راولپنڈی سازش کیس: پرچھائیاں اور اثرات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

وزیر اعظم لیاقت علی خان 9مارچ1951ء کو قوم کے سامنے انکشاف کرتے ہیں، ’کچھ دیر پہلے دشمن کی ایک سازش پکڑی گئی ہے جو کامیاب ہو جاتی تو ملک میں افراتفری پھیلتی۔ پاک فوج کی وفاداری ملیامیٹ ہو کر رہ جاتی۔ سازش پر عمل کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جا رہا تھا۔ حکومت کو سازشیوں کے ناپاک ارادوں کا بروقت علم ہوگیا چنانچہ یہ لوگ پکڑے گئے۔ سازشیوں کا سرغنہ فوج کا چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل اکبر خان ہے جبکہ دیگران میں بریگیڈیئر ایم اے لطیف ، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور میجر جنرل اکبر خان کی بیگم نسیم جہاں شاہنواز شامل ہیں۔‘
وزیر اعظم نے جس سازش کا ذکر کیابعد میں اس پر کیس چلا جسے راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا۔ وزیر اعظم کے انکشاف کرنے سے دو ہفتے قبل 23 فروری آخری جمعہ کے روز راولپنڈی میں جنرل اکبر خان کی سرکاری رہائش گاہ پر کئی گھنٹے گرما گرم اور پر جوش بحث ہوتی ہے۔ مبینہ طور پر اس میں اس تجویز پر غور ہوتا ہے کہ حکومت کا تختہ کیسے الٹا جائے جو امریکی کیمپ میں شامل ہو چکی ہے۔ آٹھ گھنٹے بعد بھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہوتا تو مہمان گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ان مبینہ سازشیوں یا انقلابیوں میں یہ اکابرین شامل تھے۔ میجر جنرل نذیر احمد، ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ، برگیڈیئر ایم اے لطیف، برگیڈیئر صادق خان، لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین، لیفٹیننٹ کرنل نیاز احمدارباب، میجر اسحاق احمد، میجر حسن خان، کیپٹن خضر حیات، کیپٹن ظفراللہ پوشنی، بیگم نسیم اکبر، فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، محمد حسین عطا۔ لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف بھٹی وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ یہ کیس انھی کی گواہیوں پر لڑا گیا۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا )کے سب انسپکٹر یونس عسکرعلی شاہ کا نام مخبر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ان کا جنرل اکبر کے گھر آنا جانا تھا. ان کے بھائی سلطان علی فوج میں کرنل تھے جس کی وساطت سے سی این سی ایوب خان تک پیغام پہنچا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایوب خان نے سلطان علی کے ذریعے عسکر علی کواستعمال کیا۔
فوجی و غیر فوجی ملزمان پر مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل کی تشکیل پر آئین ساز اسمبلی میں قانون سازی کی گئی۔ خصوصی ٹربیونل کو راولپنڈی کانسپائریسی سپیشل ٹربیونل ایکٹ 1951ء کا نام دیا گیا۔ اس قانون کے تحت ملزموں کو کئی بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ جو بھی فیصلہ کرناتھا اس کے خلاف اپیل کا حق سلب کر لیا گیا تھا۔ ملزموں کو ضمانت اور جیوری کا حق نہیں تھا۔ عالمی سطح پر آوازیں اٹھیں تو کہا گیا کہ ٹربیونل میں ایک رکن فیڈرل کورٹ(سپریم کورٹ)کے جج ہیں۔ ان کی وجہ سے ٹربیونل کی حیثیت فیڈرل کورٹ کی ہو گئی ہے۔ حالانکہ اسی قانون میں لکھا گیا کہ ٹربیونل کو ہائیکورٹ کے تمام اختیارات حاصل ہیں۔ قانون کے تحت ٹربیونل کی کارروائی خفیہ رکھی جانی تھی۔ عدالتی کارروائی کا آغاز15جون 1951ء کو ہوا۔ ٹربیونل کی سربراہی فیڈرل کورٹ کے جسٹس عبدالرحمن کر رہے تھے۔ ممبران میں پنجاب ہائیکورٹ کے جسٹس عبدالرحمن اور ڈھاکہ ہائیکورٹ کے جسٹس سمیر الدین تھے۔ 5جنوری 1953ء کو ٹربیونل نے فیصلہ صادر کیا۔ اس دوران وزیر اعظم لیاقت علی خان شہید کردیے گئے تھے۔ ایوب خان آرمی چیف تھے۔ 
