انڈین ایئر لائنز پرواز 814 کا اغواء
یہ24 دسمبر 1999ء کے روز کی المناک کہانی ہے۔ انڈین ایئر لائنز کی فلائٹ آئی سی 814 کھٹمنڈو سے ٹیک آف کرتی ہے۔ یہ فلائٹ دلی جا رہی ہے اور عام طور پر کھٹمنڈو سے دلی جانے میں قریباً دو گھنٹے کا وقت لگتا ہے لیکن اس فلائٹ میں بیٹھے پیسنجرز اور کریو ممبرز اس بات سے انجان ہیں کہ ان کے لیے دلی کی یہ دوری بہت دور ہونے والی ہے۔ اس جہاز کو پانچ لوگ اغواء کرتے ہیں اور یہ ہائی جیکرز یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے انڈین سرکار سے 200 ملین ڈالرز کی رقم مانگتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ اور بڑے مطالبات جیسے کہ کچھ شدت پسندوں کو جیل سے رہا کرنا ہوتا ہے۔ اگلے سات دن تک پورا ملک دل تھام کر اس ہنگامے کو ٹیلی ویژن نیوز پر ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ایک ایسی ہائی جیکنگ جو انڈیا کی تاریخ میں سب سے بڑی ہائی جیکنگ اور اب تک کی آخری پلین ہائی جیکنگ تھی۔
24 دسمبر 1999ء کو اس فلائٹ کے کھٹمنڈو سے ٹیک آف ہونے کے کچھ ہی دیر بعد فلائٹ میں پیسنجرز کو کھانا سرو کیا جاتا ہے اور جب پیسنجرز اپنا لنچ کر رہے تھے تبھی اچانک سے چار ماسک پہنے لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کا کھانا چھیننا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ساتھ ہی فلائٹ میں اعلان کیا جاتا ہے کہ اس جہاز کو اب ہائی جیک کیا جا چکا ہے۔ ہائی جیکرز بڑی جلدی پائلٹ کیبن میں گھس جاتے ہیں اور کیپٹن دیوی شرن کو گن پوائنٹ پر رکھ کر انہیں ہدایات دی جاتی ہیں کہ مغرب کی جانب جہاز اڑاتے رہو۔ دراصل ہائی جیکرز اس جہاز کو پاکستان لے جانا چاہتے تھے۔ یہ جہاز دلی سے آگے پاکستان کی جانب نکل پڑتا ہے۔ خاص طور پر لاہور کے ایئرپورٹ کی طرف۔ لیکن لاہور کے ایئرپورٹ میں جو پاکستانی ایئر ٹریفک کنٹرول والے تھے انہوں نے اسے سختی سے منع کر دیا کہ ہم یہاں لینڈ نہیں کرنے دیں گے دوسری طرف انڈیا میں ایئر ٹریفک کنٹرول کو ہائی جیکنگ کی ایک خبر پتہ چلتی ہے چار بج کے 40 منٹ پر۔ اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ انڈیا کے تب کے پردھان منتری اٹل بہاری واجپائی اور ان کے پرنسپل سیکرٹری برجیش مشرا کو اس کے بارے میں قریب ایک گھنٹے بعد یعنی پانچ بج کے 20 منٹ پر ہی پتہ چل جاتا ہے۔ چھ بج کے چار منٹ انڈین ایئر ٹریفک کنٹرول فلائٹ آئی سی 814 کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیپٹن دیوی شرن انہیں بتاتے ہیں کہ پلین میں فیول کم ہو رہا ہے اور لاہور میں انہیں لینڈ کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ کیپٹن انڈین ٹریفک کنٹرول سے کہتے ہیں کہ پلیز پاکستان والوں کو کہیں ہمیں لینڈ کرنے کی اجازت دیں۔ کیونکہ ہائی جیکرز دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ پیسنجرز کو مارنا شروع کر دیں گے اگر ہمیں پاکستان میں لینڈ نہیں کرنے دیا گیا۔ شام کے ٹھیک ساڑھے چھ بجے انڈین ہائی کمیشن پاکستان سے گزارش کرتا ہے کہ جہاز کو لاہور میں لینڈ کرنے دیا جائے لیکن اجازت نہیں دی جاتی۔ اسی دوران جہاز میں بیٹھے کیپٹن دیوی شرن ہائی جیکر سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جہاز میں اب فیول بہت کم بچا ہے۔ ہم یہاں پر اجازت ملنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ہمیں جہاز کو ری فیول کرنے کے لیے کہیں پر لینڈ کرنا ہی پڑے گا ۔ کیپٹن ہائی جیکرز کو قائل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ہائی جیکرز جہاز کو ری فیولنگ کروانے کے لیے مان جاتے ہیں اور کہتے ہیں ٹھیک ہے جہاز کو امرتسر میں ہم لینڈ کرا دیں گے۔شام چھ بج کر 44 منٹ پر فلائٹ امرتسر کی جانب بڑھنے لگتی ہے۔ اب یہ ایک ایسی چیز تھی جو ہائی جیکرز بالکل نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے انڈیا کے جہاز کو ہائی جیک کیا تھا اور انڈیا میں ہی اس کا لینڈ ہو جانا مطلب انڈین گورنمنٹ اتھارٹیز کے پاس ایک بڑا اپر ہینڈ ہوگا. ایسی صورتِ حال انڈیا کے لیے بہت ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔ انڈین فورسز اب شاید بڑی آسانی سے صورت حال کو کنٹرول میں لا سکتی ہیں کیونکہ جہاز انڈیا میں لینڈ ہونے جا رہا ہے۔ لیکن آگے جو ہوتا ہے وہ ایک بہت ہی تاریخی بلنڈر ہے۔ سبرامینم سوامی اس حادثے کو اس طرح بیان کرتے ہیں "A worst capitulation to terrorists in india’s modern history" انڈین اتھارٹیز ایسی کیا غلطی کر بیٹھتی ہیں۔ غلطی ایک نہیں بلکہ کئی ہوتی ہیں۔ سات بج کر ایک منٹ پر امرتسر ایئرپورٹ پر فلائٹ لینڈ کرتی ہے اور فوری طور پر درخواست کی جاتی ہے کہ فلائٹ میں فیولنگ کر دی جائے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سرںجیت سنگھ کو اس ہائی جیکنگ کے بارے میں صرف ایک گھنٹے پہلے چھ بجے ہی پتہ چلتا ہے اور وہ بھی باقی حکام کے ذریعے نہیں بلکہ ٹی وی نیوز کے ذریعے۔
کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں کتنا بڑا کمیونیکیشن فیلر تھا کہ اتنے امپورٹنٹ آدمی کو اس ہائی جیکنگ کی خبر ٹی وی دیکھ کر پتہ چلتی ہے۔ ہائی جیکنگ کے بعد ایک کرائسس مینجمنٹ گروپ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک لوکل کمیٹی بنائی جاتی ہے جس کا کام ہوتا ہے کہ جہاز کو زیادہ سے زیادہ لیٹ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے کمانڈوز کو زیادہ ٹائم مل پائے گا ایک سٹریٹجی ڈویلپ کرنے کا۔ اور کچھ گراؤنڈ پر آپریشن کنڈکٹ کرنے کا۔ لیکن جہاز میں بیٹھے ہائی جیکرز لوکل پولیس آفیشل سے رابطہ کرنے سے ہی منع کر دیتے ہیں۔ وہ صرف دلی میں بیٹھے آفیشلز کے ساتھ رابطہ کرنا چاہ رہے تھے اور اس رابطے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ کیپٹن دیوی شرن ایک بار پھر سے گزارش کرتے ہیں کہ جہاز کو پلیز ری فیول کر دیجئے۔ اگر ری فیول نہیں کیا جائے گا تو یہاں پر شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ لوگوں پر حملہ کرنا شروع کر دیں گے۔ پیسنجرز کو مارنا شروع کر دیں گے۔ پانچ منٹ گزرتے ہیں، 10 منٹ، 15 منٹ، کوئی ری فیولنگ نہیں کی جاتی۔ ہائی جیکرز حقیقت میں ایک آدمی پر حملہ کر دیتے ہیں۔ جس کا نام ست نام سنگھ ہے۔ ایک چاقو سے ان کی گردن پر زخم لگایا جاتا ہے۔ کیپٹن دیوی شرن ایک بار پھر ریکویسٹ کرتے ہیں کہ جہاز کی ری فیولنگ جلدی سے جلدی کی جائے۔ اسی دوران 40 منٹ گزر جاتے ہیں۔ 7:45 کرائسز مینجمنٹ گروپ ایک پلان بناتا ہے اور پنجاب پولیس کو آرڈر دیتا ہے۔ یہ سوچتے ہیں کیوں نہ جب ہم جہاز کی فیولنگ کر رہے ہوں، اس فیول ٹینکر میں ہم پنجاب پولیس کے کچھ آفسرز کو چھپا کر لے جائیں اور چپکے سے جا کر وہ جہاز کے ٹائر پنکچر کر دیں۔ ٹائر پُھس ہونے سے جہاز دوبارہ ہوا میں نہیں اڑ پائے گا۔ اچھا منصوبہ ہے لیکن اس منصوبے کو ایکشن میں لانے سے پہلے اے ٹی سی کے پاس ایک اور پلان ہوتا ہے۔ ہم کیوں نہ جہاز کے سامنے ایک فیول ٹینکر لے جا کر کھڑا کر دیں۔ جہاز کا راستہ روکنے کے لیے تو ایک فیول ٹینکر جہاز کی جانب بڑھنا شروع کرتا ہے۔ فیول ٹینکر کا ڈرائیور تھوڑی تیز گاڑی چلا رہا تھا۔ اے ٹی سی والوں کو لگا اگر اتنی تیزی سے ہم لوگ جائیں گے تو کہیں ہائی جیکرز کو یہ نہ لگے کہ یہاں پر کچھ غلط ہونے والا ہے۔ لہٰذا ڈرائیور کو آہستہ گاڑی چلانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ لیکن وہ ڈرائیور مس کمیونیکیشن کہیں یا کچھ اور وہ اچانک فیول ٹینکر کو روک دیتا ہے۔ جہاز کے کاکپٹ میں بیٹھے ہائی جیکرز اور کیپٹن اس حرکت کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ہائی جیکرز یہ سب دیکھ کر سوچنے لگتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پہلے یہ گاڑی بڑی تیزی سے ہماری طرف آ رہی تھی اور پھر اچانک سے رک گئی۔ یہاں پر کچھ تو مسئلہ ہے۔ یہ کچھ نہ کچھ کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حرکت کے بعد ہائی جیکرز مایوس ہوگئے۔ انہوں نے کہا بہت ہوئی ری فیولنگ جہاز کو دوبارہ ہوا میں لے جایا جائے گا۔ بنا ری فیولنگ کے۔ کیپٹن شرن پر فوری دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ جہاز کو دوبارہ سے ہوا میں اڑایا جائے۔ اوراس فیول ٹینک کو جو جہاز کے سامنے کھڑا ہے اسے اگنور کردیں۔ ٹکر مار دو، جو کرنا ہے کرو، لیکن جہاز کو دوبارہ سے ہوا میں اڑاؤ۔ دباؤ میں آکر کیپٹن شرن پھر سے پلین کو ٹیک آف کے لیے تیار کرتے ہیں۔ رن وے پر سپیڈ کرتے وقت وہ بال بال اس فیول ٹینکر سے بچتے ہیں جو جہاز کے سامنے تھا۔ تقریباً اس ایکسیڈنٹ سے بچنے کے بعد جہاز ایک بار پھر سے ہوا میں چلے جاتا ہے۔ یہ سب 7:49 پر ہوتا ہے۔ اسی وقت جب این ایس جی کے کمانڈوز ایئرپورٹ پر پہنچتے ہیں۔ آپریشن پورے طریقے سے بیک فائر کر جاتا ہے۔ این ایس جی کے کمانڈوز کو کوئی موقع ہی نہیں مل پاتا ایکشن لینے کا۔ اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ جہاز میں ابھی بھی فیول نہیں ڈلا۔ ٹیک آف کے وقت کیپٹن دیوی شرن اے ٹی سی کو میسج بھیجتے ہیں "ہم سب مرنے والے ہیں"۔ امرت سر سے لاہور صرف 50 کلومیٹر دور ہے اور یہ فلائٹ ایک بار پھر سے پاکستان کی طرف مڑتی ہے۔ ایک بار پھر پاکستان کے ایئر ٹریفک کنٹرول اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہم اس جہاز کو پاکستان میں لینڈ نہیں ہونے دیں گے۔ انہیں خطرہ تھا کہ ہائی جیکرز پائلٹ پر دباؤ ڈال کر زبردستی لاہور ایئر پورٹ پر لینڈنگ کرائیں گے۔ لہٰذا لاہور کے ایئرپورٹ پر ساری لائٹس کو بند کر دیا جاتا ہے۔ جو بھی نیویگیشنل ایڈز اور لائٹیں موجود تھیں ایئرپورٹ پر سب ٹرن آف۔ تاکہ جہاز اگر لینڈ کرنا بھی چاہے تو لائٹوں کے بنا لینڈ کرنا بہت مشکل ہو جائے۔ لیکن کیپٹن شرن کے اوپر پریشر اتنا زیادہ ہوتا ہے ہائی جیکرز کی طرف سے ۔ وہ کہتے ہیں ہمیں نہیں فرق پڑتا ہے یہاں رن وے دکھ رہا ہے یا نہیں دکھ رہا۔ ہمیں جہاز کو لینڈ کرانا ہے کہیں بھی کرا لو۔
