پاکستان آج سیاسی بحران کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ آج کا سیاسی بحران کتنی شدت کا ہے اس کی وضاحت مجیب الرحمن شامی صاحب نے ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کے دوران یوں کی ہے۔” پاکستان کی آج جو معیشت اور سیاست کی حالت ہے وہ کبھی پہلے دیکھی نہیں تھی۔ مقتدر حلقوں نے خرچوں پر زور دیا کمانے پر زور نہیں دیا۔ آج وہ کروڑوں افراد جو دو ڈھائی سال پہلے تک مڈل اور لوئرمڈل کلاس میں شمار ہوتے تھے۔ وہ اب لقموں کو ترس رہے ہیں۔“
ہمارے ہاں وقفے وقفے سے احتساب کا ابال اٹھتا ہے اور پھر بیٹھ جاتا ہے۔ جب بھی انتخابات کا معاملہ درپیش ہو تو ایک نعرے کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ یہ نعرہ لگانے والے خود بھی مستوجبِ احتساب ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف نے بغاوت کی تو ان کو احتساب کی راہ پر لگانے والے بھی پیدا ہو گئے۔ مشرف صاحب نے احتساب کا ایسا آغاز کیا جس کا انجام ان کی مصلحتوں کی دھول تلے دب گیا۔ پاک فوج سے کچھ لوگ تواتر سے احتساب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں ہوبارہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مختلف شعبوں میں سرگرمیاں جاری ہیں۔ ہوبارہ کا مطلب تو تلور ہے۔ تلور وہ پرندہ ہے جو پاکستان میں سردی کے موسم کے آغاز پر وسطی ایشیا سے آتا ہے۔ اُن دنوں وسطی ایشیائی ممالک میں سانسوں تک کو جما دینے والی سردی ہوتی ہے لہٰذا یہ پرندہ خوشگوار موسم کی تلاش میں ساؤتھ ایشیائی ممالک افغانستان ،ایران، بھارت، سری لنکا وغیرہ کا رُخ کرتا ہے۔ یہ تلور کے شکاریوں کے لیے بھی بھرپور تفریح اور شکار کا دورانیہ ہوتا ہے۔ شکار سے تلور کی نسل ختم ہو رہی تھی۔ تلور کا شکار ایک وسیع موضوع ہے۔ ابو ظہبی کے فرمانروا بھی تلورکے شکارکا شوق رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان تلور کے شکار کے لیے آتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ عقاب کا استعمال کرتے ہیں۔
عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کر کے پارٹی لیڈرز اور کارکنوں کو تیاری کرنے کی ہدایت کی تو ان کے مخالفین کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔ فوری طور پر مطالبہ کرنے لگے، جلدی کرو ابھی جیلیں بھرو۔ ان کے قابو عمران خان آ رہے ہیں نہ ان کے ورکر اور حامی ۔ یہ خود بخود جیل چلے جائیں گے تو احتجاج مظاہروں اور چور چور کے نعروں سے خلاصی ہو جائے گی۔ ان نعروں نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ اب عمران خان ان کے مطالبات پر فیصلے کریں گے؟
پاکستان میں امن کا گلستاں آج پھرجھلس رہا ہے۔چین اور سکون کے خِرمَن کو عفریت نگل رہا ہے۔ پشاور کی مسجد میں بہیمانہ دہشتگردی کا بھیانک واقعہ ہمیں بدقسمتی کی تاریک کھائی کی عمیق گہرائی میں لے جاتا نظر آرہا ہے۔ ایک دم سے ہم بے برکتی اور زحمت کی دلدل میں کیوں دھنسنے لگے۔ اوپر تلے ایسے واقعات آخر کار کس شامتِ اعمال کا نتیجہ ہیں ۔پشاور میں پولیس لائن جو عام بستیوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ وہاں دہشتگرد مسجد میں دھماکہ کر دیتا ہے۔
بات لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اقبال ملک کی گرفتاری، عمر قید اور رہائی سے شروع ہو کر اٹک سازش کیس تک پہنچی تھی۔ جرم کتنا سنگین ہو سکتا ہے جس میں ایک جرنیل کو14سال کی قید سنا دی جاتی ہے۔ جس پر عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ جب سزا کی توثیق کرنے والی قیادت پہلی اپیل پر آدھی سزا معاف کر دیتی ہے تو جرم کی سنگینی کی شدت میں پہلے جیسا تاﺅ بھی مفقود ہونے لگتا ہے اور جب اُسی نوکِ قلم سے سزا صرف چھ ماہ تک محدود کر دی جاتی ہے تو پھر کئی سوالات کا ذہن میں آنا فطری امر ہے۔
