اہم خبریں

ہمارے لیے مر گئی : اور بی آئی یو سکینڈل

”وہ ہماری بیٹی تھی مگر اب ہمارے لیے مر گئی ہے“۔ یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جس کی بیٹی نے پاکستان بھارت کی سیما قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عبور کی۔ انجو22جولائی کو واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان آئی۔ اس کی دِیر کے نوجوان نصراللہ سے فیس بک پر دوستی ہوئی تھی۔ گوآ بہارانڈیا کی انجو دیر پہنچی۔ اس کی طرف سے شروع میں کہا گیا کہ وہ ایک دو روز میں واپس چلی جائے گی۔ پھر خبر آئی اس نے اسلام قبول کر کے نصر اللہ سے نکاح کر لیا ہے۔ انجو کا نام فاطمہ رکھا گیا ۔ اس کے باپ گایا پرساد تھامس کا کہنا ہے ۔میں بھارتی حکومت سے انجو کو پاکستان سے واپس لانے کی اپیل نہیں کروں گا۔ میں تو کہوں گا اسے ادھر ہی مرنے دیں۔ اس کی بیٹی کی عمر 13سال اور بیٹے کی عمر 5سال ہے۔ اس نے اپنے بچوں اور شوہر کا مستقبل برباد کر دیا۔ اس نے یہی کرنا تھا تو پہلے شوہر سے طلاق لیتی۔“ اس لڑکی کے پہلے شوہر اروند کمار کو اب بھی امید ہے کہ وہ واپس اس کے پاس آ جائے گی۔اروند کمار مذہباً مسیحی ہے۔کل کی انجو نے عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہوئی۔ 

انڈیا سے آئی انجو کا نیا نام اب فاطمہ، اپنے دوست نصراللہ سے نکاح | Urdu  News – اردو نیوز
آج کی فاطمہ اپنے بچوں کو وہیں چھوڑ آئی جبکہ اس کی طرح ایک لڑکی پاکستان سے بھی بھارت گئی۔ اس کا نام سیما ہے۔ اس کے چار بچے ہیں۔ سیما کا خاوندغلام حیدر سعودی عرب میں مقیم ہے۔سیما کی بھارت میں فیس بک کے ذریعے سچن سنگھ سے دوستی ہوئی۔ پب جی گیم کھیلتے ہوئے ان کے مابین فاصلے سمٹتے چلے گئے۔ سعودی عرب سے آنے والے پیسے کی بہتات تھی۔ اس خودمختار لڑکی نے اپنا گھر بھی بیچا۔یہ کراچی سے دبئی گئی۔ وہاں سے نیپال جا پہنچی۔ سچن سنگھ بھی وہیں آ گیا۔ جہاں دونوں نے 13مارچ کو شادی کر لی۔ نیپال سے شادی اور مسلمان سے ہندو ہو نے کے بعد سیماکراچی واپس آئی۔ تینوں بیٹیوں اور بیٹے کا پاسپورٹ بنوایا۔ پھردبئی گئی وہاں سے نیپال ، آگے بس میں دہلی اور پھر13مئی کو نووائیڈا سچن کے پاس پہنچ گئی۔ اس کے بچوں کی عمریں 2سے8سال کے درمیان ہیں۔ سیما نے حیدر کے ساتھ بھی مرضی کی شادی کی تھی۔ سیما کا آبائی تعلق سندھ کے ضلع خیر پور کے گاؤں رندہا جانو سے ہے۔ وہ گاؤں کی ماڈرن لڑکی تھی۔ جسے اداکاری کا شوق تھا۔وہ گاؤں میں جس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی وہ نہ ہو سکی تو گاؤں چھوڑ گئی۔ اس کی جیکب آباد کے غلام حیدر سے ملاقات ہوئی۔ یہ اس کی دوسری محبت تھی۔ یہ اپنے والدین کے لیے اسی روز مر گئی تھی جب گاؤں میں موبائل فون استعمال کرنے والی اس واحد لڑکی نے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھا۔ اب سسرال والے بھی اس پر انا للہ پڑھ رہے ہیں۔ ان کا تعلق گاؤں لال جکھرانی جیکب سے ہے۔

سیما حیدر 'غیر قانونی مہاجر' قرار، بڑی مشکل میں پھنس گئیں | Daily Mumtaz
ہمارے اپنے گاؤں کی ایف اے کی طالبہ نے موبائل کے ذریعے پروان چڑھنے والی دوستی کی بنا پر والدین کو چھوڑ کر اپنی دنیا بسا لی۔ اس کے والدین نے لڑکی کے اغوا کا کیس درج کرایا۔ یہ کیس لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس سرفرازڈوگر کی عدالت میں لگا۔لڑکی وہاں لائی گئی اس نے بیان دیا کہ وہ بالغ ہے اور مرضی کی شادی کر چکی ہے۔ جج صاحب نے والدین سے دس منٹ کی ملاقات کا کہا تو لڑکی نے بپھرتے ہوئے جواب دیا ،آپ کیوں کہہ رہے ہیں۔ میں نے نہیں ملنا مجھے ان سے خطرہ ہے۔ والدین بیٹی کی لغزش معاف کرنے پر تیار ہیں مگر لڑکی ملنے اور ماننے پر آمادہ نہیں۔ جج صاحب کی طرف سے قانون کے مطابق لڑکی کو اس کی مرضی کے خاوند کے ساتھ جانے کا فیصلہ سنانا پڑا۔
اس روز میں جسٹس سرفراز ڈوگر کی عدالت کے نیچے چیف جسٹس امیر بھٹی کی عدالت میں عمران ریاض خان بازیابی کیس کی سماعت کی کوریج کیلئے موجود تھا۔اس کیس سے پہلے چند دوسرے کیسز تھے۔ ان میں ایک لڑکے کے وکلاءکہہ رہے تھے لڑکے کو ان لوگوں سے خطرہ ہے،جن کی بیٹی سے اس نے کورٹ میرج کی ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی سے یہ کہتے ہوئے درخواست مسترد کر دی۔ ” والدین بچیوں کی پرورش اس لیے نہیں کرتے کہ کوئی ان کو ورغلا کرلے جائے اورشادی کر لے۔ جاؤ لڑکی کے والدین سے بات کرو۔
 ہمارے گاؤں کی وہ مذکورہ لڑکی تو والدین کے لیے نہیں مری مگر وہ اس کے غم میں مر رہے ہیں۔ شاید اسی لئے کسی دور میں لوگ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے۔ کچھ تو اب بھی بیٹیوں کے پیدا نہ ہونے کی دعا کرتے ہیں۔
ادھر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں جو کچھ ہواجو تفصیلات سامنے آرہے ہیںوہ کوئی تعجب خیز نہیں یہ معاشرے کا آئینہ ہے۔مگر اس میں مبالغہ آرائی کی بھی حد کردی گئی ہے۔ڈی پی او کے مطابق پولیس منشیات کے خلاف آپریشن کررہی تھی۔

بہاولپور یونیورسٹی اسکینڈل کی تحقیقات کیلیے کمیٹی قائم، وی سی کے وارنٹ کی  ہدایت - ایکسپریس اردو

یونیورسٹی میں منشیات میں ملوث طلبا کی تعداد 113بتائی گئی ہے۔چیف سیکیورٹی افسر میجر اعجاز شاہ کی ناکے پر گاڑی روک کر تلاشی لی گئی۔ ان سے پانچ گرام آئس برآمد ہوئی۔یہ ۵گرام انہوں نے خود پینی تھی یا سمگل کرنی تھی؟۔ان سے کچھ ادویات ملیں،ایک لڑکی ساتھ بیٹھی تھی۔سب ایف آئی آر میں درج ہے۔اس کے بعد ان کے موبائل سے ساڑھے پانچ ہزار قابل اعتراض ویڈیوز موجود ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔قبل ازیں پروفیسر ابو بکر کوحراست میں لیا گیاتھا۔ ان کے موبائل میں سات ہزار دو سو ویڈیوز کی موجودگی کا ذکر تھا۔جس طرح کی باتیں ہورہی ہیں اس سے درسگاہوں کے تقدس کی پامالی میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔کچھ "دانشور"ہر طالبہ کا کردار مشکوک بنانے پر تلے ہیں۔ان کو ہر طالب علم نشئی منشیا ت فروش نظر آتا ہے۔چپڑاسی سے گارڈ ز سمیت وی سے تک ہر ملازم کو جنسی بھیڑیا قرار دینے کی مہم چل رہی ہے۔یونیورسٹی میں خرافات اور خرابات سے انکار ممکن نہیں۔منشیات بھی چلتی ہونگی۔کچھ طالبات کو استعمال کیا جانا کچھ کا بلیک میل ہوکر یا مرضی سے استعمال ہونا بعید از قیاس نہیں۔مگر اس میں کتنے لوگ ملوث ہونگے؟؟؟
 یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کی تعداد پینسھ ہزار ہے۔ ان میں سے ایک سو تیرہ منشیات میں ملوث ہیں۔یہ تعداد ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔یہی نسبت یا اس سے کچھ زیادہ دیگر جرائم کی ہوسکتی ہے۔ایسے معاملات دو فیصد لوگ ملوث ہوں توبھی تعداد تیرہ سو بنتی ہے۔لڑکیوں کو بلیک میل کرنے والے کتنے ہوںگے؟ سارے کے سارے تو نہیں ہو سکتے۔جتنے بھی ہیں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ان کو عبرت بناکر ہی ایسے واقعات کے اعادہ کو روکا جاسکتا ہے۔اس ساتھ انتظامیہ بھی جاگے۔یونیورسٹی اور وابستگان کو گالی نہ بننے دے۔ 

اسلام آباد: منشیات کے استعمال پر 5 طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا
 اس معاملے کو اچھالنے کے پیچھے چہروں کو بھی بے نقاب کرنا لازم ہے۔یہ اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ ۹۹ فیصد بلکہ اس بھی زیادہ اپنے کام سے کام اور تعلیم پر توجہ مرکوزرکھنے والی بچیاں احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔مافیازنے ایسا تاثر قائم کردیا کہ درسگاہ سے وابستہ لوگ منہ چھپانے پر مجبورہیں۔ وزرا ءکے بھی سکینڈل میں نام آرہے ہیں۔یہ معاملہ اعلی سطح کی تحقیقات کا متقاضی ہے۔
 

مجید نظامی: مین آف سینچری

آخری دنوں میں بھی کمزوری اور نقاہت کے باوجود مجید نظامی صاحب آفس آتے رہے اور نوائے وقت دفتر آنے سے قبل نظریہ پاکستان ٹرسٹ جانا توایک معمول تھا وہ بھی انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا۔نظامی صاحب کے دوستوں اور ہم ایڈیٹوریل بورڈ کے ارکان نے متعدد بار درخواست کی کہ نظریہ¿ پاکستان کی مصروفیات کو کم کر دیں۔ آپ کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی۔

بعض دوست تو نظامی صاحب کی گرتی صحت کا سبب اس ٹرسٹ کی گھنٹوں پر محیط میٹنگوں کو قرار دیتے تھے۔نظامی صاحب شاید مروتاً وعدہ تو کر لیتے لیکن نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے معمولات جاری رکھتے۔ نظامی صاحب نوائے وقت ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین تھے،ان کی رحلت کے دنوں سلیم بخاری، سعید آسی، راقم فضل حسین اعوان، غلام نبی بھٹ اور امتیاز تارڑ ممبر تھے۔ ایڈیٹوریل میٹنگ روز کا معمول تھی۔میں 2007 ءسے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ تھا۔ دن میں کم از کم ایک مرتبہ تو نظامی صاحب سے ملاقات ہوا کرتی تھی۔ کسی کام یا وضاحت کے لئے وہ جب چاہتے طلب کر لیتے۔ ایڈیٹوریل میٹنگ عموماً دس پندرہ منٹ کی ہوتی جس میں اداریہ اور اداراتی نوٹس کے موضوعات طے کئے جاتے۔ عموماً نظامی صاحب، سلیم بخاری کی بریفنگ پر اپنے مختصر کمنٹس کے ساتھ اداریہ، شذرات اوکے کر دیتے۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ میٹنگ کے آغاز پر ہی نظامی صاحب کہہ دیتے کہ فلاں خبر کو ادارئیے کا موضوع بنا لیں۔

