’’ منافق قوم ‘‘

تحریر: None

| شائع |

چیراس جایا  ملائیشیا کے دارالحکومت کوا لالمپور کا فیکٹری زون ہے،وسیع وعریض،صاف ستھرا ،مصروف اور انتہائی خوبصورت علاقہ۔ملائیشیا میں چینیوں کی بڑی تعداد موجود،بہت زیادہ فیکٹریاں چینی کمپنیوں کی ہیں۔ ملک میں اور بھی قومتیں آباد ہیں، جیسے تامل وغیرہ،تامل لڑکیاں کالی یا گندمی رنگت کی ہوتی ہیں،قد زیادہ تر لمبے اور صحت مند ہوتی ہیں،چینی لڑکیوں کی رنگت سفید لیکن قد چھوٹے ہیں۔ملائی لڑکیوں کی سفید رنگت،لمبے قد،بھرے ہوئے جسم،خوبصورت نقش،زبردست شخصیت کی مالک ہوتی ہیں۔ملائیشیا کی تمام لڑکیاں سکارف اوڑھتی ہیں،تامل اور چینی لڑکیاں کھلے بال چھوڑتی ہیں۔ملائیشیا جانے کا اتفاق ہوا، میں چیراس جایا میں ایک دوست کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔روز گھومنے پھرنے جاتے۔ ایک ہفتہ گزر گیا،مجال ہے کسی لڑکی یا کسی خاتون  سے کسی بھی وجہ سےکو ئی سلام دعا،ہیلو ہائے ہوئی ہو۔ایک شام ایک پارک کے باہر بس سٹاپ پر کھڑا تھا،ایک ملائی لڑکی نے میری طرف غور سے دیکھا اور میری طرف آنےلگی،یوں لگ رہاتھا جیسے وہ مجھے جانتی ہو،یا ایک ہی نظر میں،میں اسے اچھالگا ہوں،یہ بھی تو ہوسکتا تھا وہ مجھے کسی گھر یا مقام کا راستہ پوچھنا چاہتی ہو، یا کوئی اور مدد درکار ہو۔میرے ذہن میں طرح طرح کے سوال جنم لے رہے تھے۔

بہرحال ایک بات تھی،میرے اندر لڈو پھوٹ رہے تھے،کہ  ایک خوبصورت لڑکی قریب آرہی ہے۔ نہ جانے ایک ہی لمحے میں میرے ذہن میں کیسے کیسے خیال آئے،کیا کیا خواب جاگتی آنکھوں دیکھ لیے،چشم تصور میں کیسے کیسے  نظارے کرلیے،مستقبل کے بارے  بھی پلاننگ کر بیٹھا۔ وہ اور قریب آئی،وہ اتنی حسین  اور دل پسند تھی جیسے گلاب اور صندل ملا دیئے گئے ہوں،اسکی آنکھیں جیسے کشمیری جھیلوں کا گہرا پن،ہونٹ جیسے سرخ انگارے، وہ عمر کے اس حصے میں تھی جہاں بچپن اور جوانی ایک دوسرے  سے گلے ملتے ہیں۔وہ پاس آئی،کہنے لگی،آپ پاکستانی ہیں ؟ میں نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائی اور بڑے ادب واحترام سے بولا،جی ،جی۔۔۔ وہ پھربولی ۔۔۔!!

کیا آپ کے ملک میں کوئی روزگار نہیں ۔۔۔؟ کیا وہاں فیکٹریاں،کارخانے نہیں۔۔۔؟ کیاتمہارے ملکی خزانے خالی پڑے ہیں۔۔۔؟ کیا تمہارے حکمرانوں کے پاس کوئی پلاننگ نہیں۔۔۔؟ وہ جیسے جیسے بات کررہی تھی،اس کا غصہ بھی بڑھتا جارہا تھا،وہ مجھے پاکستان کے کسی دوردراز گاؤں کی ان پڑھ خاتون کی طرح طعنے مار رہی تھی۔۔۔ کہنے لگی !!

بھوکے ننگے لوگ،کنگلے ملک کے شہری،یہاں منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں،ہمارے وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے،جاؤ اپنے ملک میں کوئی جاکر کام کرو۔۔۔وہ اتنا کہہ کر آگے چلی گئی،میں ایک لفظ بھی نہ بول سکا،بس  سڑتا،بھلتا رہ گیا۔۔۔دل کرے یہاں ہی خودکشی کرلوں،اتنی بے عزتی۔۔۔پھر میرے اندر کا دوسرا انسان جاگا۔۔۔دل کرے،اس کے پیچھے جاؤں،اس  کا منہ نوچ لوں،اس  کی زبان کھینچ لوں،اس کو بتاؤں،چلو میرے  ساتھ پاکستان،تمہیں دکھاؤں وہاں کی امارت،اس کو بتاؤں، دیکھو آکر ہمارے جاتی امرا ءکے محل، ہمارے بلاول ہاوسز،ہمارے چوہدری ہاؤسز،کنگری ہاؤس ،تمہاری آنکھیں کھل جائیں۔

