پاکستان کو باہر سے نہیں اپنے اندر کے دشمن سے خطرہ ہے:محمود اچکزئی

تحریر: None

| شائع |

دشمن اندر کا ہو یا باہر کا۔ وہ دشمن ہی ہوتا ہے اور اس سے خطرہ ہی رہتاہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ باہر کے دشمن کے وار پتہ چل جاتا ہے جبکہ اندر کا دشمن پیٹ کے مروڑ کی طرح سسٹم کو تلپٹ کردیتا ہے۔ کبھی اندر اور باہر کے دشمن مل بھی جاتے ہیں کیونکہ ایجنڈا یکساں ہوتا ہے۔ اندر کے دشمن کی پہچان بہت مشکل ہوتی ہے۔اندرونی دشمن کی جتنی پہچان مشکل ہے اتنی ہی آسان بھی ہے۔ یہاں ہر پارٹی دوسرے کو ملک کا دشمن سمجھتی اور قرار دیتی ہے۔ ہر لیڈر دوسرے کو سیاسی  اختلاف کی بنا پر غدار قرار بھی دے دیتا ہے۔ حکومتی پارٹیاں اور ادارے بتا رہے ہیں کہ کونسی پارٹی ملک دشمن ہے۔ کون  لوگ ملکی سالمیت کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اچکزئی صاحب حکومت کی طرف سے ملک دشمن قرار دی گئی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں حکومتی پارٹیوں پر بھی ایسے ہی الزامات دھرتی ہیں۔کئی لوگ تو اچکزئی صاحب کو بھی ایساہی گردانتے ہیں۔ کبھی ایم کیو ایم کو اسی طرح کے  طعنے ملاکرتے تھے۔ اس کے آج کے لیڈروں نے اپنے بانی کے نظریات بوری میں بند کر کے لندن پارسل کردیئے۔ تاہم رویہ اور لب و لہجہ نہیں بدلا۔ اس کے لیڈر یہ ڈائیلاگ دہراتے رہتے ہیں 'ہم کیا شریف ہوئے کہ دنیا بدمعاش ہو گئی'۔اب دھمکی دی ہے کہ ہمارا گورنر بدلا تو حکومت سے الگ ہونے پر غور کر سکتے ہیں۔ ٹھوک بچاکر نہیں کہا کہ الگ ہوجائیں گے۔ اگر ٹسوری صاحب کو سچ مچ تبدیل کر دیا تو حکومت سے الگ ہونا مجبوری نہ بن جائے۔باڈی لینگویج کہتی ہے کہ ہمارا گورنر تبدیل کر دیا تو بھی ساتھ رہیں گے۔