Majid Nizami
سابقہ ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری کی عدم موجودگی میں ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی بریفنگ دیتے ۔ نظامی صاحب کے ساتھ ادارتی میٹنگ ان کے دفتر میں ہوتی تاہم کبھی ایسا بھی ہوتاکہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ جاتے ہوئے دفتر کے سامنے گاڑی رکواکر بریفنگ دیتے اور لے لیتے۔ جلدی میں ہوتے تو گاڑی چلوا لیتے راستے میں گفتگو جاری رہتی اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے گاڑی میں واپس بھجوا دیتے۔ چھٹی کے روز سنگل ممبرکے ساتھ گھر میں میٹنگ ہوا کرتی تھی۔
 وقت کی پابندی نظامی صاحب کا شعار رہی۔ کسی تقریب میں کبھی تاخیر سے نہیں پہنچے۔ معاشرے میں تقریب دیئے گئے وقت سے لیٹ شروع کرنا ایک وبا اور بیماری ہے، نظامی صاحب دیئے گئے وقت پر پہنچنے والے پہلے مہمان ہوا کرتے تھے۔ جو میزبان کے لئے شرمندگی کا باعث بھی بن جاتا۔
ہم اُس دور کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبران کو مجید نظامی صاحب سے بہت زیادہ قربت کا دعویٰ تو نہیں تاہم ان لوگوں میں ہم ضرور ہیں جن کو نظامی صاحب کی قربت کا اعزاز ضرور حاصل ہے۔ ہم لوگوں نے مجید نظامی صاحب کو ظاہراً باطناً یکساں پایا۔ پاکستان سے ان کی محبت لازوال تھی۔ بانیانِ پاکستان کا دل و جان سے احترام کرتے۔ کشمیر کی آزادی کے لئے ایٹم بم چلا دینے تک کے عزم کا بارہا اعادہ کیا۔ یہ تک بھی کہا کہ ”مجھے بم کے ساتھ باندھ کر بھارت پر گرا دیا جائے“ انتہا درجے کے غریب پرور تھے۔ ایک کالم نگار نے کہا وہ برائے نام معاوضہ لیتے ہیں۔ نظامی صاحب نے مجھے چیف اکاﺅنٹنٹ کے پاس بھیجا کہ پتہ کروں کہ ان صاحب کا معاوضہ کتنا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کو کالم کا معقول معاوضہ تو دیا جاتا ہی ہے اس کے علاوہ ان کے بیٹے کی بیماری کے لئے دس ہزار ماہانہ کے اخراجات 1985 ءبھی شروع کئے گئے تھے جو ہنوز جاری ہیں۔ غریب خواتین اورطلباءطالبات کی امداد کی کئی درخواستیں نظامی صاحب کے پاس آتیں۔ ان کو وہ اکاﺅنٹس کے لئے مارک کرتے جو غلطی سے کبھی ہمارے پاس بھی آ جاتیں جن پر عموماً لکھا ہوتا، تصدیق کے بعد اتنے کا چیک انہیں بھجوا دیا جائے۔ کشمیر اور محصور پاکستانیوں کے لئے مستقل نوائے وقت فنڈ قائم ہے۔
نیوز پیج پر چھپنے والے کالموں کو وہ خود کلیئر کیا کرتے تھے۔ ایڈیٹوریل شعبہ سے جو بھی کالم کلیئرنس کے لئے بھجوایاجاتا اگلے چند منٹ میں واپس آ جاتا۔ ہم سمجھتے کہ شاید سرسری دیکھ کے واپس کر دیا لیکن اس پر بعض اوقات معمولی سی غلطی کی نشاندہی بھی ہوتی تھی۔ نظامی صاحب جیسی ریڈنگ سپیڈ کسی اور کی نہیں دیکھی۔ اپنی شخصیت کی طرح ان کی تحریر بھی نستعلیق تھی۔بذلہ سنجی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی۔وہ جتنے خوش گفتار اتنے ہی خوش لباس اور اعتدا ل کے ساتھ خوش خوراک بھی تھے۔راہ چلتے گاڑی رکواتے‘ چائے یا کافی پیتے‘ نان چنے بھی خرید لیتے‘ اس سے اندازہ کرتے کہ ان اشیاءکی قیمتیں عام آدمی کی دسترس میں ہیں۔ مہنگی ہونے پر اگلے روز خبر لگواتے یا ادارتی نوٹ اور سرراہے میں خبر لی جاتی۔
ان کے دل میں کبھی کسی کے بارے میں بغض اور کدورت دیکھنے تک نہیں ملتی۔ اجمل نیازی صاحب نے ایک بار جذباتی ہو کر نظامی صاحب کو زیادہ ہی تلخ اور ترش خط لکھ دیا اور اس کے ساتھ ہی روٹھ کر بیٹھ گئے۔ کچھ عرصہ بعد دوستوں کے اصرار کرنے پر کالم نگاری پر آمادہ ہوئے تو نظامی صاحب نے خوش آمدید کہا۔ توفیق بٹ صاحب کا موڈ بگڑا تو وہ بھی نظامی صاحب کے نام سخت خط لکھ کر نوائے وقت کو الوداع کہہ گئے۔ نظامی صاحب نے ان کو فون کرکے کہا کہ وہ لکھنا چاہیں تو نوائے وقت کے دروازے کھلے ہیں۔ اختر شمار صاحب مرضی سے نوائے وقت سے گئے اور پھر واپس بھی آ گئے ان کی طرف نظامی صاحب نے طنزیہ نہیں بلکہ الفت کی نظر سے دیکھا۔ مجھے نہیں یاد کہ ذاتی حوالے سے میری کسی درخواست نے نظامی صاحب کی طرف سے پذیرائی حاصل نہ کی ہو۔
وہ بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں سالانہ سمر کیمپ لگایا جاتا۔ماہ نامہ پھول کی اہتمام کیساتھ اشاعت ہوتی۔ ایڈیٹر ”پھول“ محمدشعیب مرزا کی بھرپور حوصلہ افزائی فرماتے۔نظامی صاحب اپنے پاس آنے والے کئی آرٹیکل ”پھول“ کیلئے بھجوایا کرتے تھے۔
نظامی صاحب کی وفات ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وہ یقیناً لیجنڈ اور جینئس تھے۔ ان کے پائے کا بیدار مغز صحافی، دانشور اور دیدہ ور صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ آج میں جس حیثیت میں بھی ہوں وہ مجید نظامی صاحب کی نظر عنایت کے باعث ہی ہوں۔ انہوں نے عام صحافی سے مجھے کالم نگار بنا دیا۔وقت نیوز پر ہفتہ وار تجزیئے کے لئے بھی نظامی صاحب نے ہدایت کی تھی۔ ان کی 26 جولائی کو نویں برسی ہے۔ اس موقع پر ایک بار پھرلاکھوں دل اورآنکھیں مجید نظامی کی وفات کے سوگ میں اشکبار ہیں۔ اسلام اور پاکستان کی عظیم تر خدمات کے پیش نظر نظامی صاحب کوصحافت کا مین آف سینچری قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد!

جمعہ 7جولائی کو پورے پاکستان میں سویڈن میں کی گئی توہین قرآن کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج کی کال عمران خان کی طرف سے دی گئی تھی۔

یہ واقعہ 29جون کو اس روز ہوا جب عالم اسلام کے بڑے حصے میں عید کا تہوار منایا جا رہا تھا، بڑے حصے سے مطلب یہ ہے کہ کچھ ممالک میں ایک روز پہلے عید ہو چکی تھی۔اس روز سویڈن میں عدالت کی باقاعدہ اجازت سے قرآن کریم کو نذر آتش کیا گیا۔اس پر جس طرح سے مسلم امہ کی طرف سے ردعمل آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا۔ تو عمران خان کی طرف سے مظاہروں کی اگلے جمعہ کو کال دی گئی۔اور پھر اس جمعہ کو اس کال کے تحت لوگ اپنے گھروں سے نکلے، حکومت کی طرف سے بھی اسی روز احتجاج کی کال دی گئی تھی، دیگر جماعتوں نے بھی احتجاجی مظاہروں میں اپنے اپنے طور پر حصہ لیا۔

عمران خان پر حملہ کے خلاف پی ٹی آئی کا ملک بھر میں احتجاج، مظاہرین کی پولیس  سے جھڑپیں - Roznama Sahara اردو
 قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ تحریک انصاف کو آج کن مشکلات کا سامنا ہے۔ عمران خان کی ٹی وی چینل پر تصاویر دکھائی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان کا نام لیا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو زیرحراست رکھا گیا ہے۔ جو لیڈر پریس کانفرنس کرنے پر رضا مند ہو جاتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو 9مئی کے واقعات کی وجہ سے چھوڑ رہا ہے تو اس کو رہائی مل جاتی ہے جو پریس کانفرنس نہیں کرتے ان کو عدالتوں کی طرف سے ضمانت ملتی ہے وہ رہا ہوتے ہیں تو اس کے اگلے لمحے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یاسمین راشد، علی محمد خان، شہریار آفریدی یہ ایسے لوگ ہیں جن کو عدالتوں کی طرف سے چھ چھ ، سات سات بار ضمانت ملی لیکن اگلے لمحے ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ عام کارکنوں کی بھی خواتین سمیت گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ تحریک انصاف پر کسی قسم کی قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن تحریک انصاف کا جس طرح سے ناطقہ بند کیا گیاہے، کسی بھی گھر پر پرچم لہرانے کی اجازت نہیں ہے، کوئی ریلی تک نہیں نکال سکتے۔ 

پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان اور شہریار آفریدی دوبارہ گرفتار - Pakistan -  AAJ
ان حالات میں عمران خان کی طرف سے مظاہروں کی کال دی جاتی ہے۔ جمعے سے پہلے آپ دیکھیں کہ کس طرح سے تحریک انصاف پر پابندیاں موجود ہیں لیکن جمعہ کے بعد جب عمران خان کی کال پر لوگ گھروں سے نکلتے ہیں، پرچم انہوں نے اٹھائے ہوتے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں پورے ملک میں یہ لوگ سامنے آتے ہیں۔ دیگر پارٹیوں کی طرف سے جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا اس طرح سے لوگ باہر نہیں نکلے۔ تحریک انصاف اس موقع پر ایک بار پھر جو منتشر تھی، جو بکھری ہوئی تھی وہ متحد نظر آئی۔گو کہ پولیس کی طرف سے کئی مقامات پر کارکنوں سے پرچم چھین لیے گئے۔ (قارئین! کیا کوئی ایسا عدالتی فیصلہ آئین میں ترامیم یا قانون میں کوئی ایسی شق موجود ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ کا نام لینا ،ٹی وی اور میڈیا پر اس کا ذکر کرنا، اور اس پارٹی کے جھنڈے اور بینر سرکاری سرپرستی میں چھینے اور اتارے جائیں اور اس کے دس ہزار سے زائد جانثار کارکنوں کو سخت گرمیوں میں پابند سلاسل رکھ کر ہم کونسے قانون کا احترام کر رہے ہیں؟)اس کے باوجود بھی بہت بڑی تعداد کے پاس ایسے پرچم موجود تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک انصاف کی ایک ریوائیول اور دوسرا جنم ہے۔ جمعے کی نمازسے پہلے کیا صورت حال تھی اور جمعے کی نماز کے بعد ان مظاہروں کے ظہورپذیر ہونے پر کیا صورت حال انقلاب کی طرح بدلتی ہوئی نظر آئی۔
9مئی کے واقعات کس طرح سے ہوئے آہستہ آہستہ ان سے پردہ اٹھ رہا ہے۔ تحریک انصاف کو ان واقعات میں ملوث کیا گیا۔ اب منصوبہ بالکل کھل کر سامنے آ رہا ہے کہ فوج کو کس طرح سے عمران خان کے خلاف کیا جائے۔ایسا کرنے کے لیے فوجی تنصیبات کونقصان پہنچایا گیا ،ان کو جلایا گیا ،توڑ پھوڑ کی گئی۔مگر آج میڈیا کا دور ہے، سوشل میڈیا سے کوئی بھی چیز چھپ نہیں سکتی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو مہرہ بنانے کی کوشش کی گئی اور ان کے اندر ایسے لوگ بھی چھوڑ دیئے گئے جنہوں نے قومی املاک اور دفاعی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا اور فوج کو باور کروادیا گیا کہ یہ ساراکچھ پی ٹی آئی کے ایما پر ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔اس کے بعد پھر تحریک انصاف کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا جو کچھ ہوا وہ سامنے ہے۔ پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں پر جس طرح سے تشدد کرکے ان کی ہمدردیاں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی وہ پوری طرح سے کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ بہت سے لیڈر پارٹی کو چھوڑ گئے لیکن ووٹر جہاں تھا نہ صرف وہاں موجود ہے بلکہ تحریک انصاف پر اس طرح کے ہونے والے مظالم کو دیکھتے ہوئے ان میں، میں سمجھتا ہوں کہ پندرہ سے بیس فیصد مزید اضافہ ہو چکاہے۔ اور ا ب یہ بات کسی لیل وحجت کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت عمران خان کی پارٹی کو دیگر درجن سے زائد پارٹیوں کے ساتھ اسی اور بیس کا مقابلہ ہے۔ یہ میں اپنے تجربے اور انفارمیشن کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ چودہ جماعتیں مل کر بھی عمران خان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔

9مئی: 80 فیصد عوام کا ملزمان کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہسروے
میرا ایک بار پھر اشارہ جمعے کو ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی طرف ہے۔ اس روز کئی مقامات پر شدید بارش ہوئی اور جہاں بارش نہیں ہوئی وہاں پر بھی شدید حبس تھی، گرمی تھی، اس کے باوجود تحریک انصاف کے کارکن بڑے پرجوش انداز سے نکلے وہ عمران خان سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ قرآن شریف کی حرمت کی خاطر نکلے تھے۔ عمران خان نے ہمیشہ قرآن کی عظمت کی بات کی ہے، ناموس رسالتﷺ کی بات کی ہے۔ یہ پوری دنیا کے سامنے ہے کہ عمران خان کے کہنے پر، ایما پر ان کی کوششوں سے جس طرح پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف دن قرار دیا گیا ہے اور پھر عمران خان نے اقوام متحدہ میں جا کر جس طرح سے اسلامو فوبیا کے بارے میں بات کی، جس طرح سے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور پاکستان میں اپنی حکومت کے دوران رحمت اللعالمین اتھارٹی قائم کر دی اور سب سے بڑھ کر جہاں بھی نبی اکرم ﷺ کا نام آتا ہے سیلبس تک میں وہاں پر حکم جاری کر دیا گیا، قانون بنا دیا گیا کہ محمد ﷺ کے ساتھ ساتھ خاتم النبین بھی لکھا جائے گا۔ تو ایسی دین کے لیے کسی بھی پاکستانی لیڈر کی خدمات نہیں ہیں۔
لوگ قرآن کے معجزات کی بات کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے جس طرح سے قرآن کی ناموس کے لیے مظاہروں کا اعلان کیا تو یہ قرآن کریم کا ہی معجزہ ہے کہ جمعے کی نماز سے پہلے تحریک انصاف پستیوں کی کن گہرائیوں میں تھی اور پھر جمعے کی نماز کے بعد جیسے ہی مظاہرے ہوتے ہیں تحریک انصاف جذباتی انداز میں پرچم لہراتی ہوئے سامنے آتی ہے اور اس کے بعد پھر تحریک انصاف کی بلندیوں کو دنیا نے دیکھ لیا یہ معجزہ نہیں تو پھر اور کیا ہے۔
ادھر عمران خان نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑا قومی لیڈر بھی ثابت کر دیا ہے۔ایک قد کاٹھ والا لیڈر جس کی شاید مثال ملنا بھی بہت مشکل ہو۔آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آیا اس نے عمران خان سے ملاقات کی، عمران خان نے ملاقات کے دوران ان پر باور کروا دیا کہ آپ نے حکومت پاکستان کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے ،آپ جو پیکیج دینے والے ہیں ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا لیڈر ہی کر سکتا ہے جو ذاتیات سے بلند ہو، سیاست سے بلند ہو۔ آپ کو قارئین یاد ہوگا کہ عمران کے دورِ حکومت میں جب ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں پاکستان گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے والا تھاتو عمران خان کی طرف سے قانون سازی کی گئی۔ انہی جماعتوں سے آئین میں ترامیم کے لیے عمران خان نے تعاون مانگا تو انہوں نے بدلے میں تمام کیسز ختم کرنے کا این آر او مانگ لیا۔انہی دنوں ان چودہ جماعتوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ پہلے نیب میں ترامیم کی جائیں۔ نیب کی کل شقیں 37ہیں۔ان کی طرف سے 35میں ترامیم کا مطالبہ کر دیا گیا۔ عمران خان نہیں مانا۔ آج عمران خان کے پاس بھی ایک بہت بڑا موقع تھا کہ اس حکومت کو مزید ذلیل کیا جائے ،خوار کیا جائے،ناکام کیا جائے وہ آئی ایم ایف کو کہہ دیتے کہ ہم معاہدے پر عمل درآمد نہیں کریں گے لیکن عمران خان کی طرف سے ذاتیات سے بلند تر ہو کر، ملکی مفاد میں آئی ایم ایف کو گو اہیڈ دے دیا گیا۔قارئین میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے بہتر کارکردگی دکھانی ہے تو پھر پہلے عمران خان جیسا بننے کی کوشش کریں۔

سائیفرکہانی:ملزم بنامجرم یا مظلوم؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان جو کئی روز سے گھر سے غائب تھے ۔ان کے گھر والے ان کو تلاش کرتے رہے ۔ہائیکورٹ بھی گئے ۔اب اعظم خان منظر عام پر آگئے ہیں ۔وہ کہاں رہے ؟۔اس کا تذکرہ بھی الگ بیان میں کیا ہے۔گھر جانے سے قبل ان کی طرف سے نے سائیفر سے متعلق اعترافی بیان ریکارڈ کروایا گیا۔یہ کتنا فول پروف ہے؟ اس میں کتنے سقم ہیں؟ اس کا جائزہ بیان پر نظر ڈالنے کے بعد لیتے ہیں۔ہمارے اپنے اخبار روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے خبر کے مطابق اعظم خان نے 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کروادیا جس میں انہوں نے سائیفر کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔اعظم خان نے کہا سائیفر کے معاملے پر تمام کابینہ ارکان کو ملوث کیا گیا اور بتایا گیا سائیفر کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سائیفر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ’سائیفر کو غلط رنگ دیکر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا۔ انہوں نے تمام تر حقائق کو چھپا کر سائیفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا۔ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے سائیفر کو بیرونی سازش کا رنگ دیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے مجھ سے سائیفر 9 مارچ کو لے لیا اور بعد میں گم کر دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائیفر ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی اداروں کیخلاف نفرت کا بیج بویا۔ منع کرنے کے باوجود سیکر ٹ مراسلہ ذاتی مفاد کیلئے لہرایا۔
 اعظم خان کے منظر عام پر آنے کے بعد گمشدگی کی ایف آئی آر خارج کر دی گئی۔اعظم خان نے پولیس کو بتایا وہ اپنی مرضی سے دوست کے ہمراہ روپوش تھے۔اس کے بعدایف آئی اے نے عمران خان کو 25 جولائی کوسائیفر پبلک کرنے کی الزامات کی تحقیقات کیلئے طلب کرلیاہے۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے عمران خان کے ڈرامے سے ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچا، سائیفر جیسے جھوٹے ڈرامے کی سزا ملنی چاہیے۔اعظم خان کے منع کرنے کے باوجود سابق وزیراعظم نے سائیفر جیسی خفیہ دستاویز پبلک کی جو ایک جرم ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا کہ سائیفر قبضے میں رکھنا،گم کرنا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف فی الفور ٹرائل چلایا جائیگا۔
 تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اعظم خان سے منسوب غیرمصدقہ بیان تضادات کا مجموعہ ہے۔ مبینہ بیان اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتی ہے جس سے زیرِحراست افراد ”استحکام“ یا ”پارلیمٹرینز“ کی صفوں میں سے برآمد یا پریس کلبز سے بازیاب ہوتے ہیں۔ عجلت اور فرسٹریشن میں جاری کیا گیا ”سکرپٹ“ سائیفر پر ریاستی مو¿قف کیلئے تباہ کن ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی دو مختلف وزرائے اعظم(سابقہ اور موجودہ) کی صدارت میں ہونیوالے اجلاسوں میں سائیفر کے مندرجات کی تصدیق کرچکی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے دو مختلف ادوار میں ہونیوالے اجلا سوں میں پوری سول و عسکری قیادت نے سائیفر کو ”پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت“ قرار دیا۔
اس خبر پر چوبیس گھنٹے تک ٹی وی نیوز چینلز کی سکرینیں جھلملاتی رہیں۔ اینکر حضرات اور ان کے ردعمل کے لیے بلائے گئے مہمانوں کے چہرے فرطِ جذبات میں تمتماتے رہے۔ عمران خان الیکٹرانک میڈیا میں نام لینے پر پابندی ہے۔ اس دوران یہ پابندی بھی ملحوظ نہیں رہی۔عمران خان کی طرف سے ردعمل میں کہا گیا۔ ” اعظم خان ایماندار آدمی ہے، جب تک ان کی زبان سے نہیں سنوں گا ، اس وقت تک نہیں مانوں گا“۔خان صاحب کو شاید اعظم خان کی زبان سے بھی یہ سب سنناپڑ جائے۔ پرویز خٹک چوہان، سردار تنویر الیاس جس زبان سے کپتان کے گُن گاتے تھے اسی سے اب خرافات کا شمار کراتے ہیں۔ 
مجسٹریٹ کے سامنے جو بیان دیا گیا وہ من و عن جاری نہیں ہوا بلکہ یہ اس کی رپورٹنگ ہے۔ اس میں بہ تکرار کہاگیا ہے ۔" ایم اے کے (محمد اعظم خان )نے کہا ...."۔ پیرا گراف ڈی دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ اس کے آخر میں بریکٹ میں لکھا ہے۔ "اس جگہ پر عمران خان کا متعلقہ آڈیو کلپ چلایا جا سکتا"۔یہ بیان شاید ٹی وی چینلز پر چلانے کیلئے جاری ہوا جہاں عمران خان کا نام نہیں لیا جاسکتا۔لہٰذا جا بجاچیئر مین پی ٹی آئی لکھا گیا۔ بہرحال جو بھی ہے اس سب سے عمران خان کے خلاف الزامات کی شدت میں کمی نہیں آ سکتی۔
معروضی حالات میں عمران خان پر یہ بیان اسی طرح کے سنگین الزامات کا حامل بیان ہے جیسا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ان کی قائم کردہ سپاہ ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود نے نواب محمد احمد خان کے قتل میں وعدہ معاف گواہ بنتے ہوئے دیاتھا۔ دوسرا بیان اسحق ڈار کی طرف سے میاں نوا زشریف کے خلاف حدیبہ پیپر ملز کیس میں دیا گیا تھا۔ مسعود محمود کے وعدہ معاف گواہ بننے پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزاسنا کر عمل کر دیاگیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت ایک عرصے تک عدالت کے اس فیصلے کی حمایت کرتی رہی۔ حکومتی اتحاد میں دونوں پارٹیاںایک ساتھ ہیں تو اب بھٹو صاحب کو شہید تسلیم کیا جا رہا ہے۔
 اسحق ڈار کا بیان ہاتھ سے لکھے45صفحات پر مشتمل تھا۔ڈار صاحب اس بیان کے بعد الیکشن لڑے وزیر خزانہ بنے۔ اسی دوران زیر عتاب آئے تو ایک محدود مدتی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے طیارے میں لندن چلے گئے اور پھر حالات سازگار ہونے پر دوسرے ایسے ہی وزیر اعظم شہباز شریف کے جہاز میں واپس آئے اور پھر وزیر خزانہ بن گئے۔ ان کا موقف رہا ہے کہ ان سے 45صفحات کا شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے خلاف بیان جبری لیا گیا تھا۔سپریم کورٹ حدیبیہ پیپر مل کیس ڈار صاحب کے بیان سمیت مُکت کرچکی۔ کس کے بیان کی نوعیت سنگین ہے۔ ڈار صاحب کے بیان کی یا اعظم خان صاحب کے بیان کی؟۔
 اعظم خان نے سائیفر کے استعمال کے بارے میں بیان دیا ہے ۔ سائیفر ایک حقیقت ہے اوراپنی جگہ موجود ہے جو امریکہ میں موجوداُس وقت پاکستان کے سفیر اسد مجید نے ڈونلڈ لوکے دھمکی آمیز رویے پر پاکستان بھیجا تھا۔ اسد مجید صاحب آج کل سیکرٹری خارجہ ہیں۔عمران خان سائیفر پر کئی بارتحقیقات کا تقاضا کرچکے ہیں۔اب کیس شروع ہورہا ہے۔عمران پراعظم خان الزام لگاتے ہیں کہ سائیفرانہوں نے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا۔عمران خان اسے اپنے خلاف سازش اور رجیم چینج کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔حکومت سیاسی مخالفین کیخلاف بہت کچھ کرسکتی ہے۔خان کو لیول پلے اِنگ فیلڈ ملتا ہے یا نہیں مگر اس کیس میں کسی حد تک مل سکتا ہے۔رجیم چینج سے مستفید ہونے والے اس کیس کی شنوائی کے دوران مدت پوری کرکے گھر جاچکے ہونگے۔
نئی سائیفر کہانی کی پلاننگ میں بھی استحکام اورخٹک پارٹی کی تشکیل کی طرح کئی سقم موجود ہیں۔سکرپٹ رائٹرملزم کومجرم ثابت کرنے کی کوشش میں مظلوم بنادیتے ہیں۔ 

