مذاکرات کا دوسرا دور مکمل، پیپلز پارٹی کے شکوے نون لیگ کی تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی

تحریر: None

| شائع |

قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا تو پیپلز پارٹی روٹھی روٹھی نظر آئی ۔ان کو منانے کے لیے ڈپٹی وزیراعظم کو جانا پڑا،پیپلز پارٹی اتنی بھی نہیں روٹھی تھی کہ اجلاس کا دل و جان سے بائیکاٹ کر دیتی۔اجلاس سے دور رہنا ہوتا تو اس کے ارکان ایوان کے ارد گرد گھوم نہ رہے ہوتے جن کو اسحاق ڈار گھیر گھار کر ایوان میں لانے میں کامیاب  ہوگئے۔وہی مشق پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب میں بھی دہرائی گئی۔اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں خوب ہلا گلا کیا تھا ۔پنجاب اسمبلی میں صورتحال ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور کٹ کٹا پے کی نوبت آیا ہی چاہتی تھی۔پیپلز پارٹی اس کی زد میں آ سکتی تھی لیکن اپنی تیوری چڑھانے والی ناراضی کی وجہ سے بال بال بچ گئی۔

شہباز شریف وزیراعظم بنے تو ان کو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آ رہی تھی کہ پرانے اتحادی ہیں پرانا اعتماد ہے پرانا پیار ہے اگلے پانچ سال مل جل کے پورے کرلیں گے لیکن اب منانے کے جھنجٹ میں پڑے ہوئے ہیں۔ بجٹ کے  مواقع پر پی پی پی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئی ۔اسحاق ڈار پی پی کے چند ارکان کو اجلاس میں لانے میں کامیاب ہو گئے یہ پیپلز پارٹی کی طرف سے  اجلاس میں علامتی شرکت تھی جب کہ ایک روز قبل اس پارٹی کا ملامتی رویہ  یعنی حکومت کو ملامت کرنے کا، جس کا خود اٹوٹ حصہ ہیں، سامنے آ چکا تھا۔اب جشن مناؤ  کی طرز پریہ " اتحادی مناؤ حکومت" بن چکی ہے. مولانا فضل الرحمن پرانے اتحادی ہیں شہباز شریف بجٹ منظور کروانے کے لیے ان کو منانے ان کے در دولت پر حاضری دے رہے ہیں.

پیپلز پارٹی کا اچانک سے عین بجٹ کے موقع پر روٹھ جانا کچھ لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے مسلم لیگ نون سے کہا تھا قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں، بالکل نہ گھبراؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔وزارتیں آپس میں بانٹیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ہمیں کوئی وزارت نہیں چاہیے ہم تمہارے ساتھ ہیں،حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے ہم تمہارے ساتھ ہیں۔دو گورنر بنوا لئے، زرداری صاحب ایوان صدر کے مکین ہو گئے  کئی پارلیمانی کمیٹیوں پر ہاتھ صاف کر لئے پھر بھی کہا جاتا ہے حکومت میں شامل نہیں۔