اہم خبریں

شمالی اور جنوبی کوریا میں کچرے کے بعد لاؤڈ سپیکر جنگ

جنگ کا آغاز شمالی کوریا نے کیا۔ شمالی کوریا کے مہلک ہتھیاروں سے امریکہ خائف اور اقوام متحدہ مضطرب ہے۔ اس کے اسلحہ کو عالمی امن کے لیے ہلاکت خیز اور خطر ناک قرار دیا جاتاہے۔ شمالی کوریا نے اپنے بڑے دشمن جنوبی کوریا کے خلاف جوہتھیار استعمال کیا اس کے بارے سن کر لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ اور ہاتھ ناک پر چلا جاتا ہے۔ اس کی طرف سے کوڑے اور کچرے کے بیگ غباروں کے ساتھ باندھ کر جنوبی کوریا کی طر ف روانہ کر دیئے گئے۔ فضا میں گیس کے یہ غبارے پھٹے اور بدبو پھیلانے لگے۔

شمالی کوریا نے کیا دشمنی لی ہے! جنوبی کوریا میں بدبو پھیلا دی۔ یہ ہتھیار عالمی سطح پر دیکھیں کتنا مؤثر اور کارگر ہوتا ہے ؟ جنوبی کوریا نے جواب میں دشمن ملک کے سرحدی شہروں کے قریب لاؤڈ سپیکرلگا کر ساؤنڈ پولیوشن یعنی آواز کی آلودگی پھیلانے کا سلسلہ شروع کر دیاہے۔  اس جنگ میں مزید جدت اور شدت بھی آ سکتی ہے۔ سردیوں میں سرحد پر پنکھے لگا کر رخ دشمن کی طرف کر دیں۔ اس کے شہری مزید ٹھنڈک میں مبتلا ہونگے۔ گرمیوں میں شیشے لگا کر عکس سے درجہ حرارت بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ایک کولیگ کی سگے بھائی کے ساتھ ان بن پر بات دشمنی تک چلی گئی تو وہ کبھی بھائی کی بائیک پنکچر کر دیتا کبھی بچوں کو بھیج کر رات صحن کا بلب آن کروا دیتا کہ بل زیادہ آئے۔

ایک مرتبہ، پانی کی ٹونٹی کھول دی کہ صبح اٹھیں تو پانی سے محروم ہوں۔ ہمارے ہاں دشمنی لینے کے لیے گیس کے میٹر خراب کر دیے جاتے ہیں۔ بجلی کے بل زیادہ بھجوا دیئے جاتے ہیں۔ویسے ایسی دشمنی بھارت کی جانب سے پاکستان سے بھی کی جاتی ہے۔ جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ پانی بند کر دیتا ہے جب نہیں ہوتی تو ڈیموں کے ڈور کھول کر پاکستان میں سیلاب کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ ایسی دشمنی کرنے پر صد ہزار لعنت ۔

پہلے جنم میں نریندر مودی سر سید احمد خان تھے، بھارتی میڈیا کا  اپنے دعوے کا اعادہ

بھارتی میڈیا نے مضحکہ خیز دعوے کو ایک بار پھر دہرایا ہے کہ نریندر مودی پہلے جنم میں سرسید احمد خان تھے۔نریندر مودی کا یہ دوسرا جنم ہے جبکہ وہ پہلے جنم میں سرسید احمد خان تھے۔ یہی نہیں بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے ایک مکمل رپورٹ بھی تیار کی تھی جس میں کہا گیا کہ سرسید احمد خان دوسرے جنم میں نریندر مودی بن کر آئے ہیں۔ 
ہندو عقیدے کے مطابق انکے سات جنم ہوتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ ایک جنم کا پابند ہے۔ ہندوازم کے عقیدے کے مطابق اگر نریندر مودی پچھلے جنم میں سرسید احمد خان تھے تو ہم اس سے اتفاق نہیں کرینگے کیونکہ سرسید ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ انہوں نے انسانیت کی فلاح کیلئے بہت اچھے اچھے کام کئے جبکہ کٹر شدت پسند مودی جی کے کرتوت  اور کمالات سب کے سامنے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے بقول کہ سرسید احمد خان دوسرے جنم میں نریندر مودی بن کر آئے ہیں‘ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ مودی نہ تو سر ہیں اور نہ ہی سید‘ البتہ وہ سر تا پا مسلمانوں کیلئے اذیت ضرور ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جو حال ہے‘ وہ بھی پوری دنیا پر عیاں ہے۔ 71ءمیں بھارت کی پروردہ تنظیم مکتی باہنی میں شامل ہو کر وہ پاکستان کو دولخت کرنے میں اپنا کردار ادا کر چکے ہیں جس کا وہ بنگلہ دیش جا کر برملا اظہار بھی کر چکے ہیں جبکہ آزاد کشمیر سمیت ہمارے شمالی علاقہ جات کو بھی بھارت کا حصہ گردانتے ہیں۔ ہاں مودی کی نسبت کسی مسلمان سے ملانا ہی مقصود ہے تو ہمارے میرجعفر اور میر صادق موجود ہیں۔ بھارتی میڈیا نریندر مودی کا پچھلا جنم اگر نہرو یا گاندھی کی نسبت سے بیان کرتے تو مان لیا جاتا۔ ہمارا تو خیال ہے کہ مودی جی کا یہ دوسرا جنم نہیں‘ بلکہ وہ اپنے پانچ جنم شداد‘ ہامان‘ نمرود اور فرعون کی شکل میں گزار چکے ہیں اگر ایسا نہیں تو کم از کم انکے اسسٹنٹ ضرور رہ چکے ہونگے۔ انکے  کرموں سے تو لگتا ہے کہ مودی کے اس جنم کا خمیر ان شیطانوں کی مٹی سے ہی لیا گیا ہے۔مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چلتے چلتے جہاں کھمبا دیکھتے ہیں وہاں رکتے ہیں، اسے غور سے دیکھتے رہتے ہیں اور پھر روانہ ہو جاتے ۔بھارتی میڈیا کو تھوڑی سی مزید ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے‘ مودی کی تمام جنم بھومیاں سامنے آجائیں گی۔

بہت کچھ اوپر نیچے ہو جائے گا ،30 اگست تک کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا،شیخ رشید

