پرواز 522 ۔۔۔جب اڑتے جہاز میں تمام سوار ہلاک ہوگئے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

یہ دن تھا 14 اگست 2005ء کا اور وقت صبح نو بج کر سات منٹ، جب ہلیوز کی فلائٹ 522 نے سائپرس کے لانیکا ایئرپورٹ سے ایتھنز کے شہر گریس کے لیے اڑان بھری۔ جہاز میں اس وقت 115 مسافر اور چھ کریو ممبرز سمیت 121 لوگ سوار تھے۔ جہاز کا کنٹرول ہینس مارٹن نام کے پائلٹ کے ہاتھ میں تھا جن کے پاس  16900 فلائنگز آرز کا تجربہ تھا۔ ان کے ساتھ  کو پائلٹ کے طور پر موجود تھے پیمپوس چارلمبوز، جو اپنی پروفیشنل لائف میں تقریباً 7549 گھنٹے فلائی کر چکے تھے۔

Helios Airways Flight 522 - Wikipedia
 رن وے سے ٹیک آف کرنے کے پانچ منٹ بعد یعنی نو بج کر 12 منٹ پر جہاز 12040 فٹ کی اونچائی پر پہنچ گیا۔ اس ہائٹ پر اچانک کاکپٹ میں ایک الارم بجنے لگتا ہے جب پائلٹس نے اس کے بارے میں انویسٹیگیٹ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ٹیک آف کنفگریشن وارننگ کا الارم تھا۔ پائلٹس کو یہ والا الارم سن کر حیرت کا شدید جھٹکا اس لیے لگا کہ ٹیک آف کنفگریشن وارننگ اس وقت سامنے آتی ہے جب جہاز ابھی گراؤنڈڈپر ہوتا ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی پر اس الارم کا بجنا پائلٹس کی سمجھ سے باہر تھا۔ چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ایئر ٹریفک کنٹرولر سے کانٹیکٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور جس لمحے وہ ابھی ایئر ٹریفک کنٹرولرز کو یہ سب بات بتا ہی رہے تھے اسی دوران کاکپٹ میں موجود کئی سارے الارمز ایک ساتھ بجنے لگے۔ جہاز کے یہ تمام الارمز اتنی شدت کے ساتھ بج رہے تھے کہ اے ٹی سی تک پائلٹس کی آواز بھی ٹھیک طرح سے پہنچ نہیں پا رہی تھی۔ 

Helios Airways Flight 522 - Crash Animation - YouTube
اس کے ساتھ ہی مصیبت کئی گنا اس وقت بڑھ گئی جب پلین کا ماسٹر کاشن الارم بجنے لگا جس کا مطلب یہ تھا کہ پلین کے بہت سے سسٹمز ایک ساتھ اوور ہیٹ ہو چکے ہیں، جہاں جہاز کے کاکپٹ میں پریشانی کا یہ عالم  تھا تو وہیں پیسنجر کیبنز میں بھی آفراتفری مچ گئی کیونکہ تمام مسافروں کو سانس لینے میں خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ کریو ممبرز اگرچہ انہیں پرسکون رکھنے کی کوشش تو کر رہے تھے لیکن تمام کوششیں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ فلائٹ کے کیبن میں آکسیجن لیول کم ہو جانے پر مسافروں کے سامنے آکسیجن ماسک آٹومیٹکلی لٹک پڑے۔ اس وقت تک جہاز 18 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ دونوں پائلٹس اے ٹی سی کے ساتھ اس ساری پرابلم کو شیئر کرنے کی کوشش تو کر رہے تھے مگر ایئر ٹریفک کنٹرولر تک ان کی آواز ٹھیک سے پہنچ نہیں پا رہی تھی اور چند ہی لمحوں کے بعد جہاز کا رابطہ اے ٹی سی سے مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد بھی کنٹرول ٹاور والے فلائٹ سے کانٹیکٹ بحال کرنے کی کافی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں اس فلائٹ کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ 
دوسری جانب جہاز اوپر کی جانب اٹھتا چلا جا رہا تھا۔ عام طور پر لانیکا سے ایتھنز پہنچنے کے لیے ایک گھنٹے 45 منٹ کی فلائٹ ہوتی ہے، یعنی اس جہاز کو تقریبا 10 بج کر 45 منٹ پر ایتھنز میں لینڈ کرنا تھا۔ نو بج کر 23 منٹ پر یہ پلین 34 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور نو بج کر 37 منٹ پر یہ فلائٹ ایتھنز کی فلائٹ انفارمیشن ریجن میں پہنچ گئی۔ 10 بج کر 12 منٹ سے لے کر 10 بج کر 50 منٹ تک ایتھنز کے فلائٹ کنٹرول والے اس جہاز سے بار بار رابطہ کرتے رہے لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملا۔ فلائٹ شیڈیول کے مطابق اس وقت تک جہاز کو ایتھنز کے ایئرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا لیکن جہاز کا کوئی آتا پتہ نہیں تھا۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے فوری طور پر گریس کی گورنمنٹ نے اپنے دو ایف 16 جہاز اس فلائٹ کو آسمان میں ڈھونڈنے کے لیے بھیجے اور چند ہی منٹس کے بعد ان دونوں فائٹر جیٹس نے ہیلیوز کی فلائٹ 522 کو کئی ہزار فٹ کی بلندی پر ڈھونڈ لیا۔ ان میں سے ایک فائٹر جیٹ کا پائلٹ اپنے جہاز کو اس فلائٹ کے بالکل قریب لے آیا تاکہ وہ دیکھ سکے کہ جہاز کے اندر چل کیا رہا ہے۔