ٹربیونل کے فیصلے میں جنرل اکبر خان کو 12سال قید کی سزا دی گئی۔ باقی فوجی افسروں کو4 سے پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔ میجر جنرل نذیر احمد کو اتنی ہی سزا دی گئی جتنی کئی دہائیوں بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں5 رکنی سپریم کورٹ کے بنچ نے دی تھی۔ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر 5 پانچ سال کے لیے قید کے مستوجب ٹھہرے۔ تمام مجرم سزائیں سننے کے بعد جلد رہا کردیے گئے۔ یہ کرشمہ سسٹم میں سقم کے باعث رونما ہوا۔ 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی یہ کہہ کر برخاست کر دی کہ وہ اپنا مینڈیٹ کھو بیٹھی ہے کیونکہ یہ آئین بنانے میں ناکام رہی ہے۔ گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف سپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین عدالت گئے۔ سندھ ہائیکورٹ نے سپیکر کے حق میں فیصلہ دیا۔ جو فیڈرل کورٹ میں نہ ٹھہر سکا۔جسٹس منیر کی فیڈرل کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھ دیا کہ آئین ساز اسمبلی نے جو قوانین بنائے وہ اس وقت ہی قانونی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں جب ان کی توثیق گورنر جنرل نے کر دی ہو۔ اس طرح ٹربیونل کے قیام کا قانون بھی کالعدم ہو گیا۔ سزا یافتگان نے اس قانون کو چیلنج کیا فیصلہ ان کے حق میں آیا اور رہا ہو گئے۔ اس سازش کیس کی پرچھائیاں اور اثرات آج بھی نظر آ رہے ہیں۔
ملزموں کو سزا دینے کے حوالے سے مشرقی بنگال کے اس دور کے بڑے اور معروف عالم دین مولانا محمد اسحاق بڑے بے قرار نظر آئے۔ حضرت مولانا نے بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ فتویٰ جاری فرمایا کہ اگر وزیر اعظم اس جرم کے بارے میں رائے رکھتے ہیں کہ سازش واقعی ہوئی ہے تو مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کو فوراً لٹکا دیا جائے۔وزیر اعظم صاحب اس عالمانہ فتوے سے متفق نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ شہری اور فوجی حلقوں میں عمومی تاثر ہے کہ سازشیوں کو بغیر مقدمہ گولیاں مار دی جائیں۔ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کی نچلی ذات کی جماعت ادی واسی اچھوت لیگ نے مولانا کے فتوے کی دل و جان سے تائید کی۔ 1967ء میں جنرل اکبر خان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بھٹو کی پہلی حکومت کے سلامتی کے امور کے مشیر بنے۔ جنرل اکبر نے ’ریڈرز اِن کشمیر‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں راولپنڈی سازش کیس کو ایک ’کارٹون کہانی‘ کہہ کر ایوب خان کو اس کا ’میرِ رقص‘ کہا۔بعد ازاں 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انھیں مشیر برائے قومی سلامتی مقرر کیا گیا تھا۔اسی دوران ان کے ضبط کیے گئے اعزازات بھی لوٹا دیے گئے۔
برسبیل تذکرہ بریگیڈیئر نیاز احمد 1977ء میں برطرف کردیے گئے تھے۔ یہ واقعہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی سربراہی کے دوران پیش آیا جب انھوں نے لاہور میں پی این اے کے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔برطرفی کے کئی سال بعد، برگیڈئیر نیاز نے فوج کے لیے کنٹریکٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ وہ فوجی سامان، ہتھیاروں کی فراہمی، اور دیگر دفاعی امور میں مشاورت فراہم کرتے رہے۔ برگیڈیئر نیاز نواز شریف اور پرویز مشرف کے دوست تھے۔ انھوں نے نواز شریف کی سرور پیلس منتقلی اور پھر پاکستان واپسی مشرف کے ساتھ تعلقات کے باعث ممکن بنائی تھی۔سرسری انداز میں بھی دیکھیں تو اج پاکستان میں بہت کچھ ویسا ہو رہا ہے جیسا 1951 میں راولپنڈی سازش کی سماعت کے دوران ہوتا رہا۔وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت گرانے کے لیے کیا یہ واقعی سازش کی گئی تھی یا پھر اس دور کی حکومت کا یہ وہم تھا۔