اب فلائٹ دھیرے دھیرے نیچے آتی ہے اور اچانک کیپٹن شرن کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ہائی وے کے اوپر کریش لینڈ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ ایک آخری درخواست پاکستان کے ایئر ٹریفک کنٹرول سے کرتے ہیں۔ ہم ایک ہائی وے پر کریش لینڈ کر جائیں گے اگر ہمیں آپ نے اپنے ایئرپورٹ پر لینڈ نہیں کرنے دیا۔ یہ سن کر آخر کار لاہور ایئر پورٹ کا ایئر ٹریفک کنٹرول مان جاتا ہے اور یہ جہاز لاہور میں لینڈ کرتا ہے۔ آٹھ بج کے سات منٹ پر انڈیا کی طرف سے پاکستان کے ایئرپورٹ آفیشلز کو بولا جاتا ہے کہ پلیز اس جہاز کو دوبارہ سے مت اڑنے دینا۔ انڈیا کا پلان تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھے انڈین ہائی کمشنر جی پارتھا سارتھی کو ہائی جیکرز کے ساتھ گفت و شنید کرنے کے لیے بھیجا جائے گا۔ یہاں پاکستان کے ایئرپورٹ پر آخر کار اس طیارے کو ری فیول کیا جاتا ہے اور پلین کو دوبارہ ٹیک آف ہونے سے روکنے کے لیے پھر سے لائٹیں سوچ آف کر دی جاتی ہیں اور کمانڈوز اس جہاز کو گھیر لیتے ہیں۔ بظاہر ہائی جیکرز کے ساتھ گفت و شنید کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستانی فورسز کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ عورتوں اور بچوں کو چھوڑ دو۔ لیکن یہ گفت و شنید ناکام ہو جاتی ہے۔ ہائی جیکرز اس بات سے مشتعل ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کی گفت و شنید کا کوئی حل نہیں نکل رہا۔ ابھی تک ان کے مطالبات کو پورا نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اسی غصے میں ہائی جیکرز ایک اور پیسنجر پر حملہ کرتے ہیں۔ اس کا نام روپن کٹیال ہے، اس کی عمر 25 سال ہوتی ہے، وہ آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ہنی مون سے لوٹ رہا تھا۔ بعد میں چل کر روپن کا انتقال بھی ہو جاتا ہے۔ بھارتی انالسٹس کا شکوہ ہے کہ پاکستان کا یہاں پر کام تھا انڈین ہائی کمشنر کو ہیلی کاپٹر فراہم کرنا تاکہ وہ جلدی سے جلدی یہاں پر گفت و شنید کے لیے آسکے ۔ لیکن تین گھنٹے لیٹ وہ ہیلی کاپٹر فراہم کیا جاتا ہے۔ جب تک وہ لاہور پہنچتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ جہاز دوبارہ سے ٹیک آف کر چکا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو پایا؟ جب وہاں ایئرپورٹ پر ساری لائٹیں سوئچ آف کر دی گئی تھیں۔ کمانڈوز نے پورے جہاز کو گھیر لیا تھا۔ پھر کیسے جہاز ٹیک آف کر گیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کسی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔اسی لیے سرے سے جہاز کو لینڈ کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جا رہی تھی مگر انسانی ہمدردی کے تحت صرف ری فیولنگ کے لیے اسے لینڈ کرنے دیا گیا اور پھر اسے ٹیک آف کروا دیا گیا کہ جہاں اس نے جانا ہے چلا جائے۔پاکستان کی طرف سے یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا تھا کہ 1971 میں بھارت نے سازش کے تحت گنگا جہاز اغوا کروایا اور نام نہاد مجاہدین اسے پاکستان لے آئے۔اسے مسافروں سے خالی کروا کے اگ لگا دی گئی۔ اس کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے لیے فضائی حدود استعمال کرنے کی پابندی لگا دی تھی۔پاکستان کسی ایسے ہی صورتحال سے اب بچنا چاہتا تھا۔ فلائٹ کو اب لاہور سے عمان کی طرف لے جایا جاتا ہے لیکن وہاں بھی لینڈنگ کی اجازت نہیں دی جاتی۔اس فلائٹ کی اگلی لینڈنگ دبئی کے المنہاد ایئر بیس پر ہوتی ہے۔ رات کے قریب تین بجے یہاں پر مذاکرات کے بعد آخر کار ہائی جیکرز 26 پیسنجرز کو رہا کرتے ہیں۔ انڈین ایئر لائنز کا ایک سپیشل ریلیف ایئر کرافٹ دبئی میں بلایا جاتا ہے وہ ان پیسنجرز کو لے جا کر واپس انڈیا چھوڑ کے آتا ہے۔ اس وقت کے سول ایوییشن منسٹر شرد یادیو بھی اس فلائٹ میں موجود تھے اور پیسنجرز کو واپس گھر پہنچانے تک ساتھ دے رہے تھے۔ یہ پیسنجرز جو دبئی سے لوٹ کر آئے تھے ان کی مدد سے ہائی جیک فلائٹ کے بارے میں کافی اہم معلومات پتہ چلتی ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ جہاز کے اندر آدمیوں، عورتوں اور بچوں کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ اور سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ کچھ عورتوں نے بتایا کہ ہائی جیکرز اچھا برتاؤ کر رہے تھے ان کے ساتھ۔ بچوں کو لے کر کافی نرم مزاج تھے۔ ان کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ پانچ ہائی جیکرز تھے جنہوں نے اپنے الگ الگ نام رکھے ہوئے تھے۔ سب سے بڑا ان کا لیڈر جو اپنے آپ کو چیف کر کے پکارتا تھا اور اس کے علاوہ جو چار تھے وہ برگر، ڈاکٹر، شنکر، اور بھولا۔ یہ ان کے فرضی نام تھے جو ہائی جیکنگ کے وقت یہ استعمال کر رہے تھے۔ لیکن ان کے اصلی نام بعد میں پتہ چلتے ہیں: ابراہیم اختر، شاہد اختر سعید، سنی احمد قاضی، ظہور مستری اور صغیر۔ زیادہ تر ہائی جیکرز پاکستان تھے۔ بعد میں کیپٹن اور ہوسٹیجز دونوں ہائی جیکر برگر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس نے لوگوں کا دل جیت لیا تھا۔ فلائٹ پر، گانا گا کر، جوک سنا کر، اور ان کے ساتھ بات چیت کر کے۔ کافی حیرانی والی بات تھی کہ کچھ ہائی جیکرز اس طریقے سے برتاؤ کر رہے تھے، کیونکہ دوسری طرف سے ایسی بھی کہانی آ رہی تھی کہ ٹھیک سے کھانا نہیں دیا جا رہا۔ ایک عورت بتاتی ہیں کہ ان کا بچہ رو رہا تھا بھوک کے مارے اور ہائی جیکر نے چیخ کر بولا کہ اسے چپ کرواؤ۔ ایک دن گزر جاتا ہے۔ جو پیسنجرز ابھی تک جہاز کے اندر موجود ہیں۔ ان کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ کھانے اور پانی کی سخت کمی ہے۔ ٹوائلٹس کی بری حالت ہے۔ جہاز دوبارہ سے ٹیک آف کرتا ہے اور اس بار یہ افغانستان کی طرف جاتا ہے۔ 26 دسمبر صبح کے اٹھ بجے جہاز کندھار انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے۔ لینڈنگ کے بعد یہاں موجود طالبان کی اتھارٹیز آفر کرتے ہیں کہ وہ ہائی جیکرز اور انڈیا کے بیچ میڈیئیٹ ثالثی کریں گے۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کا راج تھا۔ لیکن انڈیا اس وقت تک طالبان کی سرکار کو تسلیم نہیں کر رکھا تھا۔ لہٰذا انڈیا اپنے اسلام آباد کے ہائی کمیشن کے ایک آفیشل کو کندھار مذاکرات کے لیے بھیجتا ہے۔ اگلے چھ دن تک جہاز میں بیٹھے لوگ یہیں پر رہتے ہیں۔ کوئی اندازہ نہیں انہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ ان کا مستقبل کیا ہے۔ کیا وہ یہیں پر مارے جائیں گے۔ انڈین گورنمنٹ کو طالبان کے اصلی ارادے پر شک ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ اس جہاز کو طالبان کے لوگوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ ان طالبان نے ہتھیار پکڑ رکھے ہیں۔ طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ہائی جیکرز کے خلاف کر رکھا ہے، تاکہ کوئی بھی ہائی جیکر یہاں پر لاپرواہی سے برتاؤ نہ کریں۔ اس لیے ہم نے سیکیورٹی کے لیے چاروں طرف اپنے لوگ لگا دیئے۔
لیکن انڈین تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ انڈیا اپنی طرف سے ہائی جیکرز کیخلاف کوئی ملٹری آپریشن نہ کر پائے۔ اجیت دووال جو اس وقت ایک سپیشل ٹیم کا حصہ تھے ،انہیں کندھار ہائی جیکرزکے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہائی جیکرز کو آئی ایس آئی سے کندھار میں سپورٹ مل رہا تھا۔ انہیں ضمانت دی جا رہی تھی کہ انہیں محفوظ باہر نکالا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایس آئی یہاں مداخلت نہیں کرتی تو انڈیا اس ہائی جیکنگ کو حل کر پاتا۔انڈیا سے جو امرتسر میں نہ ہو سکا وہ اجیت دوول نے کندھار میں کر لینا تھا۔ یہ سال 1999ء کی بات ہے ۔ وہی سال جب کارگل کی جنگ بھی ہوئی تھی۔وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کوشش بھی کی تھی پاکستان کے ساتھ پُر امن تعلقات بنانے کی۔ لیکن وہ ناکام رہے اور یہ ہائی جیک پرائم منسٹر کی شہرت کو لے کر بڑا حساس مسئلہ تھا۔ کافی چیزیں آج تک پوری طریقے سے کلیئر نہیں ہیں۔ اس کیس کے بارے میں ہم یہ نہیں جانتے آج کے دن تک کہ کٹھمنڈو کے ایئرپورٹ پر سیکیورٹی بریچ کیسے ہوا۔ بولا جاتا ہے کہ داؤد ابراہیم کے نیپال نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا تھا۔ انڈین اتھارٹیز کو غلط استعمال کر کے بھی ایک تھیوری بتائی جاتی ہے۔ ابھی اپنی ٹائم لائن میں واپس آئیں تو کندھار میں ہائی جیکرز اپنے مطالبات بتاتے ہیں۔ 200 ملین ڈالرز یعنی 1650 کروڑ انہیں دیئے جائیں اور ساتھ ساتھ وہ 36 قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ساجد افغانی حرکت المجاہدین کے بانی کی لاش کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ بہت اشتعال انگیز مطالبات تھے کہ اتنی ساری چیزیں اور پیسہ مانگاجا رہا ہے۔ لیکن انڈیا میں سرکار پر الگ طریقے کا ہی پریشر چل رہا تھا۔ 26 دسمبر کو اس ہائی جیکنگ کو لے کر وزیر خارجہ جسونت سنگھ ایک پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ اچانک سے اس پریس کانفرنس میں کچھ لوگوں کی بھیڑ گھس جاتی ہے۔ یہ لوگ اس جہاز میں بیٹھے پیسنجرز کے گھر والے اور رشتے دار تھے۔ پریس کانفرنس میں گھس کر یہ منسٹر کے سامنے کہتے ہیں جو جو ہائی جیکرز نے کہا ہے ان کے مطالبات پورے کرو۔ ہم چاہتے ہیں ہمارے گھر والے محفوظ ہوں۔ وہ ریفرنس دیتے ہیں دسمبر 1989ء کا۔ 10 سال پہلے جب یونین منسٹر مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو چھڑوانے کے لیے سرکار نے حریت پسندوں کو رہا کیا تھا۔ شہریوں کی زندگیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے وہ سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلدی سے جلدی ایکشن لو اور ہمارے گھر والوں کو بحفاظت واپس لاؤ۔ ان کا ماننا تھا کہ جہاز میں بیٹھے پیسنجرز کی حفاظت سب سے پہلی ترجیح ہے، باقی کسی بھی اور چیز سے اوپر ان کی حفاظت آتی ہے چاہے وہ کسی قیدی کی رہائی کا مطالبہ کریں، پیسے کا مطالبہ کریں، وہ سب دوسرے نمبر پر ہے۔ اور یہ سب اس وقت کے فارن منسٹر جسونت سنگھ کے سامنے ہو رہا تھا۔ لیکن کندھار میں انڈین مذاکرات کار ابھی تک پہنچے تک نہیں تھے۔ وہ اگلے دن 27 دسمبر کو پہنچتے ہیں ۔ مذاکرات کار کی اس ٹیم کو ویویک کاتجور کی جانب سے لیڈ کیا جا رہا تھا۔ وہ اس وقت منسٹری آف ہوم آفیئرز میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ ہوم منسٹری کے آفیشل اجیت دوول اور سرکار کے اوپر اسی دن دباؤ بڑھتا ہے، جب کچھ یرغمالیوں کے رشتے دار گیٹ گرا کر راجیو گاندھی بھون میں گھس جاتے ہے۔ وہاں کرائسس مینجمنٹ گروپ کی میٹنگ چل رہی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پرائم منسٹر کے گھر کے سامنے احتجاج کرتے ہیں۔ طالبان واضح طور پر ہائی جیکرز کو بتا دیتے ہیں کہ وہ انڈین فورسز کو کوئی ریسکیو آپریشن کنڈکٹ کرنے نہیں دیں گے۔ جس کے جواب میں ہائی جیکرز کہتے ہیں کہ ہم تمہارے کہنے پر مذاکرات کر لیں گے۔ مذاکرات اس طریقے سے آگے چلتے ہیں۔ طالبان کے لیڈر مولانا محمد عمر پاکستانی اخبار کو بتاتے ہیں کہ ہائی جیکرز کو یا تو جہاز چھوڑ کر چلے جانا چاہیے یا اپنے ہتھیار نیچے رکھ دینے چاہئیں۔یہ واقعہ ماہِ رمضان میں پیش آیا تھا۔جب صحافی سحری کے لیے اٹھے تو ہوٹل میں موجود لوگ انہیں گھور کر دیکھنے لگے کہ بغیر داڑھی کے یہ مخلوق کہاں سے آئی ہے۔ ہوٹل میں موجود لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ کسی انڈین طیارے کو اغوا کر کے ان کے شہر کے ایئرپورٹ پر لایا گیا ہے۔ قندھار ایئرپورٹ پر جو سب سے عجیب و غریب چیز دیکھی گئی وہ ایک شخص کا سائیکل پر ایئرپورٹ آنا اور اسی سائیکل پر طیارے کے گرد چکر لگانا تھا۔ وہاں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینے والے سائیکل یا موٹر سائیکل پر ہی گشت کرتے تھے۔ایسے موقعوں پر تو بکتر بند گاڑیاں اور سکیورٹی کے جدید آلات ہونے چاہئیں لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔جو شخص زیادہ تر سائیکل پر چکر لگاتا تھا وہ ایئرپورٹ کے علاقے کی پولیس میں ایس ایچ او کے رتبے کا اہلکار تھا۔ ان دنوں غضب کی سردی تھی اور رہائش کا مناسب انتظام نہیں تھا۔جتنے دن صحافی وہاں رہے ان کے پاس جو گاڑیاں تھیں انھوں نے سردی سے بچنے کے لیے ان کو مستقل اسٹارٹ رکھا اوروہ گاڑیوں کے اندر بیٹھ کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ چونکہ ایئرپورٹ بالخصوص طیارے کے قریب سردی سے بچنے کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں تھا جس کے باعث سکیورٹی پر مامور طالبان اہلکاروں نے اس کا حل میدان میں لکڑیاں جلا کر نکالا۔ یہ لکڑیاں بہت زیادہ دور نہیں بلکہ جہاز کے بالکل قریب جلائی جاتی تھیں۔کسی بھی طیارے کے نیچے آگ جلانا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوتا ہے لیکن طالبان کو اس بات کی بالکل پرواہ نہیں تھی۔ طالبان کی جانب سے طیارے میں موجود مسافروں اور دیگر افراد کو طالبان کی جانب سے کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جاتی رہیں۔ طالبان کا فوڈ پیکیج ایک پلاسٹک کی تھیلی میں ایک روٹی، ایک چکن لیگ پیس اور ایک مالٹے پر مشتمل ہوتا تھا۔ مسافروں نے اس کھانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر وقت یہ کھانا نہیں کھا سکتے۔ اس کے بعد کھانے کا مسئلہ حل ہوا کیونکہ اسلام آباد سے اقوام متحدہ کے ایک طیارے میں فائیو اسٹار ہوٹلوں سے کھانا آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ کئی دنوں سے انڈین مذاکرات کی ٹیم یہاں ہے، درمیان میں طالبان بھی ہیں اور وہاں دوسری طرف ہائی جیکرز۔ بالآخر ہائی جیکرز کے مطالبات کو کافی حد تک نیرو ڈاؤن یعنی کم کر دیا جاتا ہے۔ 36 قیدیوں کی جگہ صرف تین افراد رہا کیے جائیں گے۔ ہائی جیکرز کے مطالبات کو کم کرنے کا کریڈٹ انڈین مذاکرات کار اور طالبان دونوں کو دیا جاتا ہے۔ ہائی جیکنگ پر واپس آئیں تو پانچویں دن تک جہاز میں ٹوائلٹس اوور فلو کرنے لگ گئے تھے۔ لوگ اپنی امید کھو رہے تھے۔ 30 دسمبر کو اس وقت کے را چیف اے ایس دلت جموں میں پہنچتے ہیں۔ وہ چیف منسٹر فاروق عبداللہ کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو دو قیدی یہاں پر ہیں انہیں رہا کر دو۔ فاروق عبداللہ بہت ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ وہ بحث کرتے ہیں کہ اس کا بعد میں بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس وقت دباؤ اتنا تھا کہ انہیں یہ مجبوراً سننی پڑتی ہے۔ ان قیدیوں کو دلی لے جایا جاتا ہے اور وزیر داخلہ جسونت سنگھ کے ساتھ ایک فلائٹ پر بٹھا کر قندھار بھیجا جاتا ہے۔ اگلا دن 31 دسمبر ہائی جیکرز کا مطالبہ مان لیا جاتا ہے اور تین قیدیوں مولانا مسعود اظہر,عمر سعید شیخ اور کشمیری رہنما مشتاق زرگر کو کندھار میں رہا کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہائی جیکرز بھی جہاز میں بیٹھے پیسنجرز کو رہا کر دیتے ہیں۔ اس وقت انڈین ٹیم نے توقع کی تھی کہ ہائی جیکرز کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ لیکن طالبان کے مطابق وہ ایسا کرتے نہیں ہیں۔ طالبان سپریم لیڈر ایک اور طالبان کے ممبر کے ساتھ ہائی جیکرز کو اور جو رہا کیے گئے مجاہدین ہیں جنہیں بھارت دہشت گرد کہتا ہے،انہیں گاڑی میں بٹھا کر پاکستان کے بارڈر کی طرف نکل پڑتا ہے۔ اس وقت انڈیا الزام عائد کرتا ہے کہ پاکستان اس ہائی جیکنگ میں انوالو تھا ۔یہ ہائی جیکرز بحفاظت بارڈر کراس کر کے پاکستان میں بچ کر نکل جاتے ہیں۔ دوسری طرف پیسنجرز کی جان میں جان آتی ہے۔ کئی پیسنجرز زخمی ہیں، چوٹ لگی ہوئی ہے اور زیادہ تر بہت بُرے طریقے سے بھوکے ہیں۔ 31 دسمبر کو یہ واپس گھر لوٹ کے آتے ہیں۔ بھارتی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس پورے واقعہ کا الزام ہائی جیکرز پر جاتا ہے اور ان کو سپورٹ کرنے والے اسٹیک ہولڈرز پر،چاہے وہ طالبان ہوں یا پاکستانی فورسز۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس وقت کی سرکار پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں کہ کیسے وہ اس خوفناک بحران سے نمٹنے میں برے طریقے سے ناکام رہے۔ جہاز جب امرتسر میں موجود تھا تب انڈین فورسز کے پاس ایک بہترین موقع تھا جہاز کا کنٹرول واپس لینے کا۔ لیکن سرکار کی طرف سے جو بڑی غلطیاں ہوئیں انہیں کمیونیکیشن گیپ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان غلطیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ جیشِ محمد گروپ تشکیل دیا گیا اور یہ باقی سارے حملے ہمیں دیکھنے کو ملے۔ امرتسر کے تنازعہ کو لے کر ایک اور بڑا انکشاف ہوتا ہے۔ اس وقت کے را چیف بتاتے ہیں کہ کیسے جہاز میں بیٹھے پیسنجرز میں سے ایک پیسنجر سشی بھوشن سنگھ تومر جو برادر ان لا تھے این کے سنگھ کے اور این کے سنگھ پرائم منسٹر واجپائی کے سیکرٹری تھے۔کہا جاتا ہے کہ جہاز کو امرتسر سے ٹیک آف کرنے دیا گیا تو عمر کی سیفٹی انشور کرنے کے لیے۔ اگر عمر کی حفاظت کا فیصلہ تھوڑا سا بھی امرتسر میں ہائی جیکرز کو پکڑنے کا موقع کھو دینے والے کیس میں کوئی کردارادا کرتا ہے تو یہ اتھارٹیز کی جانب سے ایک بہت ہی شرمناک عمل ہوگا۔ دوسری حیرت انگیز چیز یہ تھی کہ بہت سے ٹاپ لیڈرز کو وطن میں ہائی جیکنگ کے واقعہ کے بارے میں نیوز کے ذریعے پتہ چلتا ہے، اپنے کمیونیکیشن چینلز کے ذریعے نہیں۔ جیسے کہ ایل کے ایڈوانی جو کہ اس وقت ہوم منسٹر تھے بتاتے ہیں کہ کیسے انہیں اس واقعہ کے بارے میں پتہ چلا نیوز کے ذریعے کرائسز مینجمنٹ گروپ سے نہیں. 1971 میں گنگا طیارہ پاکستان میں اغوا کر کے لایا گیا۔ اشرف قریشی نے اپنے ساڑھے سترہ سالہ کزن کیساتھ یہ اغواء لکڑی کے پسٹل اور گرنیڈ کیساتھ کیا۔یہ بی ایس ایف میں انسپکٹر تھا۔اس اغوا کے بعد جو کچھ ہوا پاکستان نے اس سے سبق سیکھتے ہوئے پرواز 81 4 کے ریسکیو میں کردار ادا کرنے سے گریز کیا۔ اس پر بات کریں گے اگلی ویڈیو میں۔
سکیورٹی کیا عدالتوں کے لیے اتنی خراب ہو گئی ہے کہ عدالتیں ہی منتقل کرنا پڑ گئیں۔ عدالتوں کے ساتھ سائلین کو بھی وہیں منتقل کر دیا جائے۔ ڈی آئی خان نامور سیاستدانوں کا حلقہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے مدرسے سمیت اس شہر کے مکین ہیں۔ آج کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور گورنر فیصل کریم کنڈی کا حلقہ انتخاب بھی یہی شہر ہے۔ وہاں ان میں سیاسی یُدھ ہوتا ہے۔وہیں آج کل انتظامی دھینگا مشتی ہو رہی ہے۔ ڈی آئی خان میں کونسے امن کے پھریرے لہرا رہے ہیں، یہ علاقہ بھی دہشت گردی کی زد میں ہے۔ پولیس والوں کو تھانے داخل ہو کر شہید کر دیا جاتا ہے۔ کہیں پولیس وین پر حملہ ہوتا ہے۔ مولانا کہتے ہیں شام کو تھانے بند اور دہشتگردوں کا راج ہوتا ہے۔ جہاں عدالتوں کو منتقل ان کی سکیورٹی کی خاطر کیا جا رہا ہے یا آسمان سے کھجور میں پھینکا جا رہا ہے۔ پورے ملک میں آج کوئی علاقہ بھی نو گو ایریا نہیں۔ عدالتیں ڈی آئی خان منتقل ہونگی تو اس علاقے کے نو گو ایریا کا تاثر پیدا ہوگا۔ ضرورت دہشتگردوں کی بیخ کنی اور عدالتوں سمیت ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کی ہے۔
یہ منظوری سندھ حکومت نے دی ہے۔ ان میں منفرد مقام کتے کی قبر ہے۔یہ قبر قمبر شہداد کوٹ میں واقع ہے۔وزارت ثقافت کے مطابق جن دیگر مقامات کو محفوظ ورثہ قرار دیا گیا ہے ان میں ضلع نوشہرو فیروز میں قدیم مختیار کار دفتر، سکھر میں قدیم سول کورٹ تعلقہ روہڑی، کندھ کوٹ میں واقع انسپکشن بنگلے (1908)، کنٹونمنٹ کوارٹرز، کراچی میں پارسی انسٹیٹیوٹ کمپاؤنڈ بشمول جہانگیر کوٹھاری ہال اورکاٹراک سوئمنگ باتھ ، ملیر میں واقع سید ہاشمی ریفرنس لائبریری شامل ہیں کتے کی قبر کی کیا سٹوری ہے۔ یہ مقامی لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے ایسے ناموں کی قبریں بھی ہیں جو مہذب تو کیا غیر مہذب لوگ بھی زباں پر نہیں لاتے۔ کئی سرکاریں موجود ہیں۔ چڑیوں والی سرکار ، چڑیلوں والی سرکار تو نہیں ہے مگر چڑیلیں نکالنے والے اور والیاں ہیں۔ پیر سپاہی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہو گزرے ہیں۔ پیر سرکار کا کی تاڑ کا میڈیا میں چرچا رہا۔ کتے کی قبر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بلوچستان والے اس پر اپنا حق جتاتے ہیں جبکہ یہ سندھ کے زیر انتظام ہے۔ دونوں صوبے اس سے اس لیے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کہ ان کی چڑھاووں پر نظر ہے بلکہ اس چھوٹے سے علاقے میں گیس کے ذخائر ہیں۔ ہر دو صوبے گیس کے علاقے مانگتے ہیں۔ قبر کے بارے میں کہتے ہیں آپ رکھ لیں ۔ بے شک یہاں سے اٹھا کر لے جائیں۔
جو لوگ آپ کو پارٹی کا چیئرمین نہیں دیکھنا چاہتے آپ بھی ان کو ان کے عہدوں پر نہ دیکھنے کا اعلان کر دیں۔ پی ٹی آئی میں ہر کلچر کے لوگ موجود ہوا کرتے تھے مگر آج ایسے لیڈروں کی پذیرائی ہے جو علی امین گنڈاپور اور شیر افضل مروت کی طرح مولا جٹ اور نوری نت بن کے کھڑک کر بات کرتے ہوں جس طرح کھڑک سنگھ بات کیا کرتا تھا۔ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگھ۔ شعر کے پہلے حصے کی تو سمجھ آتی ہے کہ کن کے لیے ہو سکتا ہے مگر کھڑکیوں کے کھڑکنے سے رؤف حسن اور بیرسٹر گوہر جیسے لوگ ہی کھڑک سکتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر کی چیئرمین شپ پر اس وقت سوالات اٹھے جب 28ستمبر کو پنڈی میں پی ٹی آئی کی احتجاج کی کال تھی۔ پی ٹی آئی کے نکتہ نظر سے احتجاج مثالی تھا۔ حکومتی حامی اسے پاتالی قرار دیتے ہیں۔ رات کے پہلے پہر اس کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا تھا تو کچھ جوشیلے لیڈر اور پھر تیلے کارکن بپھر گئے۔ ایک دن کی کال تھی۔ معرکہ مارا یا معرکہ مر گیا۔ اس کے بعد گھر واپس جائیں۔ خان کو جیل میں خبر ہوئی تو وہ برہم ہوگئے۔ احتجاج کال آف کرنے والوں کو بزدلی کا طعنہ دیا۔ اس کے بعد دلیر لیڈر شپ نے بیرسٹر کے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ مگر یہ ایک روزہ احتجاج کی طرح ایک روزہ ابال تھا۔ ایک روز ہی استعفے کا مطالبہ ہواپھر خاموشی ہے۔ ویسے بیرسٹر صاحب کو پولیس ہر چوتھے روز پکڑتی ہے اور چھوڑ دیتی ہے۔ یہ سب ان کے چیئرمین پی ٹی آئی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے جسے الیکشن کمیشن تسلیم نہیں کرتا۔
2008ء کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری نے سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنوایا تھا۔گیلانی صاحب خود مرشدوں کے مرشد ہیں مگر ان کو وزارت عظمی زرداری کے ہاتھ پر بیعت کر کے ملی۔ ان کو پانچ رکنی بینچ نے ناہل قرار دیا تو ایک اور مخدوم کو وزیراعظم نامزد کر دیا گیا۔مخدوم شہاب الدین بھی بیعت کے سارے لوازمات اور تقاضے پورے کیے ہوئے تھے مگر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے تو راجہ صاحب نے دوڑ لگائی اور زرداری صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر تجدیدِ بیعت کر لی اور باقی مدت کے لیے وزیراعظم پاکستان بن گئے۔شاہد خاقان عباسی بھی اسی طرح بامر مجبوری ضروری اور عبوری وزیراعظم بنے تھے۔یہ بیعت ہی کا کرشمہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت آئی تو راجہ پرویز اشرف سپیکر قومی اسمبلی قرار پائے ۔
2008ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو زرداری صاحب نے گڑھی خدا بخش میں شہیدوں کے مزارات پر خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو مخاطب کیا اور کہا کہ میاں صاحب سیاست ہم سے سیکھو۔ ان دنوں تازہ تازہ الیکشن جیتے تھے ۔اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے چراغوں میں روشنی صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔ زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بھی بجا دیتے ہیں۔ راجہ صاحب اپنے تجربے کی بنیاد پر درست مشورہ دے رہے ہیں۔ زرداری صاحب کے ہاتھ پر جس نے بیعت کی اس نے فیض پایا۔ راجہ صاحب کے مشورے پر عمل کر کے عمران خان ان کی طرح فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ خان صاحب کو زرداری صاحب سپیکر قومی اسمبلی یا اگر وہ چاہیں تو خیبر پختون خواہ اسمبلی اور چیئرمین سینٹ بنوا سکتے ہیں ۔" اریلو وزیراعظم" لگوانا تو زرداری صاحب کے تجربہ کار ہاتھوں میں سے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے .کچھ رینٹل منصوبے بھی خان صاحب کے نام کئے جا سکتے ہیں۔خان صاحب جلدی کریں یہ نہ ہو کہ راجہ پرویز اشرف یہ پیشکش واپس لے کرجو بائیڈن تک پہنچا دیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین چھ ستمبر سے 23 ستمبر تک جاری رہنے والی جنگ ستمبر زوروں پر تھی۔ایک دوسرے پر بری بحری اور فضائی افواج تابڑ توڑ حملے اور جواب بھی حملے کر رہی تھیں۔اسی دوران 19 ستمبر 1965 کو گجرات کے وزیر اعلیٰ بلونت رائے مہتا نے دن 10 بجے این سی سی کی ایک ریلی سے خطاب کیا۔ دوپہر کے کھانے کے لیے گھر واپس آئے اور پھر ڈیڑھ بجے ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہو گئے۔ان کے ساتھ ان کی اہلیہ سروج بین، تین ساتھی اور 'گجرات سماچار' سے وابستہ ایک صحافی تھے۔ جیسے ہی وہ ہوائی اڈے پہنچے، انڈین ایئر فورس کے سابق پائلٹ جہانگیر جنگو انجینیئر نے انھیں سلیوٹ کیا۔ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہی جنگو انجینیئر نے اپنا بیچ کرافٹ طیارہ سٹارٹ کیا۔ انھیں 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دوارکا کے علاقے میٹھا پور جانا تھا جہاں بلونت رائے کو ایک عوامی ریلی سے خطاب کرنا تھا۔