 

 ایف سولہ کے پائلٹ کو جہاز کی کاکپٹ میں عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملا۔ کو پائلٹ کی سیٹ پر ایک پائلٹ بیٹھا ہوا تھا وہیں مین پائلٹ اپنی سیٹ پر سر جھکائے بالکل بے سدھ پڑا تھا۔ اس کے بعد فائٹر جیٹ کے پائلٹ نے اپنے جہاز کو پیچھے کیا اور فلائٹ 522 کی کھڑکیوں سے جہاز کے اندر کا جائزہ لیا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مسافر جہاز کے دونوں طرف دو فائٹر جیٹ اڑتے ہوئے دیکھ کر بھی کسی مسافر نے انہیں کوئی ری ایکشن نہ دیا۔ وہ تمام کے تمام اپنی سیٹس پر سر جھکائے بیٹھے رہے۔ کچھ دیر کے بعد فائٹر جیٹس کے پائلٹس نے دیکھا کہ ایک شخص کیبن سے نکل کر پلین کے کاکپٹ کی جانب جا رہا ہے اور پھر کچھ ہی دیر کے بعد وہ مین پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس شخص کو کاکپٹ میں آتے دیکھ کر فائٹر جیٹ کے پائلٹ نے ہاتھ ہلا کر اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ شخص بھی فائٹر جیٹس کے پائلٹس کو کچھ بتانا تو چاہ رہا ہے لیکن وہ کچھ بول نہیں پا رہا۔ اسی دوران فلائٹ 522 کے لیفٹ انجن نے کام کرنا بند کر دیا اور یہ جہاز ایک جانب کو جھکتے ہوئے تیزی سے زمین کی طرف آنا شروع ہو گیا۔
 پائلٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا وہ شخص جہاز کو کنٹرول کرنے کی کوشش تو کر رہا تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں صاف ناکام نظر آرہا تھا۔ ٹھیک 12 بجے جہاز کے رائٹ انجن نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔ اب اس جہاز پر کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا اور پھر 12 بج کر چار منٹ پر ایتھنز سے تقریبا 40 کلومیٹر دور یہ جہاز پہاڑوں میں گر کر کریش ہو گیا۔ اس حادثے میں جہاز میں موجود 121 لوگوں کی ڈیتھ ہو گئی۔ آپ ذرا ان فائٹرز جیٹس کے پائلٹس کی حالت چیک کیجیے کہ جن کے سامنے وہ جہاز تباہ ہونے کے لیے جا رہا تھا اور وہ صرف ایک تماشائی بن کر اسے دیکھ تو سکتے تھے لیکن ان 121 لوگوں کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے بعد فلائٹ 522 کے کریش ہونے کی خبر لوگوں کے ساتھ شیئر کر دی گئی۔ فوری طور پر ریسکیو آپریشن لانچ کیا گیا اور 121 لوگوں کی ڈیڈ باڈیز ایک ایک کر کے وہاں سے ڈھونڈ نکالی گئیں۔ لیکن جب اس افسوسناک حادثے کی وجہ جاننے کے لیے ان ڈیڈ باڈیز کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو ہولناک انکشافات سامنے آئے۔