ماضی میں 60کی دہائی میں ذرا نظر ڈالیں تو یہ واقعہ یکم مئی1960ءکا ہے۔ سوویت یونین کے وزیراعظم خروشیف نے اعلان کیا کہ سوویت یونین نے امریکہ کا ایک یوٹوU2جاسوس طیارہ مار گرایا ہے اور اس طیارے کے پائیلٹ فرانسس گیری پاورز کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سوویت حکومت کے مطابق یہ امریکی طیارہ سوویت یونین کی فضائی حدود میں تقریباً60ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ دلچسپ امریہ ہے کہ یہ امریکی طیارہ U2پاکستان کے شہرپشاور کے نزدیک بڈبیر کے امریکی ہوائی اڈے سے اڑا تھا۔ اس طیارے میں جدید ترین اور حساس نوعیت کے کیمرے لگے ہوئے تھے جن کی مدد سے یہ طیارہ سوویت یونین کی انتہائی اہم حساس تنصیبات کی تصویریں کھینچ رہا تھا۔ اس تمام واقعہ کی امریکہ اور پاکستان دونوں ہی نے سوویت یونین کے ان الزامات کی تردید کی۔ مگر ہوا یہ کہ اگست 1960ءہی میں طیارے کے پائیلٹ فرانسس گیری پاورز پر سوویت یونین کی ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تو پھر سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا ، اس طرح اصل حقیقت پوری دنیانے دیکھ لی۔
لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اقبال ملک کو جاسوسی کے الزام میں فوجی عدالت کی طرف سے14سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کو 6دسمبر2018ءکو گرفتار کیا گیا۔ 3مئی 2019ءکو سزا سنائی گئی ۔ اپیل پر ان کی سزا سات سال کر دی گئی۔اب جنرل جاوید کو ان کی بقیہ رہ جانے والی سزا ختم کر کے رہا کر دیا گیا ہے۔ ان کی رہائی کا حکم 29نومبر کو پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے دیا۔یہ ان کا فرمانِ امروز یعنی پہلے روز کے احکامات میں سے ایک تھا۔
ہر شخص اپنے طور پر ایک ہسٹری ہے اور ہسٹری کے ساتھ ساتھ ہسٹورین بھی ہے؛ ہسٹری کیا ہے؟ وہ لمحہ جو گزر جاتا ہے وہ ماضی کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ یہی ہسٹری ہے، تاریخ ہے۔ آپ ماضی کو بیان کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل تاریخ بتا رہے ہوتے ہیں ۔آنے والے لوگوں کے لیے آپ تاریخ دان ہیں ۔ آپ کی باتیں یا یاداشتیں آنے والے لوگوں تک کس شکل میں پہنچ سکتی ہیں۔ رائٹنگ میں، آڈیو ز کے ذریعے ویڈیوز کے ذریعے فوٹوز کے ذریعے یا کوئی بھی مروجہ یا آئندہ متعارف ہونے والے میڈیم یاطریقہ کارکے ذریعے۔ آج آپ کی عمر20 سال ہے۔60 ستر یا 80 کے ہونگے تو گزری ہوئی زندگی کے بارے میں زیادہ جستجو کے ساتھ سوچا کریں گے۔ جس عمرمیں بھی ہیں آج بھی آپ ماضی میں جھانکیں تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ کو دَہائیاں چند لمحوں میں لپٹی ہوئی نظر آئیں گی۔
ڈنکرک سے تین لاکھ برطانوی فوجیوں کا جرمن فورسز کے حصار میں آنے کے بعد بچ کر نکل آنا ناقابلِ یقین تھا۔ برطانوی حکام کو زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار کے زندہ لوٹنے کی امید تھی۔فرانسیسی بندرگاہ پر محصور ہونےوالوں میں تین سو ہندوستانی فوجی بھی تھے۔اس دستے کی کمانڈ میجر محمد اکبر خان کر رہے تھے جوتقسیم ہند کے بعد پاکستان میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔اس دستے میں ایک اور انڈین فوجی ولی محمد تھے۔ انہوں نے ڈنکرک کے دلدوز منظر نامہ کی عکاسی ایک انٹرویو کے دوران اس طرح کی۔"جرمن طیارے خوفناک پرندوں کی طرح تھے جو ہر وقت سروں پر منڈلاتے ۔ میں پندرہ دن سو نہیں سکا۔ ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ پورا شہر جل رہا تھا۔"