کچھ نہ کچھ تو ہر وقت ہوتا ہے۔یہاں تو تیز ہوا اور معمولی بارش بھی ہو جائے تو بہت کچھ اوپر نیچے ہو جاتا ہے۔شیخ صاحب کچھ سیاست میں اوپر نیچے ہونے کی بات کر رہے ہیں 30 اگست تک سیاست میں کچھ نہ کچھ تو ہونا ہی ہے۔ کسی بھی موقع پر شیخ صاحب کہہ دیں گے دیکھا میں نے نہیں کہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔مثلا اگر بجٹ منظور ہو جاتا ہے یا بجٹ منظور نہیں ہوتا دونوں صورتوں میں  ان کی پیش گوئی پوری ہو جانی ہے۔

شیخ صاحب کی کئی حوالوں سے شہرت ہے۔ چلّے سے پہلے صرف شیخ رشید تھے چلّے کے بعد شیخ چلّا بن گئے۔چلے کے حوالے سے بہت کچھ میڈیا میں کہہ رہے ہیں۔عید کے روز کہا جاتا ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز کو 24 انٹرویوزدیئے۔شیخ صاحب کہتے ہیں کہ میں 16 مرتبہ وزیر رہا ہوں۔شیخ صاحب کو 16 وزارتوں کے اسی طرح سے نام یاد نہیں ہوں گے جس طرح سے 24 انٹرویو لینے والے اینکرز اور ٹی وی چینلز کے نام یاد نہیں ہیں۔کسی نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر شیخ رشید انٹرویو کرنے والے 24 اینکرز کے نام بتا دیں تو ان کو فارم 47 پر کامیاب ڈکلیر کر دیا جائے۔ انٹرویو جتنے بھی ہوئے ان کی طرف سے بڑے انکشافات کیے گئے،وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو انہوں نے شلوار کے ازار بند سےخود کشی کا سوچ لیا تھا۔وہ پنکھے کے ساتھ لٹکنا چاہتے تھے۔اس مشن پر اس لیے عمل نہ ہو سکا۔شاید پنکھا بہت اونچا تھا۔ازار بند نکالتے تو بے پردگی کا اندیشہ تھا۔انتظامیہ کو ہو سکتا ہے کہ شیخ صاحب کے مشن اور منصوبے کی بھنک پڑ گئی ہو اور انہوں نے ان کو لاسٹک والا ٹراؤزر یا جانگیا پہننے کو دے دیا ہو۔شیخ صاحب جیل کو سسرال قرار دیتے ہیں مگر چلّے کے دوران جس جگہ پہ رکھا گیا وہ سوتن کا گھر ثابت ہوا۔

علی امین گنڈاپور اپنے لیڈر کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، مولا جٹ والے رویے سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے ،گورنر پنجاب سلیم حیدر

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور  کے مابین میدان لگا رہتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کو فرض عین سمجھتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے مابین آج کل وہی کچھ ہو رہا ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان میں فیصل کریم کنڈی اور علی امین گنڈاپور کے مابین انتخابی مہم کے دوران ہوتا رہا ہے۔ دونوں انتخابی حریف ہیں اور اتفاق سے مولانا فضل الرحمن بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑتے ہیں۔

سلیم حیدر گورنر پنجاب ہیں اور ان کو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت گورنر بنایا گیا ہے۔حسن ابدال میں تقریب کے دوران ان کی طرف سے علی امین گنڈا پور کے رویے کو مولا جٹ کے رویے سے تعبیر کیا گیا۔مولا جٹ پنجابی فلم کا کردار تھا جو سلطان راہی نےادا کیا ۔سلطان راہی کی بڑھکیں بہت سی فلموں کی کامیابی کی وجہ بنیں۔علی امین گنڈا پور کا رویہ ہی مولا جٹ جیسا نہیں ہے بلکہ وہ بڑھکیں بھی مولا جٹ والی بھی کبھی کبھی مار دیتے ہیں ۔

گزشتہ دنوں انہوں نے کہا تھا کہ میرا ڈسا ہوا تو پانی بھی نہیں مانگتا۔کل ہی وہ مولا جٹ کی طرح ایک گرڈ سٹیشن میں چلے گئے۔اس بجلی گھر سے بجلی کی ترسیل رکی ہوئی تھی یہ گئے اور بجلی بحال کرا کر واپس آئے۔تڑیاں شڑیاں لگانا تو ان کا معمول ہے۔شیر افضل مروت بھی بڑھک باز اور مولا جٹ والی  شہرت رکھتے ہیں۔بڑ ھکوں بڑھکوں میں ایک بڑھک اپنی پارٹی پر بھی مار دی جو بم کو لات مارنے کے مترادف ثابت ہوئی تو آج کل وہ کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔

بھٹو کا جرم بڑا یا کارنامہ؟

دوسری جنگ عظیم میں اتحادی قوتوں نے بالاآخر امریکی ایٹم بم کے بل بوتے پر فتح حاصل کر لی۔ جرمنی اور جاپان میں سے کسی کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو امریکہ اول تو ایٹم بم کا استعمال ہی نہ کرتا اگر ایٹم بم استعمال ہوتا توہٹلر یا جاپانی وزیر اعظم  ہدیکی تو جو کی ایٹم بم برسا کر جنگ کا توازن اپنی طرف موڑ لیتے۔جنگوں میں جاسوسی کا کلیدی کردار رہاہے۔ کئی جنگیں جاسوسوں کی مدد سے بغیر گولی چلائے جیتی گئی ہیں۔ جرمنی اور جاپان کی شکست کی وجہ امریکہ کی طرف سے ایٹم کا استعمال نہیں بلکہ جاسوسی میں ناکامی تھی۔ امریکہ نے ہیرو شیما کے  بعد ناگا ساکی پر بم برسا یا تو دھمکی دی،سرنڈر ورنہ  تیسرا بم اگلے شہر پر۔۔۔ امریکہ کے پاس اس وقت تیسرا بم موجود ہی نہیں تھا۔ جس سے جاپانی اور جرمن انٹیلی جنس لا علم تھی۔مزید تباہی کے خوف سے جاپانی بادشاہ ہیرو ہیٹو کے حکم پر جاپانی افواج نے ہتھیار ڈال دیئے۔جرمنی نے  بھی شکست مان لی۔


 دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور کروڑوں انسانوں کے خاک اور خون میں مل جانے  کے بعدفاتح اتحادیوں نے کئی جرائم کے تحت مقدمات چلائے۔ یہی جرائم ان کی طرف سے بھی سرزد ہوئے تھے۔ چونکہ وہ فاتح تھے اس لئے جاپان اورجرمنی کیلئے جرم ضعیفی کی سزا کا اطلاق ”طاقت کے قانون“ کی لاٹھی ٹھہری۔ 18 اکتوبر 1945ء اور یکم اکتوبر 1946ء کے درمیان بین الاقوامی فوجی عدالت نے سازش کرنے، امن کیخلاف جرائم، جنگی جرائم اور انسانیت کیخلاف جرائم کے الزامات کے تحت ہٹلر کے بائیس بڑے ساتھیوں کے خلاف مقدمات چلا کر بارہ کو سزائے موت دے دی۔ ان میں ہانس فرینک، ہرمان گوئرنگ، ایلفریڈ روزن برگ اور جولیئس اسٹریخ شامل تھے۔ تین ملزموں کو عمر قید اور چار کو دس سے بیس برس تک کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ جاپانی وزیراعظم ہدیکی توجو کی اور دیگر چھ  ٹاپ لیڈر اورجرنیل بھی تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے۔18 کو عمر قید کی سزا ہوئی۔پھانسی کے بعد جاپانی وزیراعظم  کی لاش کہاں گئی ؟ امریکی فوج کی خفیہ دستاویزات کے ذریعے اس سوال کا جواب  کئی دہائیوں بعد سامنے آیا  ہے۔ امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملے کے ماسٹر مائنڈ جاپانی وزیراعظم توجو کی کو سزائے موت سے ہمکنار کرنے کے بعد  راکھ کو ایک امریکی جنگی طیارے کے ذریعے بحرالکاہل میں پھینکا گیا تھا۔جاپانی جنرل یاماشیتا نے سنگاپور کے محاذ پر جنرل پرسیول سے ایک لاکھ تیس ہزار فوجیوں سمیت سرنڈر کرایا تھا۔ یہ دنیا کا اس وقت کا سب سے بڑا سرنڈر تھا۔یاماشیتا کو بھی پھانسی دی گئی۔
پھانسیوں کا سلسلہ طویل عرصے چلا۔ایڈولف ایکمین کا مقدمہ 1961ء میں یروشلم میں چلا جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ایڈولف ایکمین جسے آئخمین بھی کہا جاتا ہے ۔وہ ہولو کاسٹ کے دوران یورپ کی یہودی آبادیوں کی جلاوطنی کے سلسلے میں مرکزی کرداروں میں سے ایک تھا۔ جنگ کے اختتام پر اسے  امریکہ میں زیر حراست لے لیا گیا لیکن وہ 1946ء میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ کیتھولک چرچ کے اہلکاروں کی مدد سے وہ فرار ہو کر ارجنٹینا پہنچ گیا جہاں وہ ریکارڈو کلیمنٹ کے نام سے رہا۔ 1960ء میں اسرائیلی سیکورٹی سروس کے ایجنٹوں نے ایکمین کو پکڑ لیا ۔وہ اسے  اسرائیل لے آئے۔ یروشلم میں ایکمین پر مقدمہ چلا،اسے  یہودیوں کے خلاف جرائم میں قصوروار پایا گیا۔ اسے 31 مئی اور یکم جون 1962ء کی درمیانی شب پھانسی دے دی گئی۔ اس کی لاش کو جلا کر راکھ سمندر میں  پھینک دی گئی۔
 اس آخری  پھانسی کے  آٹھ نوسال بعد سانحہ مشرقی پاکستان جنم لیتا ہے۔ پاکستان دو لخت ہو گیا۔16دسمبر1971ءکو سقوط بنگال ہوا۔ اس سے دوماہ قبل اکتوبر 1971 میں شاہِ ایران کے ڈھائی ہزار سالہ جشن میں جنرل یحییٰ خان بھی موجود تھے۔ ان کا سامنا بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ہوا تو انہوں نے کہا جنرل آپ کی بڑی شہرت سنی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم نے ایک تحریر میں بتایا کہ یحییٰ خان نے نشیلی آنکھوں اور دلربا مسکراہٹ سے کہا آپ نے میری دوسری شہرت کے بارے بھی سناہوگا۔ اس پر اندرا گاندھی غصے سے پاؤں پٹختی اورتلملاتی ہوئی  دوسری طرف چلی گئیں۔


امریکہ برطانیہ فرانس اور روس جیسے اتحادی دوسری جنگ عظیم میں دشمن افواج کے جرنیلوں کو ان کے انسان دشمن اقدامات، احکامات اور انسانیت کو بچانے میں اپنا کردار ادا نہ کرنے کے جرم میں ان سے دل میں نفرت اور دماغ میں جذبہ انتقام لیے بیٹھے تھے۔ اندرا گاندھی کو پاکستان سے دشمنی ، کینہ ، بغض، عناد،کدورت اور نفرت وراثت میں ملی تھی۔ اندرا گاندھی کے والد جواہر لعل نہرو اور دادا موتی لعل نہرو قیام پاکستان کی راہ میں حائل ہونے کے لیے سرگرداں رہے۔ پاکستان ان کے سینے پر پھوڑے کی مانند تھا۔ اندرا گاندھی بھی پاکستان ،پاک فوج اورجرنیلوں سے اسی طرح نفرت کرتی اور جذبہ انتقام میں جل رہی تھیں  جس طرح اتحادی ممالک کے سربراہان انسانیت کش انتقام پر اترے ہوئے تھے۔اندرا گاندھی ہمارے کئی افسروں اور جرنیلوں کو پھانسی پر لٹکانا چاہتی تھیں۔جو ان کی قید میں تھے۔اس کا تذکرہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں  موجود ہے۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو33ہزار فوجیوں سمیت93ہزار قیدیوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہوئے۔
بھٹو پر پاکستان توڑنے کاالز ام لگتا ہے۔ پاکستان توڑنے میں بھٹو کے ساتھ شیخ مجیب الرحمن، اس وقت کے فوجی صدر جنرل یحییٰ خان کو بھی ملوث قرار دیا جاتا ہے۔ اندرا گاندھی کا کردار بھی کلیدی تھا جن کی مکتی باہنی اور پھر فوج نے دوسرے ملک میں گھس کر کارروائیاں کیں۔