اُدھر ساڑھے تین بجے کے آس پاس پاکستان کے ماڑی پور(اب مسرور) ایئر بیس پر فلائٹ لیفٹینٹ بخاری اور فلائنگ افسر قیس حسین سے کہا گیا کہ بھوج کے پاس ریڈار پر آنے والے ایک ہوائی جہاز کو چیک کریں۔قیس حسین چار ماہ قبل ہی ایف 86 سیبر طیارے کی تربیت لے کر امریکہ سے واپس آئے تھے۔ قیس کہتے ہیں 'سکریمبل کا سائرن بجنے کے تین منٹ بعد میں نے جہاز سٹارٹ کیا۔ میرے بدين ریڈار سٹیشن نے مجھے مشورہ دیا کہ میں بیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کروں۔ اسی اونچائی پر میں نے بھارت کی سرحد بھی پار کی۔تین چار منٹ کے بعد انھوں نے مجھے نیچے آنے کے لیے کہا۔ تین ہزار فٹ کی اونچائی پر مجھے یہ بھارتی جہاز نظر آیا جو بھوج کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے اسے مٹھالی گاؤں کے اوپر انٹرسیپٹ کیا۔ جب میں نے دیکھا ، یہ سویلین جہاز ہے تو میں نے اس پر فوراً فائرنگ نہیں کی۔ میں نے اپنے کنٹرولر کو رپورٹ کیا کہ یہ ایک سویلین جہاز ہے۔میں اس جہاز کے اتنے قریب گیا کہ میں اس کا نمبر بھی پڑھ سکتا تھا۔ میں نے کنٹرولر کو بتایا کہ اس پر وکٹر ٹینگو لکھا ہوا ہے۔ یہ آٹھ سیٹوں والا جہاز ہے۔ بتائیں اس کا کیا کرنا ہے؟'
'انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ وہیں رہیں اور ہماری ہدایات کا انتظار کریں۔ انتظار کرتے کرتے تین چار منٹ گزر گئے۔ میں کافی نیچے پرواز کر رہا تھا، تو مجھے فکر ہو رہی تھی کہ واپس جاتے وقت میرا ایندھن نہ ختم ہو جائے۔ لیکن تبھی میرے پاس حکم آيا کہ میں اس جہاز کو شوٹ کر دوں۔' لیکن قیس حسین نے اس جہاز کو فوری طور پر شوٹ نہیں کیا۔ انھوں نے دوبارہ کنٹرول روم سے اس بات کی تصدیق کی کہ آیا وہ واقعی چاہتے ہیں کہ اس طیارے کو گرا دیا جائے۔ قیس حسین کہتے ہیں: 'کنٹرولر نے کہا کہ آپ اسے شوٹ کر دیں، میں نے 100 فٹ کی فاصلے سے نشانہ لگا کر اس پر برسٹ فائر کیا۔ میں نے دیکھا کہ اس جہاز کے بائیں ونگ سے کوئی چیز اڑی۔ اس کے بعد میں نے اپنی رفتار کو کم کیا اور اسے تھوڑا لمبا فائر دیا اور پھر میں نے دیکھا کہ اس کے داہنے انجن سے شعلے نکل رہے ہیں۔اس کے بعد جہاز نوز اوور کرتے ہوئے 90 ڈگری کا سٹیپ ڈائیو لیتا ہوا زمین کی طرف گيا۔ جیسے ہی وہ زمین پر گرا وہ آگ کے شعلوں میں تھا اور مجھے معلوم ہو گيا کہ جہاز میں سوار سبھی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ فائرنگ کرنے سے قبل اس جہاز نے بار بار ایسے اشارے کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک سویلین ہوائی جہاز ہے۔جب میں نے اس جہاز کو انٹرسیپٹ کیا تو اس نے اپنے ونگز کو ہلانا شروع کیا جس کا مطلب ہے کہ 'ہیو مرسی آن می' لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جہاز سرحد کے اتنے پاس اڑ رہا تھا شک تھا کہ کہیں یہ ہماری تصویریں تو نہیں لے رہا ہے؟ بلونت مہتا کا تو کسی کو کچھ خیال ہی نہیں آیا کہ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ وہاں پرواز پر ہوں گے۔ کوئی ایسا طریقہ بھی دستیاب نہیں تھا کہ ریڈیو کے ذریعے پتہ لگایا جا سکتا کہ جہاز کے اندر کون کون سوار ہے۔
پاکستان میں ہوا بازی کے مؤرخ قیصر طفیل لکھتے ہیں: 'بھارت اور پاکستان دونوں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں فوجی کاموں کے لیے شہری جہازوں کا استعمال کیا تھا، لہذا ہر طیارے کی فوجی صلاحیتوں کا اندازہ کیا جا رہا تھا۔'اسی دن شام کو 7 بجے کے بلیٹن میں آل انڈیا ریڈیو نے اعلان کیا کہ ایک پاکستانی طیارے نے بھارت کے ایک شہری جہاز کو گرا دیا ہے جس میں گجرات کے وزیر اعلی بلونت رائے مہتا سوار تھے۔نليا کے تحصیل دار کو حادثے کی جگہ پر بھیجا گیا۔ وہاں انھیں گجرات سماچار کے صحافی کا جلا ہوا شناختی کارڈ ملا۔ 'بہت سے سوالات کے جواب ابھی تک نہیں مل پائے ہیں، مثلاً جہاز کو جنگ کے علاقے میں بغیر کسی اسکاٹ طیارے کے کیوں جانے دیا گیا؟ کیا جہاز بھارتی فضائیہ کی معلومات کے بغیر وہاں گیا؟ چار ماہ بعد اس پورے معاملے کی تفتیشی رپورٹ آئی۔ اس کے مطابق: 'ممبئی کی فضائیہ نے وزیر اعلی کے طیارے کو پرواز کی اجازت نہیں دی تھی۔ جب گجرات حکومت نے زور ڈالا تو ایئر فورس نے کہا تھا کہ اگر آپ جانا ہی چاہتے ہیں تو وہاں اپنے رسک پر جائیں۔'یہ پہلا موقع تھا کہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ کے درمیان ایک سویلین طیارے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ بلونت مہتا بھارت کے پہلے سیاست دان تھے جو سرحد پر فوجی کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے۔ جہاز کے پائلٹ جہانگیر انجینیئر کا خاندان اس وقت دہلی میں رہتا تھا۔ ان کی بیٹی فریدہ سنگھ کو سب سے پہلے یہ خبر ان کے چچا ایئر مارشل انجینیئر سے فون پر ملی کہ ان کے والد اور انجینیئر کے بھائی اس دنیا میں نہیں رہے۔
فریدہ سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: 'پہلے تو سن کر بہت دکھ ہوا ہی لیکن جب تفصیلات سامنے آئیں تو اور دکھ ہوا۔ وہ پیچھا کرنے والے جہاز سے بچنے کے لیے 45 منٹ تک اڑتے رہے۔ وہ خود فائٹر پائلٹ تھے۔ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ چھوٹے جہازوں میں جنگی جہازوں کے مقابلے میں پیٹرول کم خرچ ہوتا ہے۔وہ کافی دیر تک اپنے جہاز کو اوپر نیچے کرتے رہے۔ قیس حسین نے ان پر تب فائر شروع کیا جب ان کے ہوائی جہاز میں بہت کم پٹرول رہ گیا تھا۔جب اس مشن کے بعد وہ ماڑی پور ایئر بیس پر اترے تو اس میں اتنا کم پٹرول تھا کہ ان کا انجن فلیم آؤٹ ہو گیا تھا اور ان کے جہاز کو ٹو کرکے لے جانا پڑا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آل موسٹ میڈ اٹ۔' اس کے بعد اس واقعے کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ہوا۔ قیس حسین نے بھی اس پریشانی کو اپنے دل میں خاموشی سے بسائے رکھا۔
46 سال بعد پاکستان میں ایک اخبار نے قیصر طفیل کا ایک مضمون شائع کیا جس میں انھوں نے انجینیئر کے طیارے کو جنگی علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے انڈین ٹریفک کنٹرولرز کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
پھر قیس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ہوائی جہاز کے پائلٹ کی بیٹی فریدہ سے رابطہ کریں گے اور اس حادثے پر افسوس کا اظہار کریں گے۔
قیس حسین یاد کرتے ہیں: میرے دوست قیصر طفیل نے کہا کہ یہ کہانی ایسی ہے جس کا اب آپ کے سوا کوئی عینی شاہد نہیں ہے۔ انھوں نے میرا انٹرویو لیا اور وہ 'ڈیفینس جرنل پاکستان' میں موجود ہے۔ پھر میرے پاس انڈین تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ آئی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ انجینیئر کا جہاز لینڈ کر گيا تھا اس کے بعد پاکستانی جہاز نے زمین پر اسے نشانہ بنایا۔''مجھے لگا کہ ان کے خاندان والوں کو یہ تک نہیں پتہ ہے کہ کن حالات میں ان کی موت ہوئی تھی۔ مجھے لگا کہ مجھے ان لوگوں کو تلاش کر کے صحیح صحیح بات بتانی چاہیے۔ میں نے اس کا ذکر اپنے دوست نوید ریاض سے کیا۔اس نے مجھے جنگو انجینیئر کی بیٹی فریدہ سنگھ کا ای میل دیا۔ 6 اگست 2011 کو میں نے انہیں ایک ای میل لکھا جس میں سارا قصہ بیان کیا۔ میں نے لکھا کہ انسانی زندگی کا ختم ہونا سب کے لیے دکھ کی بات ہوتی ہے اور مجھے آپ کے والد کی موت پر بہت افسوس ہے، اگر مجھے کبھی موقع ملا تو، میں آپ کے پاس آؤں گا اور اس واقعے پر اپنے افسوس کا اظہار کروں گا۔ معافی میں نے نہیں مانگی کیونکہ جب فائٹر پائلٹ انڈر آرڈر ہوتا ہے تو دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔ اگر وہ مس کرتا ہے تو کورٹ آف انكوائری ہوتی ہے کہ آپ نے کیوں مس کیا؟ اور اگر دانستہ طور پر نہ ماریں تو یہ کورٹ آف اوفینس ہوتا ہے کہ آپ نے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی۔میں اس طرح کے الزامات میں سے کسی ایک کا بھی حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔'
فریدہ سنگھ کو اس سے پہلے پتہ نہیں تھا کہ قیس حسین نے انھیں اس طرح کے ایک خط لکھا تھا۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا: 'مجھے پتہ چلا کہ جس پائلٹ نے میرے باپ کے ہوائی جہاز کو گرایا تھا وہ مجھے تلاش کر رہا ہے۔ مجھے یہ سن کر پہلے تو ایک جھٹکا سا لگا کیونکہ میں اپنے والد کی موت کے بارے میں مزید کچھ سننا نہیں چاہتی تھی۔میرے دوست نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کے نام سے اخبار' انڈین ایکسپریس' میں ایک خط شائع ہوا ہے اور میں نے فوری طور پر اپنا ای میل کھولا اور اسے پڑھ کر میں جواب دینے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس خط میں کوئی لاگ لپیٹ یعنی لگی لپٹی نہیں تھی اور وہ دل سے لکھا گيا تھا۔اس معاملے میں انھیں بہت افسوس تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا، یہ بذات خود ایک بڑی بات تھی، وہ ذاتی طور پر میرے والد کے خلاف نہیں تھے۔'
قیس کا کہنا ہے کہ 'ان کا جوابی ای میل بہت اچھا تھا۔ میں نے تو بس ابھی ایک قدم بڑھایا تھا لیکن انھوں نے کئی قدم آگے بڑھائے تھے۔۔۔' فریدہ کا کہنا ہے کہ میں حیران ہوں کہ 46 سال کے بعد انھوں نے ایسا کیوں کیا: 'لیکن ایک بات میرے دماغ میں آئی کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی ہے تو کوئی تو مرہم لگانے کا کام کرے اور انھوں نے اس میں پہل کی۔میں کوئی ایسی چیز نہیں لکھنا چاہتی تھی جس سے ان کو کو ئی تکلیف ہو۔۔۔ میں نے ایک منٹ بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ پائلٹ کی غلطی ہے، وہ لڑائی میں لڑ رہا تھا، یہاں تک کہ سب سے بہتر لوگ بھی لڑائی میں وہ کر گزرتے ہیں جو وہ کرنا پسند نہیں کرتے۔میں نے ان کو لکھا کہ لڑائی کے کھیل میں ہم سب پیادے ہوتے ہیں۔۔۔ میں نے ان کو لکھا تھا کہ میں امید کرتی ہوں کو اس کے بعد آپ کو سکون ملے گا۔'
بھارت کو جنوری 1966ء میں چند دن کے وقفے سےدو بڑے جھٹکے لگے۔ایک تو اس کے ایٹمی سائنسدان ہومی جہانگیر بھابھا جو ایٹم بم کی تیاری کے قریب تھے ،فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے اور دوسرا جھٹکا وزیراعظم شاستری کی موت ہے۔بھارت کو ان دو جھٹکوں سے بھی بڑا بلکہ بہت بڑا جھٹکا ستمبر 1965ء کی جنگ میں لگا جب پاکستان نے اسے چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ جنگ کے چند ماہ بعد روس کی دعوت پر پاکستانی صدر اور بھارتی وزیراعظم تاشقند گئے۔جہاں وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ کہا جاتا ہے،بھارت میدان میں ہاری ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر جیت گیا۔شاستری سے یہ خوشی برداشت نہ ہوئی اور وہ شادی مرگ سے جہان فانی کو چھوڑ گئے۔معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان بھی زیادہ دیر اقتدار میں نہ رہ سکے۔گویا معاہدہ تاشقند شاستری کی جان لے گیا اور ایوب خان کے اقتدار کوڈبو گیا۔معاہدے کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ہومی جہانگیر بھابھا کی بات کرتے ہیں جو ایئر انڈیا کی فلائٹ 101 میں تمام 117 سواروں سمیت چوبیس جنوری کوہلاک ہو گئے تھے۔یہ جہاز فرانس کے ماؤنٹ بلینک پہاڑی سلسلے میں گر کر تباہ ہوا ۔اس جہاز کے کریش پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک کے مطابق امریکہ بھارت کا ایٹمی پروگرام روکنا چاہتا تھا۔ اس نے بھابھا کا جہاز اڑا کے رکھ دیا ۔اس رائے میں وزن یوں ہےکہ جہاز پہاڑی سلسلے کے اوپر سے گزر رہا تھا کہ دھماکہ سے جہاز کا ملبہ 25 کلومیٹر میں بکھر گیا ۔بھارتی ایٹمی سائنسدان کانفرنس میں شرکت کے بعد جینیوا سے واپس آرہے تھے ۔یہ 16 سو سائنسدانوں کی کانفرنس تھی جس میں ان کی طرف سے نیو کلر پروگرام پر کھل کر بات کی گئی کچھ عرصہ قبل جہانگیر بھابھا انڈیا اور ایشیا کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر بنا چکے تھے۔فروری 1965ء کی ایک ڈی کلاسیفائیڈ امریکی دستاویز کے مطابق انہوں نے امریکی انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ کو بتایا تھا کہ انڈیا 18 ماہ میں ایک جوہری ڈیوائس تیار کر سکتا ہے اگر امریکی بلیو پرنٹ دستیاب ہو تو یہ کام چھ ماہ میں مکمل ہو سکتا ہے۔
اس سے متضاد رائے رکھنے والوں کا مؤقف ہے کہ بھابھا نے اس فلائٹ میں نہیں بلکہ دوسری فلائٹ میں آنا تھا کہ اچانک انہوں نے اس101 فلائٹ میں آنے کا فیصلہ کیا اب پھر چلتے ہیں شملہ: تین جنوری 1966ء کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان 16 رکنی وفد کے ہمراہ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے ۔ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔اسی روز بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری بھی وفد کے ساتھ تاشقند پہنچ گئے۔ ان دونوں سربراہان مملکت کی تاشقند آمد کا مقصد یہ تھا کہ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعددونوں ممالک میں جو خلیج حائل ہوگئی ہے اسے ختم کیا جائے۔ سوویت یونین ان مذاکرات میں ثالث کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ مذاکرات سات دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔دوسری طرف پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے۔شہاب کہتےہیں کہ روسیوں کی مداخلت سے شاستری جی کسی قدر پسیجے اور پاکستانی وفد کو مذاکرات کے دوران کشمیر کا نام لینے کی اجازت مل گئی۔ البتہ بھارتی وزیراعظم کا رویہ بدستور سخت اور بے لوچ رہا۔ ان کے نزدیک مسئلہ کشمیر طے ہو چکا تھا اور اب اسے ازسرنو چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ بھٹو کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو بغیر کوئی معاہدہ کیے واپس لوٹ جانا چاہئے۔ شروع میں صدر ایوب بھی اس خیال سے متفق تھے لیکن روسی وزیراعظم مسٹرکوسیگن نےپے درپے چند ملاقاتیں کرکے ان پر کچھ ایسا جادو کیا کہ ان کا رویہ بدل گیا اور وہ دفعتاً اس بات کے حامی ہو گئے کہ کسی معاہدے پر دستخط کیے بغیر ہمیں تاشقند سے واپس جانا زیب نہیں دیتا۔
مذاکرات کے دوران کسی نکتے پر مسٹر بھٹو نے صدر ایوب کو کچھ مشورہ دینے کی کوشش کی تو صدر نے، بقول قدرت اللہ شہاب غصے میں ڈانٹ کر کہا ’’الو کے پٹھے بکواس بند کرو۔'‘ بھٹو نے دبے لفظوں میں احتجاج کیاکہ سر آپ یہ ہرگز فراموش نہ کریں کہ روسی وفد میں کوئی نہ کوئی اردو زبان جاننے والا بھی ہو گا. غالباً یہی وہ نکتہ آغاز ہے جہاں سے صدر ایوب اور بھٹو کے راستے الگ الگ ہو گئے۔روسی وزیراعظم کوسیگن اورصدر ایوب کی ایک یا دو ملاقاتیں ایسی تھیں جن میں پاکستانی وفد کا کوئی اور رکن موجود نہ تھا۔ اسی بات کی آڑ لے کر بھٹو نے صدر ایوب کے خلاف یہ شوشہ چھوڑا کہ معاہدۂ تاشقند میں کچھ ایسے امور بھی پوشیدہ ہیں جو ابھی تک صیغہ راز میں ہیں اور وہ بہت جلد ان کا بھانڈا پھوڑنے والے ہیں۔بھٹو دنیا سے چلے گئے لیکن وہ بھانڈا کبھی نہ پھوٹا۔
دس جنوری 1966ء کو ایوب خان اور شاستری نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر دیئے۔مسٹر کوسیگن نے اس پر اپنی گواہی ثبت کر دی۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں پانچ اگست 1965ء سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔
اس کے بعد خوشی منانے کی غرض سے دو تقریبات منعقد ہوئیں ایک توبین الاقوامی صحافیوں کی پریس کانفرنس کا استقبالیہ دوسرا مسٹر کوسیگن کا دونوں وفود کے لیے ایک شاندار اور پر تکلف ڈنرتھا۔ ان دونوں تقریبات میں پاکستانی وفد کے ارکان کسی قدر بجھے بجھے اور افسردہ تھے لیکن بھارتی ارکان خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے اور چہک چہک کر اپنی شادمانی اور مسرت کا برملا اظہار کرتے تھے۔لال بہادر شاستری بھی خوشی سے سرشار تھے۔ شادیِ مرگ نے انہیں آدبوچا اور دو تین گھنٹوں کے اندر دل کی حرکت بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔ شاستری کی موت کے حوالے سے دوسری رائے بھی پائی جاتی ہے۔معاہدے پر دستخط کے بعد شاستری بہت دباؤ میں تھے۔انھوں نے رات گئے اپنے گھر دلی میں فون ڈائل کیا۔ کلدیپ نیئر کہتے ہیں فون ان کی بڑی بیٹی نے اٹھایا جسے کہا کہ للیتا جی سے بات کرائے ۔بیٹی نے کہا کہ اماں فون پر نہیں آئیں گی۔ انھوں نے پوچھا کیوں؟ جواب آیا اس لیے کہ آپ نے حاجی پیر اور ٹیتھوال پاکستان کو دے دیا اور وہ اس بات سے بہت ناراض ہیں۔ شاستری کو اس بات سے بہت صدمہ پہنچا۔پھر انھوں نے اپنے سیکرٹری کو فون کر کے انڈیا سے آنے والے ردعمل کے بارے میں جاننا چاہا۔ سیکرٹری نے بتایا کہ اس وقت تک دو بیان آئے تھے، ایک اٹل بہاری واجپائی،دوسرا کرشنا مینن کا اور دونوں نے انھین تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔شاستری اس صدمے کو دل پر لے کر اگلے جہان سدھار گئے۔شاستری کی موت کے بارے میں تیسری رائے بھی ہے۔ انکی اہلیہ للیتا عمر بھراور ان کے بیٹے انیل شاستری اب بھی کہتے ہیں کہ لال بہادر شاستری کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔
موت کا ایک دن متعین ہے۔اس میں نہ تاخیر اور نہ ہی اس سے قبل موت واقع ہو سکتی ہے۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ موت سامنے نظر ائی لیکن پھر موت دور ہوتی چلی گئی جس خاتون کا ذکر ہم اس کہانی میں کرنے لگے ہیں یہ وائلٹ جوزف ہے جو بحری جہازوں پر ملازمت کرتی تھی کئی بحری جہاز ڈوبے ان میں ہزاروں کی تعداد میں بھی ہلاکتیں ہوئی لیکن یہ ہر مرتبہ بچ نکلی کیونکہ اس کی موت حادثات میں ہونا نہیں لکھی تھی ۔بالآخر 83 سال کی عمر میں جہاز رانی کی دنیا سے بہت دور ہونے کے بعد اپنے گھر میں طبعی موت سے دو چار ہوئی۔ یہ خاتون جس کی زندگی کا بیشتر حصہ سمندروں میں گزرا ،وہ بحری جہازوں کے عملے کی ایک رکن کے طور پر کام کرتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قسمت کی دھنی اس خاتون کو تاریخ میں ''کوئین آف سنکنگ شپ ‘‘ یا ''ڈوبتے جہازوں کی ملکہ ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وائلٹ جوزف نام کی اس خاتون کا تعلق ایک آئرش خاندان سے تھا جو اس کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد ارجنٹائن منتقل ہوگیاتھا۔ وائلٹ اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ وائلٹ کے والد اس کی کم عمری میں ہی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے اور یوں ان چھ بہن بھائیوں کی پرورش وائلٹ جوزف کی والدہ کے کندھوں پر آن پڑی جو ایک بحری جہاز میں نرس تھیں۔ قدرت کو شاید ابھی کچھ اور امتحان لینا مقصود تھا جب کچھ عرصہ بعد اس کی والدہ بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں اور اس طرح پورے خاندان کی ذمہ داری وائلٹ جوزف کے کندھوں پر آن پڑی۔
21سال کی عمر میں اب ملازمت کرنا وائلٹ کی ضرورت تھی۔ جنوری 1911ء میں اس نے وائٹ سٹار لائن نامی کمپنی کے بحری جہاز ''اولمپک‘‘ پر بطور ''سمندری میزبان‘‘ (سٹیورڈس ) ملازمت اختیار کر لی۔ اس کا کام مہمان مسافروں کے طعام و قیام کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ کمروں کی صفائی کرنا تھا۔وائٹ سٹار لائن کمپنی وہی ہے جس نے بعد میں عالمی شہرت یافتہ بحری جہاز ''ٹائی ٹینک‘‘ بنایا تھا۔ جہاں تک اولمپک جہاز کا تعلق ہے یہ اپنے دور کا سب سے بڑا اور پرتعیش مسافر بردار بحری جہاز تھا۔ یہ 20ستمبر 1911ء کا ایک دن تھا جب برطانیہ میں جنوبی ہیمپٹن کے ساحل سے اولمپک نامی ایک شاندار اور لگژری پرتعیش پر آسائش جہاز مسافروں کو لے کر روانہ ہوا۔ وائلٹ بھی اسی جہاز میں بطور سٹیورڈس اپنی خدمات سرانجام دے رہی تھی۔ ابھی اس جہاز کو روانہ ہوئے چند ہی گھنٹے گزرے ہوں گے کہ سامنے سے آتے ایک اور برطانوی جنگی جہاز ایچ ایم ایس ہاک سے اس کی ٹکر ہو گئی۔ ''اولمپک‘‘ کی باڈی کو کافی نقصان پہنچا لیکن خوش قسمتی سے مسافرمحفوظ رہے۔ کپتان کی حاضردماغی کے باعث جہاز ڈوبنے سے بھی بچ گیا۔ حادثہ کے بعد اکثر مسافروں کے تاثرات یہ تھے کہ جس زور سے دو جہازوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوا، ان کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔جلد ہی اولمپک کو مرمت کے بعد دوبارہ لانچ کر دیا گیا۔ آٹھ ماہ اس جہاز میں خدمات سرانجام دینے کے بعد وائلٹ کو کمپنی کے دوسرے جہاز ''ٹائی ٹینک‘‘ پر بھیج دیا گیا۔ وائلٹ کو ٹائی ٹینک میں کام کرتے ابھی بمشکل آٹھ ماہ ہی ہوئے تھے جب 14 اور 15 اپریل 1912ء کی درمیانی شب اپنے پہلے سفر پر روانہ ہونے والے اس جہاز جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ''ٹائی ٹینک کبھی نہیں ڈوبے گا‘‘اور اس دعویٰ کے صرف تین گھنٹوں بعد یہ جہاز بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا۔ نہ صرف یہ جہاز سمندر میں غرق ہو گیا بلکہ 1500افراد کی جانیں بھی لے گیا۔خوش قسمتی سے وائلٹ بھی معدودے ان چند لوگوں میں شامل تھی جو اس اندوہناک حادثے میں زندہ بچ گئے تھے۔ ٹائی ٹینک کی تباہی کے بعد یہ شاید دنیا کا ڈوبنے والا واحد بحری جہاز تھا جس پر دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں اور مضمون لکھے جا چکے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ بچ جانے والوں میں جہاز کے عملے کی ایک رکن اور چشم دید گواہ وائلٹ جوزف بھی شامل تھی۔ ڈوبتے جہاز کے آخری لمحات کی تصویر کشی کرتے ہوئے وائلٹ نے 1913ء میں آرچیبلڈ گریسی کی شائع ہونے والی کتاب '' دی ٹروتھ اباؤٹ ٹائی ٹینک‘‘ میں بتایا تھاکہ ٹائی ٹینک جب ڈوب رہا تھا تو سب سے پہلے بچوں اور خواتین کو لائف بوٹ میں سوار کیا جا رہا تھا، اس زندگی بچانے والی کشتی میں ایک چھوٹا بچہ ، ایک کمسن لڑکا اورایک عورت سوارکئے جا چکے تھے جب جہاز کے ایک افسر نے اعلان کیا کہ جہاز کے عرشے پر کوئی خواتین یا بچہ رہ تو نہیں گیا؟ کوئی سامنے نہیں آیا تو اس کے کے بعد ایک اور افسر نے یہی اعلان دہرایا۔اس اعلان کے بعد میں سامنے آئی اور میں نے وضاحت کی کہ میں مسافر نہیں ہوں بلکہ اس جہاز کی ایک رکن ہوں۔ افسر نے میری طرف دیکھا اور کہا لیکن تم ایک عورت بھی تو ہو ناں، آؤ تمہارے لئے کشتی میں جگہ ہے۔ یوں میں اس لائف بوٹ کی وجہ سے بچ گئی۔
