اہم خبریں

داستان عبرت و حسرت

شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کا اقتدار سوا نیزے پر تھا۔ اسکے ولی عہد بیٹے رضا پہلوی نے برطانیہ کے دورے پر بکنگھم پیلس میں ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار بہ اصرارکیا۔ شاہی روایات،قانون اورپروٹوکول کے مطابق برطانوی شاہی خاندان کے سوا کسی کو شاہی محل میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں مگر اس دور میں ایران جیسی بادشاہت کو ناراض بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ملکہ برطانیہ نے ایران کے ولی عہد کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا جس سے اسے شاہی محل میں ٹھہرنے کی اجازت مل گئی۔ گردش زمانہ اور بے رحمی  افلاک ملاحظہ فرمائیے، شہنشاہ ایران تخت نشینی سے خاک نشین ہوا تو دنیا نے آنکھیں پھیر لیں۔ اسکے جہاز کا رخ برطانیہ عظمیٰ کی طرف ہوا، اسی برطانیہ کی طرف جس شہنشاہ کے ولی عہد بیٹے کے نخرے اٹھانے کیلئے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا اسی حکومت نے شہنشاہ کا جہاز اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہ دی۔ اس کہانی کوسرِ دست یہیں چھوڑتے ہیں۔
اس دور میں دنیا کی چار طاقتور ترین‘ خوبصورت اور اثر و رسوخ رکھنے والی بیگمات کی بڑی دوستی اور شہرت تھی۔ ان چار کی مختلف ممالک میں محفلیں سجتیں اور ہر چار ایک سے بڑھ کر شمع محفل ہوا کرتی تھی۔ شہنشاہ ایران کی ملکہ فرح دیبا‘ مصر کے صدر انورسادات کی بیگم جیہان سادات‘ پرنس علی خان کی زوجہ یاسمین اور کینیڈا کے وزیراعظم پیئر ٹروڈو کی وائف مارگریٹ ٹروڈو اپنے شوہروں کے اقتدار اور امارت کے بل بوتے پر طاقت کی علامت سمجھی جاتیں اور معاملات پر کنٹرول رکھتی تھیں۔ اس دور میں جانے کیلئے محض مارگریٹ ٹروڈو کی شخصیت کی تھوڑی سی نقاب کشائی کر لیتے ہیں۔
1970ء کی دہائی تھی، کینیڈا اپنے ایک جواں عزم، متحرک، فعال وزیراعظم پیئرایلیٹ ٹروڈو کی وجہ سے خبروں میں رہتا تھا۔ اپنے ملک کیلئے وہ بہت کام کررہے تھے۔ بڑی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ شہریوں کی تعلیم، صحت، انشورنس کیلئے بہت سی سہولتیں دی گئیں۔51سالہ کنوارے وزیراعظم ایک 22سالہ دوشیزہ مارگریٹ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے۔ پھر صرف کینیڈا ہی نہیں امریکہ سمیت دنیا بھر کے اخبارات نے عمر میں 29سالہ فرق رکھنے والے جوڑے کی تصویریں شائع کیں۔ کینیڈا والے خوش تھے کہ ان کا وزیر اعظم خوبصورت ہے۔ حس مزاح رکھتا ہے۔ حسن کا بھی قدردان ہے۔ ہماری خاتون اوّل حسین بھی ہے، جوان ہے، مصوری کا ذوق اور اداکاری کا شوق رکھتی ہے، لیکن یہ حسینہ عجیب فطرت تھی۔ اسے خاتون اول کی حیثیت سے پروٹوکول، پابندیاں، آداب پسند نہیں آئے ۔ جھگڑا رہنے لگا۔ ٹروڈو نے 1968ءمیں وزارت عظمیٰ سنبھالی۔ مارچ 1971ء میں شادی ہوئی۔کینیڈا کے آج کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اس خوبصورت عالمی اہمیت کے جوڑے کے پہلے صاحبزادے 25دسمبر 1971ءکو پیدا ہوئے۔ مارگریٹ ایک بے چین روح تھی۔ شوہر سے اختلافات کی خبریں آتی رہیں۔ لوگ اونچے ایوانوں میں آنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتے ہیں۔ وہ اونچے ایوانوں سے نکلنے کیلئے بے تاب رہنے لگیں۔ بالآخر 1984 میں باقاعدہ طلاق ہو گئی۔ مارگریٹ نے یہ سب کچھ اپنی کتاب میں لکھا ہے۔


وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو نے کینیڈا کا دورہ کیا تھا۔ اسکے حوالے سے مارگریٹ نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ سرکاری ضیافت میں پھانسی کی سزا گفتگو کا موضوع تھا۔ وزیر اعظم بھٹو ’سزائے موت‘ کی مخالفت کررہے تھے اور کتنے دکھ کی بات ہے کہ انکی زندگی کا انجام اسی سزا سے ہوا۔
پیئرایلیٹ ٹرڈو 2000 میں چل بسے۔ ٹروڈو کی زندگی کی آخری شب مارگیٹ اپنے بیٹوں کے ہمراہ سابق شوہر کے سرہانے موجود تھیں۔ اس وقت ان کا تاریخی جملہ کینیڈا والے یاد کرتے ہیں: ”صرف اس لئے کہ شادی کا بندھن ٹوٹ گیا،اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ پیار بھی ختم گیا۔ “ مارگیٹ ٹروڈو چار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔
مارگریٹ اپنے سابق خاوند کی طبعی موت، پھر اپنے ایک صاحبزادے کی حادثاتی موت سے بہت دلبرداشتہ ہوئیں۔ کچھ عرصہ ماہرین نفسیات کے زیر علاج رہیں۔ تازہ کتاب میں ہسپتال کے دنوں کی روداد بھی درج کی ہے۔
اب عمروں کے تفاوت سے جنم لینے والی ایک اور حیران کن کہانی ملاحظہ کیجئے: سراغ رسانوں نے ایسا انکشاف کیاجسے انتہائی شرمناک الزام کہا جارہا ہے۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد پیئر ٹروڈو نے اپنی بیوی مارگریٹ کے ہمراہ کیوبا کے کئی دورے کیے۔ ان میں سے ایک دورے کے دوران مارگریٹ نے پیئر ٹروڈو سے بے وفائی کی اور فیدل کاسترو کے ساتھ تعلق استوار کیا، جس سے جسٹن ٹروڈو پیدا ہوئے۔ ان الزامات میں مزید کہا گیا ہے کہ پیئرٹروڈو اور مارگریٹ کی ازدواجی زندگی تلخیوں سے بھرپور تھی اور اسکی وجہ مارگریٹ کی بار بار کی بے وفائی تھی۔ امریکی سینیٹر ٹیڈ کینیڈی کے ساتھ بھی اس کا افیئر۔ راک بینڈ کے رونی ووڈ کے ساتھ بھی مارگریٹ کے تعلقات کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ انہی افواہوں کی وجہ سے پیئر اور مارگریٹ کی شادی ٹوٹ گئی۔الزامات لگانے والوں نے فیدل کاستروکی جوانی اورجسٹن کی حالیہ تصویریں بھی جاری کیں جن میں حیران کن مشابہت ہے،یہ ٹیکنالوجی کا بھی کمال ہوسکتا ہے،تاہم جسٹن نے ایک موقع پر کاسترو کی تعریفوں کے قلابے ملا دیئے تھے،اسے الزام کے اعتراف سے تعبیرکیا گیا۔
اب بات پھر و ہیں سے شروع کرتے ہیں۔ شہنشاہ ایران کو کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی‘ برطانیہ نے جواب دے دیا۔ایسی در بدری دنیا کے مقتدر افراد اور دولت کے انبار لگانے والوں کیلئے عبرت کا سامان لئے ہوئے ہے۔ شہنشاہ ایران ”محمدرضاشاہ پہلوی“ کو سرطان کی جان لیوا بیماری لگ گئی تھی، اسی بیماری کے دوران اس کو ایران چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ امریکہ نے ”شہنشاہ ایران“ کو ایک مختصر عرصہ سے زیادہ پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ مصر اور مراکش نے پہلے ہی پناہ دینے معذرت کرلی تھی۔ میکسیکونے اگر چہ پناہ دے دی لیکن اس میں پروٹوکول نہیں تھا بلکہ عام سیاسی پناہ تھی،کچھ عرصہ تک وہ ”بہاماز“ میں بھی مقیم رہے،شہنشاہ کے پاس دولت تو بے بہا تھی،دنیا میں انکے اثاثوں کی مالیت دس ہزار ملین پاﺅنڈ یعنی ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زیادہ تھی لیکن سکون نہیں تھا،انہوں نے لوٹی ہوئی دولت واپس کرکے ایران میں آنے کی درخواست کی لیکن انقلابی حکومت نے انکار کر دیا۔ اس موقع پر ملکہ فرح دیبا جو اوجِ ثریا سے زمین پر آ کر ذلت کی پستیوں میں گر چکی تھی‘ نے جیہان سادات سے رابطہ کرکے برے وقت میں اچھے وقتوں کی دوستی کے نام پر مدد کی درخواست کی۔ جیہان نے اپنے خاوند سے بات کی۔ جیہان کا مصر کے سیاسی معاملات میں گہرا اثر تھا۔ اتفاقاً عین اس موقع پر شہنشاہ کا صدر انور سادات کو خط ملا جس میں اس نے کہا ”میں دنیا کا سب سے بڑا بدنصیب اور بھکاری ہوں۔ خدا کے واسطے مجھے مصر میں آنے دو اور میری پہلی بیوی شہزادی فوزیہ کے وطن میں دفن ہونے دو“ اس خط کو پڑ ھ کر ”صدر انور سادات“ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اس نے یہ درخواست قبول کر لی۔ مصری عوام اس کیخلاف تھے۔ انہوں نے احتجاج شروع کر دئیے۔ مصری صدر نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی”رضا شاہ پہلوی“ کے بڑے بیٹے محمد رضا پہلوی سے کر دی پھر ”سمدھی “ہونے کے ناطے ان کو ”شہنشاہ ایران “کے مصر میں آنے کا جواز مل گیا۔یہاں ناموں کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے۔شہنشاہ ایران کانام محمد رضا شاہ پہلوی،باپ کا نام رضا شاہ پہلوی اور ولی عہد کانام رضا شاہ تھا۔ 