بھٹو صاحب کو81 سیٹیں ملیں۔ ان کے مقابلے میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو160 پر کامیابی حاصل ہوئی۔ بھٹو صاحب نے مشرقی پاکستان سے الیکشن کیوں نہیں لڑا تھا؟ بھٹو کو پاکستان توڑنے کے جرم میں شریک  سمجھا جاتا ہے ۔ یہ جرم عظیم ہے۔ دوسری طرف ان سارے کارناموں کو ایک طرف رکھ دیں جس میں1973ءکا آئین، اسلامی سربراہی کانفرنس قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا شامل ہے۔ شراب پر پابندی اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کا فیصلہ اور کئی دیگر بھی کار ہائے نمایاں ہیں۔ ان کے مقابلے میں ان کا ایک کارنامہ جرنیلوں کو سزا سے بچا کر پاکستان لے آنا بہت بڑا کارنامہ ہے۔یہ وہ ماحول تھا جس میں عالمی سطح پر جنگی جرائم میں جاپان اور جرمنی کے جرنیلوں کو پھانسیاں ہو رہی تھیں۔ قارئین! آپ کے لیے سوال ہے کہ بھٹو کا جرم بڑاہے یا کارنامہ؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک اہم کتاب: 'ذوالفقار علی بھٹو' - Opinions -  Dawn News Urdu

لاہور میں بکرا واش سروس شروع

عید قربان سے قبل شہروں میں پارٹ ٹائم کاروبار شروع ہو جاتے ہیں۔ جگہ جگہ چارے کے سٹال لگے نظر آئیں گے سبز اور خشک ہر قسم کا چارہ گلی محلوں چوکوں چوراہوں میں بکنے لگتا ہے۔ گائیوں، بیلوں، بکری، بکروں کو سجانے سنوارنے کا سامان ٹل ٹلیاں ہار سنگھار کی فروخت شروع ہو جاتی ہے۔ اب کار سروس والوں نے بکرا واش کی سروس شروع کر دی ہے۔ بکری بکرے دنبے بھیڑ بھیڈو کو گرمی سے بچانے کے لیے نہلوانا ہے تو اس کا ریٹ کم ہے۔

سرف سے واش کرنے کے کچھ زیادہ پیسے ہیں۔ شیمپو کی کوالٹی پر منحصر ہے ، بہترین کوالٹی امپورٹڈ کا ریٹ ہائی ہے۔ کنڈیشنر کی صورت میں نرخ بالا نشیں ہو جاتے ہیں۔ شہروں، قصبات اور دیہات میں بکرے یعنی قربانی کے جانور قسطوں پر بھی ملتے ہیں۔ جدید دور ہے کچھ آئی ٹی ایکسپرٹ جانور ڈاؤن لوڈ کرنے کی تدبیریں بھی سوچ رہے ہیں۔ منڈیوں میں رضا کار صفائی کرنے والے اور والیاں بھی نظر آتی ہیں۔ یہ بھی بزنس پرسن ہیں۔ گوبر کی ”پاتھیاں“ اوپلے بناتے ہیں جو دیہات میں آجکل 5روپے کی ایک بکتی ہے۔ گاؤں میں اوپلے ایندھن کیلئے استعمال ہوتے ہیں جبکہ شہروں میں حقے کے شوقین حقے میں آگ کیلئے بروئے کار لاتے ہیں۔

پاکستانی ٹیم کو امریکہ میں تلاش بسیار کے بعد کڑک چائےمل گئی

چائے میں پسند اپنی اپنی ،کڑک چائے کا مفہوم اور مطلب بھی اپنا اپنا ہے۔لمبا سفر کرنے والے ٹرک ڈرائیور تیز پتی بلکہ تیز ترین پتی اور کم میٹھے والی چائے کو کڑک چائے کہتے ہیں۔ یہ اتنی پتی ڈلواتے ہیں کہ اس چائے کا ڈبل ریٹ ہوتا ہے۔ یہی چائے عرف عام ہیں کڑک کہلاتی ہے لیکن کچھ ایسے شہزادے بھی ہیں جو آرڈر دیتے ہیں پتی پانی روک کے، دودھ میٹھا ٹھوک کے۔ان کی نظر میں یہی کڑک چائے ہوتی ہے۔ہماری ٹیم کے کھلاڑی ایسی ہی کڑک چائے پینے کے شوقین لگتے ہیں جنہوں نے ہوٹل انتظامیہ کو اس وقت وختہ ڈال دیا۔ جب چائے کا آرڈر سرو کیا گیا تو ان کے سامنے قہوہ رکھ دیا گیا۔کوئی اسے قہوہ کہتا ہے کوئی گرین ٹی کہتا ہے ۔

یورپ  مغرب اور برطانیہ میں اسی کو چائے کہا جاتا ہے۔ یہ بغیر میٹھے کے ہوتی ہے۔ہمارے ہاں اس کو چائے ہی نہیں سمجھا جاتا جس میں دودھ نہ ہو اور چینی نہ ہو۔ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے گرین ٹی رکھی گئی وہ سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ ضد کرنے لگے ہم تو دودھ پتی ہی پئیں گے۔"میں تے ہونڈا ای لیساں"۔ ہوٹل انتظامیہ نے بہرحال دودھ پتی کا کسی چھوٹے موٹے ڈھابہ ٹائپ ریسٹورنٹ سے بندوبست کروا ہی دیا جس پر ہمارے ہونہار کھلاڑی کانوں تک راضی ہو گئے۔ان کی کارکردگی دیکھ کر تو لگتا ہےکھانے میں  سری پائے اور کولڈ ڈرنک کی جگہ لسی پیتے ہونگے ۔گراؤنڈ میں داخل ہوتے ہوئے سوٹے بھی لگا کر گئے ہوں۔ان چیزوں کا نشہ جادو کے سر چڑھنے کی طرح بولتا ہے۔نشئی کا بدن بیٹنگ کر رہا ہو باؤلنگ کر رہا ہو یا فیلڈنگ، بید مجنوں کی طرح لرزتا یعنی ڈولتا ہے۔

پہلے امریکہ سے پھر انڈیا سے ہارے تو،توئے لعنت اور تبرے  نے نشہ ہرن کر دیا۔اگلے میچ میں لگا کہ ڈرائیوروں والی کڑک چائے پی کے کھیلے ہیں۔ شروع میں ایسی کڑک چائے پلا دی جاتی ہے تو کارکردگی بہتر ہوتی۔دہی لسی روٹی اچار دیسی خوراکیں ہیں۔ ولایت گئے ہیں تو ولایتی کھانے کھائیں۔اگر وہ پسند نہیں تو دیسی چیزیں پوٹلیوں میں باندھ کر ساتھ لے جائیں۔خالص دودھ پتی پینی ہے تو بھینس وہیں سے خرید فرمائیں۔ایسے بخت مارے  کبھی کبھی پاکستانیوں کو بھارت کی جیت کے لیے دعائیں کرنے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں کہ بھارت فلاں ٹیم سے جیتے تو ہم اگلے مرحلے میں جا سکتے ہیں۔

توانائی بچاؤ مہم بجٹ میں آٹھ کروڑ 80 لاکھ پرانے پنکھے تبدیل کرنے کا فیصلہ

ماضی قریب کی کسی حکومت نے بجلی کی بچت کے لیے بلب بھی تبدیل کرانے کی مہم شروع کی تھی۔ نئے ایل ای ڈی بلب  کہاں کہاں روشنی پھیلا کر فیوز ہو گئے کچھ پتہ نہیں ۔بلب سکیم کا انجام دو روپے کی روٹی جیسا ہوا ۔ اب حکومت کی طرف سے 1500 روپے میں ایک پنکھا ان صارفین کو دیا جائے گا جن کے گھروں میں پرانے پنکھے لگے ہوئے ہیں اور وہ زیادہ بجلی کھینچتے ہیں ۔جن کا بل صارفین جیسے تیسے ادا کر رہے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔

نیا پنکھا صرف 1500 روپے میں، کباڑ میں پرانا پنکھا کاپر تار کی وجہ سے اتنے میں ہی بکے گا۔ پنکھا چلانے کے لیے بجلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت چھوٹی سی  سلیٹ جتنی سولر پلیٹ بھی مہیا کر دے ورنہ جس قدر لوڈ شیڈنگ ہے ہو سکتا ہے پنکھا اب جھومتا اور سردیوں میں گھومتا نظر آئے ۔گرمیوں کے لیے حکومت دستی پنکھے فراہم کر سکتی ہے۔ایسا پنکھا گاؤں سے آئی ایک خاتون نے شہر سے خریدا۔

تھوڑی دیر بعد اس نے آ کے دکاندار سے شکایت کی کہ یہ تو ایک دو دفعہ  جھلنے سے ٹوٹ گیا۔دکاندار نے پوچھا پنکھا آپ نے جھلایا کیسے تھا، جیسے پنکھا جھلتے ہیں ویسے۔خاتون نے بتا دیا۔ دکاندار نے کہا نہیں بی بی نہیں آپ نے پنکھے کا غلط استعمال کیا ۔ آپ نے پنکھا سامنے ساکت رکھ کے اپنے چہرے کو دائیں بائیں کرنا تھا ایسا کیا ہوتاتو پنکھا نہ ٹوٹتا۔

مذاکرات کا دوسرا دور مکمل، پیپلز پارٹی کے شکوے نون لیگ کی تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی

قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا تو پیپلز پارٹی روٹھی روٹھی نظر آئی ۔ان کو منانے کے لیے ڈپٹی وزیراعظم کو جانا پڑا،پیپلز پارٹی اتنی بھی نہیں روٹھی تھی کہ اجلاس کا دل و جان سے بائیکاٹ کر دیتی۔اجلاس سے دور رہنا ہوتا تو اس کے ارکان ایوان کے ارد گرد گھوم نہ رہے ہوتے جن کو اسحاق ڈار گھیر گھار کر ایوان میں لانے میں کامیاب  ہوگئے۔وہی مشق پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب میں بھی دہرائی گئی۔اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں خوب ہلا گلا کیا تھا ۔پنجاب اسمبلی میں صورتحال ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور کٹ کٹا پے کی نوبت آیا ہی چاہتی تھی۔پیپلز پارٹی اس کی زد میں آ سکتی تھی لیکن اپنی تیوری چڑھانے والی ناراضی کی وجہ سے بال بال بچ گئی۔

شہباز شریف وزیراعظم بنے تو ان کو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آ رہی تھی کہ پرانے اتحادی ہیں پرانا اعتماد ہے پرانا پیار ہے اگلے پانچ سال مل جل کے پورے کرلیں گے لیکن اب منانے کے جھنجٹ میں پڑے ہوئے ہیں۔ بجٹ کے  مواقع پر پی پی پی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئی ۔اسحاق ڈار پی پی کے چند ارکان کو اجلاس میں لانے میں کامیاب ہو گئے یہ پیپلز پارٹی کی طرف سے  اجلاس میں علامتی شرکت تھی جب کہ ایک روز قبل اس پارٹی کا ملامتی رویہ  یعنی حکومت کو ملامت کرنے کا، جس کا خود اٹوٹ حصہ ہیں، سامنے آ چکا تھا۔اب جشن مناؤ  کی طرز پریہ " اتحادی مناؤ حکومت" بن چکی ہے. مولانا فضل الرحمن پرانے اتحادی ہیں شہباز شریف بجٹ منظور کروانے کے لیے ان کو منانے ان کے در دولت پر حاضری دے رہے ہیں.