 


 آٹاپسی رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ جہاز کے پائلٹ سمیت تمام مسافر بھی جہاز کریش ہونے سے پہلے ہی مر چکے تھے۔ اب بڑا سوال یہ سامنے موجود تھا کہ جب پائلٹ سمیت تمام لوگ جہاز کریش ہونے سے پہلے ہی مر چکے تھے تو  دو گھنٹے تک جہاز کا کنٹرول کس کے پاس رہا۔ کچھ دیر پہلے ہم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا تھا جو پیسنجر کیبن سے کاکپٹ میں آتا ہے اور جہاز کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ فلائٹ اٹینڈنٹ انڈریو پروٹومو تھے۔ یہ انڈریو ہی تھے کہ جنہوں نے جہاز کو اس وقت تک سنبھالے رکھا تھا اور آخر میں ایک ٹریفک کنٹرولر کو انہی کی آواز سنائی دی تھی۔ اینڈریو نے پانچ بار "مے ڈے  مے ڈے" کال کر کے ان سے مدد کی درخواست کی تھی۔ اینڈریو کے پاس جہاز اڑانے کی ابتدائی ٹریننگ تو موجود تھی لیکن ان کے پاس اتنا ایکسپیریئنس نہیں تھا کہ وہ بوئنگ 737 جیسے بڑے جہاز کو کنٹرول کر سکتے ۔ لیکن پھر بھی وہ فلائٹ 522 کو آبادی سے دور لے جانے میں کامیاب رہے۔
 لیکن جب اس جہاز کے کریش ہونے کی وجہ جاننے کے لیے انویسٹیگیشن ٹیم نے کام کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے یہ سمجھا گیا کہ جہاز کے انجن کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اسی  وجہ سے یہ جہاز تباہ ہو گیا۔ لیکن اندر بیٹھے ہوئے لوگ تو جہاز کریش ہونے سے پہلے ہی مرچکے تھے تو پھر یہ پراسرار واقعہ تھا کیا؟۔ تبھی ایک انویسٹیگیشن آفیسر کی نظر جہاز کے پینل پر موجود ایک بٹن پر پڑی تو اس نے  افسوس اور نیم غصّے سے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بے ساختہ کہا اوہ مائی گاڈ۔یہ بٹن تھا جہاز کے اندر ہوا کے پریشر کو سیٹ کرنے کا۔
 اس بٹن کو دیکھتے  ہی اس آفیسر کے سامنے ساری کہانی کھل گئی۔ یہ بٹن جہاز کے اندر ہوا کے پریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔ جہاز کا انجن جب کام کر رہا ہوتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ وہ باہر سے ہوا کھینچ کر کے جہاز کے اندر بھی بھیجتا ہے تاکہ اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کو مسلسل آکسیجن ملتی رہے۔ عام طور پر پریشر کنٹرول کرنے والے اس بٹن کو آٹوموڈ پر ہی رکھا جاتا ہے اور کبھی کبھار اگر اسے مینول کرنا پڑے تو جہاز کے پائلٹ یا کوپائلٹ کو مسلسل اس پر نگاہ رکھنی ہوتی ہے۔ 
اس حادثے سے ایک دن پہلے بوئنگ 737 جب روٹین کی سروس پر گیا تھا تو وہاں اس کی سروس کرتے ہوئے کسی ورکر نے لاپروائی سے اس بٹن کو مینول موڈ پر کرتے ہوئے جہاز کو واپس فلائٹ کے لیے بھیج دیا اور ٹیک آف کرنے سے پہلے پائلٹ یا کوپائلٹ کا دھیان اس جانب گیا ہی نہیں کہ جہاز میں آکسیجن لیول اور ہوا کا پریشر سیٹ کرنے والا بٹن آٹو کی بجائے مینول موڈ پر ہے اور یہی وجہ تھی کہ دھیرے دھیرے جہاز کے اندر آکسیجن کا لیول گرنے لگا اور جب کاکپٹ کے اندر الارم بجنا شروع ہوئے تو جہاز کے دونوں پائلٹس نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش تو شروع کر دی لیکن ایک مرتبہ بھی ان کا دھیان اس بٹن کی جانب نہیں گیا، یہی وجہ تھی کہ کاکپٹ کے اندر بھی آکسیجن لیول کم ہونا شروع ہو گیا اور دونوں پائلٹس بے ہوشی کی جانب جانے لگے۔ 
