مردِ بے باک

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

مجید نظامی اور ذوالفقار علی بھٹو کی ولادت کا سال ایک ہی اور مہینہ مختلف ہے۔ بھٹو، مجید نظامی سے تین ماہ بڑے تھے۔ نظامی صاحب کی تاریخ پیدائش3 اپریل1928ء جبکہ بھٹو صاحب کی 5جنوری1928ءتھی۔دونوں اپنے اپنے شعبے کے مردِ میدان تھے. اتفاق سے آج مجید نظامی کی 96ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے جبکہ کل چار اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی 45 ویں برسی منائی جائے گی۔

پنجاب، بلوچستان اور سینیٹ نے ذوالفقار بھٹو کو قومی ہیرو قرار دینے کی قرار  دادیں منظور کرلیں

rdu.geo.tv/assets/uploads/updates/2024-03-08/358030_1997117_updates.jpg" style="height:429px; width:750px" />

بھٹو صاحب کا سیاست میں اعلیٰ مقام ہے تو نظامی صاحب صحافت کے اولیٰ مقام پر پہنچے۔ دونوں میں کئی مماثلتیں اور تضادات بھی تھے ۔ دونوں  پاکستان سے والہانہ محبت رکھتے۔ بھٹو پاکستان کے شیدائی تو نظامی صاحب دو قدم آگے فدائی تھے۔فدائی اس لئے کہ مجیدنظامی  نےایک موقع پر کہا تھا کہ مجھے بم کے ساتھ باندھ کر دشمن بھارت پر پھینک دیا جائے۔ بھٹو کو سیاست میں ابتداءمیں تھوڑا آگے بڑھانے میں نظامی صاحب کا کردار تھا جس کے بعد وہ آگے بڑھتے گئے اور شہرت و اقتدار کی چوٹی تک جا پہنچے۔ مجید نظامی نے ذوالفقار علی بھٹو کو یومِ حمید نظامی کے جلسے کی صدارت کرنے کی دعوت دی۔ یہ جلسہ 25 فروری 1967ءکو لاہور کے وائی ایم سی اے ہال میں ہوا تھا۔بھٹو ان دنوں صدر ایوب کے زیر عتاب تھے۔ ہال کی ایک طرف چھت پر اور باہر شاہراہِ قائداعظمؒ پر بھی لوگ ہی لوگ جلسہ سننے کو موجود تھے۔ سڑکیں بھری پڑی تھیں۔ جلسہ ختم ہوا تو بھٹو صاحب کو وائی ایم سی اے ہال کے عقب میں بانس کی سیڑھی لگا کر اتارنا پڑا۔جب  بھٹوایوب خان کی کابینہ میں وزیر سائنس تھے اور بعد میں وزیر خارجہ بنے، وہ لندن میں مجید نظامی سے ملا کرتے تھے۔ دونوں کی اچھی میل ملاقات تھی۔ جب مسٹر بھٹو معاہدہ تاشقند کے بعد وزارت سے فارغ کر دئیے گئے تو وہ راولپنڈی جا کر بیٹھ گئے۔ ان دنوں ان کا گھر قائد تحریکِ کشمیر چودھری غلام عباس مرحوم کے گھر کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ مجید نظامی نے زیڈ اے سلہری کو ساتھ لیا اور جا کر ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی۔ زیڈ اے سلہری ان دنوں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے جو نیشنل پریس ٹرسٹ کا اخبار تھا۔ اس ملاقات میں ذوالفقار علی بھٹو سے مجید نظامی نے کہا کہ ”آپ یہاں آ کر کیوں بیٹھ گئے ہیں؟ میدان میں نکلیں۔ اس پر بھٹو کہنے لگے میری خبر کون چھاپے گا؟ مجید نظامی نے جواب دیا، میں آپ کی خبر نہیں، خبریں چھاپوں گا کیونکہ ہمیں جمہوریت چاہئے اور آپ کو اقتدار، ایوب خان کی آمریت سے قوم کو نجات دلا کر ہی ملک میں جمہوریت کا راستہ ہموار ہو گا۔ اس کے بعد وہ دن بھی آیا کہ جب کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ان پر مقدمہ چل رہا تھا تو مجید نظامی جیل میں جا کر مقدمے کی کارروائی سنا کرتے تھے۔ وہ واحد ایڈیٹر تھے جو باقاعدگی سے کارروائی سنا کرتے تھے۔ مارشل لاءکے دور میں کسی سیاسی ملزم کا مقدمہ جو جیل میں چل رہا ہو جا کے بیٹھنا اور پوری کارروائی سننا وقت کے حکمرانوں کے لئے ناقابلِ برداشت جسارت ہوا کرتی ہے اور اس وقت کے حکمرانوں کو بھی ان کی یہ جسارت سخت ناگوار گزرتی تھی۔
فرانس میں پاکستان کے سابق سفیر جے اے رحیم نے پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور تیار کیا تھا جس میں اُنہوں نے سوشلزم کو پاکستان کی معیشت قرار دیا تھا۔ اس پر مجید نظامی نے ذوالفقار علی بھٹو سے ایک ملاقات میں کہا بھٹو صاحب! آپ ہمارا قبلہ مکہ کے بجائے ماسکو لے جا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مسکرانے لگے اور کہا، یہ جے اے رحیم کی شرارت ہے مگر میں  سب ٹھیک کر دوں گا۔ مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو باہر آئے تو اُنہوں نے مجھے ہی ٹھیک کرنا شروع کر دیا۔

