9مئی بس یہی کچھ ہے۔۔۔

تحریر: ستارچوہدری

| شائع |

یہ 1660ءکی بات ہے ۔۔۔برونائی کے تیرہویں سلطان محمد علی کے دور حکمرانی میں سلطان کے بیٹے بانگسو اور شہزادہ عبدالمبین کے بیٹے عالم کے درمیان مرغوں لڑانے پر تصادم ہوگیا۔۔۔ ہوا کچھ اس طرح شہزادہ بانگسو کے مرغے کو شکست ہوگئی ۔۔۔ شہزادہ عالم نے اس کا مذاق اڑایا جس پر مشتعل ہوکر بانگسو نے عالم کو ہلاک کردیا اور فرار ہوگیا۔۔۔  واقعے کی اطلاع ملتے ہی پرنس عبدالمبین اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا اور بانگسو کے والد سلطان محمد علی کو قتل کردیا اور تخت پر قبضہ کرلیا۔۔۔ اس نے خود کو برونائی کا چو

دھواں سلطان قرار دیا اور مقتول شہنشاہ کے حامیوں کو پرامن کرنے کے لئے اس کے پوتے محی الدین کو وزیراعظم مقرر کردیا۔
کچھ عرصے بعد محی الدین کے ساتھیوں نے اسے اکسایا کہ وہ اپنے دادا کے قتل کا بدلہ لے اور ساتھ ہی ان لوگوں نے ملک میں بدامنی پھیلانا شروع کردی۔۔۔ سلطان عبدالمبین نے کشیدگی کم کرنے کے لئے اپنا دارالحکومت پولاؤ شرمن منتقل کرلیالیکن موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محی الدین نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور خود کو پندرہواں سلطان قرار دے دیا۔۔۔۔ محی الدین کے اقتدار پر قبضے کے بعد عبدالمبین نے اس کے خلاف لشکر کشی شروع کردی اور اس کی بغاوت کو کچلنے کے لئے متعدد حملے کئے۔ یہ تباہ کن کشمکش 13 سال بعد 1673ءمیں عبدالمبین کی ہلاکت کے ساتھ ختم ہوئی اور اس کے بعد محی الدین برونائی کا حاکم کل بن گیا۔
ایک اور واقعہ سنیں۔۔۔
یہ1823 کی بات ہے۔۔۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے عہد میں پشاور کے صوبیدار سردار محمد خان کے پاس ایک خوبصورت گھوڑی لیلیٰ موجود تھی جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی ۔۔۔جب مہاراجا رنجیت سنگھ تک اس گھوڑی کا چرچا پہنچا تو اس نے یہ گھوڑی حاصل کرنے کا پیغام بھیجا۔۔۔ سردار محمد خان کے انکار پر اس نے اپنے جرنیل سردار بدھ سنگھ سندھانوالہ کو گھوڑی چھین کر لانے کے لیے روانہ کیا۔۔۔ ایک خونریز معرکہ کے بعد، سردار بدھ سنگھ کو علم ہوا کہ یہ گھوڑی جنگ میں کام آچکی ہے۔۔۔۔ اس نے لاہور پہنچ کر یہ اطلاع رنجیت سنگھ کو پہنچائی تو پتا چلا کہ یہ اطلاع غلط ہے اور لیلیٰ زندہ ہے۔۔۔ اب رنجیت سنگھ نے اپنے شہزادے کھڑک سنگھ کی سرکردگی میں ایک اور لشکر پشاور روانہ کیا اور یار محمد خان کو معزول کر دینے کے احکام جاری کئے۔۔۔ یار محمد نے یہ صورت حال دیکھی تو گھوڑی کو لے کر پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور اپنے بھائی سردار سلطان محمد خان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔۔۔ اسی دوران سید احمد شہید کا سکھوں اور انگریزوں سے جہاد شروع ہوگیا۔ ۔۔سکھوں کی فوج کے ایک جرنیل دینورا نے سید احمد شہیداور ان کے ساتھیوں کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ سلطان محمد اور یار محمد کو بھی شکست دے دی اور ان سے لیلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔۔ یہ گھوڑی لاہور پہنچائی گئی اور رنجیت سنگھ کی خدمت میں پیش کی گئی۔ مہاراجا نے اس کے ملنے کی بڑی خوشی منائی۔ اس کا بیان تھا کہ اس گھوڑی کے حصول میں اس کو ساٹھ لاکھ روپیہ اور بارہ ہزار جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔۔۔
نفسیاتی طور پر اگر ان دونوں واقعات کودیکھا جائے تویہ مرغے لڑانے یا گھوڑی حاصل کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئے۔۔۔یہ انا کی لڑائیاں تھیں، خود کو طاقتور،اعلیٰ،مقدس منوانے کی جنگیں تھیں۔۔۔یہ ایک تاریخ ہے کوئی بھی طاقتور،خود کو سب سے سپریم اورمقدس سمجھنے والاشخص ہویا ادارہ،وہ کسی کے بڑھتے ہوتے قد کو برداشت نہیں کرتا۔۔۔وہ دوسرے کی شہرت سے خائف رہتا ہے۔۔۔وہ خوددار اور آزاد سوچ رکھنے والے افراد کو پسند نہیں کرتا۔۔۔وہ صرف جی  سر،یس سر،اوکے سرسننے کا عادی ہوتا ہے،ناں کا لفظ انکی ڈکشنری میں نہیں ہوتا۔۔۔تاریخ بھری پڑی ہے،اسی بنیاد پر جنگیں ہوئیں،لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے۔۔۔کسی ایک شخص یاادارے کی تسکین کیلئے یا کسی ایک شخص یا ادارے کی نفرت میں ملک برباد ہوگئے،عوام رل گئے،روٹی کوترس گئے،نسلیں تباہ ہوگئیں۔۔۔لیکن طاقتور لوگ کبھی سبق حاصل نہیں کرتے، کیونکہ طاقت کا جنون انسان سے سوچ چھین لیتا ہے۔9مئی بھی  یہی کچھ  ہے،جتنی مرضی کہانیاں بنا لی جائیں،جتنی مرضی تحقیقات کرلی جائیں،تجزیئے،کالمز،کتابیں لکھیں جائیں،انکوائری،تحقیقات کرالی جائیں۔۔۔حرف آخریہی ہے کوئی بھی طاقتور،خود کو سب سے سپریم اورمقدس سمجھنے والاشخص ہویا ادارہ،وہ کسی کے بڑھتے ہوتے قد کو برداشت نہیں کرتا۔۔۔وہ دوسرے کی شہرت سے خائف رہتا ہے،9مئی بس یہی کچھ ہے۔۔۔