غریب کا محافظ کون؟

اندرون شہر لاہور بہت سے معاملات کی وجہ سے مشہور ہے۔ کھانوں سے لے کے خون خرابے تک ہر چیز یہاں وافر مقدار میں ملتی ہے۔ چوری، ڈکیتی اور منشیات کا استعمال بھی عام ہے۔ لوگ چوری چھپے ہی سہی لیکن جرائم میں ملوث ہیں۔ اور ان جرائم کو ہوا تب ملتی ہے جب امیروں کی بگڑی اولاد کسی غریب کی عزت پر ہاتھ ڈالے یا اس پر تشدد کرے اور جواب میں غریب اپنے تحفظ کی ذمہ داری لینے پولیس سے رجوع کرے تو یہ لوگ پیسوں پر فروخت ہو جائیں۔
 پولیس کا ادارہ ایک زمانے سے اس معاملے میں بدنام ہے کہ پیسوں کے آگے بک جاتا ہے۔ پہلے یقین نہیں آتا تھا لیکن اب کسی حد تک دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ سچ ہے۔سب نہیں بلکہ سو میں سے تیس فیصد لوگ رشوت لیتے ہیں اور پورے ادارے کے منہ پر کالک مل دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں پیش آیا:
اندرونِ شہر لاہور کے ایک چھوٹے سے محلے میں دو گھرانوں میں لڑائی کا معاملہ عرصے سے جاری تھا۔ ایک گھرانہ مالی توڑ پر مضبوط جبکہ دوسرا کمزور تھا۔ان کے معاملات روز بروز بگڑتے چلے جا رہے تھے۔اہل محلہ نے دونوں گھرانوں کو باری باری سمجھانے کی کوشش کی لیکن معاملات معمول پر نہ آ سکے۔
 امیر بندے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ پیسوں سے سب خرید سکتا ہے لیکن خدا کے انصاف کو نہیں خرید سکتا اور غریب کا نقصان یہ ہے کہ وہ دنیا میں سب ہار جاتا ہے لیکن خدا کی عدالت میں اس کے معاملات کا فیصلہ انصاف کے مطابق کیا جائے گا۔
دو گھرانوں کی یہ لڑائی بچوں اور خواتین میں رہتی تو ٹھیک.... لیکن حالات تب زیادہ خراب ہوئے جب پیسوں کے زور پراپنے پڑوسیوں کے گھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔آگ چاہیے معمولی تھی لیکن اشارہ تھا کہ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
غریب کے لیے زمین پراس کے محافظ پولیس اور سکیورٹی کے وہ ادارے ہیں جو انصاف کرنے کے لیے اس دنیا میں عدالت لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن جب یہ بھی رشوت لے لیں اور فیصلہ انصاف سے نہ کریں تو غریب کہاں جائے۔ ہوا یہ کہ 15پر کال کی گئی پولیس کو طلب کیا گیا۔ سامنے والوں کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کا ذکر کیا گیا ایک درخواست پولیس اسٹیشن میں پہلے سے جمع کروائی جا چکی تھی جس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تھا اور آج نوبت یہاں تک آ گئی تھی۔ 
پولیس نے گھر کا معائنہ کیا۔ صورت حال کا جائزہ لیا اور5بجے پولیس اسٹیشن میں دونوں پارٹیوں کو پیش ہونے کے لیے کہا۔ مڈل کلاس طبقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ پولیس کی کوئی خاطر مدارت تو نہ کر سکے ہاں البتہ انہیں یقین تھا کہ پولیس حق سچ کا ساتھ دے گی۔
 اس فیملی کی جب مجھ سے بات ہوئی تو میں نے سوال کیا آپ کا مطالبہ کیا ہے؟۔
 ان کا کہنا تھا مجھے کچھ نہیں چاہیے مجھے میرے بچوں کا تحفظ چاہیے ۔ مجھے پولیس کی طرف سے اس بات کی گرنٹی چاہیے کہ میرے بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ کیونکہ لوگ بہت طاقتور ہیں۔ پیسوں کے زور پر ہر شخص کو خرید لیتے ہیں ۔ ہماری کوئی سننے والا نہیں ہے۔ 
میں نے پھر سوال کیا آپ کا کوئی اور مطالبہ تحفظ کے علاوہ؟؟۔
کہنے لگیں میرے بچے میری زندگی ہیں میرا سب سے قیمتی سرمایہ میری اولاد ہے ۔ مجھے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہیے انہوں نے جو میرا نقصان کیا میں نے وہ بھی معاف کیا لیکن مجھے اپنے بچوں کے تحفظ کی ذمہ داری لینی ہے۔ جو پولیس کی جانب سے ایک پرچے پر لکھ کر مخالف پارٹی کے دستخط کے ساتھ مجھے دی جائے تاکہ یہ لوگ میرے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ 
اس خاتون کی بات سننے کے بعد میں نے خود سے سوال کیا اس دنیا میں ہمارا محافظ کون ہے؟۔ جن کو ہم اپنا محافظ سمجھتے ہیں وہ تو رشوت پر بک گئے ہم انصاف کے لیے کس کا در کھٹکھٹائیں۔ یہ ایک آخری ذریعہ تھا جس کے ذریعہ میں اس خاتون کی آواز آپ تک پہنچا رہی ہوں۔ 
سوال اور مطالبہ کئی دن گزرنے کے بعد بھی نہیں بدلا۔ ”پولیس تو بک گئی ۔ اب ہمارا محافظ کون ہے؟۔ مجھے میرے بچوں کا تحفظ چاہیے ۔ میرے بچے میرا قیمتی اثاثہ ہیں میں ان پر آنے والی ایک آنچ بھی برداشت نہیں کروں گی“۔ 
یہی سوال آپ سب سے ہیں کہ ہمارا محافظ کون ہے؟۔ 
میری پنجاب پولیس اور سیکورٹی کے ان تمام اداروں سے درخواست ہے کہ ہم مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے جان و مال کا تحفظ آپ کے پاس ہے۔ اس روئے زمین پرہمارے محافظ آپ ہیں ۔ خدارا انصاف کے ساتھ سچ کا ساتھ دیں۔ اور اس گھرانے کے کیس پر نظر ثانی کریں تاکہ وہ بھی اس آزاد مملکت میں بغیر کسی ڈر اور دباؤ کے آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ 

پی کے فائیو فائیو فور:جے ہند اور اللہ اکبر

پرواز کے بیس منٹ بعد درازقد جوان کاک پٹ کی جانب بڑھا، ایئر ہوسٹس نے بڑے ادب سے کہا تھا۔ ”سر آپ تشریف رکھیں، کاک پٹ میں جانیکی اجازت نہیں۔“ مگر خوبرو فضائی مہمان کو جواب دینے کے بجائے یہ نوجوان دھکا دیتے ہوئے کاک پٹ میں گھس گیا۔ ایئر ہوسٹس جو گرتے گرتے سنبھلی تھی، اسکی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ اسے یہ سانسیں بھی آخری لگ رہی تھیں۔ ایک لمحے میں اس کا چہرہ خوف کے پسینے سے شرابور ہوا اور سرخ و سفید سے زرد پڑ گیا۔ نوجوان نے کاک پٹ میں داخل ہوتے ہی پسٹل نکال کر پائلٹ کی کن پٹی پر رکھ دیا۔ اسی دوران اس دہشتگرد کے دو ساتھی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور پسٹل مسافروں پر تان لئے۔
یہ فلمی کہانی نہیں، یہ پی کے 554 پرواز تھی۔ یہ پاکستان میں 25 مئی 1998ء کو اغوا ہونیوالے مسافر جہاز کا ناقابل فراموش واقعہ ہے جس میں ہر لمحے ڈرامائی موڑ آتے رہے۔
پی آئی اے فوکر 27 تربت ایئرپورٹ سے اُڑا، گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے مزید مسافروں کو لے کر کراچی روانہ ہوا۔ اس میں 33 مسافر اور عملہ کے پانچ افراد سوار تھے۔ اسے ساڑھے چھ بجے کراچی پہنچنا تھا مگر اب اسکی منزل کا فیصلہ ہائی جیکروں نے کرنا تھا۔

پی آئی اے پرواز 544 - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
دہشتگرد کی انگلی ٹریگر پر تھی، اس نے کیپٹن عزیر کو حکم دیا۔ ”جہاز کراچی نہیں انڈیا دہلی ائیرپورٹ لے جائے“۔ دہشتگرد نے کیپٹن کو انڈیا سول ایوی ایشن سے رابطہ کر کے اترنے کی اجازت مانگنے کو کہا۔ کیپٹن عزیر نے ایسا ہی کیا اور ساتھ ہی جہاز کی سمت بھی بدل دی۔ اسی لمحے ایئرہیڈ کوارٹرکو بھی خبر ہو گئی اور آناً فاناً دو فائٹر جیٹ ایف 16 فضا میں بلند ہو گئے۔ کیپٹن عزیر دہشتگردوں کے اناڑی پن کو بھانپ گئے تھے۔ دہشتگرد کے کہنے پر کیپٹن عزیر نے دہلی ایئر پورٹ سے رابطہ کیا۔ وہ دراصل اپنے ملک میں ہی ہیڈ کوارٹر کیساتھ رابطے میں تھے جبکہ دہشتگردوں کو باور کرایا جارہا تھا کہ دہلی ایئر پورٹ سے رابطہ ہے۔ ہیڈ کوارٹر میں حکام کی ارجنٹ میٹنگ میں ایکشن پلان بنایا گیا، ایکشن پلان میں فیصلہ یہ ہوا کہ فوکر کو حیدر آباد سندھ ایئرپورٹ پر اتارا جائے۔
کیپٹن عزیر نے دہشتگردوں کو بتایا کہ ہمارے پاس کافی ایندھن نہیں ہے جو ہمیں دہلی لے جا سکے، ہمیں قریبی ایئر پورٹ سے ایندھن اور خوراک لینا پڑیگی۔ ہائی جیکر ہر صورت جہاز دہلی لے جانا چاہتے تھے۔ انکے پاس نقشہ تھا۔ وہ نقشہ دیکھتے ہوئے بھوج ایئرپورٹ کا ذکر کر رہے تھے۔ انکی باتیں سن کر کیپٹن نے کہا کہ انڈیا کا بھوج ایئر پورٹ قریب پڑتا ہے۔ دہشتگردوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ اب اگلا مرحلہ تھا بھوج ایئرپورٹ رابطہ کر کے اترنے کی اجازت کا تھا۔ کیپٹن عزیرنے وہاں رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہائی جیکر بھوج ایئر پورٹ پر اترنا چاہتے ہیں۔ جواب میں ٹھیٹھ ہندی میں ایئر پورٹ آفیسر نے کال ہینڈل کرنا شروع کر دی۔ دہشتگردوں نے اسے بتایا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں وہ حکومت پاکستان کے انڈیا کے مقابلہ میں نیوکلیئر تجربے کرنے کے کیخلاف ہیں اور اس ہائی جیک سے وہ پاکستانی حکومت پر دباﺅ ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی تجربہ نہ کرے۔ تھوڑے انتظار کے بعد دوسری طرف بتایا گیا کہ پردھان منتری نے انکو بھوج ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ جس پرخوشی سے ہائیجیکروں نے جے ہند اور جے ماتا کی جے کے نعرے لگائے۔
یہ سب کچھ حیدر آباد ایئرپورٹ کے اردگرد فضا میں ہو رہا تھا۔ ہنگامی طور پر حیدر آباد ایئر پورٹ سے تمام جہاز ہٹا دیئے گئے۔ پولیس فورس نے ایئر پورٹ کی جانب جانیوالے تمام راستے بند کر دیئے۔ ایس ایس جی کمانڈوز، پولیس اور رینجرز مستعد کھڑے تھے، افسران کی نگاہیں سکرین پر تھیں، اب جہاز نے ٹائم پاس کرنا تھا اس لئے کہ وہ پہلے ہی حیدر آباد کی حدود میں ہی تھا۔ کیپٹن عزیر کمال ہوشیاری اور ذہانت سے جہاز مزید بلندی پر لے گئے اور وہیں ایک ہی زون میں گھماتے رہے اور ظاہر یہ کرتے رہے کے وہ انڈیا جا رہے ہیں جبکہ ایف 16 فائٹر جیٹ انکے اردگرد تھے۔ رات کو اس وقت حیدر آباد ایئر پورٹ پر تمام لائٹس بند کر دی گئیں۔ ایئر پورٹ سے ہلالی پرچم اتار کر ترنگا لگا دیا گیا۔ ہیڈ کوارٹر سے ہدایات ہندی میں ہی دی جا رہی تھیں۔ کیپٹن صاحب جہاز کو جعلی بھوج ایئرپورٹ پر لینڈ کرانے والے تھے۔ سارا ایئرپورٹ خالی تھا۔ وہاں دہشتگردوں نے انڈیا کا پرچم لہراتے دیکھا تو جے ہند کے نعرے بلند کئے، ساتھ ہی کیپٹن عزیر کو گالیاں دیں۔ جہاز کو ایک سائیڈ پر پارک کر دیا گیا تو مذاکراتی ٹیم جہاز میں داخل ہوئی۔ یہ ٹیم ایس ایس پی حیدر آباد اختر گورچانی، اے ایس پی ڈاکٹر عثمان انور اور ڈپٹی کمشنر سہیل اکبر شاہ پر مشتمل تھی۔انہوں نے اپنا تعارف باالتریب اشوک بھوج ایئرپورٹ منیجر، رام اسسٹنٹ ایئرپورٹ منیجر کے طور پر کرایا۔ سہیل اکبر شاہ نے خود کو ڈی سی راجستھان ظاہر کیا۔ انہوں نے ہندی میں دہشتگردوں سے بات چیت کی گویا یہ انڈیاکا بھوج ایئر پورٹ تھا۔ دہشتگرد ایندھن اور خوراک چاہتے تھے لیکن بات چیت طویل ہوتی جارہی تھی۔ تینوں اہلکاروں کا ہدف تھا کہ وہ جہاز کے اندر کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ خاص طور پر وہ شخص جس نے جسم پر پیکٹ باندھ رکھے تھے وہ انکے ہتھیاروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس ٹیم نے دہشتگردوں سے کہا کہ عورتوں بچوں کو یہیں اتار کر آپ دہلی چلے جائیں یہ چونکہ دہشتگردوں کے ہمدرد تھے اس لئے بات مان لی۔ رات گیارہ بجے جہاز سے عورتیں اور بچے اترنا شروع ہوئے ان مسافروں کے جہاز سے اترنے کی دیر تھی کہ جہاز کے چاروں طرف اندھیرے میں خاموشی سے رینگتے ہوئے کمانڈوز ایک ہی ہلے میں تیزی کے ساتھ پہلے اور دوسرے دروازے سے اللہ اکبر کے نعروں کیساتھ حملہ آور ہوگئے۔ اللہ اکبر کے نعرے نے دہشتگردوں کو حیرت زدہ کر دیا۔ بد حواسی میں ایک دہشتگرد نے ڈپٹی کمشنر پر فائر کردیا تاہم نشانہ خطا گیا۔ دو منٹ کے اندر تینوں دہشتگردوں کو قابو کر کے باندھ دیا گیا۔ وہ حیران پریشان تھے اور یہ بھوج ایئرپورٹ پر اللہ اکبر والے کہاں سے آگئے۔ چیف کمانڈو نے آگے بڑھ کر زمین پر بندھے ہوئے دہشت گردوں کی طرف جھکتے ہوئے انکی حیرت زدہ آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہو کہا۔ ”ویلکم ٹو پاکستان“ کپیٹن عزیر بڑے سکون سے بیٹھے ساری صورتحال دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ ا پنا بیگ اٹھاتے ہوئے دہشتگردوں کے قریب سے مسکراتے ہوئے جہاز سے اتر گئے۔ حواس بحال رہیں تو کیپٹن عزیز جیسے کارنامے انجام دینا ناممکن نہیں۔
اس واقعہ کے ہیرو کپٹن عزیر کو اعزازی میڈل دیئے گئے۔سترہ سال بعد دو ہزار پندرہ میں تینوں دہشتگردوں کو اٹھائیس مئی کے روز سزائے موت دے دی گئی۔ یہ وہی دن ہے جب ایٹمی دھماکوں کی یاد میں قوم پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی سالگرہ مناتی ہے۔

الیکشن واحد آپشن

ملک کو پیچیدہ مسائل سے نکالناہے تواس کاواحد حل انتخابات کاانعقاد ہے، صرف اسی صورت میں قوم کو ریلیف ملے گا، آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات ملے گی اور پاکستان پر اس کے دوست ممالک کا اعتماد بحال ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے ہر طبقے کو براہ راست متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، اور یہ تمام طبقات ان حالات کا ذمہ دار ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ٹھہراتے ہیں۔

حالات بتاتے ہیں کہ سب اپنی اپنی انا کے غلام بنے ہوئے ہیں اور کسی کو درپیش مختلف چیلنجز یا عوام کے بنیادی مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ ضدوں، اناؤں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے رویوں نے ماضی میں سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو کچھ نہیں دیا نہ ہی اس سے اب انہیں کچھ ملے گا لہٰذا ملک، قوم، اداروں اور سیاستدانوں کی بہتری اسی میں ہے کہ افہام و تفہیم کو فروغ دیں اور ملک میں جو پچھلے چند برسوں سےسیاسی ڈیڈ لاک کی کیفیت جاری ہے اس کا کوئی پائیدار حل تلاش کریں۔موجودہ حالات دیکھتے ہوئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے پاس ملک اور معیشت بچانے کیلئے الیکشن واحد آپشن بچا ہے۔ 
    ملک کو پیچیدہ مسائل سے نکالناہے تواس کاواحد حل انتخابات کاانعقاد ہے، ’حکومت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔ صرف اسی صورت میں قوم کو ریلیف ملے گا، آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات ملے گی اور پاکستان پر اس کے دوست ممالک کا اعتماد بحال ہوگا۔ جب ملک کے حالات قابو میں آئیں گے تو اس کے نتیجہ میں یقیناً انتشار کی فضا ختم ہوگی۔ ملک میں اس قدر افراتفری اور انارکی ہے کہ ہر نقصان کا الزام ایک دوسرے پر ڈال دیا جاتا ہے۔کوئی مخالفین کو فساد کی جڑ قرار دیتا ہے تو کوئی سمجھتا ہے کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے اور کہیں عدلیہ کی جانب بھی اشاروں کنایوں میں بات کی جا رہی ہے۔ عوام اور ملکی مسائل کے حل کی طرف کسی کی نظر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاستدان بھی یہ مانتے ہیں کہ اس افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں؟ یا اسٹیبلشمنٹ خود کو اس کا محرک ٹھہراتی ہے؟ بظاہر ملکی معاشی صورتحال کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی تیار نہیں۔
پاکستان نے اپنے قیام سے آج تک جتنے مسائل کا سامنا کیا ہے اگر ان کی گنتی کرنے بیٹھ جائیں تو ایک طویل فہرست بن جائے گی۔ جتنے بھی مسائل کا سامنا کیا گیا ہے یا اب بھی کرنا پڑ رہا ہے ان سے عملی طور پر نبردآزما ہونے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے مسائل کو دیکھتے رہتے ہیں اور جب وہ مسائل بڑھ جاتے ہیں تب ہم ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ دہشت گردی ، بجلی، تعلیم، صحت ان بنیادی مسائل کے حل کیلئے مؤثر حکمتِ عملی وقت پر وضع نہیں کی گئی جس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں اور یہی نہیں آج اس وقت بھی بہت سے مسائل سر اٹھا رہے ہیں جن کے مستقبل میں ہم پر بہت گہرے اثرات ہو سکتے ہیں البتہ ان میں سے جس کا حل فوری طور پر ضروری ہے وہ پانی کا مسئلہ ہے۔ان دنوں بارش اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سب سے زیادہ غور طلب اور فوری حل طلب ہیں۔ 
    ملک کے مختلف صوبوں میں شدید بارشیں بھی ہوئی ہیں جبکہ ملک بھر میں مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کے بعد بدبو اور تعفن پھیلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس سے کئی لوگوں کیلئے صحت کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی باقیات ابھی پوری طرح سے ٹھکانے نہیں لگائی گئی تھیں کہ بارشوں نے اپنا زور پکڑ لیا یہ بہت اہم مسئلہ ہے جو آگے چل کر مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ عوام اب تھک چکی ہے وہ فورا سے پہلے ایک ایسا قائد اور نجات دہندہ چاہتی ہیں جو ان کے مسائل کا ادراک اور انہیں کا سدباب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔نہ کہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح حکومتی کشمکش کا شکار ہو کر کبھی کسی کا منہ دیکھے اور کبھی کسی اتحادی کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوئے عام آدمی کے مفاد پر سمجھوتہ کرے۔ آج کی حکومت پچھلی حکومت پر گند اچھالتی اور پچھلی حکومت آنے والی حکومت سے ڈرا رہی ہے۔ اس قسم کی بلیم گیم ختم کی جائے اور عوام کے ریلیف اور فائدے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار کی جائے کیونکہ حکومت عوام کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے وجود میں آئی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے نجی مفاد کا پہرہ دینے جبکہ کسی معاملے میں جواب طلب کرنے پر مخالفین کا میڈیا ٹرائل کرنے کیلئے اقتدار کی باگ ڈور نہیں تھمائی جاتی۔
 

پانچ (5)جولائی: الذوالفقارہائی جیکنگ اور پچھتاوہ

جولائی بھی پیپلز پارٹی کے لیے خیر کا مہینہ نہیں ہے۔5جولائی 1977ءکو ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بھٹوکو اس روز حفاظتی حراست میں لیا گیاتھا۔ اس سے رہائی ہوئی۔ پھر معاملات ایسے ہوئے کہ باقاعدہ گرفتار کیا گیا اور ایک مقدمے میں قاتل قرار دے کر پھانسی دےدی گئی۔18جولائی1985ءبھٹوصاحب کے بیٹے شاہنواز کی فرانس کے شہر کینز کے فلیٹ میں موت ہو گئی ۔

پیپلز پارٹی کے بانی و سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو 44 برس  بیت گئے

اسے کوئی خودکشی کوئی قتل قرار دیتا ہے۔کہا جاتا ہے، شاہنواز کو ان کی بیوی ریحانہ نے زہر دیا تھا۔ ریحانہ کی دوسری بہن فوزیہ مرتضیٰ بھٹو کی بیوی تھی۔ دونوں بھائیوں کی شادی جلا وطنی یا مفروری کے دوران 1981ءمیں افغان وزارت خارجہ کے افسر فصیح الدین کی بیٹیوں سے ہوئی ۔ دونوں کی ایک ایک بیٹی بھی ہوئی۔ ان کے بالترتیب نام سسی اور فاطمہ رکھے گئے۔فرانسیسی حکام نے ریحانہ کو قتل کے الزام میں حراست میں لیا مگر اس کے وکلاءخود کشی ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ دوسری طرف بے نظیر بھٹو کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا۔"

بینظیر بھٹو: سلامتی کے اداروں کو ایک رحم مادر کی جاسوسی کرنی تھی - BBC News  اردو

شاہنواز خود کشی کر ہی نہیں سکتا تھا۔اسے زہر ریحانہ نے دیا تھا یا پھر شاہنوازبھٹو سے تنگ آئے ہوئے فوجی آمرجنرل ضیاءکے گماشتوں کی یہ حرکت تھی۔"

سابق وزیرِ اعظم کے بیٹے شاہنوازبھٹو کی 35ویں برسی، پراسرار موت کا ذمہ دار  کون؟ – MM NEWS URDU
دونوں بھائی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے ان کو آمادہ انتقام کر دیا تھا۔ جنرل ضیاءالحق 17اگست1988ءکو حادثہ سے دو چار ہوئے تو مرتضیٰ بھٹو نے فوری طور پر اس کریش کی ذمہ داری قبول کر لی تاہم کچھ ہی عرصے بعد وہ اس دعوے سے دست بردار ہو گئے۔

مرتضیٰ بھٹو کا قتل کیوں ہوا؟ | Urdu News – اردو نیوز
دونوں بھائیوں کے سر پی آئی اے کا طیارہ ہائی جیک کرنے کا بھی الزام ہے۔دو مارچ 1981کودن سوا دو بجے کراچی سے پشاور جانے والی پی آئی اے کی پرواز کو الذوالفقار کے 3 کارکنوں نے ہائی جیک کرلیا تھا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والا جوشیلا جیالا سلام اللہ 1980ءمیں کابل پہنچا تو مرتضٰی اور شاہنوازکے سامنے طیارہ اغوا کی تجویز رکھی۔ کچھ دنوں بعد ٹیپو پاکستان واپس آیااور2 مزید کارکنوں کو ساتھ ملا لیا۔

طیارہ ہائی جیکنگ: جنرل ضیا کی سازش یا الذوالفقار کا انتقام؟ | Urdu News –  اردو نیوز

یہ تینوں پشاور جانے والی پرواز پی کے 326 پر سوار ہوئے۔ پشاور میں طیارہ لینڈ ہونے سے کچھ دیر قبل اس پر قبضہ کرلیا اور اسے کابل لے گئے۔ ایئرپورٹ کے رن وے پر مرتضٰی بھٹو نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر مبارک باد دی اور انہیں ہیرو قرار دیا۔ اس کے بعد مرتضیٰ بھٹو نے ٹیپو کو مطالبات کی ایک فہرست دی۔ ان مطالبات میں پاکستان میں قید کچھ سیاسی قیدیوں کے نام شامل تھے جن کی رہائی مقصود تھی۔ مرتضٰی کو مسافروں کی شناختی بتائی گئی تو ان میں سے میجر طارق رحیم کو پہچان لیا۔ وہ ماضی میں بھٹو کے اے ڈی سی رہے تھے۔ ٹیپو انہیں بھٹو صاحب کو مجرم ثابت کرنے میں فوج کا مددگار تصور کرتا تھا۔ جنرل ضیاءاغواکاروں کے مطالبات تسلیم نہیں کر رہے تھے۔ 6 مارچ کو طارق رحیم کوگولی مار کرنعش رن وے پر پھینک دی گئی۔اغوا کی یہ کارروائی اس وقت ختم ہوئی جب طیارہ دمشق پہنچا اور ٹیپو نے طیارے میں موجود 6 امریکی مسافروں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد جنرل ضیا نے 12 مارچ کو جہاز کے مسافروں کی رہائی کے بدلے قیدیوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان 54 سیاسی قیدیوں کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے 15 مارچ کو پاکستان سے شام بھیج دیا گیا۔

جہادِ کشمیر اور جنرل محمد ضیاء الحق
 اُس دور میں ضیا ءکے ہاتھوں بھٹو کی پھانسی کے بعد احتجاج اور مظاہروں کی پاداش میں پیپلز پارٹی سے وابستگان کی خاصی تعداد جیلوں میں تھی۔ ان میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر غلام حسین، سابق سپیکر معراج خالد، سابق وزیر سید اقبال حیدر سلمان تاثیر بھی تھے۔ ڈاکٹر غلام حسین کا اس وقت کے حالات اور اپنی رہائی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم لوگ ہائی جیکنگ کے نتیجے میں رہا ہونے کو تیار نہیں تھے۔ ہمیں زبردستی ہتھکڑیاں لگا کر طیارے میں سوار کرکے شام بھیجا گیا۔
ڈاکٹر غلام حسین کے مطابق انہیں اور دیگر 12 افراد کو اقوام متحدہ کی چھان بین اور ہدایت کے بعد پاسپورٹ جاری کیا گیا، جس کے بعد وہ سویڈن منتقل ہوگئے۔ کابل جانے والوں میں آصف بٹ، ارشد اعوان، اعظم چوہدری، لالہ اسد پٹھان، پرویز شنواری اور طارق چیمہ بھی شامل تھے ۔ 

ڈاکٹر غلام حسین سابق وفاقی وزیر کی کتاب کی تقریب رونمائی جمعرات کو اسلام  آباد میں
ڈاکٹر غلام حسین کا کہنا ہے کہ طیارہ ہائی جیکنگ اصل میں ضیاءالحق حکومت کی سازش تھی، یہ کام سلام اللہ ٹیپو سے لیا گیا۔ اس وقت کی حکومت طیارہ تباہ کرکے پیپلز پارٹی کو بد نام کرنا چاہتی تھی، مگر جہاز میں موجود امریکی باشندوں کی وجہ سے ایسا نہ کرسکی۔میر مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو اپنی کتاب "Songs of Blood and Sword" میں لکھتی ہیں کہ اس سارے معاملے سے ان کے والد کا کوئی تعلق نہ تھا، یہ ہائی جیکنگ ضیاءالحق نے خود کروائی تھی تاکہ پیپلز پارٹی کو بد نام کیا جا سکے۔

Songs of Blood and Sword: A Daughter's Memoir by Fatima Bhutto | Goodreads

ایئر مارشل اصغر خان اپنی کتاب میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہائی جیکنگ کا واقعہ اس وقت ہوا جب ضیاءالحق کی حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی کا آغاز ہوا تھا۔ حکومت نے اس کا فائدہ اٹھا کر پیپلز پارٹی کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم خان اس واقعے کو جواز بنا کر ایم آر ڈی سے علیحدہ ہو گئے تھے۔دریں اثنا پیپلز پارٹی کی تب کی قیادت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے ہائی جیکرز اور الذولفقار نامی تنظیم سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیاتھا۔

ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی سرکاری اعزاز کیساتھ تدفین کا فیصلہ
بہر حال اس واقعے سے منسلک کئی کرداروں کا خاتمہ بہت دردناک طریقے سے ہوا۔ ہائی جیکرزکے سرغنہ سلام اللہ ٹیپو کو بعد ازاں افغان حکومت نے فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پرویز شنواری آپس کی لڑائی میں قتل ہوا۔ لالہ اسد پٹھان کراچی پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بنا۔عبدالرزاق جھرنا(چودھری ظہور الٰہی قتل کیس میں سزائے موت)، عثمان غنی، ادریس بیگ اور ادریس طوطی مختلف الزامات میں ضیا دورمیں پھانسی پر چڑھا دیے گئے۔ مرتضیٰ بھٹو 1996 میں کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں جان کی بازی ہار گئے۔ 
طیارہ اغواکرنے والے دو کردار ناصر جمال اور ارشد شیرازی ابھی تک جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔یہ دونوں لیبیا چلے گئے تھے۔ 2011ءمیں قذافی کو قتل کردیا گیا تو دونوںیورپ چلے گئے ۔ان میں سے ایک کا ملنے والوں سے کہنا ہے کہ میں نے نوجوانی میں جو کچھ کیا اس پرمجھے پچھتاوہ ہے اور میں شرمندہ ہے۔ مرتضٰی بھٹو کی الذوالفقار نے بے گناہ شہریوں کی جانیں لیں اور کچھ حاصل نہیں کیا۔اس تحریر کا حاصل یہ ایک فقرہ ہے۔" میں نے نوجوانی میں جو کچھ کیا اس پرمیرا ضمیر ملامت کرتاہے مجھے پچھتاوہ ہے اور میں شرمندہ ہوں۔" 

مرتضیٰ بھٹّو: ذوالفقار علی بھٹّو کے 'حقیقی سیاسی جانشین' جو اپنی ہی بہن  بےنظیر کے دورِ حکومت میں مارے گئے - BBC News اردو

پگلی بہن بھائی نہیں بدلتے ،بہن بھائی کی لازوال محبت کی کہانی

بہن بھائی کا رشتہ بھی عجیب سا ہے ، یہ کبھی محبت کا ہے۔۔۔۔۔ تو کبھی لڑائی کا کبھی دوستی کا ہے تو کبھی دشمنی کا ۔

میرا بھائی مجھ سے چار سال بڑا ہے بچپن میں وہ مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا ۔ میں یہ بات اس کے منہ پر برملا کہہ دیا کرتی تھی کہ بھائی تم مجھے بالکل نہیں پسند ، یہ سن کر وہ زور سے ہنستا اور چلا جاتا ۔

اس ناپسندیدگی کی بہت ساری وجوہات تھیں ۔ بھائی مجھے کبھی سکون سے بیٹھنے نہ دیتا ، ہر وقت تنگ کرنا اس کا شیوا تھا ، کبھی میری پونی ٹیل پکڑ کر کھینچ دینا ، میرے گال نوچ کر چلے جانا ، میری گڑیا کے ہاتھ پاوں توڑ دینا ، میں تین پیہوں کی سائیکل آرام آرام سے چلاتی تو وہ اچانک پیچھے سے آتا اور ذور سے دھکا دیتا میری سائیکل تیز چلنے لگتی اور بے قابو ہوجاتی کبھی دیوار سے ٹکرا جاتی یا کبھی میں گر جاتی ، چھت پر جاتی تو نیچے سے سیڑھی ہٹا دیتا اور بھاگ جاتا میں چھجے پر بیٹھی روتی رہتی ۔

ایک دن تنگ آکر میں نے بھائی کی شکایت ابو سے لگائی ۔ اس دن بھائی کو ابو سے بہت مار پڑی ابو بھائی کو مارتے جاتے اور میں پیچھے آنسو بہاتی جاتی۔

جب ابو بھائی کو چھوڑ کو چلے گئے تو میں سوجی آنکھوں کے ساتھ بھائی کے پاس آئی اور کہا بھائی سوری آئندہ میں تمھاری شکایت نہیں لگاؤں گی ۔ بھائی ہنستے ہوئے بولا تم بے شک میری شکایت نا لگاؤ لیکن میں تم کو تنگ کرنے سے باز نہیں آؤں گا ۔ میں بھائی کی ڈھٹائی پر حیران رہ گئی ۔ دن یونہی گزرتے گئے ۔ ایک دن میں نے امی سے کہا کہ یہ بھائی مجھے بالکل نہیں پسند مجھے اتنا تنگ کرتا ہے ۔

اس دن امی نے ایک انکشاف کیا مجھ پر تو میں حیران رہ گئی ۔

امی بولی تم کو وہی بھائی نہیں پسند جو تم کو سب سے ذیادہ چاہتا ہے ۔ میں حیرت سے بولی امی بھائی کو تو میں بالکل نہیں پسند اسی لیے تو مجھے تنگ کرتا ہے ، امی مسکرائیں اور بولی نہیں ایسا نہیں ہے ۔ بھائیوں کے محبت کرنے کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے وہ بہنوں کو تنگ کرکے اپنی محبت جتاتے ہیں ۔

اس انکشاف کے بعد میں نے بھائی سےچڑنا چھوڑ دیا اور اہستہ آہستہ میری بھائی سے دوستی ہوگئی ۔

بھائی کالج میں آگیا اور میں ساتویں کلاس میں ۔ ہمارے گھر میں فلمیں دیکھنے پر پابندی تھی ۔ بھائی اپنے دوست کے گھر فلم دیکھنے جاتا اور مجھے کہتا کہ کسی کو نہیں بتانا کہ میں فلم دیکھتا ہوں میں تم کو واپس آکر فلم کی پوری کہانی سناؤں گا۔

میں کسی کو نا بتاتی اور بھائی آکر مجھے فلم کی کہانی سناتا ۔ بھائی کی فلم کی کہانی اتنی صاف ستھری ہوتی کہ میں سوچتی کہ فلمیں دیکھنے کو لوگ برا کیوں کہتے ہیں ۔

بھائی ٹیوشن پڑھانے لگا تو بھائی کے پاس پیسے بھی ہوتے تھے تو میں بھائی سے کبھی آئس کریم کی فرمائش کرتی تو کبھی چاٹ کی، بھائی میری چھوٹی چھوٹی فرمائشیں خوشی خوشی پوری کرتا ۔