مجید نظامی (فائل فوٹو)
بھٹو پر پاکستان توڑنے کا مخالفین الزام بھی لگاتے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا دیا۔ اسے پیپلز پارٹی  جوڈیشل مرڈر قرار دیتی ہے۔بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کی ساکھ پر ایک دھبہ تھا۔  اس کیس کی سماعت اور کارروائی کو  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے9رکنی بینچ نے غیر شفاف قرار دے کر دھبہ دھو دیا۔گویا موت کے بعد بھٹو سرخرو ہو گئے۔
 1928ءمیں پیدا ہونے والے بھٹو کو50سال کی عمرسے قبل چار اپریل 1979ءکو موت سے ہمکنار کر دیا گیاتھا۔ بھٹو کی پھانسی کا ذمہ دار اس دور کے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق کو قرار دیا جاتا ہے۔جن کی مجید نظامی کے ساتھ دوستی بھی تھی۔ اس دوستی میں نوک جھونک ہوتی رہتی ۔ نظامی صاحب کی ڈاکٹر اے کیوخان ، میاں محمد شریف اور ان کے فرزندارجمند میاں نواز شریف کے ساتھ بھی قربت تھی۔ نظامی صاحب کی بڑی دوستیاں تھیں۔ اس سے زیادہ ان کی دشمنیاں تھیں۔ ہر ادارے انجمن اور ہر اس شخص کو وہ اپنا دشمن سمجھتے جو بھارت سے دوستی کی بات یا دعویٰ کرتا۔ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ دشمنی کا حق ادا کر دیتے۔ بھارت کا ذکر آنے پر وہ متذبذب ہوتے۔ تعلقات اور دوستی کی بات کرنے پر غصے میں آجاتے۔ کوئی اگر پاکستان اور بانیان کے خلاف بات کرتا شمشیر برہنہ ہو جاتے۔اس معاملے میں وہ کسی دید لحاظ کے قائل نہیں تھے۔
یہ شعر ان کی ذات  شخصیت اور عزم و ارادے کی  مکمل عکاسی کرتا ہے ۔ع
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی 

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

ایک موقع پر گورنر ہاؤس میں ملاقات کے بعد الوداع کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے مجید نظامی کو کہا کہ ‘ذرا پاکستان کے مفاد کا خیال رکھیے گا‘۔ جس پر مجید نظامی نے برجستہ اور طنزیہ جواب دیا کہ ’ اب پاکستان کا مفاد آپ مجھے سکھائیں گے؟۔
کسی نے اطلاع دی کہ تحریک آزادی پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک سکھ دانشور کو لیکچر کےلئے مدعو کیا گیا ہے۔ایک نوجوان لندن سے آکسفورڈ کےلئے بڑے شوق سے لیکچر سننے کےلئے روانہ ہوا۔لوگ جوق در جوق ہال میں داخل ہورہے تھے۔اس نوجوان کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔ مہمان کے سٹیج پر آنے تک ہال بھر چکا تھا۔ حاظرین ایک ایک لفظ غور سے سن رہے تھے۔ لیکچر جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا سکھ دانشور پٹڑی سے اترتے جارہے تھے۔انہوں نے پاکستان کیخلاف بات کی اور قائد اعظم کے خلاف  ہرزہ سرائی کی تو لندن سے آکسفورڈ آنیوالا نوجوان کھڑا ہوگیا۔اور چلاتے ہوئے شدید غصے میں کہا۔”اوئے سکھا! بکواس بند کر“اس پر ہال میں سناٹا چھا گیا ۔ہر کسی کی نظریں اس نوجوان پر جم گئیں۔یہ نوجوان مجید نظامی  تھے ۔

فخر صحافت ڈاکٹر مجید نظامی !
ضیاءالحق نے ایک بار بھارت کے دورے پر ساتھ جانے کو کہا تو نظامی صاحب نے یہ کہہ کر لاجواب کردیا کہ جنرل صاحب ! ٹینک پر بیٹھ کے جاﺅ گے تو ساتھ چلوں گا۔
جنرل مشرف کے سامنے کھڑے ہوکر ان کو چلینج بھی صرف نظامی صاحب ہی نے کیا۔انہوں نے صحافیوں کو مدعو کررکھا تھا۔ نظامی صاحب خاموش بیٹھے رہے تو جنرل مشرف نے انکو سوال کرنے کی دعوت دی۔نظامی صاحب نے کہا کہ آپ نے کولن پاول کی ایک کال پر سرنڈر کردیا۔ مشرف کا ایسے سوال پر رنگ توپیلا پڑنا ہی تھا۔ انہوں پوچھا میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے۔نظامی صاحب کا جواب تھا میں کیوں ہوتا۔میں اپنا کام کررہا ہوتا۔ اور آپ بھی اس جگہ پر کیوں ہیں۔نظامی صاحب کہتے ہیں کہ اسکے بعد مشرف نے انہیں کسی بھی تقریب بلانے سے منع کردیا۔

پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کیا