محمد رضا شاہ پہلوی کا وہ جہاز جو ایران سے ایک شہنشاہ کو لیکر محو پرواز ہوا تھا اب اس میں وہی محمد رضا شاہ پہلوی تھا جو دربدر اور غریب الوطن تھا‘ اس نے وسیع عریض مملکت پر لگ بھگ چالیس سال حکومت کی مگر اس سلطنت میں اسے قبر کیلئے دو گز زمین دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔ انور سادات نے اسے اپنے ہاں آنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ پورے احترام کے ساتھ مہمان بنا کر رکھا، رضا پہلوی کیساتھ اپنی بیٹی بھی بیاہ دی گو انجام علیحدگی ہوا۔ رضا پہلوی اب امریکہ میں ہے اور خود کو ایران کے تخت وتاج کا وارث قرار دیتا ہے، ایسی خواہش کرنے میں حرج کوئی نہیں تاہم یہ ممکنات ہی نہیں ،حیرتوں ،کرشمات اور معجزات کی بھی دنیا ہے۔ گردش ایام پلٹ سکتی ہے۔
 محمد رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران نے ترقی کی منزل پر منزل طے کی۔ اس دور میں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ سفر کرتے شہنشاہ کو سڑک کی ناہمواری کا احساس ہوا۔ تحقیق کے بعد ناقص سڑک کے ذمہ دار کو وہیں سڑک پر لٹا کر اوپر سے بلڈوزر گزار دیا۔ اس کے بعد رہی سہی کرپشن بھی نہ رہی۔
شاہ ایران کی ذہانت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے جنگ عظیم دوم میں ایران کو جنگ کے شعلوں سے دور رکھا۔اسی جنگ کے دوران وہ تخت وتاج کے وارث بنائے گئے۔ ایک اور واقعہ انکی ذہانت کی دلیل ہے،ایران اور برطانیہ کے درمیان 1954 میں تیل نکالنے کا معاہدہ ہوا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی ایران سے تیل نکال رہی تھی اور یہ تیل بعدازاں یورپ اور امریکا برآمد کیا جاتا تھا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی ایران کو تیل کی رائلٹی دیتی تھی۔ ایک بار شاہ ایران شکار کیلئے جا رہا تھا‘ اسکے راستے میں پائپ لائن آگئی‘ شاہ نے پائپ لائن کے قریب خیمہ لگوایا اور اینگلو ایرانین کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کو وہاں طلب کر لیا‘ چیف ایگزیکٹو گرتا پڑتا وہاں پہنچ گیا‘ شاہ نے اسکی طرف دیکھا اور اسے حکم دیا‘ تم فوراً یہ پائپ لائن توڑ دو‘ چیف ایگزیکٹو نے پوچھا لیکن جناب کیوں؟ شاہ نے جواب دیا‘میں تیل کا فوارہ دیکھنا چاہتا ہوں‘ انگریز چیف ایگزیکٹو نے حیرت سے انکی طرف دیکھا اور عرض کیا‘جناب اس سے بہت نقصان ہو جائیگا‘ شاہ نے کہا‘میں تمام نقصان اپنی جیب سے پورا کر دوں گا‘ تم پائپ لائن توڑو‘ ایک گھنٹہ تیل کا فوارا پھوٹنے دو اور اسکے بعد مجھے بل بھجوا دو‘ انگریز چیف ایگزیکٹو نے اس عجیب و غریب مطالبے سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن شاہ نہیں مانا۔ اسے اس بادشاہ کی خواہش جیسی خواہش قرار دیا گیا۔جو لشکر کشی کیلئے جارہا تھا، راستے میں رات کو ایک جگہ پڑاﺅ ڈالا،اس دوران ایک ہاتھی کھائی میں جا گرا، ہاتھی کی گرتے ہوئے خوفناک چیخ بلند ہوئی۔بادشاہ نے اس منفرد آواز کی وجہ معلوم کی، اسے یہ آواز پسند آئی تھی،اس نے ایک اور ہاتھی کھائی میں پھینکنے کا حکم دیا،اسکے بعددوسرا تیسرا اور چوتھا۔ایک ایک کرکے سارے ہاتھی بادشاہ کے ذوقِ لطیف کی نذر ہوگئے۔
 چیف ایگزیکٹو نے انجینئر منگوائے اور پائپ لائن درمیان سے توڑ دی۔ پٹرول کا فوارہ نکلا اور صحرا کی ریت میں جذب ہونے لگا۔ شاہ ایران ایک گھنٹہ اس فوارے کا نظارہ کرتا رہا۔ اسکے بعد اس نے چیف ایگزیکٹو سے کہا ‘تم مجھے بل بھجوا دینا‘ اسکے بعد وہ تہران روانہ ہو گیا۔ شاہ کے اس عجیب و غریب مطالبے نے اگلے دن پوری دنیا کی ہیڈ لائنز میں جگہ پالی۔ لوگوں نے سمجھا شاہ ایران پاگل ہو چکا ہے۔ اینگلو ایرانین کمپنی نے چند دن بعد شاہ کو ضائع ہونیوالے تیل کا بل بھجوا دیا۔ شاہ نے بل دیکھا اور اگلے دن کمپنی کے تمام اعلیٰ عہدیداروں کو محل میں بلوا لیا، انہیں آئل کی رائیلٹی اور کمپنی کا بل دکھا کر گویا ہوا‘ آپ نے رائیلٹی کے سمجھوتے میں یہ لکھا کہ آپکی پائپ لائن سے فی گھنٹہ اتنا پٹرول گزرتا ہے جبکہ آپ نے اسکے مقابلے میں چھ گنا زیادہ پٹرول ضائع ہونے کا بل بنایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا آپ ہمیں چھ گنا کم رائیلٹی دے رہے ہیں۔ شاہ کی بات سن کر کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ وہ شاہ کو بل بھجوا کر پھنس چکے تھے۔ شاہ نے اینگلو ایرانین آئل کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کیا اور کروڑوں ڈالر ہرجانہ بھی وصول کیا۔
شاہ ایران عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ کر سکتے تھے کیا‘ ایران کو دنیا میں بلند مقام تک لے گئے۔ ذہانت میں خود کو لاثانی اور عقل کل سمجھتے تھے۔ اقتدار کی مضبوطی کواپنی اہلیت اور صلاحیت کا مرہون جانتے تھے۔ انکی سلطنت کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا مگر جب خدا کا غضب ٹوٹتا ہے تو سب تدبیریں ذہانت منصوبے اور منصوبہ بندیاں نقش بر آب اور ہوا کے دوش پر رکھے چراغ ثابت ہوتی ہیں۔سب سے بڑا تکبر تو یہ تھا کہ اس کا باپ جس نے احمد شاہ کاچار کا تختہ الٹا،پہلے وزیر اعظم بنا پھر بادشاہ بن گیا،برطانیہ اور روس نے اسے جرمنی کیساتھ تعلقات قائم کرنے پر اقتدار سے الگ کرکے محمد رضا شاہ پہلوی کو بادشاہ بنوایا جس نے بادشاہ کہلوانے پر اکتفا نہیں کیا خود کو شہنشاہ کہلوایا بلکہ آریہ مہر‘ یعنی آرین نسل کے لوگوں کا بادشاہ۔ آج ہندوستان‘ پاکستان‘ افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ اور پورا یورپ وسط ایشیا کے بیشتر علاقے اور روس میں آریائی نسل کے لوگ بستے ہیں!
ایران کا سابق شہنشاہ ”محمد رضا شاہ پہلوی“ جو کہ 22سال کی عمر میں ایران کابادشاہ بن گیا ابھی اسکی عمرصرف 6 سال کی تھی کہ اس کو ولی عہد قرار دے دیا گیاتھا، وہ 38سال تک ایرا ن کا حکمران رہا۔ وہ مزاجاً سوشلسٹ اورمغرب پرست حکمران تھا،اس نے ایران میں عصر کی نماز کی ادائیگی پر پابندی لگادی تھی،وہ اپنی سلطنت کو تین ہزار سال پرانی سلطنت قرار دیتا تھا،ا س نے یہودیوں کو اسرائیل کے قیام میں مدد دی، وہ اسرائیل کیلئے روز گار کے مواقع بھی تلاش کرتا تھا۔ 1948میں اس نے ایران سے یہودیوں کو اسرائیل میں جا کر بسنے کی قانونی اجازت دے دی تھی۔ اس مقصد کیلئے اسرائیل کی ” موساد “کو تہران میں آفس کھولنے کی بھی اجازت دی تاکہ یہودیوں کی آبادی کو پر امن طریقے سے اسرائیل ٹرانسفر کیا جا سکے۔ اسی طرح ایران کے وزیر اعظم ”محمد اسد“ نے اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کرنے کیلئے 50,000 ڈالر کی رقم وصول کی تھی،یہ وہ وجوہات تھیں جوایران کے مذہبی حلقوں کیلئے ناقابل برداشت تھیں۔ محمد رضا شاہ پہلوی ملاﺅں سے لڑ سکتا تھااور خوب لڑا مگر اللہ سے کون لڑ سکتاہے۔علما پر مظالم تاریخ کا حصہ ہیں امام خمینی کے بیٹے کو قتل کرایا اور خود انہیں ہیلی کاپٹر کے ساتھ باندھ کر شہر شہر عبرت کے طور پر پھرایا گیا۔ مسلمانوں کے بدترین دشمن کے ساتھ دوستی،اسکے ایجنٹوں کی آﺅ بھگت اور اس سے مراعات کی وصولی پر شہنشاہ ایران ملعون اور مطعون قرار پائے۔

یوم تحفظ ختم نبوت کی گولڈن جوبلی

آج 7 ستمبر وہ تاریخ ساز دن ہے جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور پاکستان کے آئین میں درج کر دیا کہ حضور اقدس ﷺ ہی اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اس تاریخ ساز آئین سازی کی آج گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔

عقیدہ ختم نبوت پر ہر مسلمان کا اتفاق اور یقین ہے۔ ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں آیا ہے، جبکہ 210 احادیث ختم نبوت کے حوالے سے ہیں۔ اس لیے آپ ﷺ کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا اور ملعون ہوگا۔ آپ ﷺ نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی تعداد تقریباً 300 کے قریب بتائی تھی۔

آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق نے نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب سے جنگ کی، اور اس جنگ میں تقریباً 1200 صحابہ شہید ہوئے، جن میں سے تقریباً 600 حفاظ تھے۔

ایک تحقیق کے مطابق حضور ﷺ کی زندگی میں دین اسلام اور کفار کا مقابلہ کرنے والے شہدا کی تعداد ایک ہزار سے کچھ زائد تھی، جبکہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں شہدا کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔

عقیدہ ختم نبوت اس لیے بھی پاکستان کے آئین کا حصہ ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 2 کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے قادیان کے خلاف 1954 میں ہی تحریک شروع ہوگئی تھی۔ تحریک تحفظ ختم نبوت میں 1954 میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور وزیر خارجہ ظفر اللہ سمیت دیگر مرزائیوں کو برطرف کر دیا جائے، ورنہ سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ اس عقیدہ کے تحفظ کے لیے 1954ء میں مسلمانوں نے اپنا خون بہایا۔

29 مئی 1974 کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ایک واقعہ پیش آیا جس میں مسلمان نوجوانوں پر تشدد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس تحریک نے زور پکڑا اور معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، جہاں قادیانیوں کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ طویل دلائل کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کی متفقہ حمایت سے 7 ستمبر 1974 کو پارلیمان میں قانون سازی کی گئی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔

1988 میں قادیانیوں نے اپنی حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ ریاست پاکستان کی جانب سے جسٹس پیر محمد کرم جنیوا گئے اور دلائل سے پاکستانی موقف بیان کیا، ملکی و بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں دلائل دیے۔ 30 اگست 1988 کو اقوام متحدہ نے قادیانیوں کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

چند برس قبل قادیانیوں نے ایک بار پھر فتنہ کرنا شروع کر دیا۔ 2019 میں ایک متنازع لٹریچر کی تقسیم سے لڑائی شروع ہوئی۔ 2022 میں مقدمہ درج ہوا اور نامزد ملزم مبارک ثانی کی ضمانت کے لیے سیشن اور لاہور ہائی کورٹ نے اپیل مسترد کر دی۔ ملزم مبارک ثانی نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ جہاں 6 فروری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک ایسا فیصلہ دے دیا جس نے پورے ملک کو ختم نبوت کے اس فیصلے سے پہلے لا کھڑا کیا جہاں پچاس برس قبل پاکستان کھڑا تھا۔ مذہبی جماعتوں اور سوشل میڈیا پر تحریک شروع ہوئی اور چیف جسٹس کے فیصلے کو آئین اور دین سے متصادم قرار دے دیا، اور ملک بھر میں احتجاج بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے 6 فروری کو ملزم کی ضمانت اور فردِ جرم سے بعض الزامات حذف کروانے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوئی جو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد 16 اور 27 نومبر 2023 کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی تھی۔

جو ایف آئی آر درج تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ ملزم ممنوعہ کتاب ’تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کر رہا تھا۔ ضمانت کی درخواست میں ملزم کے وکیل کا مؤقف تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق اس جرم کا ارتکاب 2019 میں کیا گیا، جبکہ کسی بھی ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت کو  پنجاب قرآن شریف (ترمیم) قانون کے تحت سنہ 2021 میں جرم قرار دیا گیا تھا۔ اسی کو بنیاد بنا کر چیف جسٹس سمیت تین رکنی بنچ نے کہا کہ چونکہ سنہ 2019 میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم جرم نہیں تھی، اس لیے درخواست گزار پر یہ فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ اور فیصلہ دیا کہ ’آئین نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی جو اس وقت جرم نہیں تھا، جب اس کا ارتکاب کیا گیا۔‘ اس کے ساتھ ہی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس مقدمے میں اگر ملزم کو کسی جرم پر سزا ہو سکتی ہے تو وہ ’تفسیر صغیر‘ نامی کتاب کی اشاعت اور اس کی تقسیم کا جرم ہے، جس کی سزا چھ ماہ قید ہے اور ملزم پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکا ہے۔ ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے ملزم کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اس نکتے کو نظر انداز کیا۔ جمیعت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں کی طرف سے احتجاج کی کال اور سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس پر عدلیہ نے کہا کہ عدالتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ججز کی توہین کی جا رہی ہے۔ مذہبی جماعتوں کا کہنا تھا کہ یہ قانون ختم نبوت کے حوالے سے ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کی نعوذ باللہ توہین کا عنصر ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے علما کرام اور مذہبی اداروں سے معاونت مانگ لی، جس پر دس اداروں کو خطوط لکھے گئے۔ علمائے کرام کے دلائل اور مشاورت کی روشنی میں 22 اگست کو سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں مختصر فیصلہ سنایا، جس میں 6 فروری اور 24 جولائی 2024ء کے فیصلوں کی تمام متنازعہ شقوں کو ختم کر دیا گیا اور فیصلے سے متنازعہ حصہ حذف کر دیا۔

آج تمام مذہبی جماعتیں اور تمام پاکستانی 7 ستمبر 1974 کو بننے والے ختم نبوت آئین کی گولڈن جوبلی مناتے ہوئے جشن منا رہے ہیں کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کے لیے ایک ہیں اور یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔

پی کے 705 کا آخری مسافر بھی رخصت ہوا

قاہرہ طیارے حادثے میں زندہ بچ جانے والے6مسافروں میں سے آخری  مسافر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے سابق جنرل مینیجر پبلک افیئرز صلاح الدین صدیقی 93برس کی عمر میں گزشتہ دنوں 16 اگست 2024 کو انتقال کر گئے۔ صلاح الدین صدیقی جنرل مینیجر پبلک افیئرز کے عہدے سے1980ءمیں پی آئی اے سے ریٹائر ہوئے تھے۔20مئی 1985ءکو پی آئی اے کی قاہرہ سے افتتاحی پرواز پی کے705لینڈنگ سے کچھ پہلے قاہرہ ایئر پورٹ سے20کلو میٹر دور گر کر تباہ ہو گئی تھی۔ اس افتتاحی پرواز کو کراچی سے دہران سعودی عرب، قاہرہ اور پھر وہاں سے لندن جانا تھا۔ پرواز میں مسافروں اور عملے سمیت128مسافر سوار تھے۔ حادثے میں122مسافر اور عملے کے ارکان جاں بحق ہوگئے تھے۔ ان میں پی آئی اے کی معروف ایئر ہوسٹس مومی گل درانی بھی شامل تھیں۔ اس افسوس ناک حادثے میں 22صحافی بھی جاں بحق ہوئے تھے۔ ان میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے ایڈمنسٹریٹر اے کے قریشی اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئر مین میجر جنرل حیاالدین بھی شامل تھے۔ اس حادثے میں6خوش قسمت مسافر زندہ بچ گئے تھے۔ ان کی پوری زندگی افسردگی میں گزری وہ مکمل طور پر نارمل زندگی کی طرف نہ آسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی کوئی کتاب نہیں لکھی۔ انتقال کر جانے والے پی آئی اے کے سابق جنرل مینیجر صلاح الدین صدیقی اس حادثے میں بچ جانے والے آخری حیات مسافر تھے۔ صلاح الدین صدیقی طویل عرصے سے لندن میں مقیم تھے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق صلاح الدین صدیقی کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ بچ جانے والوں میں جلال الدین کریمی، عارف رضا، ظہور الحق، صلاح الدین صدیقی، شوکت ملکائی اور امان اللہ خان شامل تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین جنرل حیاءالدین، اے پی پی کے اے کے قریشی، روزنامہ جنگ کے ناصر محمود، روزنامہ حریت کے جعفر منصور، روزنامہ امروز کے حمید ہاشمی، روزنامہ مشرق کے ابو صالح اصلاحی، بزنس ریکارڈر کے ایم پی خالد، ڈان کے صغیر الدین احمد، مارننگ نیوز کے سبط فاروق آفریدی، لیڈر کے علیم اللہ  فلائر کے ممتاز طارق، نوائے وقت کے عرفان چغتائی اور پی پی اے کے شاہ ممتاز سمیت ملک کے 22صحافی شامل تھے۔ اس حادثے میں بد نصیب طیارے کے عملے کے جو افراد موت کی لکیر پار کر گئے اس میں طیارے کا پائلٹ اے اے خان، نیویگیشن آفیسر خالد لودھی، ایئر ہوسٹس پینتھکی اور مومی گل درانی، فلائیٹ اسٹیورڈ،اے جی علوی اور فلائر پرسر  مسعود خان شامل تھے۔ زندہ بچ جانے والے مسافروں میں سے کئی کے ساتھ  میڈیا سے وابستہ اداروں نے  رابطے کئے۔جو اس حادثے میں موت کی وادی میں لوگ اتر گئے تھے ان میں سے بھی کئی کے لواحقین ساتھ بات کی گئی۔
"میں اس واقعے پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ آپ مجھ سے اس واقعے پر بات مت کیجئے، کیونکہ میں اسے یاد نہیں کرنا چاہتا۔ ان باتوں کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتا۔ ان سب باتوں کو میں بھول جانا چاہتا ہوں۔" یہ ان 6مسافروں میں سے ایک کا کہنا تھا۔

  اس پرواز میں سوار6بندر بھی زندہ بچ گئے تھے۔ جلال الدین کریمی وہ واحد مسافر تھے جو حادثے کے بعد جائے حادثہ پر چل پھر رہے تھے۔ حادثے کے بعد طیارے کے ملبے میں آگ لگی ہوئی تھی اور جلال الدین کریمی زخمی حالت میں بچ جانے والے مسافروں کی تلاش کر رہے تھے چند گھنٹوں بعد جب ہنگامی امداد پہنچی تو انہوں نے زرد رنگ کا رومال ہلا کر مدد کے لیے اشارہ دیا تھا۔ 

شوکت میکلائی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ صحرا میں ریسکیو ورکرز سے پہلے وہاں پہنچنے والے مقامی بدّو عرب مرے ہوئے لوگوں کی اشیا چوری کرنے پہنچ گئے تھے۔ 26 مئی کی ایک خبر کے مطابق طیارے کے ملبے میں ایک ٹرانسسٹر ریڈیو ملا جس میں قیمتی زیورات تھے جن کی مالیت ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر بتائی گئی۔ اس کے مالک یا مالکہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
 حادثہ میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کی میتوں کو قاہرہ میں امام شافعی  کے مقبرے کےدفنایا گیا تھا البتہ چند میتوں کے ورثہ شناخت کرنے کے بعد اپنے اپنے ممالک لے گئے تھے۔ قاہرہ میں دفنائے گئے تمام مسلمان نہیں تھے۔ تاہم اجتماعی تدفین مسلمانوں کے طریقے سے کی گئی۔
دو مسافر عبدالوارث اور شفیق اللہ برطانوی شہری تھے، مسٹر ہوورڈ، مسز ہوورڈ اور مس الزیبتھ کی شہریت نامعلوم بتائی گئی۔ مسٹر ہوفمین، مسٹر ٹیری اور مسز ٹیری کی شہریت میں غیر ملکی درج تھا جبکہ ڈیوڈ لو امریکی شہری تھے، سات چینی  اور باقی پاکستانی تھے۔
صلاح الدین صدیقی نے بتایا تھا کہ اس افتتاحی پرواز میں مسافروں میں کچھ تو ٹکٹ لے کر سوار ہوئے تھے لیکن زیادہ تر ٹریول ایجنٹس تھے جن کے نام پی آئی اے کے مختلف شعبوں کے مینیجروں نے تجویز کیے تھے۔ ایک پی آئی کے کمرشل ڈائریکٹر تھے، باقی صحافی تھے جن کا انتخاب اخبارات کی انتظامیہ یا مالکان نے کیا تھا۔
کراچی کے ایک فوٹوگرافر اور مصنف و محقق ایس ایم شاہد نے بتایا کہ اس وقت کے کراچی کے ایک بڑے اخبار روزنامہ انجام سے وابستہ صحافی طفیل احمد جمالی کو بھی ریٹائرڈ میجر جنرل حیاءالدین کی جانب سے دعوت ملی ہوئی تھی لیکن جب وہ سوار ہونے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے تو پتہ چلا کے اُن کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ جنرل حیاءالدین اور کئی لوگوں نے کوشش کی کہ وہ کسی بھی طرح سوار ہو جائیں لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا اور بالآخر وہ مایوس ہو کر گھر چلے گئے۔ وہ بہت ناراض تھے۔اگلی صبح اخبار میں دیکھا کہ حادثہ ہو گیا۔ وہ پہلے تو روئے پھر بہت خوش ہوئے۔‘
بدقسمت بوئننگ 720 کی پرواز 705  میں قاہرہ سے ہوتے ہوئے لندن جانے والوں میں ایک اور نام بھی شامل ہو چکا تھا۔ یہ تھے زوار حسن جو اُس وقت مارننگ نیوز میں سینیئر اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر تھے۔  اُس کے ایڈیٹر تھے محسن علی۔


زوار حسن نے بتایا کہ ان کے ’ایڈیٹر محسن علی نے اس پرواز سے چند دن پہلے مجھے بلایا اور کہا کہ پی آئی اے کی قاہرہ کے لیے افتتاحی پرواز روانہ ہو رہی ہے، اس میں ٹریول ایجنٹس اور صحافیوں کو دعوت دی گئی ہے۔ تم سینیئر بھی ہو اور تجربہ بھی رکھتے ہو اس لیے تم اس پرواز میں چلے جاؤ۔ زوار حسن نے بتایا تھا کہ  ایڈیٹر کی جانب سے نامزدگی کی اطلاع میں نے نیوز روم میں اپنے ساتھیوں کو دی۔ وہاں میرے ایک سینیئر سبطِ فاروق فریدی بھی موجود تھے ۔قاہرہ کا سُن کر سبطِ بھائی خوش ہوئے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں کچھ تحقیق کر رہا تھا اور مجھے اس کے لیے مصر جانا تھا۔ کاش میں اس پرواز میں قاہرہ جاتا اور اپنا کام بھی کر لیتا۔ میں کچھ دیر بعد ایڈیٹر کے پاس گیا اور کہا کہ آپ میری جگہ سبطِ بھائی کو بھیج دیجیے۔ میں سینیئر صحافی کے حق میں دستبردار ہو گیا اور سبط بھائی موت کے سفر پر روانہ ہو گئے۔
مصری حکام کا کہنا تھاکہ بوئنگ حادثے کے وقت قاہرہ ایئرپورٹ کے کنٹرول ٹاور سے رابطے میں تھا۔ طیارے کے کیپٹن نے اس وقت خرابی کی اطلاع دی تھی جب طیارہ لینڈنگ کے قریب پہنچ چکا تھا۔کنٹرول ٹاور نے فوری طور پر ایئرپورٹ عملے کو رن وے پر کھڑے ہونے کے لیے روانہ کر دیا تھا۔ اُسی وقت چند سیکنڈز کے بعد ہی یہ حادثہ پیش آیا اور صحرا اچانک شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ ہم واقعی یہ دیکھنے سے قاصر تھے کہ کیا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ آگ کے شعلے کم ہوئے اور فضا پر خاموش طاری ہو گئی۔ 
 آخری لمحات کے بارے میں شوکت میکلائی نے  اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ عملے نے اپنے ہیٹس پہن رکھے تھے اور وہ اپنے کیبن کا سامان جمع کر چکے تھے۔ جب طیارہ رن وے 34 کی جانب لینڈنگ کے لیے اتر رہا تھا وہ قاہرہ ایئرپورٹ کے آس پاس ایک دائرے میں چکر لگا رہا تھا اور اس وقت وہ گر کر تباہ ہوا۔بس اُسی لمحے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جب میں نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو مجھے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ بجائے اس کے کہ مدد کے لیے پکاروں، میں چیختے ہوئے اپنا نام لے کر شوکت! شوکت! پکار رہا تھا۔ ایک اور مسافر، ایک نوجوان جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا، وہ میری جان بچانے کے لیے پہنچا۔وہ بری طرح زخمی تھا لیکن اس نے مجھے ملبے سے نکال لیا۔ ہمارے چاروں طرف لاشیں اور سامان پڑا تھا۔ میں نے ان میں اپنی بیوی کی بے جان لاش دیکھی۔میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا لیکن میں ساکت رہا۔ ابھی بھی صدمے کی حالت میں، میری زندگی کی ایک فلم میرے ذہن میں گزری۔ میرے بچپن سے اب تک کی زندگی، میں نے جو کچھ دیکھا تھا اور کیا تھا اور وہ چیزیں، جو میں نے بعد میں کرنا تھیں، وہ سب ذہن میں ایک لمحے کے لیے آئیں۔یہ سوچ کر کہ میری زندگی جلد ہی ختم ہو جائے گی میں نے خدا کے بارے میں سوچا اور کہا کہ اگر اس نے مجھے زندگی گزارنے کا ایک اور موقع فراہم کیا تو میں آنے والے دن کا انتظار کیے بغیر ہر کام اسی وقت کروں گا اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کم خوش قسمت لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کروں گا۔

1965 قاہرہ پرواز حادثے میں زندہ بچ جانے والے پی آئی اے کے سابق افسر انتقال  کرگئے - Pakistan - Dawn News Urdu
ہلاک ہونے والوں میں چار ایئر ہوسٹسیں بھی  تھیں جنھیں اس پرواز کی اہمیت کے لحاظ سے خاص طور پر مہمانوں کی خدمت کے لیے  منتخب کیا گیا تھا۔ ان میں ایک ایئر ہوسٹس مومی گل درانی تھیں جو ایک دہائی سے اپنی پُرکشش شخصیت اور حُسن کی وجہ سے پی آئی اے کی شناخت بن گئی تھیں۔مومی گل درانی نہ صرف پاکستان کی قومی ایئرلائن کی ایک شناخت تھیں بلکہ ایوی ایشن وائس کی ویب سائٹ کے مطابق وہ پیشہ ورانہ خدمات کی وجہ سے دنیا کی دس بہترین ایئر ہوسٹیسز میں بھی شمار ہوتی تھیں۔مومنہ گل درانی جنھیں ان کے دوست پیار سے مومی گل بھی کہتے تھے، پاکستان کے معروف موسیقار، سہیل رانا کی بیگم قندیل گل کی بہن تھیں۔اس پرواز کے عملے میں وہ شامل نہیں تھیں۔ انھیں عموماً خاص خاص پروازوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ لیکن طیارے کے عملے کی ایک ایئر ہوسٹس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور ان کی جگہ مومنہ کو جانا پڑا۔
پاکستان کی تاریخ میں طیارے کے حادثے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا لیکن  یہ پہلی افتتاحی پرواز تھی جس کے ذریعے چین کو مشرقِ وُسطیٰ سے ملایا جا رہا تھا۔ طیارے میں کئی چینی مسافر بھی سوار تھے۔ پی آئی اے کی اس افتتاحی پرواز کا چین کو مشرق وُسطیٰ سے ملانے کی پالیسی یا ایسے کسی اعلان کے بارے میں پی آئی اے کے حکام کو کوئی علم نہیں تھا
موت سے ہمکنارہونے والے مسافروں میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے 22 صحافی، ٹریول ایجنٹس، اور معتبر کاروباری شخصیات اور چند ایک سرکاری افسران  شامل تھے۔ اس کے علاوہ برطانوی، لبنانی جرمن اور چینی شہری بھی سفر کر رہے تھے۔ان میں سب سے اہم چینی مسافر پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے لڑاکا طیارے کے چیف ڈیزائنر بھی شامل تھے۔
بوئنگ 720 کو پرواز کرتے ہوئے ابھی تین برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ اس لحاظ اسے ایک نیا طیارہ کہا جا سکتا تھا۔ قاہرہ ایئرپورٹ پر طوفان کی بھی تصدیق نہیں ملتی ، اسی لیے ماہرین کی نظر میں اس حادثے کے دو امکانات زیادہ واضح نظر آتے ہیں:
پی آئی اے کے بوئنگ 720 کے حادثے کی تحقیقات کے لیے مصری حکومت نے ایک اعلیٰ اختیارتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس پرواز کا فلائیٹ ریکارڈر محفوظ حالت میں مل گیا تھا۔ بعد میں پی آئی اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر ایئر وائس مارشل نور خان نے اس بارے پاکستانی صحافیوں کو آگاہ کیا تھا۔ نور خان نے کا کہنا تھا کہ  طیارہ کے ڈھانچہ  سے ملنے والے فلائیٹ ریکارڈر بالکل کار آمد تھے اور اس کے نتائج کی انھوں نے ماہرین کے ساتھ آزمائش کی تھی۔  نور خان 26 مئی کو ایک آزمائشی پرواز میں قاہرہ گئے تھے۔جب  تمام مسافر اتر گئے تو ایک  تجزیاتی پرواز کی گئی جس میں طیارے کو اسی طریقے سے اتارا گیا جس طرح پی آئی اے کا بدقسمت بوئنگ اتارا جانا تھا۔ ایئر وائس مارشل اس پرواز کے لیے طیارے میں سوار تھے تاہم انھوں نے ابتدائی تحقیقی سطح پر مزید بتانے سے گریز کیا تھا۔تاہم انہوں  نے اعلان کیا تھا کہ فلائیٹ ریکارڈر کو واشنگٹن مزید تحقیق کے لیے بھیجا گیا تھا کیونکہ کچھ معلومات سمجھی نہیں جاسکی تھیں۔ یہ کہنے کے بعد انھوں بتایا کہ ‘پائلٹ نے اترنے کے لیے معمول کے طریق کار اختیار کیا جب طیارہ پندرہ سو فٹ کی بلندی پر تھا اور پھر نہ معلوم کیوں نیچے آیا۔

بچیوں کو محفوظ کریں!

1: اپنی بچیوں کو کبھی کسی بھی مرد ٹیچر کے پاس سکول پڑھنے،، یا قاری صاحب کے پاس قرآن پڑھنے کے لیے نہ بھیجیں! بچی چھوٹی ہو یا بڑی ہو،، ٹیچر یا قاری صاحب بڑی عمر کے سمجھ دار ہوں یا کم عمر نوجوان.. بچی ہمیشہ استانی کے پاس ہی پڑھے گی۔۔

2: جب بچی کچھ بڑی بڑی لگنے لگے تو اسے دکان پر چیز لینے نہ جانے دیں! خواہ بچی کتنی ہی کم عمر ہو.. اگر صحت مند ہے اور خد و خال واضح ہو رہے ہیں تو دکان پر مت جانے دیں!

3: بچیوں کو کم لباس، یا تنگ لباس کر کے باہر مت بھیجیں! بلکہ گھر میں بھی مکمل کپڑے پہنا کر رکھیں! گھر میں کوئی مرد نہ ہو، صرف عورتیں ہی ہوں پھر بھی پورے ، اور کشادہ کپڑے پہننے کی عادت ڈالیں!

4: بچیوں کو چھوٹے بچوں ، یا بڑے مرد کسی کے سامنے مت نہلائیں! اور نہ ہی پیشاب وغیرہ کروائیں! حتیٰ کہ باپ کے سامنے بھی بچیوں کو برہنہ مت کریں! بچیوں کے اعضاء ستر بچپن سے ہی پردے میں رہنے چاہییں!

5: بچیوں کو بچیوں جیسا تیار کریں! سرخی پوڈر اور میک اپ کروا کر انہیں عورتوں کے مشابہ مت بنائیں! میک اپ کرکے تنگ کپڑے پہن کر چھوٹی چھوٹی عورتیں لگ رہی ہوتی ہیں ۔۔ پھر مردوں کی ہوس کی شکار بنتی ہیں ،، اور ان کی لاشیں ویرانوں سے برآمد ہوتی ہیں ۔

6: بالغ لڑکیوں کو،، یا قریب البلوغ بچیوں کو غیر محرم خصوصاً کزن، پھوپھا اور خالو وغیرہ کے ساتھ کبھی موٹر سائیکل پر مت بٹھائیں! اگر مجبوراً بھیجنا ہو تو ساتھ کوئی اور بچہ بھیجیں جو درمیان میں بیٹھ جائے۔

7: بچیاں ہوں یا بچے.. ہاتھ کا مذاق ان سے کوئی نہیں کرے گا۔ نہ استاد ، نہ کوئی بڑا انکل ، نہ ہی قریبی رشتے دار..

اسی طرح گالوں پر ہاتھ پھیرنا ، گود میں بٹھانا ، گدگدی کرنا وغیرہ.. یہ سب چیزیں بالکل ممنوع قرار دیں!

8: بہنوں کے کمرے بھائیوں سے الگ ہونے چاہییں! بھائیوں کو بہنوں کے کمروں میں بلا اجازت جانے پر سخت سزا دیں! بہنوں کے گلے لگنا، گلے میں ہاتھ ڈالنا، مذاق مذاق میں ایک دوسرے سے گتھم گتھ ہونا بالکل غلط ہے ۔۔ بلکہ موجودہ حالات کے پیش نظر بے ہودگی کے زمرے میں آتا ہے ۔

9: گھر میں کوئی بھی نامحرم مرد مہمان آئے ، قریب سے آئے یا دور سے،، جوان بچیاں اس سے سر پر ہاتھ نہیں رکھوائیں گی۔ بلکہ بہت قریبی رشتے دار نہ ہو تو سلام کرنا بھی ضروری نہیں۔ یہ بے ادبی کے زمرے میں نہیں آتا ۔

اپنی بچیوں کی جوانی کو ایسے چھپا کر رکھیں کہ کسی مرد کو ان کا سراپا ہی معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ فلاں کی لڑکی اتنی موٹی اور اتنی لمبی تھی وغیرہ ۔۔

10: بچیوں کو گھر میں محرم رشتے داروں کے سامنے دوپٹہ لینے اور سنھبالنے کی خصوصی مشق کروائیں! دوپٹہ سر سے کبھی سرک بھی جائے تو سینے سے بالکل نہیں ہٹنا چاہیے!

اور کھلے گلوں پر سختی سے پابندی لگائیں! بچیوں کو سمجھائیں کہ دستر خوان پر کبھی کسی کے سامنے جھک کر سالن نہیں ڈالنا، کوئی چیز گر جائے تو جھک کر نہیں اٹھانی.. اور اکیلے میں بھی اگر جھک کر کوئی کام کریں تو گلے اور سینے پر دوپٹے برابر قائم رہے ۔۔ تاکہ انجانے میں بھی کسی کی نظر نہ پڑے..

یہ چند باتیں ہیں جن پر عمل کرنے سے ان شاءاللہ بہت فائدہ ہوگا،، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بچیاں محفوظ رہیں تو ان پر عمل کریں! آج کے زمانے میں سب سے زیادہ فحش ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں ،، اور اب تو فحش نگاری کے باقاعدہ مصنفین موجود ہیں جو محرم رشتوں کے آپسی جنسی تعلقات سے متعلق گندی کہانیاں لکھ رہے ہیں اور ویڈیوز بنا رہے ہیں.. اور سب سے زیادہ ایسی ہی ویڈیوز اور کہانیاں دیکھی جا رہی ہیں ان سے مکمل بچیں کیونکہ ان کی نحوست سے اب لوگ آہستہ آہستہ بھیڑیے بنتے جا رہے ہیں ۔۔ اپنی بچیاں خود بچالیں!

ورنہ یاد رکھیں! کسی کو آپ کی بچیوں پر ہونے والی زیادتیوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کی لاش گٹر میں ملے ، ندی نالوں میں ملے یا کسaی ویرانے میں ملے۔۔ تو یہ صرف اخبار کی ایک خبر ہے ، یا ٹی وی کی نیوز...

انصاف وغیرہ کو بھول جائیں! وہ یہاں نہیں ملتا ۔

اس لیئے بہتر ہے کہ خود ہی احتیاط کریں !