پیپلز پارٹی کا اچانک سے عین بجٹ کے موقع پر روٹھ جانا کچھ لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے مسلم لیگ نون سے کہا تھا قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں، بالکل نہ گھبراؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔وزارتیں آپس میں بانٹیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ہمیں کوئی وزارت نہیں چاہیے ہم تمہارے ساتھ ہیں،حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے ہم تمہارے ساتھ ہیں۔دو گورنر بنوا لئے، زرداری صاحب ایوان صدر کے مکین ہو گئے  کئی پارلیمانی کمیٹیوں پر ہاتھ صاف کر لئے پھر بھی کہا جاتا ہے حکومت میں شامل نہیں۔

قاضی فائز عیسی کا حسن کرشمہ ساز لاہور ہائی کورٹ کے سب سے سینیئر جج کو جونیئر بنا دیا....جسٹس ملک شہزاد کا یادگار خطاب جس نے سب کو لرزا کے ہلا کے گھما کے رکھ دیا

یہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا حسن کرشمہ شاز  ہے کہ وہ جو چاہیں کر دیں کیونکہ آج کل ان کے پاؤں کے تلے بٹیرا آیا ہوا ہے وہ چیف جسٹس پاکستان ہیں پوری طاقت کے ساتھ اپنی اس طاقت کو جائز اور ناجائز طریقے سے ائینی اور غیر آئینی طور پر استعمال کر رہے ہیں قاضی فائز صاحب سب سے بڑے سینیئر موسٹ جج کو سپریم کورٹ لانے کے وکیل رہے ہیں لیکن اب جب خود چیف جسٹس بنے تو ان کو اپنے 100 میٹر کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے سب سے سینیئر جج جسٹس عامر فاروق نظر نہیں آئے ۔ان کی نظر پڑی تو کراچی کے چیف جسٹس پر، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شہزاد ملک پر اور لاہور ہائی کورٹ ہی کے جسٹس شجاعت پر ان کو قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ لے گئے۔ سنیارٹی کی بات کرنے والے چیف جسٹس کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کی مدت کو پہنچ گئے وہ بھی ان کو نظر نہیں آئے تھے۔


لاہور ہائی کورٹ کے سب سے سینیئر جج کو قاضی  نے سپریم کورٹ لے جا کر سب سے جونیئر جج بنا دیا ایسا ہی ہونا تھا۔لیکن ان کو سپریم کورٹ لے جانے کی وجہ ان کو ترقی دینا اور ان کی مدت ملازمت میں تین سال کا اضافہ نہیں ہے بلکہ ان سے جان چھڑانا مقصود تھا کہ وہ دلیرانہ جرات مندانہ آئین اور قانون کے مطابق بغیر بلیک میلنگ میں آئے بغیر جھکے بغیر دباؤ قبول کیے فیصلے کر رہے تھے۔قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو اس وقت کوئلوں پر لوٹتا ہوا محسوس کیا جب جسٹس ملک شہزاد خان گھیبہ کی طرف سے آٹھ ٹربیونل بنانے کے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیا گیا الیکشن کمیشن اس کی مخالفت کر رہا تھا الیکشن کمیشن دوڑا دوڑا قاضی فائز عیسیٰ  کے پاس گیا اور قاضی صاحب نے ایک منٹ کی تاخیر نہیں کی 20 جون کے لیے یہ کیس لگا دیا اور پھر ملک شہزاد کی طرف سے سرگودھا کے جج کی بات بھی سنی گئی تھی نہ صرف ان کی بات سنی گئی بلکہ انہوں نے جو رپورٹ بھیجی تھی کہ ان کو کس طرح سے یرغمال بنایا گیا ان سے فیصلہ اپنی مرضی کا لینے کی کوشش کی گئی اس پر شہزاد ملک نے آئی جی اور ڈی پی او سرگودھا کو طلب کر لیا تھا۔ ان کی سرزنش کی تھی اور پھر ان کی طرف سے ایک تقریر کی گئی راولپنڈی بار میں اس کی بھی شدید تکلیف محسوس ہوئی ۔پاؤں جلنے لگے سر بوجھل ہونے لگا طبیعت خراب ہو گئی۔ افاقہ اسی اسی میں نظر آنے لگا کہ شہزاد ملک کو فوری طور پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے ہٹا دیا جائے۔
 پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس عید کے بعد ہونا تھا ان کو فوری طور پر بیٹھنے کو کہا گیا پارلیمانی کمیٹی نے جمعہ کے روز اجلاس منعقد کیا اور تینوں ججوں کی سپریم کورٹ تعیناتی کی منظوری دے دی۔ اب جسٹس شہزاد ملک سپریم کورٹ کے جج بن چکے ہیں ۔لاہور میں تھے تو سب سے سینیئر جج تھے سپریم کورٹ جا رہے ہیں تو سب سے جونیئر جج ہوں گے۔
جس طرح کے فیصلے ان کی طرف سے یہاں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ہوئے کیے گئے ان کا تسلسل کیا وہاں پہ نظر آئے گا؟؟؟ بالکل نظر آئے گا لیکن قاضی  صاحب جب تک چیف جسٹس ہیں اس وقت تک ان کو وہ  بالکل نظر آئے گا لیکن قاضی فائز صاحب جب تک چیف جسٹس ہیں اس وقت تک ان کو کیس نہیں دیں گے جس سے سیاسی طور پر قاضی  صاحب کی نفرت کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر قاضی فائز عیسیٰ  جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس کا زیادہ حصہ انصاف کی کار فرمائی عملداری نہیں ہے بلکہ انصاف کا خون کر دینے کے مترادف ہے۔ ادھر جیسے ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے ٹربیونلز کا معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیا قاضی فائز نے چار دن کے بعد سماعت کی ڈیٹ مقرر کر دی چار دن اس لیے دیئے گئے کہ درمیان میں چھٹیاں آگئی تھیں ورنہ تو قاضی صاحب اگلے روز ہی کیس مقرر کر تے اور سٹے آرڈر دے کر الیکشن کمیشن کو خوش کر دیتے۔اب آ جاتے ہیں شہزاد ملک کی تقریر کی طرف جس نے پوری دنیا میں شہرت پائی پاکستان کی سیاست کئی سیاست دانوں اور ان کے پشت پناہوں کو لرزا کے، ہلا کے اور گھما کے رکھ دیا۔


چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جو اب سپریم کورٹ جا چکے ہیں ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ امید ہے اسٹیبلشمنٹ کی جوڈیشری میں دخل اندازی جلد ختم ہوجائے گی۔ اللہ کا خوف رکھنے والے کسی سے بلیک میل نہیں ہوتے۔ ججز کسی سے بلیک میل نہ ہوں۔ ہماری جوڈیشری بغیر کسی ڈر خوف اور لالچ کے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس میں اے ڈی آر اور ای کورٹ کے افتتاح کے موقع پر چیف انہوں  نے مزید کہا کہ ججز پر دباؤ کے حوالے سے شکایات آرہی ہیں۔ مولوی تمیزالدین کیس میں اسٹیبلشمنٹ کی جوڈیشری میں مداخلت شروع ہوئی۔ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی جوڈیشری میں مداخلت کے حوالے سے ججز کے خطوط آتے ہیں۔ ہم انصاف کی فراہمی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ 13 مارچ 2007ء  میں عدالتی نظام کی بحالی کے لئے  اکیلا گھر سے نکلا تھا۔ سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار نے ایک ڈکٹیٹر کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ سول حکومت جیسی بھی ہے مگر مارشل لاء  کا راستہ رک چکا ہے۔ مارشل لاء  کا راستہ روکنے میں وکلاء  کی جدوجہد کا اہم کردار ہے۔ ملک شہزاد گہبا نے پرویز مشرف کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ مارشلہ کی لعنت کا پاکستان سے جسٹس افتخار محمد چودری کی جدوجہد کی وجہ سے خاتمہ ہو چکا ہے۔اب کسی میں جرات نہیں کہ وہ پاکستان میں مارشل لا لگا سکے۔اج پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین سول دور ہے پہلے ادوار میں چند سال کے بعد مارشل لگ جاتا تھا لیکن اب 2008 کے بعد جیسی بھی ہے سول حکومت چل رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ میرا ایمان اور تجربہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جلد ختم ہوگی۔ملک شہزاد کی طرف سے جو کچھ کہا گیا یہ شاید کوڈ اف کنڈکٹ کی خلاف ورزی میں ا جاتا لیکن اب نہیں اس سکتا کیونکہ ایسی ہی باتیں بلکہ اس سے بھی سخت موقف کا اظہار شوکت عزیز صدیقی اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بعد سب سے سینیئر جج کی طرف سے اختیار کیا گیا تھا انہوں نے بھی اسی بار میں کتاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان پر کس طرح سے ائی ایس ائی کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا کس طرح سے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے کہا گیا ان کو اس وقت کی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے سیک کر دیا گیا تھا لیکن قاضی فائزہ کی سربراہی میں اج کی سپریم کورٹ نے ان کی ساری خطائیں معاف کر دیں تو جو کچھ ملک شہزاد کی طرف سے اج کہا گیا ہے وہ اس سے بہت کم ہے اس لیے کسی قسم کا ان کو خطرہ نہیں ہے گو کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں یہ ریفرنس بھیجا گیا تو قاضی  کی جب جبلت کے عین مطابق ہوگا اور وہ اسی طرح سے شہزاد ملک کے خلاف نوٹس لے سکتے ہیں جس طرح مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف لیا گیا تھا۔

ٹویٹ اور فوج کیخلاف بیانیہ

(گزشتہ سے پیوستہ )
ایک نظر ڈاکو منٹری کے متن پر ڈالتے ہیں جو عمران خان کے ٹویٹ میں جاری کی گئی۔ 
"مقتدرہ نے ہمیشہ شیخ مجیب کو غدار بنا کر پیش کیا۔لیکن ملک توڑنے کے اصل ذمہ دار فوجی حکمران جنرل یحییٰ اور اس کے حواریوں کا کبھی ذکر نہیں تک نہیں کیا۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ جنرل یحییٰ اور شیخ مجیب الرحمن میں سے اصل غدار کون تھا؟


شیخ مجیب اکثریتی پاکستان کا منتخب نمائندہ تھا جنرل یحییٰ پاکستانیوں کے حقوق کا غاصب تھا۔
شیخ مجیب پاکستان ہی میں رہنے کا خواہش مند تھا.جنرل یحییٰ کی مشرقی پاکستان کو بچانے کی کوئی نیت نہ تھی شیخ مجیب نے جمہوری اصولوں کے عین مطابق اکثریتی جماعت کو اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کیا، جنرل یحییٰ کا کرسی بچانے کے لیے اقتدار کی منتقلی کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ شیخ مجیب کو بالآخر گرفتار کر لیا گیا۔ جنرل یحییٰ نے اپنے ہی بھائیوں پر بدترین کریک ڈاؤن اور خون ریزی کی۔شیخ مجیب کو سویلین ہوتے ہوئے ملٹری کورٹ سے سزا دلوائی گئی۔جنرل یحییٰ اس وقت بھی  داد عیش دیتا رہاجبکہ مشرقی پاکستان ڈوبتا رہا۔حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں پاکستان کے دولخت ہونے کا ذمہ دار جرنیلوں کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بد نام زمانہ اپریشن سرچ لائٹ کا ذکر ہے جس کے مطابق اس وقت کی عسکری قیادت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کو  روکنے کا بہانہ بنا کر ایسٹ بنگال رجمنٹ کے افسران،بزنس مین اینڈ انڈسٹریلسٹس اور ہندو اقلیت کا قتل کیا۔بہت بڑی تعداد میں  بنگالی عورتوں کا ریپ کیا گیا اور سب کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا۔  یہ سلسلہ اپریشن کے آغاز سے جنگ کے اختتام تک جاری رہا ۔جو عسکری قیادت اپنے ہی عوام سے لڑنے میں مصروف تھی وہ دشمن کا کیا مقابلہ کرتی ۔محض دو ہفتے میں جنرل نیازی نے بھارتی جنرل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔شکست کی ذلت آمیز دستاویز پر دستخط کیے جو آج تک پاکستان پر سیاہ دھبہ ہے۔کمیشن رپورٹ میں پاک فوج کی سینیئر قیادت کی ناقص حکمت عملی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کے کورٹ مارشل کا بھی مطالبہ کیا گیا جبکہ مقتدرہ نے ہمیشہ شیخ مجیب کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کی ۔آخر اس کا قصور کیا تھا؟کیا پاکستان کے عوام نے اسے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیاب نہیں کرایا تھا؟کیا جمہوری  اصولوں کے مطابق اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہیں کیا جانا چاہیے تھا؟ ۔اگر ان باتوں کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ جس شیخ مجیب کو غدار ثابت کیا گیا ہے کیا واقعی وہ اس لقب کا حقدار تھا۔یا اس کا حقدار جنرل یحییٰ تھا؟ ۔ آج پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کی تاریخ دہرائی جا رہی ہےجو  1971ءکے ملک توڑنے کے ذہن کی عکاس ہے"۔