بھائی یونیورسٹی میں آیا تو فلموں کی کہانیوں کی جگہ کلاس کی لڑکیوں نے لے لی ۔ کسی دن کسی لڑکی سے بھائی کی سلام دعا ہی ہوتی بھائی اس کو ایسے بیان کرتا کہ جیسے ایک گھنٹہ باتیں کرکے آیا ہے ۔ میں بھائی کی باتیں اسے ذوق و شوق سے سنتی جیسے وہ سناتا تھا ۔

شادی کی تقاریب میں امی نے مجھے لپ اسٹک لگانے کی اجازت دے رکھی تھی ۔ میں تیار ہوکر آتی تو بھائی امی سے ذور سے کہتا کہ امی اس سے کہیں لپ اسٹک ہلکی کرے ۔ میں غصہ میں اپنی لپ اسٹک مٹا دیتی اور ویسے ہی ذور سے کہتی کہ امی بھائی مجھ سے جلتا ہے اسی لیے نہیں چاہتا کہ میں اچھی لگوں ۔ اور بھائی سے ناراض ہوکرجانے لگتی تو بھائی میرے گال پر ہلکہ سا مکہ مار کر کہتا کہ اپنا منہ ٹھیک کرو اتنی ڈراونی لگ رہی ہو وہاں سب ڈر جائیں گے ۔

میری شادی ہونے لگی تو بھائی نے مجھے بہت تنگ کیا ، کہتا میرا دل کررہا ہے کہ تمھارے ہونے والے اُن کو کہوں کہ بھائی کیوں اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارتے ہو ۔ کبھی کہتا ۔ تمہارے ان کی تو جنت پکی زندگی بھر تم کو جو برداشت کرنا ہے ۔

میری شادی کے دو سال بعد بھائی کی شادی ہوگئی ۔ بھائی کی شادی والے دن میں نے بھائی کو بہت تنگ کیا اس دن خاموشی سے سب برداشت کرگیا ۔ اور صرف مسکراتا رہا ۔

بھائی شادی کے بعد مڈل ایسٹ چلا گیا اور میں یورپ ۔ بھائی پاکستان الگ مہینے میں آتا اور ہم الگ مہینے میں۔ اس طرح تین سال میری بھائی سے ملاقات نا ہوسکی ، فون پر بھی سلام دعا سے ذیادہ نا ہوپاتی ، بھابی سے میں کافی باتیں کرتی لیکن بھائی سے بات ہی نا ہوتی ۔ میں سوچتی شادی کے بعد بھائیوں کو بہنیں یاد نہیں آتی شاید، اسی لیے خاموش ہوجاتی ۔

تین سال بعد ایک دن بھائی کا فون آیا کہ تم اس سال پاکستان کب آؤ گی میں تم سے ملنے آؤں گا بہت عرصہ ہوا تم کو دیکھے ہوئے ، اس دن مین بہت روئی کہ میں سوچتی تھی کہ بھائیوں کو شادی کے بعد بہنیں یاد نہیں آتی ۔

میں پاکستان گئی تو بھائی مجھ سے ملنے آیا ، بھائی بہت بدلا بدلا سا لگا ۔ نا اس کی آنکھوں میں شرارتی چمک تھی نا چہرے پر ویسی مسکراہٹ نا وہ بات بات پر ہنستا تھا ۔ اس کی شوخی جیسے غائب ہی ہوگئی تھی ۔ وہ بہت سنجیدہ ، بارعب مرد بن چکا تھا ۔ اور کچھ پریشان سا بھی لگا۔

میری اس سے ذیادہ بات نا ہوسکی ، میں اس سے اس کی پریشانی کی وجہ بھی نا پوچھ سکی میں نے سوچا کہ میں اس کی بہن کے ساتھ دوست تھی تو مجھ سے اپنے قصے شیئر کرتا تھا لیکن اب اس کو بیوی کی صورت میں دوست مل گئی ہے اب وہ مجھ سے اپنی باتیں کیوں شیئر کرے گا ۔

یونہی دن گزرتے گئے ۔

ہم بھی مڈل ایسٹ میں سیٹل ہوگئے ۔ ایک دن میرے شوہر ملک سے باہر جارہے تھے بولے تم گھر میں اکیلے رہنے کے بجائے بھائی کے گھر چلی جاؤ ۔

آج میں تقریباً دس سال بعد بھائی کے ساتھ رہنے اور وقت گزارنے جارہی تھی ۔ میرے ذہن میں تمام واقعات ایک فلم کی طرح آتے جارہے تھے ، میں بھائی کے گھر گئی کھانا کھانے کے بعد بچوں کو سلا کر میں لاونچ میں‌ آکر بیٹھی جہاں بھائی ، بھابی بیٹھے ہوئے تھے ۔

میں نے بھائی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا بھائی تم نے کوئی فلم دیکھی ۔ بھائی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔ بھائی کو بھی وہ تمام واقعات ایک فلم کی طرح یاد آگئے ہونگے ۔

وہ صوفے پر گود بنا کر بیٹھ گیا اور مجھے ایک فلم کی کہانی سنا نے لگا ۔ اس کی آنکھوں میں ویسی ہی چمک لوٹ آئی ۔ میں نے بھائی کو نہیں بتایا کہ میں یہ فلم دیکھ چکی ہوں اور نا ہی بھائی نے مجھ سے پوچھا ، میں بھائی کی کہانی سن کر مسکرادی اب بھی بھائی کی کہانی فلم کے مقابلے میں بہت صاف ستھری تھی ۔ بہر حال فلم کی کہانی سنانے کے بعد مختلف قصے سنانے لگا یونیورسٹی کی لڑکیوں کے قصے، بالکل ویسے ہی ہنس ہنس کر مختلف باتیں کیں ، میں بھائی کو دیکھتی رہی اور اس کو سنتی رہی۔

آخر میں بولی بھائی تم تو بالکل پہلے جیسے ہی ہو ، میں سمجھی تھی کہ تم بدل گئے ، بھائی نے کہا کہ تم نے یہ کیسے سوچا کہ میں بدل گیا ۔

میں بولی تم نے مجھے تنگ کرنا چھوڑ دیا ، مجھ سے باتیں کرنا چھوڑ دیا مجھے قصے کہانیاں سنانا چھوڑ دیا ۔

بھائی بولا ، تم نے بھی تو مجھ سے لڑنا چھوڑدیا ، بات بے بات غصہ کرنا چھوڑ دیا ، مجھ سے ناراض ہونا چھوڑ دیا اور مجھ سے فرمائشیں کرنا چھوڑ دیا ۔ کیا تم نہیں بدل گئی ۔

یہ سن کر میں خاموش ہوگئی ۔ تو وہ مسکرایا ، میرے پاس آکر میرے گال پر ہلکی سی چپت لگائی اور بولا

پگلی بہن بھائی نہیں بدلتے ، بس وقت بدل جاتا ہے۔

معافی نامہ(اورسیز پاکستانیوں کے نام)

چند دن پہلے ایک پرائیویٹ چینل کے مزاحیہ پروگرام میں ایک  نئی نویلی (ماڈل اور اداکارہ) نے میرے نہایت قابل احترام اورسیز پاکستانیوں کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کیے۔ سب سے پہلے تو میں بحیثیت صدر CCA اورسیز فورم میں اس خاتون کے نازیبا الفاظ کی مذمت کرتی ہوں اور آپ سب دوستوں سے معافی مانگتی ہوں۔ 
میرا سات سال سے اورسیز کمیونٹی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور آپ لوگ سن کے حیران ہوں گے کہ میرے فورم کی اورسیز خواتین اور مرد ہر سال بلوچستان کے 125 سیلاب زدگان فیملیز  کی کفالت کے لیے فنڈز بھیجتے ہیں۔  مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ایدھی صاحب زندہ تھے تو بہت شاذونادر کوئی چینل انکو  اپنے پروگرام  میں بلاتا تھا ویسے اس عظیم ہستی کو میڈیا کی ضرورت بھی نہیں تھی اور آجکل ہمارا طوفانی میڈیا (چند اچھے چینل نکال کے) ایسے ایسے لوگوں کو سلیبرٹی بنا کر بیٹھا دیتے ہیں جنکو شاید پاکستانی پاسپورٹ کے رنگ کا بھی پتہ نہ ہو۔ 

آپ سب حسب حال پروگرام کے میزبان (جنید سلیم) صاحب کو بہت اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ جنید صاحب CCA کے ایگزیکٹو ممبر بھی ہیں۔ چند دن پہلے انکے ساتھ انکے نئے آنے والے پروگرام (دیس بک) جو کہ جی این این پر نشر ہوگا کے حوالے سے ملاقات ہوئی۔ 

انکی ایک بات مجھے بہت اچھی لگی بقول انکے (کے رابعہ ہم نے چودہ سال حسب حال پروگرام کیا مگر کبھی سالا یا بہنوئی جیسے الفاظ بھی استعمال نہیں کئے تاکہ کسی کی عزت مجروح نہ ہو۔ 

اچھی تربیت والے لوگ ہمیشہ اچھی بات ہی کرتے ہیں ہے۔ اور انکے الفاظ سے انکی قابلیت اور انکا اخلاق جھلکتا ہے جس سے وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے ہیں۔ آپ اورسیز پاکستانی ہمارا فخر ہیں، ہماری عزت ہیں اور سب سے بھر کے اپکی بدولت پاکستان چلتا ہے۔ 

پیمرا کو اس بیہودہ حرکت کا فوراً نوٹس لینا چاہئے تاکہ کسی بھی پاکستانی کی عزت مجروح نہ ہو۔ 

چینل مالکان سے گزارش ہے کہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور ہر پروگرام کے (content) پر توجہ دیں تاکہ آپکی سالوں کی محنت کوئی نئی نویلی دوشیزہ مٹی میں نہ ملا دے۔ 

ہم مسلمان ہیں اور اخلاقیات کا درس جتنا ہمارا دین دیتا ہے اور کوئی مذہب نہیں دیتا۔ میں تمام اورسیز ممبرز سے معذرت کرتی ہوں اور انشاءاللہ جہاں جہاں میری چینلز تک رسائی ہے (content review) پر نظر ثانی کی درخواست کروں گی۔ 

آپ لوگ ہمارا اثاثہ ہیں اور آپکی عزت ہمیں ہردلعزیز ہے۔ میرا معافی نامہ قبول فرمائیں۔

سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھیانک ثابت ہوا ، 6 سال تک معاشقہ چلانے والے لڑکا لڑکی بھائی بہن نکلے ، پتہ چلا تو کیاپھر دونوں نے کیا کیا ؟

اسلام آباد(شفق نیوز): امریکہ میں ایک لڑکی6 سال تک ایک شخص کی گرل فرینڈ رہی اور بالآخر اس پر ایسا انکشاف ہوا کہ پیروں تلے زمین نکل گئی۔

6 سال تک اس شخص کے ساتھ ڈیٹنگ کرنے کے بعد اس لڑکی کو علم ہوا کہ وہ آدمی کوئی اور نہیں بلکہ اس کا سگا بھائی تھا، جس سے وہ اپنے ماں باپ کی علیٰحدگی کی وجہ سے بچپن ہی میں بچھڑ گئی تھی۔ ویب سائٹ پر اس لڑکی نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا ہے کہ :

میری عمر 30سال ہے اور میرے بھائی کی عمر 32سال ہے جس کے ساتھ میں گزشتہ 6سال تک تعلق میں رہی۔ میرے ماں باپ کے الگ ہو جانے پر مجھے انہوں نے ایک بے اولاد جوڑے کو گود دے دیا تھا جبکہ میرے بھائی کی پرورش میری ماں نے کی۔ ہم بہن بھائی کبھی ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں رہے۔ لڑکی لکھتی ہے کہ6 سال قبل ہم دونوں کی ملاقات ہوئی اور پہلی ملاقات میں ہی ایسا لگا جیسے ہم بہت پہلے سے آشنا ہوں۔ ہمارے درمیان دوستی ہوئی جو بہت جلد محبت میں بدل گئی۔ اس کے بعد ان 6سالوں میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں رہے، حتیٰ کہ ایک دوسرے کی فیملی سے بھی ملے۔ ہم نے بچے پیدا کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔

لڑکی بتاتی ہے کہ میں چونکہ لے پالک تھی لہٰذا مجھے بہت جستجو رہتی تھی کہ میں اپنے حقیقی والدین کے بارے میں معلوم کروں۔ ایک روز مجھے میرے بوائے فرینڈ نے کہا کہ چلو ہم دونوں اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کراتے ہیں۔ میں بخوشی اس پر رضامند ہو گئی تاہم جب ٹیسٹ کے نتائج آئے تو اس انکشاف نے ہم پر قیامت ڈھا دی کہ ہم دونوں آپس میں سگے بہن بھائی تھے۔ لوگ ہمیں پہلے ہی کہتے تھے کہ ہماری شکلیں آپس میں بہت ملتی جلتی ہیں۔ اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اب ہم کیا کریں۔

ٹائیٹن پھٹ کر بکھر گئی۔۔ مسافر رزقِ سمندر مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔۔ آبدوزکیساتھ کیا ہوا مسافروں پر کیا گزری۔۔ ملاحظہ کیجئے تفصیلات

پولر پرنس سے ٹائیٹن کا رابطہ ایک گھنٹہ پنتالیس منٹ بعد ٹوٹ گیاتھا۔ ٹائیٹن کو کنٹرول ساحل کے قریب لنگر انداز جہاز پولر پرنس سے کیا جاتا ۔ پولر پرنس اور ٹائیٹن کے مابین رابطے کو سانس کی ڈوری سے تعبیرکیا جا سکتا ہے۔ ٹائیٹن سیاحتی کشتی تھی جو1912ءکو بحرِ اوقیانوس میں برف کے تودے سے ٹکرا کر ڈوب جانے والے ٹائی ٹینیک کی باقیات تک ایڈونچر کا شوق رکھنے والوں لے کر جاتی ۔ٹائی ٹینیک جہاز نہیں ڈوبا تھا، اس کے مالک کا تکبر غرقِ آب ہوا تھا۔ ٹائیٹنک پہلے سفر پر روانہ ہوا تو اس کے مالک نے کہا تھا۔”میں نے ایسا مضبوط شپ بنایا ہے جسے خدا بھی نہیں ڈبو سکتا“۔ اور پھر یہ جہاز کسی پہاڑ سے نہیں پانی سے بنی برف کے تودے سے ٹکرایا اور دو لخت ہو گیا تھا۔ آج یہ جہاز سمندر میں جائے عبرت بنا ہوا ہے ۔ کچھ لوگ شداد کی جنت دیکھنے جاتے ہیں کچھ ٹائیٹنک کا ملبہ دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے ٹائیٹن آبدوز تیار کی گئی ۔ اس کی لمبائی 21فٹ تھی۔ اس کی ٹکٹ اڑھائی لاکھ ڈالررکھی گئی۔ یہ سفاری2021ءمیں شروع ہوئی۔ اڑھائی لاکھ ڈالر کامطلب دس کروڑ روپے۔ ساحل سے ٹائیٹنک تک پہنچنے میں دو اڑھائی گھنٹے سے زیادہ نہیںلگتے ۔ وہاں سیاح ڈیڑھ دو یا کچھ زیادہ دیر ٹھہرتے ۔ تصویر یں لیتے ہیں۔ پانی کے نمونے حاصل کرتے اور واپس آجاتے ۔

برطانوی اخبار کے سمندر میں لاپتا آبدوز ٹائٹن سے متعلق انکشافات
ٹائیٹن اپنی نوعیت کی واحد آبدوزتھی۔ یہ اتوار 18جون کو پانچ وزیٹرز کو لے کرروانہ ہوئی۔ ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے48سال کے شہزادہ داؤد اپنے19سالہ بیٹے سلمان داﺅد کے ساتھ موجود تھے۔آبدوز پر سوار ہیمش ہارڈنگ اورپال ہنری نارجیولیٹ اس کلب کے رکن تھے، جو بین الاقوامی سائنسی ایجادات پر کام کرتا ہے۔اس تفریحی مہم کا انتظام کرنے والی کمپنی اوشین گیٹ کے چیف ایگزیکیٹو سٹاکٹن رش بھی پانچ مسافروں میں شامل تھے۔


 آبدوز سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد اس کی تلاش شروع کر دی گئی۔ اس میں 96گھنٹے تک کے استعمال کی آکسیجن موجود تھی۔ امریکہ اور کینیڈا کے بحری اور فضائی جہاز آبدوز کو مل کر تلاش کرتے رہے۔ بحر اوقیانوس میں لاپتہ ہونے والی آبدوز کو کھوجنے کیلئے 20 ہزارمربع کلو میٹر کا ایریا چھان مارا مگر چند سال قبل ملائیشیا کے سمندر میں گر کر غائب ہو جانے والے ہوائی جہاز کی طرح اس آبدوز کا کئی دن تک کوئی سراغ نہیں مل پایا۔ بحر اوقیاس ہی میںبر مودا ٹرائی اینگل ہے۔جس کے اوپر سے اور قریب سے گزرنے والے جہاز اس اینگل کے گھن چکر میں آ کر کبھی نکل نہیں پائے۔ اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے مہم جوئی پر جو بھی گئے پھر واپس نہ آ سکے۔اس آبدوز کی تلاش میں ایک دنیا جُتی نظر رہی۔ آبدوز سے زیادہ کہیں زیادہ اس کے سواروں کی زندگی کا سوال تھا۔آبدوز غائب ہو جاتی تو اس کی اس کے مالک کے سوا کسی کو فکر و پروا نہ ہوتی۔ مسافروں کی سلامتی کے لیے ہر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھارہا۔ کئی آنکھیں اشک بار رہیں۔ بڑی طاقتیں اپنے وسائل جھونکتی رہیں۔ روبوٹ بھی بروئے کار آئے۔روبوٹ برطانیہ کی میگیلن کمپنی نے فراہم کیے ۔یہ روبوٹس چھ ہزار میٹر کی گہرائی تک جا سکتے ہیں اور یہ اس سے قبل ٹائٹینک کے ملبے تک جا چکے ہیں۔انہوں نے سراغ لگایا کہ ٹائی ٹینیک کے قریب ہی ٹائیٹن کا بھی ملبہ پڑا ہے۔

زیر سمندر ملنے والا ملبہ آبدوز ٹائٹن کا ہی ہے: برطانوی میڈیا کا دعویٰ
آبدوز کو باہر سے لاک کیا جاتا اور باہر سے ہی کھولا جاتا تھا۔ اس نے امریکی وقت کے مطابق صبح دن 11بجے سفر کا آغاز کیا شام چھ بجے اس کی واپسی تھی۔ جواب کبھی نہیں ہو سکے گی۔ روبوٹس نے اس کا ملبہ تلاش کیا جو ٹائی ٹینک کے ملبے کے ساتھ پڑا ہوا ہے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اس کا لینڈنگ فریم اور بیک سیکشن آفٹ سیکشن ملا ہے۔ بوٹ پھٹ کے بکھر گئی۔مسافر رزقِ سمندر مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔ ٹائی ٹینک اور ٹائیٹن 38سو میٹر نیچے پانی میں تاریخ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ٹائی ٹینک برف کے تودے سے ٹکرایا تھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں کتنی سردی ہوتی ہے۔660فٹ سطح آب سے نیچے مکمل اندھیرہی اندھیر ہے۔ درجہ حرارت کہیں بھی مائنس سے زیادہ نہیں ۔ زیرواور مائنس ایک ہی انسانی جسم کو جمانے کے لیے کافی ہے۔ خلیج فارس میں اتنی گہرائی میں جانے والوں نے روشنی خارج کرنے والے جانور بھی دیکھے۔ وہ مچھلیاں ہی ہو سکتی ہیں۔ 
یہ کمپنی کیا نئی بوٹ بنا کر سفاری و سیاحت کا سلسلہ جاری رکھے گی؟ٹائیٹن سے بہتر بوٹ بن سکتی ہے۔ ٹائٹن میں جو خامیاں تھیں انہیں دور کیا جا سکتا ہے اور اس کی انسپکشن بھی عالمی معیار کے مطابق کرنا اب ناگزیر بلکہ مجبوری ہو گی۔ ٹائی ٹینک کی دریافت1985ءمیں ہوئی تھی۔ جو اپنے ڈوبنے کے مقام سے پندرہ سو میٹر کھسک چکا ہے۔اس سے قبل کہانیوں میں ٹائی ٹینک بارے کچھ کہا جاتا رہا تھا۔ کئی فلمیں بن چکی تھیں۔ اب سفاری کے لیے مزید کمپنیاں بھی مقابلے پر آ سکتی ہیں۔

یہ بدقسمت ٹائی ٹینِک سے بھی زیادہ گہرائی میں ڈوبا۔۔۔۔78 برس قبل سمندر میں  ڈوبنے والے بحری جہاز کی دریافت کی حیران کردینے والی کہانی- روزنامہ اوصاف

آخر میں ٹائیٹن آبدوز کی مالک کمپنی اوشین گیٹ کی طرف سے اس سانحہ پر جاری بیان ملاحظہ کیجئے:لاپتا ہونے والی ٹاٹئن آبدوز کے تمام مسافر ہلاک ہوچکے ہیں۔افسوس کہ ہم اپنے سی ای او اسٹاکٹن رش، شہزادہ داو¿د،ان کے بیٹے سلیمان داو¿د، ہیمش ہارڈنگ اور پال ہنری نارجیولیٹ کو کھو چکے ہیں۔یہ تمام لوگ سچے ایکسپلورر تھے جنہوں نے مہم جوئی کا ایک الگ جذبہ دکھایا۔ اس المناک وقت میں ہمارے دل ان پانچوں روحوں اور ان کے خاندان کے ہر فرد کے ساتھ ہیں۔ ہمیں جانی نقصان کا غم ہے۔یہ ہمارے ملازمین کے لیے انتہائی افسوسناک وقت ہے جو اس نقصان پر افسردہ اور غمزدہ ہیں۔ ہم احترام کے ساتھ دعا گو ہیں کہ اس انتہائی تکلیف دہ وقت میں ان خاندانوں کی رازداری کا احترام کیا جائے۔ جو ملبہ دریافت ہوا اس میں ٹائٹن کا لینڈنگ فریم اور پچھلا حصہ شامل ہے۔ فی الحال یہ تفصیل سامنے نہیں آئی کہ ملبے کو نکالنے کیلئے آپریشن کس نوعیت کا ہوگا اور پانچوں افراد کی لاشیں مل سکیں گی یا نہیں۔

ٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے جانے والی لاپتا آبدوز میں 2 پاکستانی بھی تھے -  ایکسپریس اردو
دوسر ی طر ف امریکی کوسٹ گارڈ نے بھی آبدوز میں موجود مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔ امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب آبدوز کا ملبہ ملا ہے۔ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں یہ سمجھ سکیں کہ آبدوز کے ساتھ کیا ہوا ہوگا اور کس طرح ہم اس سرچ آپریشن کو منطقی انجام تک بہترین طریقے سے پہنچا سکتے ہیں۔اس وسیع عمل کے لحاظ سے ملبے کے مقام کی تحقیقات جاری رکھیں گے، یہ کیسے، کیوں اور کب ہوااس کے بارے میں بہت سارے سوالات ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہم اب جمع کریں گے جبکہ واقعے کی تحقیقات کیلئے حکومتیں آپس میں بات چیت کریں گی۔امریکی کوسٹ گارڈ کے ایڈمرل ماگر نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آبدوز دھماکے سے کس وقت تباہ ہوئی۔ امریکی کوسٹ گارڈ نے آواز کی کھوج لگانے والے آلات 72 گھنٹے تک پانی میں رکھے انہیں کسی بھی تباہ کن واقعات کا پتہ نہیں چلا۔خیال کیا جاتا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی آبدوز غرقاب بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے سے 1600 فٹ (487 میٹر) دور ہے۔ یہ ایک ایسے علاقے میں ہے جہاں ٹائٹینک کا کوئی ملبہ پہلے سے موجود نہیں ہے۔زیرِ سمندر ملبہ ملنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد ریسکیو ماہر ڈیوڈ مرنز نے کہا تھا کہ یہ ملبہ لینڈنگ فریم کا ہے اور یہ لینڈنگ فریم آبدوز کے پچھلے حصے پر لگی تھی، آبدوز کا خول جس میں مسافر موجود تھے وہ نہیں ملا، یہ ملبہ تصدیق کرتا ہے کہ آبدوز کے ساتھ کچھ برا ہو چکا ہے۔