بچپن،پنڈ اور پلا

بچپن کی یادوں کا آغاز لُنگی سے ہوتا ہے۔ لُنگی یا دھوتی بچے بڑے سب پہنتے بلکہ باندھتے تھے اوپر قمیض پہنی جاتی۔ یہ دیہات کا عمومی کلچر تھا۔ میرے گاؤں میں بجلی لڑکپن کی عمر گزرنے کے بعد آئی۔سکول یونیفارم تو ہوا کرتی تھی ، ملیشیا کی۔ مگر ہم بچے زیادہ تر دھوتی باندھ کر جایا کرتے تھے۔ استاد بھی شلوار پاجامہ تب پہنتے جب معائنہ کے لیے افسران نے آنا ہوتا۔ جوتے سکول جاتے ہوئے کبھی ہوتے کبھی ننگے پاؤں۔ ہمارے سکول میں ایک ہی ٹیچر ہوا کرتے تھے۔زیادہ تر ہماری استادوں سے شکایت ٹوبا لینے کی ہوتی۔ سیاہی کی دوات اور سر کنڈے کانے کی قلم ہوا کرتی تھی۔ لکڑی کی تختی سکول جانے کے پہلے روزساتھ ہوتی۔ لوہے کی سلیٹ دوسری جماعت سے شروع ہوتی، کپڑے کا بستہ ہوا کرتا۔ تختی بھی سکول کے سامنے نہری پانی کی نالی میں دھوئی جاتی۔ اگر کسی کی دوات میں قلم لگا تو شکایت بن گئی۔ ماسٹر جی اس نے ٹوبا لے لیا۔ ماسٹر صاحب دبکا مار دیتے۔ یہ شکایت کچی پکی اور دوسری جماعت تک ہوتی۔ پھٹّی سلیٹ قلم دوات پانچویں یعنی پرائمری تک ہی چلتی۔

ہمارا سکول پنڈ سے تھوڑے سے فاصلے پر قبرستان کے کونے پر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز میں اسی قبرستان سے گزر رہا تھا کہ مجھے سامنے براؤن رنگ کا سانپ بائیں سے دائیں گزرتا دکھائی دیا۔ وہ میرے بالکل سامنے تھا اور میں اس کے اوپر سے بڑی بے نیازی سے بلا خوف و خطر گزر گیا۔ اتنا شعور تھا کہ سانپ کاٹ لے تو کٹنے والا مر بھی جاتا ہے۔مگر مجھے اس کے اوپر سے گزرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔ اس لیے کہ سن رکھا تھا ، قبرستان میں بابا ہدایت شاہ کا مزار ہے اور سانپ ان کی برکت سے اندھا ہو جاتا ہے۔ بچپن میں یہ پختہ اعتقاد تھا،اب...؟

کچھ عرصہ کے لیے سکول میں دو ٹیچر بھی تعینات ہوئے۔ ان میں ایک ماسٹر دین محمد تھے۔ بچوں کی اپنے ہاتھ سے ناک صاف کرنے کو بالکل بھی معیوب نہیں سمجھتے تھے۔ بڑے بچے قمیض کے دامن کو ٹشو اور تولیہ کے طور پر استعمال کرتے۔ہمارے مستقل ٹیچر کا نام یٰسین شاہ تھا۔ ہم انہیں شاہ جی کہا کرتے۔ انہوں نے بھینسیں رکھی ہوئی تھیں۔ ان کے چارے اور صفائی کا کام بھی ہمارے ذمہ ہوتا۔ چوتھی پانچویں کے بچے یہ کام کیا کرتے۔جب کبھی کوئی افسر معائنہ کے لیے سکول آتا تو شاہ جی کے حکم پر بچے گھروں سے جا کر گلاس گلاس دودھ لے کر آتے ۔دوپہر کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی ریسٹ ہوتی جسے تفریح کہا جاتا۔ اس وقفے میں گھر آ کر لنچ کر لیا کرتے۔ گاؤں میں لنچ میں کیا ہوتا۔چوپڑی روٹی ، لسی، چٹنی، اچار یا کوئی سالن ہوتا۔ یہ سب ایک ساتھ نہیں بلکہ ان میں سے روٹی کے ساتھ کوئی ایک لوازم ۔ناشتے میں روٹی یا مکھن والا پراٹھا ہوتا۔ چائے کبھی نہیں ہوتی تھی۔ مہمان آتے تو ان کے لیے چائے بنتی وہ بھی گڑ یا شکر کی۔ انڈے کھانے کو ضرور مل جاتے کیونکہ مرغیاں گھر کی ہوتی تھیں۔ گوشت عید پر یا کسی سپیشل مہمان کی آمد پر پکتا تھا۔

بجلی اور ٹوائلٹ کا نہ ہونا اب زندگی میں کیسا لگتا ہے؟

بچپن میں سردیوں میں لباس لنگی اور قمیص ہوتا، گرمیوں میں صرف لنگی رہ جاتی، زیادہ سردی ہونے پر دو قمیضیں، شدیدسردی میں تیسری قمیض کی ضرورت محسوس ہوتی مگر تیسری قمیض ہوتی ہی نہیں تھی۔ مجھے وہ کتا اور اسکی ”چانگریں“ نہیں بھولتیں جس نے ایک بار مجھے سکول سے واپسی پر کاٹنے کی کوشش کی۔ اسکے دانت پاجامے میں پھنس کر رہ گئے۔ ٹانگ محفوظ رہی۔

میرے روئیں روئیں سے انتقام کی صدا آرہی تھی۔میں گھر گیا، بستہ رکھا،ایک روٹی اُٹھائی،کتے کو تلاش کیااور ٹکڑا ڈالتے ڈالتے اسے گھر تک لے آیا۔غیر محسوس طریقے سے اسکی دُم پر مٹی کے تیل کا دیا انڈیلا اور موقع پا کر تیلی لگا دی۔ شعلہ بار دُم کو لہراتا اور چلاتا ہواکتا یہ جا وہ جا،یہ کتا غیرت مند نکلا دوبارہ گاؤں میں نظر نہیں آیا۔ میں چوتھی میں تھا جب میرے ساتھ یہ واقعہ اور کتے کے ساتھ سانحہ پیش آیا۔چھٹی کلاس میں قصبے کے سکول میں داخلہ لیا ۔ایک دن ساتھ والے گاؤں سے سکول جانے کے لیے گزر رہا تھا کہ لنڈورے کتے پر نظر پڑی۔ میں نے سائیکل آہستہ کر لی جو پہلے بھی ہوا میں نہیں اڑ رہی تھی۔ کتے نے بھی میری طرف دیکھ لیا۔ شاید پہچان بھی لیا۔ اس نے گھوں گھوں کی آواز نکالی ۔ بھونکا نہیں اور دائیں مُڑ گیا۔ میں تھوڑا آگے گیا اور کچھ سوچ کر واپس آ گیا۔ اس دوران وہ بھی اسی جگہ آ کر بیٹھ چکا تھا۔ مجھے دیکھا تو اٹھ گیا۔ میں نے سائیکل کے ہینڈل سے بندھی پوٹلی کھولی۔ اس سے روٹی نکالی اور جہاں کتا بیٹھا تھا وہیں رکھ دی جو وہاں سے اٹھ کر ایک بارپھر دوسری طرف جا رہا تھا۔ اگلے روز بھی وہ وہیں بیٹھا تھا۔ آج مجھے دیکھ کر وہ اٹھ کر ضرور بیٹھ گیا تھا مگر کہیں گیا نہیں۔ اس کے لیے میں گھرسے ایک روٹی لے گیا تھا۔ یوں کبھی کبھی اس کے لیے روٹی لے جاتا۔ ایک روز واپسی پر جب میں اس کے قریب سے گزرا تو اس نے سائیکل کے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع کر دیا۔ میں نے سپیڈ کم کر دی۔ وہ گھر تک سائیکل کے ساتھ چلا آیا۔ میں گھر کے اندر چلا گیا مگر وہ دروازہ پر باہر ہی رک گیا۔ وہ عموماً دروازے پر بیٹھا رہتا ۔گھر کے اندر بھی کبھی چلا آتا۔دوسرے کتوں کے ساتھ بھی کبھی کبھی پھرتا تھا۔چھٹی کے روز میرے ساتھ ہی کھیتوں میں چلا جاتا۔ یہ پالتو نہیں آوارہ کتا تھا مگر اس کی عادتیں پالتوؤں جیسی ہو گئی تھیں۔اسے پلا کہہ کر پکارتا تھا ۔اس کی لنڈوری دم کی وجہ سے اس کی خاص شناخت بھی بن گئی تھی۔میں ایک روز کھیتوں کے درمیان بنّے سے گزر رہا تھا۔ پلا پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ اچانک وہ تیزی سے بھاگتا ہوا میرے آگے آیا۔ اس نے تیزی سے اپنا منہ بنّے پر مارا ۔اگلے لمحے اس کے دانتوں میں تین چار فٹ کا سانپ دبا ہوا تھا۔ اسے اس نے درمیان سے دبوچ کر پٹخا تھا۔ معاً سانپ نے اسے گردن کے قریب سے ڈس لیا۔ سانپ کے دو حصے ہونے میں کسر نہیں رہ گئی تھی مگر زہریلے سانپ کے کاٹنے کے بعد پلا تڑپ بھی نہ سکا۔اسے اس کی مہلت ہی نہ ملی۔