شیخ مجیب الرحمان کے پاکستان کی جیل میں گزرے دن اور انار خان - BBC News اردو
یہ تھا ڈاکومنٹری کا متن جو عمران خان کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اس پیغام کے ساتھ جاری کی گئی کہ قوم اس ڈاکومنٹری کو دیکھے کہ مشرقی پاکستان توڑنے کا ذمہ دار یحیی خان تھا یا شیخ مجیب الرحمن تھا۔
آرمی چیف کا نام لئے بغیر ان کو تضحیک آمیز لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے انہیں سیاست میں صریحاً مداخلت کا موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ اس سے افواج کے اندر بے چینی جنم لے سکتی ہے۔آرمی چیف کا نام نہیں لیا گیا مگر ان کی تصویر لگا دی گئی ہے۔ یہ سارا کچھ عمران خان نے اپنی زبان سے نہیں کہا مگر  یہ ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اب بھی موجود ہے۔
 ایک ایسے شخص سے یہ کرنے کی امید نہیں کی جا سکتی جو پاکستان کا وزیراعظم رہا ہو اور آئندہ بھی اس کے وزیراعظم بننے کا امکان موجود ہو۔

پاکستان کا اگلا آرمی چیف کون ہو سکتا ہے؟
 جاوید ہاشمی جنہوں نے عمران خان کا ساتھ دھرنے کے عروج پر چھوڑا وہ اب خان صاحب کی حمایت میں سرگرم ہیں۔ وہ کہتے ہیں ڈاکو منٹری میں جو کچھ کہا گیا میں اسے قبول کرتا ہوں۔ مولانا فضل الرحمن ، محمود اچکزئی، اختر مینگل،ایمل  ولی خان کی طرح جاوید ہاشمی بھی فوج پر غصہ نکالتے رہتے ہیں۔
عمران اور مذکورہ بالا دیگران ہی نہیں اور بھی بڑے سیاستدان فوج پر منفی تبصرے کرتے رہے ہیں۔ الطاف حسین نے تو بھارت سے فوج کے خلاف مدد بھی مانگ لی تھی۔ میاں نواز شریف جلسہ عام میں جرنیلوں کو مخاطب کر کے حساب چکانے کی بات کرتے رہے ہیں۔ خواجہ آصف کی طرح حدیں کسی سیاستدان نے عبور نہیں کیں۔ خواجہ صاحب دوسری تیسری مرتبہ وزیر دفاع لگا دیئے گئے۔ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی۔
ماضی میں افواج کے خلاف نفرت پھیلانے والے کردار محفوظ رہے۔ ان کو آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے دائرے میں لایا جاتا  تو افواج کے خلاف بیانیے کی بیخ کنی ہو چکی ہوتی مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر ماضی میں کسی کو نہیں پوچھا گیا تو حال اور مستقبل میں اس سلسلے کی حوصلہ فزائی کی جائے۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جیل میں بیٹھ کر بھی عمران خان اپنا ٹویٹر چلا رہے ہیں۔ یہ ٹویٹ انہوں نے خود کیایا ان کی مرضی سے کیا گیا اور ڈاکومنٹری لگائی گئی ہےتوخان صاحب سے حساب لیا جانا چاہیے۔ جرم جرم ہوتا ہے۔ مجرم کے خلاف کارروائی میں تاخیر سے جرم کی شدت کم نہیں ہو جاتی۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ رضوان کو ان کی سروس کے دوران غداری کی  سزا(سزائے موت )ریٹائرمنٹ کے بعد جرم سامنے آنے اور ثابت ہونے پر دی گئی تھی۔جس نے جب بھی فوج کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کی وہ احتساب کا مستوجب ہے۔

کراچی میں 15 کروڑ روپے کے جعلی اور غیر قانونی سگریٹ نذر آتش

چرس ہیروئن افیون شراب پکڑی جانے پر جلا دی جاتی ہے یا تلف کر دی جاتی ہے۔ سگریٹ جعلی پکڑے جائیں ان کو نذرآتش کر دیا جائے، یہ پہلی مرتبہ سنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھرے ہوئے سگریٹ ہوں۔ جعلی سگریٹ کیسے بنے ہوں گے ؟ تمباکو کی بجائے کس چیز کا برادہ کاغذ میں لپیٹ دیا گیا ہوگا۔ یہ برادہ ہوگا یا بارود ہوگا اور پھر غیر قانونی سگریٹ کیسے بنتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بڑے برانڈ کی نقل کر لی جاتی ہو۔

جعلی اور غیر قانونی سگریٹوں کے لیے کاغذ کی بجائے سستے ٹشو استعمال کیے جاتے ہیں؟ یقینی طور پر جعلی اور غیر قانونی سگریٹ ہر لحاظ سے غیر معیاری ہی ہوتے ہیں ۔اس کے دھوئیں سے مرغولے بھی نہیں بنتے ہوں گے۔ کش لے کر سگریٹ نوش دھواں منہ اور ناک سے نکالتا ہے جو سگریٹ غیر قانونی اور جعلی ثابت ہوئے ہیں ۔اس کا سوٹا لگانے سے کیا دھواں کانوں سے نکلتا ہے۔ایک دوست نے دوسرے سے کہا یار تو 10 سال سے سگریٹ نوشی کر رہا ہے۔ روزانہ ایک ڈبی بھی پئے تو اب تک تو پانچ لاکھ روپے پھونک چکا ہے۔نصیحت کرنے والے دوست سے دوسرے  دوست نے اگلے دن اس کے گھر جا کر 10 ہزار روپے ادھار مانگے تو اس نے کہا میرے پاس کہاں سے 10 ہزار روپے آئے ۔جس پر ادھار مانگ لینے والے نے کہا کہ یارتو نے جو سیگرٹ نہ پی کر پانچ لاکھ روپے بچائے تھے ان میں سے مجھے صرف 10 ہزار روپے دے دو۔