی رکھا گیا۔ لڑکی کے والدین کی جانب سے معاملہ عدالت گیا۔ فیصلہ ان کے حق میں ہوا۔فیصلے کے بعد انگریزوں نے قبائلی عمائدین پر بہت زور ڈالا کہ اس لڑکی کو واپس کیا جائے۔ عمائدین نے چند شرطیں رکھیں لیکن انگریز انہیں پورا کیے بغیر وہ لڑکی واپس لے کر جانے میں کامیاب ہو گئے۔ بنوں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے عدالتی احکامات کے مطابق سید امیر نور علی شاہ کو گرفتار کر کے سزا دلوائی۔اس سے وزیرستان میں غم وغصہ پھیل گیا اور ایک جرگہ منعقد ہونے کے بعد فقیر ایپی نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر دیا۔


ایک ہندو لڑکی پر 1936 میں بنوں اور شمالی وزیرستان سے شروع ہونے والی جنگ یہ جنوبی وزیرستان تک پھیل گئی۔فقیر ایپی محسود قبائل کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے میں گئے تاکہ برطانوی فوج کے خلاف لڑنے میں وہ ان کا ساتھ دیں۔محسود قبائل حاجی مرزاعلی خان عرف فقیر ایپی کے ساتھ انگریز کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔جب محسود قبائل کی طرف سے برطانوی فوج پر حملے شروع ہوئے تواس دوران انگریزوں نے نومبر 1936 میں دو بریگیڈ فوج جنوبی وزیرستان بھیجی اور مختلف علاقوں میں محسود قبائل کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔مسلسل چار دن تک جاری ہونے والی لڑائی میں20 سے زیادہ انگریز مارے گئے۔انگریزوں نے زمینی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ فضائی طاقت کا بھی استعمال کیا اور قبائلی لشکروں میں شامل جنگجوو¿ں کو مارنے کے علاوہ مختلف علاقوں سے گرفتار بھی کرلیا۔ کم و بیش چوبیس قبائلی گرفتار ہوئے۔
اپریل 1937 میں جنوبی وزیرستان کے علاقے شہور تنگی میں انگریزوں کے ایک قافلے پر مسلح قبائلیوں نے اچانک حملہ کیا جس میں 53 برطانوی فوجی مارے گئے، مرنے والوں میں سات فوجی آفیسربھی شامل تھے۔

15822687_705916192917140_5070230221437496823_n.jpg
جنوبی وزیرستان میں ہلاک ہونے والے ان تمام فوجیوں کو ضلع ٹانک کے علاقے منزئی میں واقع ایف سی قلعہ کی حدود میں دفنا دیاگیا اور مزید جھڑپوں کے بعد منزئی قلعے نے ایک پورے قبرستان کی شکل اختیار کر لی۔آج اتنے عرصے بعد بھی چار دیواری کے اندر ان 43 قبریں نظر آتی ہیں۔ویسے تو ہر قبر کی اپنی ہی ایک کہانی ہوتی ہے مگر منزئی میں گوراقبرستان ایک ایسی تاریخی کتاب کی مانند ہے جس نے وزیرستان میں انگریزوں کے ساتھ قبائلیوں کی جنگ پر مشتمل پُرانی تاریخ کو محفوظ کر رکھا ہے۔
 برطانوی حکومت نے منزئی گورا قبرستان کو لڑائیوں میں ہلاک ہونے والے انگریزوں کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ منزئی گورا قبرستان صرف اس لیے محفوظ ہے کہ یہ قلعے کی حدود میں واقع ہے اور قبرستان کے گرد علیحدہ سے ایک چار دیواری بھی موجود ہے۔ قبرستان کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے بارش کا پانی قبروں کے اندر داخل ہوتاہے جسکی وجہ سے بعض قبریں زمین کے برابرہو چکی ہیں۔ بعض کا تو نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔


ڈیرہ ڈویژن میں منزئی سے بڑا کوئی قلعہ موجود نہیں۔ یہ قلعہ اٹھارہویں صدی میں تقریباً دو سو ایکڑ سے زیادہ رقبے پر بنایاگیا تھا۔ اس قلعے میں پوری بریگیڈ فوج موجود ہوتی تھی جس سے ریاست وزیرستان کو کنٹرول کیاجاتا تھا۔وزیرستان میں قبائلی لشکروں کے خلاف فوج پوری تیاریوں کے ساتھ یہاں سے بھیجی جاتی اس دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں منزئی قلعہ میں لائی جاتی تھیں۔ برطانوی فوج کے جانے بعد قلعے کو ملیشیا فورس کے حوالے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 1975 میں ملیشیا فورس کو یہاں سے وزیرستان بھیج دیاگیا اور قلعے میں فرنٹیر کانسٹیبلری کو تعینات کردیاگیا جو اب تک یہاں موجود ہیں۔

اہم تاریخی اور یادگارمنزئی گورا قبرستان مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اب محض ایک اجاڑ ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے۔ شاید ایک دن تاریخ کا یہ اہم باب وقت کے سردوگرم سے متاثر ہو کر کہیں گم ہو جائے گی۔ لڑکی کی خاطر جنگ میں فقیر ایپی کے ہاتھوں مرنے والے انگریزفوجیوں کا خستہ حال قبرستان برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ کی توجہ کا متقاضی۔

آئیں فقیر ایپی کے مزارپر وزیرستان چلیں

فقیر ایپی مزاحمت استعارہ ہے ۔وہ انگریز کیخلاف برسرِ پیکار رہا ایک عرصہ پاکستان کیخلاف بھی ہتھیار بند رہا۔

پشتونستان تحریک کا پشتیبان بھی رہا۔پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے افغان حکمرانوں نے اسے استعمال کیا۔زندگی کے آخری دنوں میں پاکستان کے دشمن ان سے مایوس ہوچکے تھے ۔فقیر ایپی کی جانب سے بالآخر پاکستان کیخلاف اُٹھائے ہتھیار اپنے حجرے میں لٹکا دیئےگئے ۔

میوزیم تاریخی گورویک مرکز میں فقیر ایپی کے مزار کے احاطے میں قائم کیا گیا ہے— فوٹو: جیو نیوز

فقیرایپی کی زندگی کے مختلف گوشے آپ کے سامنے لانے کی کوشش کریں گے۔اس نے اسلامی غیرت کی خاطر پختون روایا ت کے مطابق انگریز حاکموں کیخلاف علمِ جہاد بلند کیا۔رام بی بی سے اسلام بی بی اس جدوجہد کی وجہ بنی تھی۔آج پہلے حصے میں ان کے مزار پر میوزیم بنانے کی خبر سے آغاز کرتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں جنگ آزادی کے ہیرو حاجی میرزا علی خان المعروف فقیر ایپی مزار پر میوزیم بنا دیا گیا۔پاک فوج نے جدید انداز میں فقیر ایپی مزار کی تزئین و آرائش کے بعد مزار کے قریب عجائب گھر قائم کیا ہے۔

میوزیم میں حاجی مرزاعلی خان کے زیر استعمال اسلحہ اور دیگر ساز و سامان رکھا گیا ہے— فوٹو: جیو نیوز
شمالی وزیرستان میں جنگ آزادی کے ہیرو حاجی میرزا علی خان سے منسوب میوزیم قائم کرکے وہاں ان کے زیر استعمال اسلحہ اور دیگر ساز و سامان رکھا گیا ہے۔میوزیم میرانشاہ سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب کی جانب واقع تاریخی گورویک مرکز میں فقیر ایپی کے مزار کے احاطے میں قائم کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ریحان گل خٹک کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے جدید انداز میں فقیر ایپی مزار کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کرنے کے بعد مزار کے قریب عجائب گھر بھی قائم کیا ۔

فقیر ایپی کی رہائش گاہ اور اسلحہ بنانے کی فیکٹری کو بھی محفوظ بنایا گیا ہے— فوٹو: جیو نیوز
 فقیر ایپی کے مزار پر قائم کیے گئے میوزیم میں حاجی میرزاعلی خان کے زیر استعمال اسلحہ اور دیگر ساز و سامان رکھا گیا ہے۔ میوزیم کا کام مکمل ہو گیا ہے۔اسے عوام کیلئے کھول دیا گیا ہے۔فقیر ایپی کی رہائش گاہ اور اسلحہ بنانے کی فیکٹری کو بھی محفوظ بنایا گیا ہے۔گورویک میں فقیر ایپی کے سپاہیوں کے زیر استعمال غار بھی بحال کئے گئے ہیں جبکہ فقیر ایپی کی رہائش گاہ اور اسلحہ بنانے کی فیکٹری کو بھی محفوظ بنادیا گیا ہے۔ گورویک میں فقیر ایپی کا مزار سیاحت کا مرکز ثابت ہورہا ہے۔

گورویک میں فقیر ایپی کے سپاہیوں کے زیر استعمال غار بھی بحال کئے گئے ہیں— فوٹو: جیو نیوز

پاک فوج نے جدید انداز میں فقیر ایپی مزار کی تزئین و آرائش  کے بعد مزار کے قریب عجائب گھر بھی قائم کیا ہے— فوٹو: فائل