 پیسنجر کیبنز میں تو آکسیجن لیول کم ہونے پر آٹومیٹکلی ماسک سامنے آجاتے ہیں لیکن کاکپٹ میں ماسک نیچے نہیں گرتے، یہی وجہ تھی کہ آکسیجن نہ مل پانے پر دونوں پائلٹس بے ہوش ہو گئے۔ اسی دوران جہاز کے پیچھے بیٹھے ہوئے کریو ممبرز اور مسافر بھی ایک ایک کر کے بے ہوش ہونے لگے کیونکہ انہیں بھی آکسیجن دینے کے لیے صرف 12 منٹ تک سپلائی موجود تھی اور آکسیجن نہ مل پانے پر جہاز میں موجود تمام لوگ ایک ایک کر کے دم توڑ رہے تھے۔
 جہاز اب آٹو پائلٹ موڈ پر ایتھینز کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس میں موجود تمام لوگ مر چکے تھے سوائے ایک شخص کے جو فلائٹ اٹینڈنٹ اینڈریو تھا۔ وہ شخص اتنی دیر تک زندہ کیسے رہا ،؟ اینڈریو سکوںا ڈائیور بھی تھے اور سمندر کی تہہ میں جانے والے سکوبا ڈائیورز اپنی سانس لمبے عرصے تک روکنے کی مہارت رکھتے ہیں وہ پوری کوشش کر کے جہاز کے کاکپٹ تک پہنچے اور اسے کنٹرول کرنے کی  جدو جہد کرتے رہے۔ آخر تک وہ اس جہاز کو تباہ ہونے سے بچانے کی کوششوں میں لگے رہے لیکن  وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے اور وہ جہاز پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس پلین کریش کے کئی مہینے کے بعد بالآخر اس کی تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی جس میں یہ بتایا گیا کہ 121 لوگوں کے مرنے کی اصل وجہ صرف وہی ایک بٹن تھا جو آٹوموڈ کی بجائے مینول پر کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ اس رپورٹ میں یہ تو نہیں کہا گیا لیکن ہماری نظر میں ان 121 لوگوں کی موت کے اصل ذمہ دار اس پلین کی سروس کرنے والے وہ ورکرز تھے کہ جنہوں نے غفلت کے ساتھ اس بٹن کا موڈ چینج کر دیا۔مگر پائلٹس کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پائلٹس کو بھی ٹیک آف کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے تھا کہ جہاز کے تمام کنٹرول سسٹمز ٹھیک طرح سے کام کر رہے ہیں؟ پائلٹس کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ایک سوئچ اور بٹن کی پوزیشن کو چیک کرنا بھی پائلٹس کی ذمہ داری ہے۔اس ذمہ داری سے پائلٹس کی طرف سے نادانستہ پہلو تہی ہو گئی اور وہ اپنے ساتھ جہاز کے تمام سواروں کو بھی لے کر  موت کی وادی میں پہنچ گئے۔
اس سے ملتا جلتا حادثہ 238 مسافروں کو لے جانے والے ایم ایچ 370 کو پیش آیا۔ اس میں بھی ایئر پریشر کا بٹن مینول پر کر دیا گیا تھا۔یہ کسی ٹیکنیشن نہیں بلکہ شقی القلب پائلٹ کی طرف سے کو پائلٹ کو پیسنجر کیبن میں بھیجنے کے بعد ڈور لاک کر کے زہری احمد کی طرف سے کیا گیا تھا۔ایم ایچ 370 کے ساتھ کب کب کیا کچھ ہوا۔اس پر آئندہ بات کرینگے ۔