راولپنڈی سازش کیس: پرچھائیاں اور اثرات

وزیر اعظم لیاقت علی خان 9مارچ1951ء کو قوم کے سامنے انکشاف کرتے ہیں، ’کچھ دیر پہلے دشمن کی ایک سازش پکڑی گئی ہے جو کامیاب ہو جاتی تو ملک میں افراتفری پھیلتی۔ پاک فوج کی وفاداری ملیامیٹ ہو کر رہ جاتی۔ سازش پر عمل کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جا رہا تھا۔ حکومت کو سازشیوں کے ناپاک ارادوں کا بروقت علم ہوگیا چنانچہ یہ لوگ پکڑے گئے۔ سازشیوں کا سرغنہ فوج کا چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل اکبر خان ہے جبکہ دیگران میں بریگیڈیئر ایم اے لطیف ، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور میجر جنرل اکبر خان کی بیگم نسیم جہاں شاہنواز شامل ہیں۔‘
وزیر اعظم نے جس سازش کا ذکر کیابعد میں اس پر کیس چلا جسے راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا۔ وزیر اعظم کے انکشاف کرنے سے دو ہفتے قبل 23 فروری آخری جمعہ کے روز راولپنڈی میں جنرل اکبر خان کی سرکاری رہائش گاہ پر کئی گھنٹے گرما گرم اور پر جوش بحث ہوتی ہے۔ مبینہ طور پر اس میں اس تجویز پر غور ہوتا ہے کہ حکومت کا تختہ کیسے الٹا جائے جو امریکی کیمپ میں شامل ہو چکی ہے۔ آٹھ گھنٹے بعد بھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہوتا تو مہمان گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ان مبینہ سازشیوں یا انقلابیوں میں یہ اکابرین شامل تھے۔ میجر جنرل نذیر احمد، ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ، برگیڈیئر ایم اے لطیف، برگیڈیئر صادق خان، لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین، لیفٹیننٹ کرنل نیاز احمدارباب، میجر اسحاق احمد، میجر حسن خان، کیپٹن خضر حیات، کیپٹن ظفراللہ پوشنی، بیگم نسیم اکبر، فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، محمد حسین عطا۔ لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف بھٹی وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ یہ کیس انھی کی گواہیوں پر لڑا گیا۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا )کے سب انسپکٹر یونس عسکرعلی شاہ کا نام مخبر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ان کا جنرل اکبر کے گھر آنا جانا تھا. ان کے بھائی سلطان علی فوج میں کرنل تھے جس کی وساطت سے سی این سی ایوب خان تک پیغام پہنچا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایوب خان نے سلطان علی کے ذریعے عسکر علی کواستعمال کیا۔
فوجی و غیر فوجی ملزمان پر مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل کی تشکیل پر آئین ساز اسمبلی میں قانون سازی کی گئی۔ خصوصی ٹربیونل کو راولپنڈی کانسپائریسی سپیشل ٹربیونل ایکٹ 1951ء کا نام دیا گیا۔ اس قانون کے تحت ملزموں کو کئی بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ جو بھی فیصلہ کرناتھا اس کے خلاف اپیل کا حق سلب کر لیا گیا تھا۔ ملزموں کو ضمانت اور جیوری کا حق نہیں تھا۔ عالمی سطح پر آوازیں اٹھیں تو کہا گیا کہ ٹربیونل میں ایک رکن فیڈرل کورٹ(سپریم کورٹ)کے جج ہیں۔ ان کی وجہ سے ٹربیونل کی حیثیت فیڈرل کورٹ کی ہو گئی ہے۔ حالانکہ اسی قانون میں لکھا گیا کہ ٹربیونل کو ہائیکورٹ کے تمام اختیارات حاصل ہیں۔ قانون کے تحت ٹربیونل کی کارروائی خفیہ رکھی جانی تھی۔ عدالتی کارروائی کا آغاز15جون 1951ء کو ہوا۔ ٹربیونل کی سربراہی فیڈرل کورٹ کے جسٹس عبدالرحمن کر رہے تھے۔ ممبران میں پنجاب ہائیکورٹ کے جسٹس عبدالرحمن اور ڈھاکہ ہائیکورٹ کے جسٹس سمیر الدین تھے۔ 5جنوری 1953ء کو ٹربیونل نے فیصلہ صادر کیا۔ اس دوران وزیر اعظم لیاقت علی خان شہید کردیے گئے تھے۔ ایوب خان آرمی چیف تھے۔ 
ٹربیونل کے فیصلے میں جنرل اکبر خان کو 12سال قید کی سزا دی گئی۔ باقی فوجی افسروں کو4 سے پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔ میجر جنرل نذیر احمد کو اتنی ہی سزا دی گئی جتنی کئی دہائیوں بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں5 رکنی سپریم کورٹ کے بنچ نے دی تھی۔ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر 5 پانچ سال کے لیے قید کے مستوجب ٹھہرے۔ تمام مجرم سزائیں سننے کے بعد جلد رہا کردیے گئے۔ یہ کرشمہ سسٹم میں سقم کے باعث رونما ہوا۔ 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی یہ کہہ کر برخاست کر دی کہ وہ اپنا مینڈیٹ کھو بیٹھی ہے کیونکہ یہ آئین بنانے میں ناکام رہی ہے۔ گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف سپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین عدالت گئے۔ سندھ ہائیکورٹ نے سپیکر کے حق میں فیصلہ دیا۔ جو فیڈرل کورٹ میں نہ ٹھہر سکا۔جسٹس منیر کی فیڈرل کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھ دیا کہ آئین ساز اسمبلی نے جو قوانین بنائے وہ اس وقت ہی قانونی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں جب ان کی توثیق گورنر جنرل نے کر دی ہو۔ اس طرح ٹربیونل کے قیام کا قانون بھی کالعدم ہو گیا۔ سزا یافتگان نے اس قانون کو چیلنج کیا فیصلہ ان کے حق میں آیا اور رہا ہو گئے۔ اس سازش کیس کی پرچھائیاں اور اثرات آج بھی نظر آ رہے ہیں۔
ملزموں کو سزا دینے کے حوالے سے مشرقی بنگال کے اس دور کے بڑے اور معروف عالم دین مولانا محمد اسحاق بڑے بے قرار نظر آئے۔ حضرت مولانا نے بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ فتویٰ جاری فرمایا کہ اگر وزیر اعظم اس جرم کے بارے میں رائے رکھتے ہیں کہ سازش واقعی ہوئی ہے تو مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کو فوراً لٹکا دیا جائے۔وزیر اعظم صاحب اس عالمانہ فتوے سے متفق نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ شہری اور فوجی حلقوں میں عمومی تاثر ہے کہ سازشیوں کو بغیر مقدمہ گولیاں مار دی جائیں۔ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کی نچلی ذات کی جماعت ادی واسی اچھوت لیگ نے مولانا کے فتوے کی دل و جان سے تائید کی۔ 1967ء میں جنرل اکبر خان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بھٹو کی پہلی حکومت کے سلامتی کے امور کے مشیر بنے۔ جنرل اکبر نے ’ریڈرز اِن کشمیر‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں راولپنڈی سازش کیس کو ایک ’کارٹون کہانی‘ کہہ کر ایوب خان کو اس کا ’میرِ رقص‘ کہا۔بعد ازاں 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انھیں مشیر برائے قومی سلامتی مقرر کیا گیا تھا۔اسی دوران ان کے ضبط کیے گئے اعزازات بھی لوٹا دیے گئے۔
برسبیل تذکرہ بریگیڈیئر نیاز احمد 1977ء میں برطرف کردیے گئے تھے۔ یہ واقعہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی سربراہی کے دوران پیش آیا جب انھوں نے لاہور میں پی این اے کے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔برطرفی کے کئی سال بعد، برگیڈئیر نیاز نے فوج کے لیے کنٹریکٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ وہ فوجی سامان، ہتھیاروں کی فراہمی، اور دیگر دفاعی امور میں مشاورت فراہم کرتے رہے۔ برگیڈیئر نیاز نواز شریف اور پرویز مشرف کے دوست تھے۔ انھوں نے نواز شریف کی سرور پیلس منتقلی اور پھر پاکستان واپسی مشرف کے ساتھ تعلقات کے باعث ممکن بنائی تھی۔سرسری انداز میں بھی دیکھیں تو اج پاکستان میں بہت کچھ ویسا ہو رہا ہے جیسا 1951 میں راولپنڈی سازش کی سماعت کے دوران ہوتا رہا۔وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت گرانے کے لیے کیا یہ واقعی سازش کی گئی تھی یا پھر اس دور کی حکومت کا یہ وہم تھا۔

دنیا کے بھاری بھرکم ترین شخص نے موٹاپے کو شکست دے دی‘ وزن 610 سے صرف 63 کلو گرام پر لے آیا.

گوشت کا طومار چربی کا انبار جسم بنا پہاڑ،اتنے وزن کو لے کرخالد بن محسن چلنے پھرنے سے عاجز آگیاتھا۔اس کو دنیا کا سب سے موٹا  فرد قرار دیا جاتا تھا جو اب  542 کلو گرام وزن کم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ وزن بہت زیادہ بڑھ جانے کے باعث وہ 3 سال سے زائد عرصے تک بستر تک محدود رہا۔ وہ دنیا میں اب تک کا دوسرا سب سے زیادہ موٹا شخص رہا ہے۔ اس کی حالت اتنی زیادہ خراب ہوگئی تھی کہ وہ گھر والوں اور دوستوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔اس کی وزن کم کرنے کے بڑی حسرت تھی بلکہ یہ اس کی زندگی کی آخری خواہش بن چکی تھی۔اس نے کئی جتن کئے  مگروزن اس کی جدائی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

بہت سے موٹے لوگ وزن سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ایک موٹا شخص ڈاکٹر کے پاس گیا اس سے کہا ڈاکٹر صاحب موٹاپے سے تنگ آ گیا ہوں اس سے نجات کے لیے کیا کھاؤں؟ ڈاکٹر نے کہا کھا کھا کر تو سانڈ بن گئے ہو مزید بھی کھانا چاہتے ہو ! بہت سے لوگ موٹاپا کم کرنے کے لیے کل سے ایکسر سائز شروع کرنےکا عزم کرتے ہیں ۔کل سے کم کھانے کا مصمم ارادہ باندھتے ہیں مگر وہ کل کبھی نہیں آتی۔غالب نے کہا تھا۔مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں ۔اسی طرح بہت سے موٹے لوگوں کا بس چلے تو اپنی جگہ ایکسرسائز کرنے والے لوگ رکھ لیں اپنی جگہ دوائیاں کھانے والے کرائے پر حاصل کر لیں۔جس موٹے شخص کا وزن اب 63 کلو ہوا ہے اس کا یوں سمجھ لیں کہ جگاڑ لگ گیا۔

اس وقت کے سعودی کنگ شاہ عبداللہ نے اس کی زندگی بچانے کا منصوبہ تیار کرنے کا حکم دیاتھا۔ جس نے خالد بن محسن کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ خالد بن محسن کو جازان میں واقع گھر سے کرین کے ذریعے ریاض کے کنگ فہد میڈیکل سٹی میں منتقل کیا گیاتھا جہاں 30 طبی ماہرین کی ٹیم نے خالد بن محسن کے علاج کا پلان تیار کیا جو گیسٹرک بائی پاس سرجری، خصوصی غذا اور ورزش پر مبنی تھا۔ محض 6 ماہ میں خالد بن محسن کے جسمانی وزن میں 50 فیصد کمی آئی۔اس کے بعد مسلسل کاوش اور اس کی ول پاور سے 2023ء تک اس کا وزن محض 63.5 کلوگرام رہ گیا۔ضرورت دراصل ول پاور کی ہے باقی سب کی ثانوی حیثیت ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں بہت سے لوگ مل جائیں گے جنہوں نے  اپنے آپ سے کمٹنٹ کر کے دسیوں بیسیوں کے جی وزن کم کیا ہے۔

جو ملازمین وقت پر دفتر نہیں آ سکتے وہ  گھربیٹھیں۔ عظمیٰ بخاری

ان ملازمین کی توموجیں لگ گئیں جو صبح بڑی مشکل سے جاگتے ہیں۔ انگڑائیاں جمائیاں لیتے ہاتھ منہ دھو کر آفس کی طرف گرتے پڑتے روانہ ہوتے ہیں اور لیٹ ہو جاتے ہیں۔ جن کا دفتر جانے کو دل نہیں کرتا مگر جانا پڑتا ہے۔ان کو یہ آپشن دے دیا جائے کہ گھر بیٹھیں تو ان کو اور کیا چاہیے ۔اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات نے ڈی جی پی آر کے ملازمین  کے تو کڑا کے ہی نکال دیئے۔انکی سو فیصد حاضری کی ہدایت کی ہے۔ اگر  گھر بیٹھنے والے ملازمین کو تنخواہ اور مراعات ملتی رہیں تو وارے نیارے مگر وزیر صاحبہ ان کو نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھنے کا  کہہ رہی ہیں۔یہ سن کر تو ملازمین کے طوطے اڑنے ہی ہیں۔ بادل نخواستہ ملازمین کووقت کی پابندی کرنا ہی پڑے گی، کئی ملازمین لیٹ آنے اورجلد جانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ دفتر آئے کام کیا نہ کیا حاضری لگائی افسر کو شکل دکھائی اور موقع ملتے ہی نکل لئے۔ جس افسر کو شکل دکھائی جاتی ہے وہ بھی ہو سکتا ہے نکلنے کے موقع کی تلاش میں سرگرداں ہو اور اس کے اوپراور اوپر کے  اوپر بھی افسر ہوتا ہے۔ ایسے کارندوں اور افسروں کو عرف عام میں پروفیسر نکلسن کانام دیا جاتا ہے ۔ جو جیسے ہی موقع ملتا ہے دفتر سے نکل جاتے ہیں۔ ویسے کام کے چند ایک ہی لوگ ہوتے ہیں باقی انہی کا کمایا کھاتے ہیں۔

پاکستان کو باہر سے نہیں اپنے اندر کے دشمن سے خطرہ ہے:محمود اچکزئی

دشمن اندر کا ہو یا باہر کا۔ وہ دشمن ہی ہوتا ہے اور اس سے خطرہ ہی رہتاہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ باہر کے دشمن کے وار پتہ چل جاتا ہے جبکہ اندر کا دشمن پیٹ کے مروڑ کی طرح سسٹم کو تلپٹ کردیتا ہے۔ کبھی اندر اور باہر کے دشمن مل بھی جاتے ہیں کیونکہ ایجنڈا یکساں ہوتا ہے۔ اندر کے دشمن کی پہچان بہت مشکل ہوتی ہے۔اندرونی دشمن کی جتنی پہچان مشکل ہے اتنی ہی آسان بھی ہے۔ یہاں ہر پارٹی دوسرے کو ملک کا دشمن سمجھتی اور قرار دیتی ہے۔ ہر لیڈر دوسرے کو سیاسی  اختلاف کی بنا پر غدار قرار بھی دے دیتا ہے۔ حکومتی پارٹیاں اور ادارے بتا رہے ہیں کہ کونسی پارٹی ملک دشمن ہے۔ کون  لوگ ملکی سالمیت کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اچکزئی صاحب حکومت کی طرف سے ملک دشمن قرار دی گئی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں حکومتی پارٹیوں پر بھی ایسے ہی الزامات دھرتی ہیں۔کئی لوگ تو اچکزئی صاحب کو بھی ایساہی گردانتے ہیں۔ کبھی ایم کیو ایم کو اسی طرح کے  طعنے ملاکرتے تھے۔ اس کے آج کے لیڈروں نے اپنے بانی کے نظریات بوری میں بند کر کے لندن پارسل کردیئے۔ تاہم رویہ اور لب و لہجہ نہیں بدلا۔ اس کے لیڈر یہ ڈائیلاگ دہراتے رہتے ہیں 'ہم کیا شریف ہوئے کہ دنیا بدمعاش ہو گئی'۔اب دھمکی دی ہے کہ ہمارا گورنر بدلا تو حکومت سے الگ ہونے پر غور کر سکتے ہیں۔ ٹھوک بچاکر نہیں کہا کہ الگ ہوجائیں گے۔ اگر ٹسوری صاحب کو سچ مچ تبدیل کر دیا تو حکومت سے الگ ہونا مجبوری نہ بن جائے۔باڈی لینگویج کہتی ہے کہ ہمارا گورنر تبدیل کر دیا تو بھی ساتھ رہیں گے۔ 

