عارضی قحط سالی: دائمی خوش حالی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

پاکستان میں اناج کے بحران آتے رہے ہیں۔ ان میں سے1953ءکا بحران قحط  اور قحط سالی کے قریب قریب تھا۔ پاکستان میں جب غذائی قلت  پیدا ہوئی اس میں قدرت انسانوں اور انسانیت پر کبھی نامہرباں نہیں ہوئی۔ کہیں نہ کہیں بلکہ ہر کہیں انتظامیہ کی کوتاہی تھی۔ کبھی تو انتظامیہ قصور وار اور گناہ گار بھی نظر آتی ہے۔ بعض اوقات نیک نیتی سے کئے گئے کام اور اقدامات بھی الٹ پڑسکتے ہیں۔ پاکستان میں انسان کبھی بھوک سے پریشاں تھے۔ آج کسان وافر اناج کی پیداوار کے باعث ہراساں کیئے جا رہے ہیں۔ پاکستان

میں کبھی اناج کی کمی رہی ہے نہ اب ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہو گی۔
1953ءمیں گندم کی سرکاری قیمت13روپے من تھی مگر سال کے شروع میں25سے30روپے من مشکل سے  دستیاب تھی۔ وہ بھی بڑی پہنچ اور سفارش سے۔ گندم کی کمی اور عدم دستیابی کے باعث کئی لوگوں نے باجرے اور مکئی کا استعمال شروع کر دیا ۔اجناس کی نقل و حرکت میں اضافہ ہونا فطری امر تھا تو حکومت نے ضلع بندی کر دی ، جس سے  منڈیوں میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کا روزگار چھن گیا۔ اس دور کے اخبارات کو آج کھنگالا جائے، رپورٹس دیکھی جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سرگودھا اور لائلپور (آج کے فیصل آباد)کے کچھ علاقوں میں لوگوں نے درختوں کی جڑیں، پتے اور گھاس تک کھا کر گزارہ کیا۔ہو سکتا ہے ایسا ایک دو بار ہی ہوا ہو مگر یہ تاریخ میں رقم ہو گیا۔
2جنوری کو ایک خبر شائع ہوئی جس میں آئندہ 25افراد سے زیادہ کو دعوت پر بلانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ خلاف ورزی پر تین سال قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی تھی۔ ذخیرہ اندوزوں کی گرفتاریاں ہوتی رہیں مگر اصلاح احوال دور دور تک نظر نہ آ ئی۔ پنجاب میں میاں ممتاز خان دولتانہ وزیر اعلیٰ،خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم جبکہ دارالحکومت کراچی تھا۔ لوگ وزیر اعظم کا سیاپا کرتے تھے۔ ان کو قائد قلت کے نام سے پکارا گیا۔ ناظم الدین کے وزن پر ہاضم الدین کے نعرے لگائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے70ء کی دہائی کے دور حکومت میں بھی غذائی بحران نے سر اٹھایا تو ان کو بھی مخالفین کی طرف سے قائد قلت کا خطاب دیا گیا تھا۔
1953ءمیں غذائی قلت کی وجوہات جاننے اور آئندہ تدارک کے لیے کمیٹیاں بنائی گئیں۔ ان کی رپورٹس اور تجزیات میں کہا گیا کہ بارشوں کی کمی سے گندم کم پیدا ہوئی تھی۔اس صورت حال سے ہر کوئی پریشان تھا ۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ قحط کے پنجوں سے کب نجات ملے گی۔ 
6مارچ 1953ءکو لاہور میں میجر جنرل اعظم خان کی کمانڈ میں مارشل لاءلگا دیا گیا۔ اگلے دوتین روز میں پورے پنجاب میں غذائی قلت کا سرے سے خاتمہ ہو چکا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا مارشل لاءتھا جو ایک مذہنی تحریک دبانے کے لیے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی اجازت سے لگایا گیا تھا۔ اس تحریک کی طرح کیا گندم کے بحران کے پیچھے بھی پنجاب حکومت کا ہاتھ تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چینی اور گھی کی راشن بندی کی گئی تھی۔ فی فرد ایک پاؤ ہر مہینے چینی کا کوٹہ مقرر تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءلگایا تو چینی اوپن مارکیٹ میں دستیاب ہونے لگی۔ 
قدرت  انسانیت  پر مزید مہربان ہوئی ہے ؛ کم و بیش  تیس پنتیس سال قبل گندم کی فی ایکڑ پیداوار15سولہ زیادہ سے زیادہ 20من فی ایکڑ ہوا کرتی تھی۔آج ساٹھ 65من جبکہ انڈیا میں80من تک ہے۔ مکئی 90 من تک ہوتی ہے جبکہ سال میں مکئی کی چارفصلیں پیدا ہوتی ہیں مگرپاکستان میں ایک بھی مکئی کی آئل مل نہیں ہے۔ چاول کی فصل کی پیداوار میں بھی گندم کی طرح فی ایکڑ اضافہ ہوا ہے۔ آم کے بارے میں کہا جاتا تھا دادا درخت لگائے پوتا پھل کھائے۔ آج جدید ٹیکنالوجی کے مرہون منت  ڈیڑھ دو سال میں آم کا درخت پھل دینے لگتا ہے۔ آڑو، کینو، خربوزے، انگور، کھجوریں اور بہت سے پھلوں کا سائز پہلے سے دو سے چار پانچ گنا زیادہ ہو گیا ہے۔ بہت سی فصلوں کی کاشت اور برداشت کادورانیہ کم ہو رہا ہے۔ ڈرپ اپریگشن کے ساتھ بیلوں والی سبزیوں اور فروٹ کے لیے  منزل در منزل جنگلے بنائے گئے۔ اس سے زمین کی گنجائش کو دو تین گنا یا اس سے  بھی زیادہ بڑھایاجا سکتا ہے۔ مزید براں پاکستان میں صحرائے تھر اورچولستان  بے شمار اراضی کو قابلِ کاشت  بنالیں۔ بیلوں کے ساتھ ہل چلا کر کسان جتنی زمین 8 گھنٹے میں تیار کرتا تھا آج ٹریکٹر یہ کام آٹھ منٹ میں کر دیتا ہے۔
کبھی انسان غذائی قلت سے پریشان ہوتے تھے آج اناج کی بہتات کے باعث کسان  پریشان بلکہ ہراساں ہیں۔ گندم کا سرکاری ریٹ39 سو روپے پچھلے سیزن کے برابر برقرار رکھا گیا ۔ اس پر بھی کسان سے خریداری نہیں کی جا رہی ہے۔ کوئی بھی حکومت کسان اور کاشت کار دشمن نہیں ہو سکتی۔ مس مینجمنٹ ہو سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نگران حکومت نے35لاکھ ٹن گندم بلا ضرورت باہر سے منگوالی تھی۔ اب ایک بار پھر گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے۔ کسان سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی ۔حکومت کے پاس خرید کرکے ذخیرہ کرنے کے لیے گودام دستیاب نہیں ہے۔ ذخیرہ اندوز تین ہزار من سے بھی کم پر خریداری کر رہے ہیں۔
کسان کو مشکل سے نکالنے کے لیے ریاست کو ماں کی طرح سوچنا ہوگا۔ وزیر منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ جس افلاطون نے نگران دور میں گندم ضرورت سے زیادہ بلا ضرورت درآمد کی اسے سزا دی جائے ۔ ن لیگ حکومت کا یہ پہلا الزام ہے جس میں  پی ٹی آئی حکومت کو مورد  نہیں ٹھہرایا گیا۔ حکمران کس کو کہہ رہے ہیں کہ ذمہ داروں کو سزا دی جائے؟


پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ایک رکن نے بڑی خوبصورت بات کی کہ کوئی امیر ہے تو گوشت کے ساتھ روٹی کھا سکتا ہے، مڈل کلاس کا سبزی کے ساتھ، زیادہ غریب ہوگا تو اچار کے ساتھ کھا لے گا۔  گوشت، دال سبزی کا متبادل ہو سکتا ہے۔ روٹی ہر انسان کی ضرورت، جس کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ 
روٹی سستی اور ہر فرد کی دسترس میں ہونی چاہیے۔ شہباز شریف نے دو روپے کی روٹی کا منصوبہ شروع کیا۔ اربوں روپے کا یہ منصوبہ چند بڑے پیٹوں میں اتر گیا۔ عمران خان دور کی پناہ گاہیں اور لنگر خانے تعصب کی نذر ہوگئے۔نقصان شہباز شریف کا ہوا نہ عمران خان کا، غریب سے روٹی چھن گئی۔
مذکورہ لیگی ایم پی اے نےاچھی تجویز دی۔روٹی سستی کرنے کے لیے گندم سستی کی جائے۔فی من ریٹ دو ہزار روپے کر دیا جائے جس پر کسان، کاشت کاراور زمیندار کو نہ صرف اعتراض نہیں ہوگا بلکہ وہ خوش اور مطمئن ہوگا بشرطیکہ کھاد، بیج، ڈیزل، بجلی کے ریٹ اورمالیہ اسی تناسب سے کم کر دیا جائے۔