2019 ,جولائی 27
لاہور(شفق رپورٹ)حالیہ دنوں قابلِ اعتراض مواد کے حوالے سے مشہور ویب سائیٹ کے اعداد و شمار سامنے آئے جسکے مطابق موبائل فونز پر پاکستان میں پورن موویز دیکھنے والوں میں خواتین ٹریفک کا80 فیصد ہیں
باوجود اسکے مجھے خود اس سروے پر کافی تحفظات ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے پاکستان میں پورن مویز کا کاروبار زور و شور سے جاری ہے جو کہ اب ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے 2015 کی گوگل رپورٹ کے مطابق روزانہ نوے لاکھ پاکستانی پورن ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں ۔ جبکہ بھارت سے روزانہ چھ کروڑ لوگ فحش ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں۔جس سے پورن انڈسٹری روزانہ کروڑوں ڈالر کا منافع کماتی ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ویب سائٹس بلاک ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح مطلوبہ سائٹس تک پہنچ ہی جاتی ہے ۔ جبکہ گوگل پر پورن تصاویر دیکھنے والوں کی تعداد پاک و بھارت میں کروڑوں میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 92% موبال یوزر اپنے فون پر ہفتے میں کم از کم دو بار فحش ویب سائیٹس کا وزٹ ضرور کرتے ہیں
یوں تو پورنوگرافی کی تاریخ بہت پرانی ہے آج بھی قدم اہرام اور پتھروں پر برہنہ نقش و نگار دریافت ہورہے ہیں جو ہزاروں سال پرانے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں جدت آتی گئی پتھروں کے بعد لکڑی اور کپڑے پر قابل اعتراض نقش ونگار بنائے جاتے اور انکو سیکرٹ رکھا جاتا اور انتہائی معیوب سمجھا جاتا مگر اسکے بعد 1839 میں کیمرہ ایجاد ہوا ۔ اس ایجاد نے جہاں سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا چمتکار کیا وہیں یہ بہت جلد پورن گرافی کا اہم ہتھیار بن گیا ۔ 1855 میں پہلی باراسے پورن گرافی کیلئے استعمال کیا گیا اسکے بعد 1876 میں ویڈیوکیمرہ ٹیکنالوجی منظر عام پر آئی تو وڈیو ٹیکنالوجی کے وجود میں آتے ہی یورپی ممالک میں فلم ساز انڈسٹری کی ابتدا ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ پورن انڈسٹری کا آغاز ہوا ۔ پہلی پورن فلم 1895 میں ریلیز ہوئی ۔ 1980 میں وی سی آر پاکستان میں داخل ہوا تو اپنے ساتھ پورن فلموں کی صورت میں فحاشی کا سیلاب بھی ساتھ لایا ۔ یورپی کمپنیز نے جب ایشیائی لوگوں کا وی سی آر کی طرف رجحان دیکھا تو ان کی آنکھیں لالچ کی چمک پیدا ہوئی۔ یوں فحش فلمیں پاکستان بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں بلیک ہوکر بکنے لگیں۔ اور پھر 1992 میں یورپی کمپنی برین نیٹ نے پاکستان میں پرائیویٹ طور پر انٹرنیٹ لانچ کیا جسکی سپیڈ 128k تھی ۔ 1995 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ یعنی پی ٹی سی ایل نے انٹرنیٹ آل پاکستان کیلئے خرید لیا ۔ سن 2000 میں انٹرنیٹ پاکستانی عوام میں مقبول ہونا شروع ہوا ۔ اس کے ساتھ ہی پورن گرافی کا زہر بھی سرحدیں پھلانگتا ہو ا داخل ہوا۔ انٹر نیٹ میں آن لائن مارکیٹنگ پروسیس کھول کر پورن گرافی کو بطور پراڈکٹ پیش کیا گیا ۔ جسے عوامی سطح پر اتنی پزیرائی ملی کہ سب ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔ یورپی پورن انڈسٹریز کو سب سے زیادہ آن لائن ٹریفک ایشیا سے ملی جو روز بروز بڑھتی گئی جسکا سلسلہ آج تک جاری ہے
پاکستان میں پہلی پورن مووی 1989 میں کراچی میں بنائی گئی جسکے بعد ایک طوفان کھڑا ہوا مگر ایسے واقعات کی روک تھام کیلیے کچھ نا کیا گیا اسکے بعد یہ سلسلہ خفیہ طور پر چلتا رہا مگر پاکستان میں بنی موویز بیرون ملک بھیج دی جاتی . مگر انٹرنیٹ آنے کے بعد یہ سب چھپانا ممکن نا رہا اور آئے دن نئے نئے سکینڈلز سامنے آنے لگے۔ جن میں راولپنڈی کی ڈاکٹر سیریز، مریدکے سے کرن شہزادی، کراچی کی ماڈل سنیتا، لاہور سے جنید اور ثانیہ جیسی پروفیشنل موویز مارکیٹ میں آئیں تو ہلچل مچ گئی اور دھڑا دھڑ گرفتاریاں شروع گئیں مگر یہ بے حیائی کا جن بوتل سے نکل چکا تھا جسے قابو کرنا ناممکن تھا چند ہی سالوں میں ہزاروں پروفیشنل اور نان پروفیشنل پاکستانی ہوم میڈ موویز انٹرنیٹ پر موجود تھیں جنہیں انٹرنیٹ سے ہٹانا بھی ناممکن تھا اور لاکھوں لوگوں کو شناخت کرکے گرفتار کرنا بھی ایک طرح سے ناممکن ہی تھا لہٰذا پورن موویز آنلائن دیکھنے کے حوالے سے نمبرون آنے کے بعد ایسی فحش ویب سائیٹس کو بند کردیا گیا جوکہ میرے خیال سے ایک بچگانہ فیصلہ تھا انٹر نیٹ صارفین vpn استعمال کرکے کسی بھی سائیٹ تک رسائی حاصل کرسکتے تھے اور کرتے بھی رہے مگر ہمارے ادارے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے خود کو محفوظ تصور کرتے رہے۔
حال ہی میں the tribune اور نیویارک ٹائمز نے اپنی ویب سائیٹس اور اخبارات میں سٹوری رپورٹ کی جسکے مطابق کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں باقاعدہ پورن فلموں کے سٹوڈیوز قائم ہیں جو خفیہ طور فلمیں بنا کر یورپ سمگل کررہے ہیں ۔ اسکے علاوہ بے شمار ایسے گروہ سرگرم ہیں جو کیمراز سے وڈیو شوٹ بنا کر ویب سائیٹس کو بیچتے ہیں جس میں چائیلڈ پورنوگرافی سرفہرست ہے ۔ حالیہ قصور واقعہ جس میں سینکڑوں بچوں کی پورن موویز سامنے آئیں اسکے علاوہ سرگودھا ، گوجرانوالہ ، شیخوپورہ کراچی اور پشاور میں بھی ایسے بےشمار گروہ پکڑے گئے اور بےشمار ایسے ہیں جو آج تک پکڑمیں نہی آئے بلکہ بااثر افراد کی سرپرستی میں یہ غلیظ دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں