آئینی ترامیم ہو جاتیں تو مارشل لاء لگ جاتا، عمر ایوب

تحریر: None

| شائع |


 کیا ترامیم مارشل لگانے کے لیے کی جا رہی تھیں؟ مارشل لاء لگانے کے لیے کیا ایسی ترامیم یا کسی بھی طرح کی ترامیم اور قانون سازی  کی ضرورت ہوتی ہے؟مارشل لا تو بس ایسے ہی چلتے چلتے اٹھتے بیٹھتے لگ جاتا ہے۔ بعض اوقات تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا. عمر ایوب جن ترامیم کی بات کر رہے ہیں شروع میں یہ منہ زبانی متعارف کرائی گئیں۔ اس کی منظوری کے لیے صبح سے آدھی رات تک فاضل ارکان پارلیمنٹ اپنے اپنے ایوانوں میں تشریف فرما رہے۔ پھر ایوان بالا اور ایوان زیریں کے اجلاس ملتوی ہو کر 16 ستمبر پیر کے روز پر چلے گئے۔ اس کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئے۔ حکومت اور اتحادی پارٹیاں اس ترمیم کی جتنی قوت سے حامی تھیں اپوزیشن اتنی ہی شدت سے مخالف تھی۔ مولانا فضل الرحمن پر حکومت کا بھروسہ اور اعتماد دو چند تھا۔ دو چار ووٹوں کی کمی تھی وہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد معزز ارکان نے بے پایاں خواہش کیساتھ''یرغمال بالرضا " بن کر پوری کر دی۔

مولانا نے ووٹنگ سے عین قبل مزید وقت مانگ لیا لہذا ترمیم ہوتے ہوتے مؤخر ہو گئی۔ عمرایوب مزید کہتے ہیں کہ حکومت اور اتحادی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اس پر جواب آں غزل تو نہیں آیا مگر خاموشی بھی اختیار نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شازیہ مری نےطعنہ و طنز کے تیر برساتے ہوئے کہا کہ جنرل ایوب کا پوتا پیپلز پارٹی کو جمہوریت اور اقدار نہ سکھائے۔ مارشل لاء کے خواب دیکھنے والے شکست خوردہ ہیں۔ویسے جب اقتدار کے انگور کھٹے ہو جائیں تو کئی سیاست دانوں کے اندر مارشل لا کی خواہش مچلنے لگتی ہے۔ ہم نہیں تو اقتدار میں حریف بھی کیوں ہوں۔ حریف بھی وہ جو ماضی کی اینٹ کے جواب میں آج پتھر اٹھائے ہوئے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ بہت کچھ بدلتا رہتا ہے ۔عمر ایوب کے والد گوہر ایوب خان مسلم لیگ نون کے فیصلہ ساز لیڈر ہوا کرتے تھے ۔وزیر خارجہ  اور سپیکر قومی اسمبلی رہے۔

عمر ایوب ان دنوں، ساڈا میاں آوے ای آوے کے نعرے لگایا کرتے تھے ۔ آج کل تہاڈا میاں جاوے ای جاوے کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔شازیہ مری کی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے قریبی ساتھی اور وزیر خارجہ تھے۔ ایوب خان کو بھٹو صاحب  ڈیڈی بھی کہا کرتے تھے ۔بھٹو  گوہر ایوب بھائی بھائی ۔وقت وقت کی بات ہے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کل شازیہ مری اور عمر ایوب ہو سکتا ہے ایک پلیٹ فارم پر سیاست کر رہے ہوں۔ پاکستان میں کبھی کہا جاتا تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی سکتے ہیں آگ اور پانی مل سکتے ہیں۔ہمالیہ اپنی جگہ بدل سکتا ہے۔ مچھلیاں تو درختوں پر چڑھ سکتی ہیں مگر نواز شریف اور بے نظیر  اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے۔ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان ہاتھ نہیں ملا سکتے۔مگر  چشمِ فلک ایسا نظارہ دیکھ رہی ہے۔
**