ڈونلڈ لو اور ایوان نمائندگان کی کمیٹی کے سوالات

تحریر: ڈاکٹر سلیم اختر

| شائع |

امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو نے امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی کی سماعت میں بیان دیتے ہوئے دوٹوک اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ عمران خان کو اقتدارسے بے دخل کرنے میں کوئی امریکی شہری ملوث نہیں تھا‘ سائفر کے ذریعے امریکی سازش کا الزام سراسرجھوٹ ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کا اہم شراکت دار ہے اور امریکہ پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردارادا کرتا ہے۔ ڈونلڈ لو نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں نے سیاسی رہنماؤں اور اجتماعات کو نشانہ بنایا جبکہ پاکستان میں معاشی

ریفارمز کی ضرورت ہے۔حالیہ عام انتخابات کے حوالے سے ڈونلڈ لو نے کہا کہ انتخابات میں بے ضابطگیاں ہوئیں‘ انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر امریکی محکمہ خارجہ نے واضح بیان جاری کیا۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی الیکشن مبصر تنظیم کے مطابق انہیں ملک کے تقریباً آدھے حلقوں میں آبزرویشن سے روکا گیا‘جلسے جلوسوں پر پابندی کی نشاندہی کی۔ امریکہ کی جانب سے انتخابات میں تشدد اور انسانی حقوق پر پابندیوں ‘میڈیا ورکرز پر حملوں، انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن کی بندش کی مذمت کی گئی۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل کی گئی کمیٹی میں ہزاروں پٹیشن فائل ہو چکی ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف طریقے سے دھاندلی کے ذمہ داروں کا احتساب کرے کیونکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے۔
ایوان نمائندگان کی کمیٹی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ڈونلڈ لو کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کی ویڈیوز نہ صرف سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں بلکہ صاف نظر آرہا ہے کہ وہ سائفر کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ۔ وائٹ ہاﺅس کی سخت تاکید کی گئی تھی کہ ان سے سخت سوالات نہ پوچھے جائیں ‘ اسی وجہ سے کچھ لوگوں نے 8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے سوالات پوچھنے کے بجائے غیرمتعلقہ سوالات پوچھ کر وقت ضائع کرنے کی کوشش کی۔ اسکے باوجود کچھ کانگرس ممبرز نے ڈونلڈلو کو آڑے ہاتھوں لیا ‘ ان سے جو سوالات پوچھے گئے‘ انکے جوابات دیتے ہوئے ڈونلڈ لو کے دانتوں تلے پسینہ آگیا ۔ وائٹ ہاﺅس کی طرف سے تاکید سے یہی تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں ہونیوالے عام انتخابات میں جو کچھ ہوا‘ اس میں کسی نہ کسی طرح امریکی ہاتھ ضرور ملوث رہاہے۔ سائفر کے حوالے سے ڈونلڈ لو پہلے بھی کئی بار تردید کر چکے ہیں اور اس عدالتی سماعت میں بھی انہوں نے عمران خان کی حکومت گرائے جانے کے حوالے سے امریکی مداخلت سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اسکے باوجود کئی سیاستی حلقوں میں اس بیان پر شک و شبہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایوان نمائندگان کی کمیٹی میں‘ جب وہ سائفر کے ذریعے امریکی مداخلت کی تردید کررہے تھے‘ انہیں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑااور حاضرین کی طرف سے ”شیم آن یو“ کے نعرے لگنا شروع ہو گئے تھے۔ انکی اس تردید کے بعد دوسرا خیال فطری طور پر اندرونی مداخلت کی طرف جاتا ہے جس میں بلواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ ہی ملوث نظر آتا ہے۔ کیونکہ عمران خان کی طرف سے قومی مفادات میں کئی اقدامات ایسے کئے گئے تھے جن پر امریکہ کو اعتراض تھا جبکہ ”ایبسولیوٹلی ناٹ“کے بعد تو خودمختار ہوتا پاکستان اسے اپنے ہاتھوں سے جاتا نظر آرہا تھا تو کوئی بعید نہیں کہ اس نے اندرونی مداخلت کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا ہو۔ ڈونلڈلو نے 8 فروری کے الیکشن کے حوالے سے یہ برملا اعتراف کیا ہے کہ انتخابات میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں جبکہ الیکشن سے قبل پکڑ دھکڑ اور پرتشدد کے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں جس پر امریکہ کی طرف سے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا جبکہ پاکستان کی ایک مقبول جماعت کو حصے بخروں میں تقسیم کرکے اسے اسکے انتخابی نشان ”بلے“ سے بھی محروم کر دیا گیا اور مختلف نشانات الاٹ کرکے اسکی جیت میں رکاوٹ ڈالی گئی۔اسکے باوجود فارم 45 کے مطابق اس جماعت نے واضح اکثریت حاصل کی۔ مگر مبینہ انتخابی نتائج میں ردوبدل کرکے اس پارٹی کو اکثریت سے محروم کر دیا گیا۔ انتخابات کے مبینہ متنازع نتائج کے باوجود پی ڈی ایم طرز کی ملک پر ایک اور اتحادی حکومت مسلط کر دی گئی جو عوامی حمایت سے یکسر محروم ہے۔ اگر ان تمام واقعات کی کڑیاں ملائی جائیں تو کہیں نہ کہیں انکے پیچھے امریکی مداخلت ہی نظر آتی ہے جو بہرصورت پی ٹی آئی کو اقتدار سے محروم رکھنا چاہتی تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ جس ملک میں اپنی اجارہ داری چاہتا ہے‘ وہاں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے اپنی من مرضی کی حکومت لے آتا ہے اور اسے اپنے ایجنڈے پر کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کٹھ پتلی حکومتوں کی مثالیں پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو اپنا اہم شراکت دار ضرور گردانتا ہے اور اسکے ساتھ دوستی کا دم بھی بھرتا ہے مگر پاکستان کے ساتھ اس کا کردار کبھی دوستانہ نظر نہیں آیا۔ لہٰذا امریکہ سے یہ امید رکھنا عبث ہے کہ وہ کبھی پاکستان کے ساتھ اس دوستی کی پاسداری کر یگا جس کا وہ دعویدار ہے۔ تاریخ کے جھروکوں میں اگر دیکھا جائے تو امریکی تاریخ میں کوئی ایسا صدر نہیں گزرا جس نے پاکستان کے حوالے سے بنائی گئی امریکی پالیسی کے برعکس اقدامات کئے ہوں اس لئے مستقبل میں بھی پاکستان کو امریکہ سے کسی اچھے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ڈونلڈلو کیلئے وائٹ ہاﺅس کی طرف سے تاکید کہ ان سے سخت سوالات نہ پوچھے جائیں‘ اس سے امر کی نشاندہی کرتاہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں کہیں نہ کہیں امریکی کردار ضرور موجود ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ اگر انتخابات اور سیاسی عدم استحکام پاکستان کا اندرونی معاملہ ہوتا تو ایوان نمائندگان کمیٹی کی عدالت میں ڈونلڈلو سے یہ سوالات کیونکر پوچھے گئے؟ اس عدالتی سماعت کے بعد امریکی مداخلت کے حوالے سے کئی سوالات سامنے آگئے ہیں۔