اس کو دکھاؤں، اپنے اے سی،ڈی سی  کی آٹھ،آٹھ،دس ،دس کروڑ کی گاڑیاں،اس کو اپنے بیوروکریٹس کے کئی کئ  کنالوں میں بنے بنگلے دکھاؤں۔اس کو دکھاؤں اپنے حکمرانوں کی شان وشوکت،جب آتے جاتے ہیں،سڑکیں بند ہوجاتی ہیں،پچاس،پچاس گاڑیاں انکے پروٹوکول کیلئے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔اس  کو بتاؤں، دیکھو امارات  جاکر،ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اربوں ڈالرز کی جائیدادیں،برطانیہ جاکر دیکھو ہمارے فلیٹس،ہماری جائیدایں اور ڈالروں سے بھرے بینک۔سوئس بینکوں میں کھربوں روپے  دیکھو،امریکا میں جائیدادوں کا حساب لگاؤ،بنگلہ دیش میں جاکر دیکھو،ماشاءاللہ پاکستانیوں کے کارخانے،دنیا کے کسی بھی ملک چلے جاؤ،آپ کو پاکستانیوں کی جائیدادیں مل جائینگی۔اس کو یاد کراؤں،جب پانامہ  پیپر آیا تھا،دیکھا نہیں آپ نے،کتنی ہماری جائیدادیں منظر عام پر آئیں تھیں۔۔۔اس کو بتاؤں ، دکھاؤں اور چیلنج کروں ۔۔۔ کہ اپنے ملک کا ایک جنرل دکھا دو،جس کے دوسرے ملک میں جزیرے ہوں،اربوں  کی جائیدادیں ہوں۔۔۔ لگی بکواس کرنے،کہ ہم کنگلے ہیں،پوچھوں اس سے،دکھاؤ ۔۔۔!!

مجھے اپنےحکمرانوں کی امارت،شان وشوکت،دکھاؤ اپنے بیوروکریٹس کی گاڑیاں اور بنگلے،اس سے پوچھوں،اپنے ملک میں ایک بھی  پٹواری لاکھ پتی  دکھا دو، اور ہمارے ملک آؤ،آپکو ارب پتی پٹواری دکھاؤں۔۔۔۔بس میں فل تپ چکا تھا۔۔۔اس کو پاکستان لاؤں اور اپنے ملک کا سسٹم دکھاؤں،دیکھو ہماری پولیس،جو چوری ہونے سے چار دن پہلے چوروں کا سراغ لگا چکی ہوتی ہے،اسے  اپنی عدالتیں دکھاؤں،اپنے  بہادر،دلیرججز دکھاؤں، جو سزائے موت کے ملزم کو بری کرسکتے ہیں،بری ہونے والے شخص کو سزائے موت دے سکتے ہیں،وہ سزا یافتہ افراد کو بیرون ملک علاج کیلئے بھیج سکتے ہیں۔اس کو پاکستانی میں ترقی کی راہیں دکھاؤں،اس کو ایسے افراد سے ملاؤں جو آج سے پانچ،دس پہلے بجلی کا بل ادا نہیں کرسکتے تھے،آج  وہ ارب پتی بن چکے ہیں،اس کو اپنی تعلیمی ادارے دکھاؤں،اس کو اپنی موٹرویز دکھاؤں،میٹرو دکھاؤں،اورنج ٹرین دکھاؤں،سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں دکھاؤں۔۔۔ پھر پوچھوں،بتاؤ !!

کنگلے کون ہیں۔۔۔؟میں اس کی ہر بات کا دل ہی دل میں جواب دے چکا تھا،اور غصہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔۔۔لیکن اس  کی آخری بات مجھے رلا رہی تھی،وہ دل سے نہیں نکل رہی تھی،جب اس نے جاتے ہوئے کہا تھا،منافق قوم۔۔۔۔واپس اپنے کمرے میں آگیا،بستر پر لیٹ گیا،منافق والا لفظ کانوں میں گونج رہا تھا،توجہ ہٹانے کیلئے فیس بک دیکھنے لگا،ڈاکٹر اسرار کی ایک ویڈیو پر نظرپڑ گئی،سننا شروع کیا،ڈاکٹرصاحب فرما رہے تھے ’’ پاکستانی دنیا کی سب سے بڑی مناق قوم ہے ‘‘ ۔۔۔بس پھر آخری غصہ بھی ختم ہوگیا،ٹھنڈا پانی پیا اور سو گیا۔