بل زیادہ آنے پر رکشہ ڈرائیور نے رکشہ سڑک کے درمیان کھڑا کر کے ڈانس شروع کر دیا۔

تحریر: None

| شائع |

احتجاج کا اپنا اپنا طریقہ اورطرز  ہے۔ یہ عقل مند ڈرائیور تھا۔ چالان ہونے پر ایک رکشہ ڈرائیور نے اپنے رکشہ کو آگ لگا دی تھی۔ گویا روزی کا اڈا جلا ڈالا۔ فیصل آبادی رکشے والے نے سرِ بازار رکشہ کھڑا کر کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ اس پر تماشائیوں نے چند جگتیں لگائیں جواس کے جسم کے مختلف حصوں پر لگیں تو کہیں کھجلی اور کہیں گدگدی ہونے لگی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے کپڑے اتار پھینکے اب وہ صرف جانگیے میں تھا اور ساتھ ہی احتجاجاً رقص کرنے لگا۔ اس کا مقصد لوگوں کو خاص طور بجلی کے بل کی جانب متوجہ کرنا تھا جس میں وہ کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنا کام کر دیا آ گے تیرے بھاگ لچھیے۔ یہ ڈرائیور صاحب کا جانگیہ ڈانس تھا۔ ایسے ہی ایک سردار جی کے ڈانس کا قصہ مشہور ہے۔ سردار جی میلے پر گئے۔ وہاں ایک جگہ لوک رقص ہو رہا تھا۔ سردار جی نے جوش میں آکر تہہ بند اتارپھینکا ۔ اب وہ کچھے میں تھے اور محو رقص ہو گئے۔ رقص پر تماشائیوں میں سے کو ئی عش عش کر رہا تھا کوئی بس بس کہہ رہا تھا۔ اس نے گھر آکر اپنی پتنی کو بتایا کہ آج میں ناچ رہا تھا تو لوگ میرا کھچا دیکھ دیکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ سردارنی  نے حیرانی سے اپنے نچلے ہونٹ پر انگلی رکھتے ہوئے صحن میں تار پر لٹکے کچھے کی طرف اشارہ کیا تو سردار جی نے کہا ہائیں!