وائلٹ چونکہ ڈوبتے جہاز کے عملے میں شامل تھی۔اس کی زندگی کے40 سال سمندروں میں بحری جہازوں پر گزرے تھے۔جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ٹائی ٹینک پر لاتعداد کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ وائلٹ اس موضوع پر لکھی گئی ہر کتاب اور مضمون کے اہم کردار کی حیثیت سے سامنے آتی رہی ہے۔ جان میکسٹون کی کتاب '' ٹائی ٹینک سروائیور : نیولی ڈسکورڈ میموریز آف وائلٹ جوزف‘‘ میں مصنف نے وائلٹ کے حوالے سے لکھا کہ اس جہاز پر حفاظت کاسختی سے اطلاق کیا گیا تھا لیکن اتنے زیادہ لوگوں کی موت کہ وجہ جہاز میں لائف بوٹس کا ناکافی ہونا تھا۔اسی کتاب میں مصنف لکھتا ہے کہ اگر اس طرح کا حادثہ کسی اور کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو وہ ہمیشہ کیلئے سمندری سفر سے کنارہ کشی کر لیتا لیکن وائلٹ نے ایسا نہیں کیا۔ اس حادثے کے بعد وائلٹ نے جہاز چلانے والی اسی کمپنی وائٹ سٹار لائن کے ایک اور جہاز میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔ اور اب برٹینیک ٹائی ٹینک کی تباہی نے وائلٹ کی زندگی پر گہرے مثبت اثرات مرتب کئے۔ اس نے عہد کیا کہ اب وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچائے گی جس کیلئے اس نے نرسنگ کو بطور پیشہ اپنانے کیلئے نرسنگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے بحری جہازراں کمپنیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ہر جہاز میں زیادہ سے زیادہ لائف بوٹس کی دستیابی ہی زیادہ سے زیادہ جانوں کو بچا سکتی ہے۔ نرسنگ کی تربیت مکمل کرنے کے بعد وائلٹ 1916ء میں برطانیہ کی ریڈ کراس کے ساتھ بطور نرس منسلک ہو گئی۔یہ اس دور کی بات ہے جب جنگ عظیم اوّل زوروں پر تھی۔ بہت سے ملکوں نے اپنے بحری جہازوں کو جہاں فوجیوں کی نقل و حمل کیلئے مختص کر رکھا تھا،وہیں ان جہازوں کو فوجیوں کے علاج معالجے کیلئے موبائل ہسپتالوں میں بھی تبدیل کر رکھا تھا۔جب اس جنگ کے دوران وائیٹ سٹار لائن نامی کمپنی کے جہاز ''بریٹنیک‘‘ کو بھی ہسپتال کے طور پر بدلا تو وائلٹ جوزف نے اپنی خدمات بطور نرس اس جہاز کیلئے وقف کر دیں۔ زمین کے ساتھ سمندر بھی اس جنگ سے یوں محفوظ نہیں تھے کہ دشمن نے سمندر میں جا بجا بارودی سرنگیں بچھا رکھی تھیں اور بریٹینک بھی اس جنگ میں ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس جہاز میں فوجی اور دوسرے شعبہ جات کے ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ سوار تھے جس میں سے 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ 32 افراد بھی بچ سکتے تھے مگر ان کو ان کی جلد بازی موت کی لکیر کے دوسری طرف لے گئی ۔پائلٹ کی طرف سے ابینڈن نہیں کہا گیا تھا۔جہاز کے اندر پانی داخل ہو رہا تھا اور یہ لوگ کشتیوں میں بیٹھ رہے تھے۔ پائلٹ کی طرف سے جہاز چھوڑنے کا آرڈر نہیں دیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی کشتیاں سمندر میں اتار دیں اور یہ چلتے ہوئے انجن کی زد میں آئے جس سے ان کا قیمہ بن گیا ۔یہ 32 افراد دو کشتیوں میں سوار تھے۔یہ سارا کچھ چونکہ جہاز کے پچھلے حصے میں ہو رہا تھا۔ اس لیے پائلٹ اس سے بالکل بے خبررہے۔ جب کیپٹن کی طرف سے جہازچھوڑنے کا کہا گیا تو سارے کے سارے مسافر بحفاظت شپ سےنکل آئے ۔بریٹینک کے حادثے میں ایک خوشگوار اتفاق یہ دیکھنے میں آیا کہ ایک ہی لائف بوٹ میں زندہ بچ جانے والے تین افراد وائلٹ جوزف ، جان پرسٹ اور آرچی جوول اس سے پہلے ٹائی ٹینک میں بھی اکٹھے تھے۔حادثے کے بعد وائلٹ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تینوں بار مجھے ایسا لگا اب یہ میرا آخری وقت ہے اور میں نہیں بچ پاؤں گی۔ یہاں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلسل تین مرتبہ موت کے منہ سے واپسی کے باوجود بھی وائلٹ نے سمندر کی خطرناک زندگی کو نہیں چھوڑا۔ بالآخر چالیس سال مسلسل بحری جہازوں پر خدمات سرانجام دینے کے بعد 62 سال کی عمر میں ملازمت سے ریٹائر ہو گئی۔ دنیا میں منفرد ریکارڈ بنانے والی وائلٹ جوزف جسے سمندروں کی تاریخ میں '' کوئین آف سنکنگ شپ‘‘( ڈوبتے جہازوں کی ملکہ) کا خطاب دیا گیا تھا ، بالآخر 1971ء میں 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
نہر سوئز مصر کی ایک سمندری گذرگاہ ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔ اس کے بحیرہ روم کے کنارے پر پورٹ سعید اور بحیرہ قلزم کے کنارے پر سوئز شہر موجود ہے۔ یہ نہر 163 کلومیٹرطویل اور 300 میٹر چوڑی ہے۔اس نہر کی بدولت بحری جہاز افریقا کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان آمدورفت کرسکتے ہیں۔ 1869ء میں نہر کی تعمیر سے قبل اس علاقے سے بحری جہاز ایک جانب سامان اتارتے تھے اور بحیرہ قلزم تک اسے بذریعہ سڑک لے جایا جاتا تھا۔ 1869ء میں اس نہر کے کُھل جانے سے انگلینڈ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ نہ صرف 4000 میل گھٹ گیا بلکہ مون سون پر انحصار بھی کم ہو گیا۔پہلے اس نہر پر برطانیہ، امریکا اور فرانس کا قبضہ تھا مگر جمال عبد الناصر نے اس نہر کو قومی ملکیت میں لے لیا جس پر برطانیہ، امریکا اور اسرائیل نے مصر سے جنگ چھیڑ دی تھی۔ سوئز واحد راستہ نہیں ہے جو دنیا کے سمندروں کو آپس میں ملا کر بحری جہازوں کے لیے وقت اور ایندھن کی بچت ممکن بناتا ہے، بلکہ وسطی امریکہ میں نہر پانامہ بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس کو آپس میں ملاتی ہے۔نہرِ پانامہ سے عالمی تجارت کا پانچ سے چھ فیصد ہر سال گزرتا ہے۔ یہ نہر اتنی اہمیت کے حامل تجارتی راستے پر واقع ہے کہ تجارتی بحری جہازوں کو بناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ جہاز کا سائز اتنا ہی ہو کہ وہ نہرِ پانامہ سے گزر سکے۔
انجینئرنگ کی شاہکار اس نہر کو جدید دنیا کے عجائبات میں سے بھی قرار دیا جاتا ہے۔اس نہر کی تعمیر سے قبل بحری جہازوں کو امریکہ کے مغربی یا مشرقی کنارے سے دوسری جانب جانے کے لیے برِ اعظم جنوبی امریکہ کے آخری کونے کیپ ہارن سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ مگر اب نہرِ پانامہ کی وجہ سے یہ سفر آٹھ ہزار ناٹیکل میل یا 15 ہزار کلومیٹر کم ہو گیا ہے۔(ایک ناٹیکل میل 1.852 کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے)۔
اسی طرح شمالی امریکہ کے ایک کنارے سے جنوبی امریکہ کی کسی بندرگاہ تک جانے میں بھی ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر جبکہ یورپ اور مشرقی ایشیا یا آسٹریلیا کے درمیان چلنے والے بحری جہاز بھی تین ہزار 700 کلومیٹر تک کی بچت کر سکتے ہیں۔
اس پورے سفر میں دو سے تین ہفتے تک کا وقت درکار ہوتا تھا تاہم اب نہرِ پانامہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صرف 10 گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نہرِ سوئز بھی تو دو سمندروں کو آپس میں ملاتی ہے تو پھر نہرِ پانامہ کی اتنی تعریف کیوں؟ جواب یہ ہے کہ نہرِ سوئز جن دو سمندروں کو آپس میں ملاتی ہے اُن میں پانی کی سطح تقریباً برابر ہے، اس لیے یہاں سے گزرنے کے لیے بحری جہازوں کو صرف اس میں داخل ہونا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ نہرِ سوئز کی چوڑائی 205 سے لے کر 225 میٹر تک ہے مگر نہرِ پانامہ کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔اس کی تعمیر کے لیے مطلوبہ کھدائی کو کم رکھنے کے لیے ایک مصنوعی جھیل بنائی گئی ہے جو سطحِ سمندر سے 85 فٹ بلند ہے۔
جب بھی کوئی بحری جہاز نہرِ پانامہ کو پار کرنا چاہتا ہے تو یہ سب سے پہلے لاک کہلانے والے ایک چیمبر میں داخل ہوتا ہے۔ پھر اس چیمبر میں پانی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے یہاں تک کہ یہ اپنے سے زیادہ بلندی پر موجود دوسرے چیمبر کے برابر پہنچ جاتا ہے۔ اس موقع پر جہاز کے لیے دوسرے چیمبر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور یہ اگلے چیمبر میں داخل ہو جاتا ہے۔اس کے بعد اگلے چیمبر میں پانی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے اور پھر یہ بحری جہاز 85 فٹ بلند گتون جھیل میں داخل ہو جاتا ہے۔
اس وقت یہ جہاز اس جھیل کو پار کرتا ہے اور دوسری جانب موجود لاکس تک پہنچتا ہے جہاں اسے چیمبر میں داخل کر کے پانی کی مقدار گھٹائی جاتی ہے۔تین مرحلوں پر مشتمل اس اترائی کے عمل سے گزرنے کے بعد جہاز دوسری جانب موجود سمندر کی سطح کے برابر پہنچ جاتا ہے۔
فرانس کا پانامہ سکینڈل
1881 ء میں فرانسیسی سفارتکار فرڈینینڈ ڈی لیسی پیس نے اس نہر کی تیاری پر کام شروع کیا۔ یہ وہی شخص تھے جنھوں نے نہرِ سوئز کے منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا تھا جسے 1869 میں کھولا گیا۔چنانچہ ان سے لوگوں کی بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں اور لاکھوں لوگوں نے اس پر سرمایہ کاری کی۔نالوں اور جھیل کے موجودہ ڈیزائن کا ہوبہو ایک ڈیزائن اس وقت بھی پیش کیا گیا تھا مگر اسے مسترد کر دیا گیا تھا۔فرڈینینڈ نے نہرِ سوئز کی طرز پر ہی یہ نہر بنانے کی کوشش کی مگر یہی وہ تاریخی غلطی تھی جس کی وجہ سے فرانس یہ اعزاز اپنے نام نہیں کر سکا۔ وسطی امریکہ کے جنگلات، دریاؤں اور پہاڑوں سے اس نہر کی کھدائی اتنا آسان کام نہیں تھا۔کچھ ہی سال بعد 1889 میں فرانس کو اس پر کام بند کرنا پڑا کیونکہ ہر ماہ 200 کے قریب کارکن زرد بخار اور ملیریا جیسی بیماریوں اور حادثات میں ہلاک ہو رہے تھے جبکہ بے پناہ اخراجات کے باوجود یہ منصوبہ مکمل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔جب اس پر کام بند کیا گیا تو فرڈینینڈ کو فنڈز میں خورد برد کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس کے بعد اس پر ایک اور فرانسیسی کمپنی کچھ کچھ کام کرتی رہی یہاں تک کہ 1904 میں امریکہ نے یہاں موجود سامان خرید کر اس منصوبے کو اپنا لیا۔ فرانس کو اس میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ اس منصوبے کو امریکہ کے لیے بطور عالمی طاقت بہت اہم تصور کرتے تھے چنانچہ اُنھوں نے کانگریس پر بہت دباؤ ڈالا کہ وہ فرانس سے اس منصوبے کے حقوق خرید لے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان ہے اور کولمبیا کے ناظم الامور ٹامس ہیرن کے درمیان نہرِ پانامہ کی زمین امریکہ کو لیز پر دیے جانے کے لیے معاہدہ طے پایا تاہم کولمبیا کی پارلیمان سے اسے منظوری نہ مل سکی۔پانامہ اس وقت کولمبیا کا حصہ تھا اور وہاں لوگوں میں علیٰحدگی پسند جذبات موجود تھے۔ چنانچہ امریکہ نے ان کا استعمال کرتے ہوئے پانامہ کی آزادی کی حمایت کی، باغیوں کی مدد کی اور پانامہ کو خود مختار ملک تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ اس کے بعد امریکہ اور پانامہ کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور امریکہ نے اس پر کام شروع کر دیا۔ امریکہ نے اسے 1999 میں پانامہ کے حوالے کیا اور اب یہ نہر واپس پانامہ کے زیرِ انتظام ہے۔چنانچہ نہرِ پانامہ صرف انجینیئرنگ کا ہی نہیں بلکہ سیاسی پالیسیوں کا شاہکار بھی کہی جا سکتی ہے۔اس کے لاکس کی تیاری میں چار سال کا عرصہ لگا اور انسانی تاریخ میں تب تک اس سے زیادہ کنکریٹ کسی بھی منصوبے میں استعمال نہیں ہوا تھا۔سات جنوری 1914 وہ دن تھا جب پہلی مرتبہ کسی بحری جہاز نے نہرِ پانامہ کو عبور کیا۔ ویسے تو منصوبہ یہ تھا کہ 15 اگست 1914 کو نہرِ پانامہ کے باضابطہ افتتاح کے موقع پر ایک بہت بڑا جشن منایا جائے گا مگر پہلی عالمی جنگ کے آغاز کی وجہ سے یہ جشن منعقد نہ ہو سکا اور ایک چھوٹے سے بحری جہاز ’اینکون‘ کو گزار کر اس کا افتتاح کیا گیا۔نہرِ پانامہ کی تعمیر میں 25 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں جن میں سے 22 ہزار کے قریب افراد فرانسیسی دورِ تعمیر میں ہلاک ہوئے۔ نہرِ پانامہ عالمی تجارت کے لیے کتنی اہم ہے؟
