آل سعود آل یہود نہیں آل اسماعیل ہیں!!

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 27, 2022 | 06:32 صبح

 رافضیوں اور اخوانیوں کی طرف سے آل سعود کے خلاف ایک پروپیگنڈہ  کیا جاتا ہے کہ یہ آل یہود ہیں، جزیرہ عرب کے اصلی باشندے نہیں ہیں، باہر سے آکر قابض ہوئے ہیں جبکہ یہ دشمنان توحید کی طرف سے محض ایک پروپیگنڈہ ہے اہل توحید آل سعود پر، آل سعود کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنو وائل کی شاخ بنو حنیفہ سے ہے جو نجد کے مشہور علاقے یمامہ میں رہتے تھے مشہور سیاح ابن بطوطہ نے 732ھ میں نجد کی سیاحت میں یمامہ کی زیارت کی تھی، اس وقت وہاں پر قبیلہ بنو حنیفہ کے حاکم طفیل بن غانم کی حکومت ت

ھی، ابن بطوطہ نے حاکم یمامہ کے ساتھ اسی سال حج کیا تھا

 850ھ بموافق 1436 عیسوی میں آل سعود کے دادا مانع المریدی اپنے خاندان کے ساتھ نجد کے دوسرے علاقے عارض کی طرف ملیبید اور غصیبہ نامی جگہ پر ہجرت کر گئے، بعد میں آبادی بڑھنے پر اس علاقے کا نام درعیہ رکھا گیا، اس علاقے میں مضبوط اور محفوظ قلعہ ہونے کی وجہ سے

 اسی درعیہ میں انکے لڑکے ربیعہ بن مانع نے الدرعیہ کے نام سے ایک مضبوط امارت قائم کی، جس کے حاکم 1139 ہجری بمطابق 1725 عیسوی میں امیر محمد بن سعود ہوئے، یہی محمد بن سعود ہیں جنہیں امام محمد کہا جاتا ہے کیونکہ 1744 عیسوی میں انہوں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب سے ایک ساتھ ملکر کتاب وسنت کے مطابق حکومت کرنے کا معاہدہ کیا تھا 

آپ کے درو میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی اصلاحی کوششوں سے نجد کے تقریبا سارے علاقے درعیہ امارت کے ماتحت آگئے 

یہ پہلی سعودی حکومت 1818 میں ختم ہوگئی، اس امارت کو ترک سلاطین کے حکم سے محمد علی پاشا نے اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کے زریعے ختم کیا تھا، جس نے درعیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔۔ اس وقت امام عبد اللہ بن سعود بن عبد العزیز بن محمد آل سعود حاکم تھے، جنہیں دھوکے سے استنبول لے جایا گیا اور آل سعود کے سینکڑوں امراء کے ساتھ پھانسی دے دی گئی، وجہ صرف انکی توحید تھی

پھر 1824 عیسوی میں امام ترکی بن عبد اللہ بن محمد آل سعود نے دوبارہ حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی، لیکن اس بار اپنا دار السلطنت درعیہ کی بجائے ریاض کو بنایا۔۔ یہ بھی پہلی حکومت ہی کے طرز پر تھی، چنانچہ اسے بھی ترکوں نے برداشت نہیں کیا، اور آل سعود کے خلاف ہمیشہ ریشہ دوانیاں کرتے رہے، اس بار حائل امارت کے آل رشید کے ذریعے جو ترک سلطنت کے تابع تھے، ریاض پر 1891 عیسوی میں حملہ کیا، اور اسے گرانے میں کامیاب ہوگئے۔۔ اس وقت امام عبد الرحمن بن فيصل بن تركي آل سعود حاکم تھے، جو ریاض سے بھاگ کر آٗل صباح کے پاس کویت چلے گئے 

1902 میں انکے بیٹے عبد العزیز بن عبد الرحمن بن فیصل آل سعود چالیس شہسواروں کے ساتھ کویت سے نکل کر ریاض آئے اور بلا کسی شدید مزاحمت کے قابض ہوگئے 

یہ تیسری سعودی حکومت ہے جو 1932 تک تمام جزیرہ عرب پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اور آج تک یہ حکومت چل رہی ہے، 51 سال حکومت کرنے کے بعد 1953 میں ملک عبد العزیز کی وفات ہوگئی، اس وقت آپ کے بڑے لڑکے سعود حاکم بنے، جو 1964 تک حاکم رہے، پھر ملک فیصل حاکم بنے جو 1975 تک حاکم رہے، پھر ملک خالد حاکم بنے جو 1982 تک حاکم رہے، پھر ملک فہد حاکم بنے جو 2005 تک حاکم رہے، پھر ملک عبد اللہ حاکم بنے جو 2015 تک حاکم رہے، پھر ملک سلمان حاکم بنے جو تا حال (2022) برسر اقتدار ہیں آل سعود کا شجرہ نسب: سلمان بن عبد العزیز بن عبد الرحمن بن فیصل بن ترکی بن عبد اللہ بن محمد بن سعود بن محمد بن مقرن بن مرخان بن إبراهيم بن موسى بن ربيعة بن مانع بن ربيعة المريدي من بني حنيفة بن لُجَيْم بن صَعب بن علي بن بكر بن وائل بن قاسط بن هنب بن أفصى بن دعمي بن جديلة بن أسد بن ربيعة بن نزار بن معد بن عدنان ابن اسماعیل بن ابراہیم یہ آل سعود کا شجرہ نسب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پر دادا نزار میں جاکر مل جاتا ہے۔۔ جن کے دو بیٹوں (ربیعہ اور مضر) سے شمالی اور مشرقی جریرہ عرب میں پورا عدنانی قبیلہ پھیلا ہوا تھا جبکہ جنوب عرب میں قحطانی قبیلہ ہے 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب کچھ یوں ہے: محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ابن إسماعيل بن إبراهيم. اس وقت آل سعود خاندان کے تقریبا دس ہزار سے زیادہ لوگ ہوں گے شيخ عبدالرحمن بن سليمان الرويشد نے 1418 ھجری میں آل سعود کے نسب پر ایک تحقیقی کتاب لکھی جس کا نام (الجداول الأسرية لسلالات العائلة المالكة السعودية) ہے۔۔۔ اس کتاب کے اندر پوری تفصیل دیکھ سکتے ہیں 

نوٹ: اس طرح آل سعود اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے محمدی ہیں نہ کہ اسحاق علیہ السلام کی نسل سے یہودی ہیں۔۔ 

 استاذہ اجمل منظور مدنی