’’ منافق قوم ‘‘

چیراس جایا  ملائیشیا کے دارالحکومت کوا لالمپور کا فیکٹری زون ہے،وسیع وعریض،صاف ستھرا ،مصروف اور انتہائی خوبصورت علاقہ۔ملائیشیا میں چینیوں کی بڑی تعداد موجود،بہت زیادہ فیکٹریاں چینی کمپنیوں کی ہیں۔ ملک میں اور بھی قومتیں آباد ہیں، جیسے تامل وغیرہ،تامل لڑکیاں کالی یا گندمی رنگت کی ہوتی ہیں،قد زیادہ تر لمبے اور صحت مند ہوتی ہیں،چینی لڑکیوں کی رنگت سفید لیکن قد چھوٹے ہیں۔ملائی لڑکیوں کی سفید رنگت،لمبے قد،بھرے ہوئے جسم،خوبصورت نقش،زبردست شخصیت کی مالک ہوتی ہیں۔ملائیشیا کی تمام لڑکیاں سکارف اوڑھتی ہیں،تامل اور چینی لڑکیاں کھلے بال چھوڑتی ہیں۔ملائیشیا جانے کا اتفاق ہوا، میں چیراس جایا میں ایک دوست کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔روز گھومنے پھرنے جاتے۔ ایک ہفتہ گزر گیا،مجال ہے کسی لڑکی یا کسی خاتون  سے کسی بھی وجہ سےکو ئی سلام دعا،ہیلو ہائے ہوئی ہو۔ایک شام ایک پارک کے باہر بس سٹاپ پر کھڑا تھا،ایک ملائی لڑکی نے میری طرف غور سے دیکھا اور میری طرف آنےلگی،یوں لگ رہاتھا جیسے وہ مجھے جانتی ہو،یا ایک ہی نظر میں،میں اسے اچھالگا ہوں،یہ بھی تو ہوسکتا تھا وہ مجھے کسی گھر یا مقام کا راستہ پوچھنا چاہتی ہو، یا کوئی اور مدد درکار ہو۔میرے ذہن میں طرح طرح کے سوال جنم لے رہے تھے۔

بہرحال ایک بات تھی،میرے اندر لڈو پھوٹ رہے تھے،کہ  ایک خوبصورت لڑکی قریب آرہی ہے۔ نہ جانے ایک ہی لمحے میں میرے ذہن میں کیسے کیسے خیال آئے،کیا کیا خواب جاگتی آنکھوں دیکھ لیے،چشم تصور میں کیسے کیسے  نظارے کرلیے،مستقبل کے بارے  بھی پلاننگ کر بیٹھا۔ وہ اور قریب آئی،وہ اتنی حسین  اور دل پسند تھی جیسے گلاب اور صندل ملا دیئے گئے ہوں،اسکی آنکھیں جیسے کشمیری جھیلوں کا گہرا پن،ہونٹ جیسے سرخ انگارے، وہ عمر کے اس حصے میں تھی جہاں بچپن اور جوانی ایک دوسرے  سے گلے ملتے ہیں۔وہ پاس آئی،کہنے لگی،آپ پاکستانی ہیں ؟ میں نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائی اور بڑے ادب واحترام سے بولا،جی ،جی۔۔۔ وہ پھربولی ۔۔۔!!

کیا آپ کے ملک میں کوئی روزگار نہیں ۔۔۔؟ کیا وہاں فیکٹریاں،کارخانے نہیں۔۔۔؟ کیاتمہارے ملکی خزانے خالی پڑے ہیں۔۔۔؟ کیا تمہارے حکمرانوں کے پاس کوئی پلاننگ نہیں۔۔۔؟ وہ جیسے جیسے بات کررہی تھی،اس کا غصہ بھی بڑھتا جارہا تھا،وہ مجھے پاکستان کے کسی دوردراز گاؤں کی ان پڑھ خاتون کی طرح طعنے مار رہی تھی۔۔۔ کہنے لگی !!

بھوکے ننگے لوگ،کنگلے ملک کے شہری،یہاں منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں،ہمارے وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے،جاؤ اپنے ملک میں کوئی جاکر کام کرو۔۔۔وہ اتنا کہہ کر آگے چلی گئی،میں ایک لفظ بھی نہ بول سکا،بس  سڑتا،بھلتا رہ گیا۔۔۔دل کرے یہاں ہی خودکشی کرلوں،اتنی بے عزتی۔۔۔پھر میرے اندر کا دوسرا انسان جاگا۔۔۔دل کرے،اس کے پیچھے جاؤں،اس  کا منہ نوچ لوں،اس  کی زبان کھینچ لوں،اس کو بتاؤں،چلو میرے  ساتھ پاکستان،تمہیں دکھاؤں وہاں کی امارت،اس کو بتاؤں، دیکھو آکر ہمارے جاتی امرا ءکے محل، ہمارے بلاول ہاوسز،ہمارے چوہدری ہاؤسز،کنگری ہاؤس ،تمہاری آنکھیں کھل جائیں۔

اس کو دکھاؤں، اپنے اے سی،ڈی سی  کی آٹھ،آٹھ،دس ،دس کروڑ کی گاڑیاں،اس کو اپنے بیوروکریٹس کے کئی کئ  کنالوں میں بنے بنگلے دکھاؤں۔اس کو دکھاؤں اپنے حکمرانوں کی شان وشوکت،جب آتے جاتے ہیں،سڑکیں بند ہوجاتی ہیں،پچاس،پچاس گاڑیاں انکے پروٹوکول کیلئے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔اس  کو بتاؤں، دیکھو امارات  جاکر،ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اربوں ڈالرز کی جائیدادیں،برطانیہ جاکر دیکھو ہمارے فلیٹس،ہماری جائیدایں اور ڈالروں سے بھرے بینک۔سوئس بینکوں میں کھربوں روپے  دیکھو،امریکا میں جائیدادوں کا حساب لگاؤ،بنگلہ دیش میں جاکر دیکھو،ماشاءاللہ پاکستانیوں کے کارخانے،دنیا کے کسی بھی ملک چلے جاؤ،آپ کو پاکستانیوں کی جائیدادیں مل جائینگی۔اس کو یاد کراؤں،جب پانامہ  پیپر آیا تھا،دیکھا نہیں آپ نے،کتنی ہماری جائیدادیں منظر عام پر آئیں تھیں۔۔۔اس کو بتاؤں ، دکھاؤں اور چیلنج کروں ۔۔۔ کہ اپنے ملک کا ایک جنرل دکھا دو،جس کے دوسرے ملک میں جزیرے ہوں،اربوں  کی جائیدادیں ہوں۔۔۔ لگی بکواس کرنے،کہ ہم کنگلے ہیں،پوچھوں اس سے،دکھاؤ ۔۔۔!!

مجھے اپنےحکمرانوں کی امارت،شان وشوکت،دکھاؤ اپنے بیوروکریٹس کی گاڑیاں اور بنگلے،اس سے پوچھوں،اپنے ملک میں ایک بھی  پٹواری لاکھ پتی  دکھا دو، اور ہمارے ملک آؤ،آپکو ارب پتی پٹواری دکھاؤں۔۔۔۔بس میں فل تپ چکا تھا۔۔۔اس کو پاکستان لاؤں اور اپنے ملک کا سسٹم دکھاؤں،دیکھو ہماری پولیس،جو چوری ہونے سے چار دن پہلے چوروں کا سراغ لگا چکی ہوتی ہے،اسے  اپنی عدالتیں دکھاؤں،اپنے  بہادر،دلیرججز دکھاؤں، جو سزائے موت کے ملزم کو بری کرسکتے ہیں،بری ہونے والے شخص کو سزائے موت دے سکتے ہیں،وہ سزا یافتہ افراد کو بیرون ملک علاج کیلئے بھیج سکتے ہیں۔اس کو پاکستانی میں ترقی کی راہیں دکھاؤں،اس کو ایسے افراد سے ملاؤں جو آج سے پانچ،دس پہلے بجلی کا بل ادا نہیں کرسکتے تھے،آج  وہ ارب پتی بن چکے ہیں،اس کو اپنی تعلیمی ادارے دکھاؤں،اس کو اپنی موٹرویز دکھاؤں،میٹرو دکھاؤں،اورنج ٹرین دکھاؤں،سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں دکھاؤں۔۔۔ پھر پوچھوں،بتاؤ !!

کنگلے کون ہیں۔۔۔؟میں اس کی ہر بات کا دل ہی دل میں جواب دے چکا تھا،اور غصہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔۔۔لیکن اس  کی آخری بات مجھے رلا رہی تھی،وہ دل سے نہیں نکل رہی تھی،جب اس نے جاتے ہوئے کہا تھا،منافق قوم۔۔۔۔واپس اپنے کمرے میں آگیا،بستر پر لیٹ گیا،منافق والا لفظ کانوں میں گونج رہا تھا،توجہ ہٹانے کیلئے فیس بک دیکھنے لگا،ڈاکٹر اسرار کی ایک ویڈیو پر نظرپڑ گئی،سننا شروع کیا،ڈاکٹرصاحب فرما رہے تھے ’’ پاکستانی دنیا کی سب سے بڑی مناق قوم ہے ‘‘ ۔۔۔بس پھر آخری غصہ بھی ختم ہوگیا،ٹھنڈا پانی پیا اور سو گیا۔

میکسیکو کا حنیف عباسی امریکہ میں گرفتار

امریکہ کے محکمہ انصاف  کے مطابق  میکسیکو کے سینالو ڈرگ مافیا کے  سرغنہ اسماعیل ’ایل مایو‘ زمباڈا، کو 26 جولائی 2024 کو ٹیکسس میں حکام نے گرفتار کر لیا۔ زمباڈا جن کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے، درپردہ  طور پر کئی دہائیوں تک مافیا کی سمگلنگ کی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔طاقتور سینالو ڈرگ مافیا، فنٹانل نامی نشہ آور مواد سمیت دوسری منشیات کی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ میں مہارت رکھتا ہے۔ زمباڈا کو ان کے سابق ساتھی ہواکین ’ایل چاپو‘ گوزمان کے بیٹے ہواکین گوزمان لوپیز سمیت گرفتار کیا گیا۔
زمباڈا میکسیکو کی تاریخ کے سب سے بڑے سمگلروں میں سے ایک ہیں۔اس کی کاروائیاں سسلیئن مافیا بارسکااور پانامہ کے پابلو اسکوبار سے کسی صورت کم نہ تھیں۔ حالیہ  ان کو 25 سال قید کے بعد رہا کیا گیا ہے۔ آخر میں ان کی ہسٹری پر بھی بات کرتے ہیں۔
زمباڈا نے ایل چاپو کے ساتھ سینالو کارٹل کی مشترکہ طور پر بنیاد رکھی۔ ایل چاپو کو 2017 میں امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ وہ انتہائی سخت سکیورٹی والی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ زمباڈا کو سینالو کارٹل کے ایک سرکردہ رکن نے بہانے سے بذریعہ طیارہ ٹیکسس جانے کے لیے کہا۔دو امریکی عہدے داروں کے مطابق زمباڈا اور لوپیز جن کی عمر ممکنہ طور پر 30 سال سے زیادہ ہے، کو ایل پاسو کے علاقے میں نجی طیارے کے اترنے کے بعد حراست میں لیا گیا۔سانتا ٹریسا ہوائی اڈے پر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے رن وے پر ’بہت پرسکون اور منظم منظر‘ دیکھا جہاں وفاقی ایجنٹ ان دونوں کے بیچ کرافٹ کنگ ایئر سے اترنے کا انتظار کر رہے تھے۔