مالی سال 2020 میں نہرِ پانامہ کو چھوٹے بڑے 13 ہزار 369 جہازوں اور کشتیوں نے عبور کیا جس میں سے 12 ہزار 245 وہ تجارتی جہاز تھے جو ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک جا رہے تھے۔اس پورے سال میں نہرِ پانامہ کو ٹول ٹیکس کی مد میں 2.67 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔پاناما کینال اتھارٹی کے ایڈمنسٹریٹر ریکار ٹے وسکاز کا کہنا ہے کہ رواں سال اکتوبر 2023 سے 2024 تک 15 ارب ڈالر کا بزنس ہوا اس میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر منافع ہوا جبکہ گزشتہ سال یہ بزنس 14 اعشاریہ نو ارب ڈالر کا ہوا تھا۔ نہرِ پانامہ کے ذریعے ہر طرح کے سامان کی آمد و رفت ہوتی ہے تاہم اجناس، کوئلہ، خوردنی تیل، کیمیکلز، زرعی پیداوار اور معدنیات سرِفہرست ہیں۔امریکہ دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک اور چین دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے، اس لیے یہ دونوں ممالک سامان کی ترسیل کے اعتبار سے سرِفہرست ہیں۔ نہرِ پانامہ کی بقا کا انحصار تازہ پانی کی مسلسل فراہمی پر ہے مگر گزشتہ چند برسوں میں بارشوں میں ہونے والی کمی کے باعث اس نہر کا آپریشن متاثر بھی ہوا ہے۔ جب بھی کوئی جہاز یہاں سے گزرتا ہے تو لاکھوں گیلن میٹھا پانی سمندر میں گر جاتا ہے جس کی وجہ سے گتون جھیل میں پانی کی سطح کا برقرار رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔تاہم اب حکام اس مسئلے کے حل تلاش کرنے پر کام کر رہے ہیں جس میں یہاں سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد کو کم کرنا بھی شامل ہے۔ مگر اس کا تجارتی نقصان یہ ہے کہ پھر کاروبار نہرِ سوئز کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔لیکن اس کے باوجود نہرِ پانامہ کا جغرافیائی محلِ وقوع ایسا ہے کہ ہر سال ہزاروں بحری جہازوں کے لیے سب سے کارآمد بحری تجارتی راستہ یہی رہے گا۔بلاشبہ یہ جدید دنیا کے نئے عجائبات میں سے ایک ہے۔
یہ دن تھا 14 اگست 2005ء کا اور وقت صبح نو بج کر سات منٹ، جب ہلیوز کی فلائٹ 522 نے سائپرس کے لانیکا ایئرپورٹ سے ایتھنز کے شہر گریس کے لیے اڑان بھری۔ جہاز میں اس وقت 115 مسافر اور چھ کریو ممبرز سمیت 121 لوگ سوار تھے۔ جہاز کا کنٹرول ہینس مارٹن نام کے پائلٹ کے ہاتھ میں تھا جن کے پاس 16900 فلائنگز آرز کا تجربہ تھا۔ ان کے ساتھ کو پائلٹ کے طور پر موجود تھے پیمپوس چارلمبوز، جو اپنی پروفیشنل لائف میں تقریباً 7549 گھنٹے فلائی کر چکے تھے۔
رن وے سے ٹیک آف کرنے کے پانچ منٹ بعد یعنی نو بج کر 12 منٹ پر جہاز 12040 فٹ کی اونچائی پر پہنچ گیا۔ اس ہائٹ پر اچانک کاکپٹ میں ایک الارم بجنے لگتا ہے جب پائلٹس نے اس کے بارے میں انویسٹیگیٹ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ٹیک آف کنفگریشن وارننگ کا الارم تھا۔ پائلٹس کو یہ والا الارم سن کر حیرت کا شدید جھٹکا اس لیے لگا کہ ٹیک آف کنفگریشن وارننگ اس وقت سامنے آتی ہے جب جہاز ابھی گراؤنڈڈپر ہوتا ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی پر اس الارم کا بجنا پائلٹس کی سمجھ سے باہر تھا۔ چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ایئر ٹریفک کنٹرولر سے کانٹیکٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور جس لمحے وہ ابھی ایئر ٹریفک کنٹرولرز کو یہ سب بات بتا ہی رہے تھے اسی دوران کاکپٹ میں موجود کئی سارے الارمز ایک ساتھ بجنے لگے۔ جہاز کے یہ تمام الارمز اتنی شدت کے ساتھ بج رہے تھے کہ اے ٹی سی تک پائلٹس کی آواز بھی ٹھیک طرح سے پہنچ نہیں پا رہی تھی۔
اس کے ساتھ ہی مصیبت کئی گنا اس وقت بڑھ گئی جب پلین کا ماسٹر کاشن الارم بجنے لگا جس کا مطلب یہ تھا کہ پلین کے بہت سے سسٹمز ایک ساتھ اوور ہیٹ ہو چکے ہیں، جہاں جہاز کے کاکپٹ میں پریشانی کا یہ عالم تھا تو وہیں پیسنجر کیبنز میں بھی آفراتفری مچ گئی کیونکہ تمام مسافروں کو سانس لینے میں خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ کریو ممبرز اگرچہ انہیں پرسکون رکھنے کی کوشش تو کر رہے تھے لیکن تمام کوششیں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ فلائٹ کے کیبن میں آکسیجن لیول کم ہو جانے پر مسافروں کے سامنے آکسیجن ماسک آٹومیٹکلی لٹک پڑے۔ اس وقت تک جہاز 18 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ دونوں پائلٹس اے ٹی سی کے ساتھ اس ساری پرابلم کو شیئر کرنے کی کوشش تو کر رہے تھے مگر ایئر ٹریفک کنٹرولر تک ان کی آواز ٹھیک سے پہنچ نہیں پا رہی تھی اور چند ہی لمحوں کے بعد جہاز کا رابطہ اے ٹی سی سے مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد بھی کنٹرول ٹاور والے فلائٹ سے کانٹیکٹ بحال کرنے کی کافی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں اس فلائٹ کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ دوسری جانب جہاز اوپر کی جانب اٹھتا چلا جا رہا تھا۔ عام طور پر لانیکا سے ایتھنز پہنچنے کے لیے ایک گھنٹے 45 منٹ کی فلائٹ ہوتی ہے، یعنی اس جہاز کو تقریبا 10 بج کر 45 منٹ پر ایتھنز میں لینڈ کرنا تھا۔ نو بج کر 23 منٹ پر یہ پلین 34 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور نو بج کر 37 منٹ پر یہ فلائٹ ایتھنز کی فلائٹ انفارمیشن ریجن میں پہنچ گئی۔ 10 بج کر 12 منٹ سے لے کر 10 بج کر 50 منٹ تک ایتھنز کے فلائٹ کنٹرول والے اس جہاز سے بار بار رابطہ کرتے رہے لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملا۔ فلائٹ شیڈیول کے مطابق اس وقت تک جہاز کو ایتھنز کے ایئرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا لیکن جہاز کا کوئی آتا پتہ نہیں تھا۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے فوری طور پر گریس کی گورنمنٹ نے اپنے دو ایف 16 جہاز اس فلائٹ کو آسمان میں ڈھونڈنے کے لیے بھیجے اور چند ہی منٹس کے بعد ان دونوں فائٹر جیٹس نے ہیلیوز کی فلائٹ 522 کو کئی ہزار فٹ کی بلندی پر ڈھونڈ لیا۔ ان میں سے ایک فائٹر جیٹ کا پائلٹ اپنے جہاز کو اس فلائٹ کے بالکل قریب لے آیا تاکہ وہ دیکھ سکے کہ جہاز کے اندر چل کیا رہا ہے۔
ایف سولہ کے پائلٹ کو جہاز کی کاکپٹ میں عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملا۔ کو پائلٹ کی سیٹ پر ایک پائلٹ بیٹھا ہوا تھا وہیں مین پائلٹ اپنی سیٹ پر سر جھکائے بالکل بے سدھ پڑا تھا۔ اس کے بعد فائٹر جیٹ کے پائلٹ نے اپنے جہاز کو پیچھے کیا اور فلائٹ 522 کی کھڑکیوں سے جہاز کے اندر کا جائزہ لیا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مسافر جہاز کے دونوں طرف دو فائٹر جیٹ اڑتے ہوئے دیکھ کر بھی کسی مسافر نے انہیں کوئی ری ایکشن نہ دیا۔ وہ تمام کے تمام اپنی سیٹس پر سر جھکائے بیٹھے رہے۔ کچھ دیر کے بعد فائٹر جیٹس کے پائلٹس نے دیکھا کہ ایک شخص کیبن سے نکل کر پلین کے کاکپٹ کی جانب جا رہا ہے اور پھر کچھ ہی دیر کے بعد وہ مین پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس شخص کو کاکپٹ میں آتے دیکھ کر فائٹر جیٹ کے پائلٹ نے ہاتھ ہلا کر اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ شخص بھی فائٹر جیٹس کے پائلٹس کو کچھ بتانا تو چاہ رہا ہے لیکن وہ کچھ بول نہیں پا رہا۔ اسی دوران فلائٹ 522 کے لیفٹ انجن نے کام کرنا بند کر دیا اور یہ جہاز ایک جانب کو جھکتے ہوئے تیزی سے زمین کی طرف آنا شروع ہو گیا۔ پائلٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا وہ شخص جہاز کو کنٹرول کرنے کی کوشش تو کر رہا تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں صاف ناکام نظر آرہا تھا۔ ٹھیک 12 بجے جہاز کے رائٹ انجن نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔ اب اس جہاز پر کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا اور پھر 12 بج کر چار منٹ پر ایتھنز سے تقریبا 40 کلومیٹر دور یہ جہاز پہاڑوں میں گر کر کریش ہو گیا۔ اس حادثے میں جہاز میں موجود 121 لوگوں کی ڈیتھ ہو گئی۔ آپ ذرا ان فائٹرز جیٹس کے پائلٹس کی حالت چیک کیجیے کہ جن کے سامنے وہ جہاز تباہ ہونے کے لیے جا رہا تھا اور وہ صرف ایک تماشائی بن کر اسے دیکھ تو سکتے تھے لیکن ان 121 لوگوں کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے بعد فلائٹ 522 کے کریش ہونے کی خبر لوگوں کے ساتھ شیئر کر دی گئی۔ فوری طور پر ریسکیو آپریشن لانچ کیا گیا اور 121 لوگوں کی ڈیڈ باڈیز ایک ایک کر کے وہاں سے ڈھونڈ نکالی گئیں۔ لیکن جب اس افسوسناک حادثے کی وجہ جاننے کے لیے ان ڈیڈ باڈیز کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو ہولناک انکشافات سامنے آئے۔
آٹاپسی رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ جہاز کے پائلٹ سمیت تمام مسافر بھی جہاز کریش ہونے سے پہلے ہی مر چکے تھے۔ اب بڑا سوال یہ سامنے موجود تھا کہ جب پائلٹ سمیت تمام لوگ جہاز کریش ہونے سے پہلے ہی مر چکے تھے تو دو گھنٹے تک جہاز کا کنٹرول کس کے پاس رہا۔ کچھ دیر پہلے ہم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا تھا جو پیسنجر کیبن سے کاکپٹ میں آتا ہے اور جہاز کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ فلائٹ اٹینڈنٹ انڈریو پروٹومو تھے۔ یہ انڈریو ہی تھے کہ جنہوں نے جہاز کو اس وقت تک سنبھالے رکھا تھا اور آخر میں ایک ٹریفک کنٹرولر کو انہی کی آواز سنائی دی تھی۔ اینڈریو نے پانچ بار "مے ڈے مے ڈے" کال کر کے ان سے مدد کی درخواست کی تھی۔ اینڈریو کے پاس جہاز اڑانے کی ابتدائی ٹریننگ تو موجود تھی لیکن ان کے پاس اتنا ایکسپیریئنس نہیں تھا کہ وہ بوئنگ 737 جیسے بڑے جہاز کو کنٹرول کر سکتے ۔ لیکن پھر بھی وہ فلائٹ 522 کو آبادی سے دور لے جانے میں کامیاب رہے۔ لیکن جب اس جہاز کے کریش ہونے کی وجہ جاننے کے لیے انویسٹیگیشن ٹیم نے کام کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے یہ سمجھا گیا کہ جہاز کے انجن کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اسی وجہ سے یہ جہاز تباہ ہو گیا۔ لیکن اندر بیٹھے ہوئے لوگ تو جہاز کریش ہونے سے پہلے ہی مرچکے تھے تو پھر یہ پراسرار واقعہ تھا کیا؟۔ تبھی ایک انویسٹیگیشن آفیسر کی نظر جہاز کے پینل پر موجود ایک بٹن پر پڑی تو اس نے افسوس اور نیم غصّے سے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بے ساختہ کہا اوہ مائی گاڈ۔یہ بٹن تھا جہاز کے اندر ہوا کے پریشر کو سیٹ کرنے کا۔ اس بٹن کو دیکھتے ہی اس آفیسر کے سامنے ساری کہانی کھل گئی۔ یہ بٹن جہاز کے اندر ہوا کے پریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔ جہاز کا انجن جب کام کر رہا ہوتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ وہ باہر سے ہوا کھینچ کر کے جہاز کے اندر بھی بھیجتا ہے تاکہ اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کو مسلسل آکسیجن ملتی رہے۔ عام طور پر پریشر کنٹرول کرنے والے اس بٹن کو آٹوموڈ پر ہی رکھا جاتا ہے اور کبھی کبھار اگر اسے مینول کرنا پڑے تو جہاز کے پائلٹ یا کوپائلٹ کو مسلسل اس پر نگاہ رکھنی ہوتی ہے۔ اس حادثے سے ایک دن پہلے بوئنگ 737 جب روٹین کی سروس پر گیا تھا تو وہاں اس کی سروس کرتے ہوئے کسی ورکر نے لاپروائی سے اس بٹن کو مینول موڈ پر کرتے ہوئے جہاز کو واپس فلائٹ کے لیے بھیج دیا اور ٹیک آف کرنے سے پہلے پائلٹ یا کوپائلٹ کا دھیان اس جانب گیا ہی نہیں کہ جہاز میں آکسیجن لیول اور ہوا کا پریشر سیٹ کرنے والا بٹن آٹو کی بجائے مینول موڈ پر ہے اور یہی وجہ تھی کہ دھیرے دھیرے جہاز کے اندر آکسیجن کا لیول گرنے لگا اور جب کاکپٹ کے اندر الارم بجنا شروع ہوئے تو جہاز کے دونوں پائلٹس نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش تو شروع کر دی لیکن ایک مرتبہ بھی ان کا دھیان اس بٹن کی جانب نہیں گیا، یہی وجہ تھی کہ کاکپٹ کے اندر بھی آکسیجن لیول کم ہونا شروع ہو گیا اور دونوں پائلٹس بے ہوشی کی جانب جانے لگے۔ پیسنجر کیبنز میں تو آکسیجن لیول کم ہونے پر آٹومیٹکلی ماسک سامنے آجاتے ہیں لیکن کاکپٹ میں ماسک نیچے نہیں گرتے، یہی وجہ تھی کہ آکسیجن نہ مل پانے پر دونوں پائلٹس بے ہوش ہو گئے۔ اسی دوران جہاز کے پیچھے بیٹھے ہوئے کریو ممبرز اور مسافر بھی ایک ایک کر کے بے ہوش ہونے لگے کیونکہ انہیں بھی آکسیجن دینے کے لیے صرف 12 منٹ تک سپلائی موجود تھی اور آکسیجن نہ مل پانے پر جہاز میں موجود تمام لوگ ایک ایک کر کے دم توڑ رہے تھے۔ جہاز اب آٹو پائلٹ موڈ پر ایتھینز کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس میں موجود تمام لوگ مر چکے تھے سوائے ایک شخص کے جو فلائٹ اٹینڈنٹ اینڈریو تھا۔ وہ شخص اتنی دیر تک زندہ کیسے رہا ،؟ اینڈریو سکوںا ڈائیور بھی تھے اور سمندر کی تہہ میں جانے والے سکوبا ڈائیورز اپنی سانس لمبے عرصے تک روکنے کی مہارت رکھتے ہیں وہ پوری کوشش کر کے جہاز کے کاکپٹ تک پہنچے اور اسے کنٹرول کرنے کی جدو جہد کرتے رہے۔ آخر تک وہ اس جہاز کو تباہ ہونے سے بچانے کی کوششوں میں لگے رہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے اور وہ جہاز پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس پلین کریش کے کئی مہینے کے بعد بالآخر اس کی تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی جس میں یہ بتایا گیا کہ 121 لوگوں کے مرنے کی اصل وجہ صرف وہی ایک بٹن تھا جو آٹوموڈ کی بجائے مینول پر کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ اس رپورٹ میں یہ تو نہیں کہا گیا لیکن ہماری نظر میں ان 121 لوگوں کی موت کے اصل ذمہ دار اس پلین کی سروس کرنے والے وہ ورکرز تھے کہ جنہوں نے غفلت کے ساتھ اس بٹن کا موڈ چینج کر دیا۔مگر پائلٹس کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پائلٹس کو بھی ٹیک آف کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے تھا کہ جہاز کے تمام کنٹرول سسٹمز ٹھیک طرح سے کام کر رہے ہیں؟ پائلٹس کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ایک سوئچ اور بٹن کی پوزیشن کو چیک کرنا بھی پائلٹس کی ذمہ داری ہے۔اس ذمہ داری سے پائلٹس کی طرف سے نادانستہ پہلو تہی ہو گئی اور وہ اپنے ساتھ جہاز کے تمام سواروں کو بھی لے کر موت کی وادی میں پہنچ گئے۔ اس سے ملتا جلتا حادثہ 238 مسافروں کو لے جانے والے ایم ایچ 370 کو پیش آیا۔ اس میں بھی ایئر پریشر کا بٹن مینول پر کر دیا گیا تھا۔یہ کسی ٹیکنیشن نہیں بلکہ شقی القلب پائلٹ کی طرف سے کو پائلٹ کو پیسنجر کیبن میں بھیجنے کے بعد ڈور لاک کر کے زہری احمد کی طرف سے کیا گیا تھا۔ایم ایچ 370 کے ساتھ کب کب کیا کچھ ہوا۔اس پر آئندہ بات کرینگے ۔
ماہِ ستمبر کے آخری ہفتے کی بات کریں تو پاکستان اور بھارت 65ءکی جنگ میں اپنا اپنا اسلحہ پھونکنے کے بعد سود و زیاں کا حساب کر رہے تھے۔ بعد میں جا کر جنوری 1966ءمیں معاہدہ تاشقند ہوا جو صدر ایوب خان کا اقتدار اور وزیر اعظم شاستری کی جان لے گیا۔ ستمبر کے آخری ہفتے چوہدری ظہور الٰہی کو دہشتگردی میں شہید کر دیا گیا تھا۔آج اس پر بات کرتے ہیں۔ معاہدہ تاشقند پھر سہی۔ چوہدری ظہور الٰہی 25 ستمبر 1981ء کو اپنی کار میں لاہورہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کو ان کے گھر چھوڑنے جارہے تھے۔مشتاق صاحب کی داڑھی نہیں تھی لیکن وہ مولوی کہلواتے تھے ۔ان کے ساتھ معروف ماہر قانون ایم اے رحمن ایڈووکیٹ بھی تھے جو بھٹو کے مقدمہ قتل میں پبلک پراسیکیوٹر رہے تھے۔ دن دو بجے جب انکی کار ماڈل ٹاؤن نرسری چوک پہنچی تو ایک نوجوان نے مبینہ طور پر دستی بم پھینکا۔ اسکے چار ساتھیوں نے اسٹین گنوں سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جس سے چوہدری صاحب اور ان کے ڈرائیور نسیم موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ جسٹس مشتاق حسین کو معمولی زخم آئے جبکہ ایم اے رحمن محفوظ رہے۔ ایک موقع پر اس قتل کی ذمہ داری میر مرتضیٰ بھٹو نے قبول کرلی اور کہا تھاکہ یہ ان کی تنظیم الذوالفقار کا کارنامہ ہے۔
کچھ ہی دنوں بعد 20 نومبر 1981ء کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں لالہ اسد نامی نوجوان کو ہلاک کیا جس پر الزام تھا کہ وہ چوہدری ظہور الٰہی کے قاتلوں میں شامل تھا۔ اس کے بعد الذوالفقار کے کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا جن میں رزاق جھرنا بھی تھا۔اسے 7مئی 1983ء کو موت کی سزا دے دی گئی۔اس کی گرفتاری بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ ڈاکٹر غضنفر حفیظ احمد اُن دنوں کیمپ جیل میں میڈیکل افسر تھے۔وہ کہتے ہیں پتہ چلا کہ چودھری ظہور الٰہی کا قاتل جیل میں لایا گیا ہے۔ مَیں اس کے سیل میں گیا اور پوچھا کہ کیا یہ الزام درست ہے تو اس نے اثبات میں جواب دیا۔ وہ اُس وقت پُراعتماد اور پُرسکون نظر آ رہا تھا۔اس نے اپنا نام رزاق جھرنا بتایا۔کچھ عرصے بعد اس کی شناخت پریڈ ہوئی۔ شناخت پریڈ والے دن سول جج میاں خالد جو مولوی مشتاق کے پی ایس رہ چکے تھے اور اُن دنوں 302 کے کیس میں جیل میں تھے۔ وہ میرے دوست بنے ہوئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ چودھری ظہور الٰہی قتل کیس کے ملزم کی شناخت پریڈ ہو رہی ہے اور قاتل نے دعویٰ کیا ہے کہ دیکھوں گا کون ماں کا لال میری شناخت کرتا ہے۔ مولوی مشتاق نے تو شناخت سے صاف انکار کر دیا ۔ایڈووکیٹ رحمنٰ نے تمام سہولیات کے باوجود ڈر کے مارے شناخت نہ کی۔ موقع کے دو ہی گواہ تھے۔ دونوں منحرف ہو گئے۔ فوجی عدالت نے جھرنا کو سزائے موت دی اور پھانسی دے دی گئی۔پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی رزاق جھرنا کی باقاعدگی سے برسی کی تقریب منعقد کرتی ہے۔ رزاق جھرنا کس طرح ٹریس اور گرفتار ہوا؟ یہ واقعہ بھی دلچسپ ہے: اس نے اپنے نو عمر دوست کو بریف کیس دیا کہ وہ اس کی بہن کے گھر کراچی پہنچا دے۔ اسے کچھ اندازہ تھا کہ رزاق جھرنا کی حرکات مشکوک ہیں لہذٰا اُس نے انکار کر دیا۔ رزاق کے دھمکی دینے پر وہ مان گیا اور ٹرین پر سوار ہو گیا۔ جب صبح کے وقت ساہیوال سٹیشن پہنچا تو اخبار میں خبر پڑھی کہ چودھری ظہور الٰہی قتل کر دیئے گئےہیں۔اس کو یقین ہو گیا کہ یہ کارروائی رزاق کی ہے۔ وہ ساہیوال سے لاہور واپس آ گیا۔ اس نے اب سوچا کہ بریف کیس کا کیا کِیا جائےتو اس نے ایک گندے نالے میں پھینک دیا جو نالے کے کیچڑ میں گر گیا۔اسے دیکھ کرکسی نے پولیس کو اطلاع کر دی۔پولیس والے بریف کیس کو اٹھا کر تھانے لے گئے۔اسے کھولنے پر ایک اس میں سے کلاشنکوف اور کچھ وزیٹنگ کارڈ برآمد ہوئے۔ جن سے تفتیش کے دوران وہ رزاق تک پہنچے اور اسے گرفتار کر لیا۔ بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہونے کے باوجود چودھری ظہور الٰہی پر قاتلانہ حملہ کرنے میں ملزم کس طرح کامیاب ہوا؟ رزاق نے اپنے دوستوں کو بتایاکہ اس نے گاڑی پر برسٹ مارا لیکن اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ڈرائیور نے گھبرا کر شیشہ نیچے کر دیا اور جھانکا کہ کیا ہوا ہے۔ رزاق نے ایک گرنیڈ یہیں سے گاڑی کے اندر پھینک دیا۔
چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب سچ تو یہ ہے میں اس واقعے کا بھی ذکر کرتے ہیں:میرے والد صاحب پر حملہ کرنے والے شخص رزاق عرف جھرنا کو بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اعتراف کر لیا کہ اس کا تعلق دہشت گرد تنظیم ’الذوالفقار‘ سے ہے اور اس کی تربیت کابل میں ہوئی ہے۔ میری والدہ نے کہا کہ پتا تو کریں کہ پولیس نے واقعی اصلی قاتل کو گرفتار کیا ہے یا خانہ پری کے لیے کسی بے گناہ کو پکڑ لیا ہے۔ بی بی جی کے حکم پر چودھری پرویز الٰہی،وسیم سجاد کے بھائی آصف سجاد جان، راجہ منور اور ایم اے الرحمن ایڈووکیٹ کے ہمراہ خود تھانے پہنچے ، اس نوجوان سے ملے اور پوچھا کہ اگر تم قاتل نہیں ہو تو بتا دو، ہم تمہیں رہا کروا دیں گے۔ نوجوان بڑے اعتماد کے ساتھ بولا، میں نے اپنا کام کر دیا ہے مگر مجھے پھانسی نہیں ہوگی۔ میرے لوگ مجھے رہا کروا لیں گے۔ چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ میرے والد اس روز ڈرائیور کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھے تھے حالانکہ وہ ہمیشہ اپنی گاڑی مرسڈیز میں پچھلی نشست پر بیٹھا کرتے تھے۔ وہ اپنے قریبی دوست انٹر ہوم کے مالک امین صاحب کے گھر سے ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ جسٹس مولوی مشتاق حسین اور ایم اے رحمن ایڈووکیٹ ان کے ہمراہ تھے۔ وہ مولوی مشتاق حسین کو ڈراپ کرنے کے لیے ان کے گھر جا رہے تھے۔ احتراماً ان دونوں حضرات کو پچھلی نشست (ایگزیکٹو سیٹ)پر بٹھا کر خود آگے بیٹھ گئے۔ الذوالفقار کی نشانے پر بادی النظر میں دونوں شخصیات تھیں۔ مولوی مشتاق اور چوہدری ظہور الہی۔مولوی مشتاق اس بینچ کے سربراہ تھے جس نے بنیادی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔یہ کیس مولوی مشتاق نے لوئر کورٹ میں نہیں چلنے دیا تھا۔ الذوالفقار چوہدری ظہور الہیٰ کے پیچھے شاید اس لیے بھی پڑی تھی کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم تحفے میں مانگا تھا جس سے جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جزائر لکشدیپ کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر اس سیاحتی جزیرے کی تصاویر شیئر کی تھیں۔ لکشدیپ پر مالدیب کا دعویٰ ہے جبکہ یہ جزیرہ تقسیم ہند کے اصول کے تحت پاکستان کا حصہ ہے۔ جو کشمیر کی طرح آج بھارت کے زیر تسلط ہے۔ مالدیب کے صدر معیزو کو اقتدار میں آئے ابھی ایک سال نہیں ہوا۔ انہوں نے انتخابی مہم میں انڈیا آؤٹ کا نعرہ لگایا اوربھارتی فوج کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ صدر بننے کے بعد معیزو صاحب اپنے اس نعرے اور مطالبے کے اوپر کمبل بچھا کر سو گئے۔ مودی لکشدیپ آئے تو تین وزرا مریم شعونہ، مالسا شریف اور محذوم ماجد نے کتھارسس کرتے ہوئے مودی صاحب کو مسخرہ، دہشت گرد اور اسرائیل کی کٹھ پتلی قرار دے دیا۔
اس پر بھارت نے شدید اعتراض اور احتجاج کیا۔ آنکھیں بھی دکھائیں تو معیزو کا تراہ نکل گیا۔ انہوں نے ”توہین مودی“ کے الزام کے تحت جنوری میں تینوں وزرا کو معطل کر دیا ۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ اب مالدیب کے دلیر صدر نے بھارت کا دورہ کرنا ہے تو دو معطل وزرا سے استعفے لے لئے گئے۔ جبکہ محذوم ماجد نے ٹھینگا دکھادیا ہے۔ کل کلاں ہو سکتا ہے وہ بھی استعفیٰ دینے والوں میں شامل ہو جائیں ۔ کہا تو گیا ہے کہ ان وزراء نے وزیر اعظم کی توہین کی ہے مگر اصل بات بھارت سرکار کا راز فاش کرنا ہے۔ جو توہین سے زیادہ سنگین جرم ہے اور راز مودی کا مسخرہ کٹھ پتلی اور دہشت گرد ہونا ہے۔ یہ بھارت کا ٹاپ سیکرٹ تھا۔