عظمیٰ بخاری

تحریر: ستارچوہدری

| شائع |

قدیم بادشاہوں کے معاون اور مشیر ان کے درباری ہوتے تھے، جن کو آج کے دور میں وزیر و مشیر کہاجاتا ہے۔۔۔درباری علما بھی ہوا کرتے تھے،جن کے ذریعے فتوے جاری کرائے جاتے ہیں،کوئی بھی مذہب ہو۔۔۔برصغیر میں سب سے معروف  مشیر شہنشاہ اکبر کے ہوئے تھے،جو ’’ نورتن‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔۔۔ جن میں بیربل، شیخ فیضی، راجہ ٹوڈرمل، عبدالرحیم خان خاناں، مان سنگھ، ابوالفضل اور تان سین شامل تھے۔۔ دربار میں یہ لوگ دن بھر بادشاہ کی رضا جوئی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیاہ کو سفید اور دن کو رات کہتے نہ تھکتے… اکبرکے یہ نورتن ذہین ہو نے کے ساتھ ساتھ چاپلوسی اور خوشامد میں ماہر تھے، خوشامد کا فن سب سے زیادہ شاہی دربار میں پروان چڑھا کیونکہ بادشاہ کی ذات تمام عقل قل اور اختیارات کی حامل تھی۔

خوشامد کرنے والے اپنی زبان میں شائستگی و خوبصورت اشعارکا استعمال کرتے بادشاہوں کی تعریف میں ان کے شجاعت و بہادری کے قصے سناتے، زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے۔ طاقت و اختیارات اور اقتدار ایک انسان کی شخصیت کو بدل دیتے ہیں، خوشامد کے لفظوں میں اس قدر جادو ہوتا کہ بادشاہ وقت اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔وقت نہیں بدلا عہدوں کے صرف نام ہی تبدیل ہوئے،بادشاہوں کو اب صدر،وزیراعظم کہا جاتا ہے،درباریوں کو وزیر،مشیر کہا جاتا ہے،کام دونوں کےوہی پرانے ہیں۔مثال کے طور پر۔۔۔میاں شریف بھی ایک طرح کے ’’ بادشاہ ‘‘ ہی تھے،انہوں نے اپنے ’’دربار‘‘ میں کچھ درباری رکھے ہوئے تھے،جو انکی خوشامد اور انہیں خوش رکھنے کیلئے لطیفے سنایا کرتے تھے،ان میں دو درباری تو بہت مشہور ہوئے اور انہیں انعام کے طورپربڑےعہدوں پر مسلط بھی کیا گیا۔ایک تو تھے رفیق تارڑ۔۔۔جن کی جگہ پر آجکل انکا پوتا عطا تارڑ تعینات ہے،رفیق تارڑ کا ضمنی کام توتھا ججوں کو خریدنا،مرضی کے فیصلے حاصل کرنا،چیف جسٹس سجاد علی شاہ کیخلاف ججوں کی بغاوت کرانے میں موصوف کا ہاتھ تھا،ریکارڈ پر ہے جناب کوئٹہ نوٹوں کا بریف کیس لیکر گئے تھے۔بہتر کارکردگی پر انہیں ملک کا صدر مسلط کیا گیا تھا،دوسرے تھے عطاالحق قاسمی صاحب،انکی بھی اچھی کارکردگی تھی،موصوف کوناروے کا سفیر،پی ٹی وی کاہیڈ انعام کے طور پر بنایا گیا تھا۔۔۔بات کہیں اورنکل گئی،موضوع تھا پرانے بادشاہوں کے درباری۔۔۔ ایک دلچسپ قصہ یاد آگیا۔۔۔

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا۔ وہ کپڑا نہیں باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا۔ وہ بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی بادشاہ سلامت نے صحیح فرمایا۔
ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی جوانی کے شکار کی کہانیاں سنا کر رعایا کو مرعوب کر رہے تھے۔ جوش میں آکر کہنے لگے کہ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلومیٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا۔
بادشاہ کو توقع تھی کہ عوام داد دے گی لیکن عوام نے کوئی داد نہیں دی۔ وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی۔ اپنے رفوگر کی طرف دیکھا۔ رفوگر اٹھا اور کہنے لگا حضرات میں چشم دید گواہ ہوں اس واقعے کا۔ دراصل بادشاہ سلامت ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے تھے اور ہرن بہت نیچے تھا۔ ہوا بھی موافق چل رہی تھی ورنہ تیر آدھا کلومیٹرکہاں جاتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے آنکھ کان اور کھر کا تو عرض کردوں کہ جس وقت تیر لگا ہرن دائیں کھر سے دایاں کان کھجا رہا تھا۔ عوام نے زور زور سے تالیاں بجا کر داد دی۔
اگلے دن رفوگر بوریا بستر اٹھا کر جانے لگا۔ بادشاہ پریشان ہوگیا۔ پوچھا کہاں چلے۔ رفوگر بولا بادشاہ سلامت میں چھوٹے موٹے تروپے لگا لیتا ہوں شامیانے سلوانے ہوں تو عظمیٰ بخاری کو رکھ لو۔۔۔