ہوائی اڈے پر کام کرنے والے ایک اہلکار کا کہناہے نے کہ ’دونوں طیارے سے اترے اور انہیں سکون کے ساتھ تحویل میں لے لیا گیا۔‘زمباڈا کے بارے میں کوئی بھی ایسی اطلاع دینے پر ڈیڑھ کروڑ ڈالر تک کا انعام مقرر تھا جس سے اس کی گرفتاری میں مدد مل سکتی۔
گرفتار ہونے والے دونوں افراد پر ’فنٹانل کی تیاری اور سگلنگ نیٹ ورکس چلانے سمیت مافیا کی مجرمانہ کارروائیوں کی قیادت‘ کرنے کے متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اٹارنی جنرل میریک گارلینڈ کا کہنا تھا کہ ’فنٹانل نشہ وہ سب سے زیادہ جاں لیوا خطرہ ہے جس کا ہمارے ملک کو سامنا ہے اور محکمہ انصاف اس تک وقت تک آرام سے نہیں بیٹھے گا جب تک کہ ہمارے شہریوں کو زہر دینے کے ذمہ دار مافیا کے ہر ایک سرغنہ، رکن اور فرد کا محاسبہ نہیں ہو جاتا۔‘

رواں سال کے اوائل میں زمباڈا پر نیو یارک کے ایسٹرن ڈسٹرکٹ کی جانب سے فنٹانل کی تیاری اور ترسیل کی سازش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

استغاثہ کی جانب سے انہیں ’منشیات سمگل کرنے والی سب سے پرتشدد اور طاقتور تنظیموں میں سے ایک‘ کی قیادت کرنے والا شخص بتایا گیا۔

امریکی حکام نے سینالو کارٹل پر ملک میں فنٹانل کا سب سے بڑا سپلائر ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

 زمباڈا، میکسیکو میں سب سے زیادہ عرصے تک بچے رہنے والے مافیا سرغنوں میں سے ایک ہیں اور انہیں اپنے کارٹل کے منصوبہ ساز طور پر دیکھا جاتا تھا جو روز مرہ کی کارروائیوں میں حصہ لیتا تھا۔
درپردہ رہ کر کام کرنے والے شاطر سمگلر زمباڈا نے 2010 میں ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ جیل جانے کی بجائے خود کشی کرنا پسند کریں گے۔ وہ قید سے خوفزدہ تھے۔زمباڈا نے کہا: ’میں قید سے سے ڈرتا ہوں۔‘ انہوں نے میکسیکو کے میگزین پروسیسو کو بتایا کہ ’میں اس بات پر غور پسند کرنا کرتا ہوں کہ میں خود کشی کر لوں گا۔‘انہوں نے زیادہ تر سمگلنگ کے غیر قانونی دھندے پر توجہ دی اور کارٹل کے ہاتھوں مخالفین پر بہیمانہ تشدد جیسے کہ سر قلم کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور کھال کھینچنے سے گریز کیا کیونکہ ایسی کارروائیاں توجہ حاصل کر سکتی تھیں۔زمباڈا کے ایک بیٹے نے 2021 میں سان ڈیاگو کی وفاقی عدالت میں مافیا لیڈر ہونے کا اعتراف کیا۔

 ایل چاپو، جنہیں زمباڈا سے زیادہ پرتشدد اور توجہ کا خواہشمند سمجھا جاتا ہے، نے مافیا ایک دھڑے کی قیادت کی جو امریکی مارکیٹ میں فنٹانل کے بڑے سمگلروں میں سے ایک تھے اور ان کے مافیا کو لٹل چاپوز یا ’چاپیٹوز‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ان کے سکیورٹی سربراہ کو گذشتہ سال نومبر میں میکسیکو کے حکام نے گرفتار کر لیا۔ لوپیز کے بارے میں ایسی اطلاع کی فراہمی جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا جا سکے، پر 50 لاکھ ڈالر انعام مقرر تھا۔
اب بات کرتے ہیں بارسکا کی۔ اٹلی کے شہر سسلی کی مافیا کے سرغنہ  'انسانوں کے قصاب' کے نام سے مشہور جویوانی بارسکا تھا اسکو  جیل سے رہا کیا گیا ۔ ان کے سنگین جرائم میں ایک بچے کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر تحلیل کرنا بھی شامل تھا۔زمباڈا نے قتل ضرور کروائے لیکن اس طرح سے بے رحمی سے نہیں جس طرح بارسکا کر روتا رہا۔

بارسکا نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ سو سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے میں وہ ملوث رہے ہیں جن میں مافیا کے خلاف اٹلی کے اعلیٰ ترین جج جیوانی فلکون کا قتل بھی شامل تھا۔

لیکن بارسکا بعد میں پولیس کے مخبر بن گئے اور قانون نافذ کرنے والوں سے اپنے ہی ساتھیوں کو پکڑوانے میں تعاون کرنے لگے۔پچیس سال جیل میں گزرانے کے بعد ان کی رہائی پر ان کی مجرمانہ کارروائیوں کا نشانہ بننے والے متاثرین اور ان کے لواحقین کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔

رہائی کے بعد مافیا چیف چار سال تک 'پرول' پر رہیں گے۔

جیوانی بارسکا کون ہیں؟
64 سالہ بارسکا سسلی کے مافیا کے گروپ کوسا نوسٹرا کا مرکزی کردار تھے۔ 1992 میں بارسکا نے ایک بم دھماکے میں اٹلی میں مافیا کے خلاف تحقیق کرنے والے جج جیوانی فلکون کو ہلاک کر دیا تھا جو اٹلی کی تاریخ میں قتل کی سب سے خطرناک ترین واردات تھی۔فلکون ان کی بیوی اور تین محافظ اس بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ بارسکا نے نصف ٹن بارود اس راستے پر نصب کر دیا تھا جس راستے سے فلکون نے گزرنا تھا۔اس حملے کے دو ماہ بعد ایک اور جج پاولو بورسیلانو کو ہلاک کر دیا گیا جس نے اٹلی کو ہلا کر رکھ دیا اور ملک میں مافیا کے خلاف مزید قانون سازی کی گئی۔ایک اور انتہائی اندہوناک قتل ایک گیارہ سالہ لڑکے جوسیپو ڈی میتیو کا تھا جو مافیا کے ایک اور رکن کا بیٹا تھا۔ بارسکا نے بچے کو اغوا کر کے تشدد کیا اور پھر اس کو گردن میں پھندا ڈال کر ہلاک کر دیا۔ قتل کرنے کے بعد لڑکے کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر تحلیل کر دیا گیا تھا۔ 1996 میں گرفتاری کے بعد وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے تاکہ ان کی سزا میں کمی ہو سکے۔ سرکاری تحقیقی ادارے ان کی مدد سے مافیا گروہوں کے کئی ارکان جو 1980 اور 1990 کی دہائی میں کئی حملوں میں ملوث تھے ان کو پکڑنے میں کامیاب رہے۔بارسکا کی رہائی پر ان کے جرائم کا نشانہ بننے والے بہت سے متاثرین اور ان کے لواحقین کی طرف سے رنج و غم اور غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔

ایک محافظ جو بارسکا کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے ان کی بیوی ٹینا مونتیناروں نے ایک اخبار کو بیان دیتے ہوئے کہا وہ سخت غصے میں ہیں۔

ٹینا کا کہنا تھا کہ 'ریاست ہمارے خلاف ہے۔۔29 سال کے بعد ہمیں ابھی تک حقیقت کا علم نہیں ہے۔۔جس شخص نے میرا خاندان تباہ کر دیا وہ رہا ہو گیا ہے۔'

ماریا فلکون جو ہلاک ہونے والے جج کی بہن ہیں ان کا کہنا ہے وہ رنجیدہ ہوئی ہیں یہ خبر سن کر کے بارسکا کو قانون کے تحت جیل سے رہائی مل رہی ہے۔متعدد اطالوی سیاست دانوں نے بارسکا کی رہائی کی مذمت کی ہے۔دائیں بازو کی جماعت لیگ پارٹی کے رہنما میتیو سلوانی نے کہا کہ 'پچیس سال کی قید کے بعد مافیا کے سربراہ جیوانی بارسکا اب آزاد ہو گئے ہیں۔ یہ انصاف نہیں ہے جس کے اطالوی شہری حقدار ہیں۔'ایک اور سیاسی رہنما نے کہا کہ اس سن کا ایسا لگا جیسے کسی نے پیٹ میں گھونسا مارا ہو۔بارسکا کی طرح ہو سکتا ہے کہ زمباڈا کو بھی کچھ عرصے بعد رہا کر دیا جائے جس طرح ہمارے ہاں حنیف عباسی منور منج اور رحمت شاہ افریدی سزائیں سنائے جانے کے بعد رہا کر دیئے گئے تھے۔

ہسپتالوں کے کچرے سے چوسنیوں سمیت کئی اشیاء بنائی جاتی ہیں جو انتہائی خطرناک ہے،فضل حکیم خان وزیر ماحولیات خیبر پختونخوا

اسپتال کے کچرے میں خطرناک اور بے ضرر دونوں طرح باقیات ہوتی ہیں۔ بے ضرر کچرے میں کاغذ، گتے، پیکیجنگ اور اسی طرح کی اشیاء شامل ہیں جبکہ خطرناک اشیاء میں دستانے،یورین بیگ، سرنجیں،پیتھالوجیکل، شارپس، فارماسیوٹیکل ویسٹ شامل ہیں۔اس کے علاوہ زائدالمیعاد ادویات ،ویکسین اور دوا ساز سامان کو سنبھالنے میں استعمال ہونے والی ضائع شدہ اشیاء جیسے بوتلیں، بکس، دستانے، ماسک، ٹیوبیں  بھی خطرناک ویسٹ میں شامل ہیں۔جن فیکٹریوں میں یہ کچرا جاتا ہے وہ بلا امتیاز بے ضرر اور خطرناک کے،  ری  سائیکل کر کے نئی مصنوعات بناتی ہیں جن میں برتن بچوں کے کھلونے اور چوسنی بھی شامل ہیں۔چوسنی شیر خوار بچے کو بہلانے اور مصروف رکھنے کے لیے مائیں اس کے منہ میں ان دنوں ڈال دیتی ہیں جب اسے ذائقے کا احساس نہیں ہوتا۔بچہ تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو چوسنی کی جگہ لولی پاپ کا تقاضہ کرتا ہے۔چوسنیاں اچھے مٹیریل سے ھی بنتی ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ ہسپتال کے خطرناک کچرے سے بھی بنائی جاتی ہیں۔ویسے  کچرے سے نہ جانے کیا کیا بنتا ہے۔نرم ملائم رنگدار اور خوشبودار ٹشو بھی ایسے یا ویسے کچرے سے بنائے جاتے ہیں۔مارکیٹ میں دستیاب  کھلا اچار بنتا کوئی دیکھ لے تو اس کے کھانے سے ہی دل اچاٹ ہو جائے۔دیسی چینی بنانے کے لیے گڑ اور شکر کا خام مال ڈرموں میں ڈال کر کئی دنوں کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔جس دن چینی بنانی ہو اس روز اس خام مال کو بڑے کڑاہے میں ڈال کر ایک یا دو افراد پاؤں دھو کر کڑاہے میں داخل ہوتے ہیں۔ پاؤں دھونا  لازمی شرط نہیں ہے۔دنیا کی سب سے مہنگی کافی ہاتھی کے ذریعے پراسس  کر کے تیارکی جاتی ہے۔ہاتھی کو کافی کے بیچ کھلا دیئے جاتے ہیں اس کے بعد کی کافی نوش نہ ہی سنیں۔