عنبرین کی بپتا اور استدعا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 18, 2021 | 19:31 شام

فضل حسین اعوان احمد نورانی کی طرف سے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی وہ آڈیو سامنے آئی جس میں وہ میاں نواز شریف اور مریم کو سزا دینے کی بات کر رہے ہیں۔ احمد نورانی نے امریکہ سے اس کا فرانزک بھی کروایا۔ اس آڈیو کو شریف خاندان کی طرف سے اپنی بے گناہی کے لیے استعمال کیا گیا۔اب اے آر وائی چینل کی طر ف سے احمد نورانی کی جاری کردہ آڈیو کا فرانزک کرایا گیا ہے جس کی رپورٹ پہلے والے فرانزک کے بر عکس آئی ہے۔ احمد نورانی کی جاری کردہ آڈیو پر میں نے کوئی وی لاگ کیانہ کچھ تحریر کیا،اس کی وجہ احمد نورانی ک

ا عنبرین فاطمہ سے تعلق تھا۔عنبرین اس کی دوسری اہلیہ تھیں شاید اب بھی ہیں۔ عنبرین نوائے وقت میں ہماری کولیگ رہی ہیں۔ احمد نورانی کا عمران خان عدلیہ اور پاک فوج بارے سخت موقف ہے۔عمران خان اور ان کی پارٹی پر تنقید کی جا سکتی ہے۔مخالفین تنقید ہی نہیں کرتے ان کے بارے بہت کچھ کہتے ہیں ۔ جس کا جواب بھی اینٹ کا جواب اینٹ کی صورت میں تو آتا ہی ہے ۔ مگر عدلیہ اور فوج کی طر ف سے جواب آں غزل کی روایت نہیں ہے۔ایسے لوگوں کو عدلیہ اور فوج کا احترام کرنے والوں کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے۔عنبرین کی جب سے احمد سے شادی ہوئی اس کے بارے میں کچھ بھی لکھنے سے گریز کیا۔ عنبرین نوائے وقت میں فیچر اور تجزیہ نگاری کے علاوہ انٹرویو بھی کرتی رہی ہیں۔جس میں ان کی مکمل غیرجانبداری ہوتی تھی مگر ان کا ن لیگ کی طرف جھکاو رہا ہے۔پی ٹی آئی”متھیوں دُکھتی ہے“۔ احمد نورانی کی آڈیو آئی تو میں اسے ان دنوں کا(joint venture) مشترکہ منصوبہ سمجھا تھا۔ اِدھریہ آڈیوسامنے آئی اور اُدھرعنبرین کی گاڑی پر حملہ ہو گیا ۔ میڈیا نے اسے ابتدائی خبروں میں احمد نورانی کی اہلیہ پر حملہ قرار دیا۔اس کے بعد پاک فوج کے خلاف اٹھنے والے طوفان بدتمیزی کو دنیا نے دیکھا ۔ یہ طوفان اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو فوج کے خلاف ادھار کھاکر کچھ نقد بھی وصولتے ہیں۔ان کی طرف سے عنبرین کو مظلوم اور حملہ کرنے والوں کو نامزد کر کے ظالم قرار دیا گیا۔ بلاشبہ حملے کی زد میں آنے والے مظلوم اور حملہ آورظالم ہیں لیکن حملہ آور کون تھے کچھ پتہ نہیں ہے۔اس حملے کے ایک دو روز میں عنبرین نے احمد سے لاتعلقی کا اظہار کیا تو عنبرین کو مظلوم قرار دینے والے دُم دبا کر بیٹھ گئے۔ یہ طبقہ محض احمد نورانی کی حمایت میں عنبرین کو مظلوم قرار دے رہا تھا۔ گاڑی پر حملہ ہوا تو ابتدا میں بہت سے لوگوں کی طرف سے یہی تاثر سامنے آیا کہ احمد نوارانی کی اہلیہ ہونے کے باعث یہ مہم جوئی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں عنبرین کے بارے میں کہا گیاکہ وہ امریکہ چلی گئی ہیں۔جس روز ان پر حملہ ہوا تھا ایک اینکر نے کہا، عنبرین فاطمہ اسے امریکہ جانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں اور حملے کو عنبرین اور احمد نورانی کی ڈرامہ بازی کہا گیا۔اب جب عنبرین امریکہ جا چکی ہیں تو ان کے کچھ کولیگ بھی کہتے سنے گئے کہ یہ سب ان کی اور احمد نورانی کی ملی بھگت تھی۔ گزشتہ روز عنبرین سے وٹس ایپ پر بات ہوئی تو انہوں نے تصدیق کی کہ وہ امریکہ میں ہیں۔ مزید تفصیل بتائی تو شکوک کے بادل چھٹتے ، شک کی سموگ بیٹھتی چلی گئی۔ عنبرین فاطمہ نے بتایا کہ وہ امریکہ میں اپنی بہن کے پاس آئی ہیں تاکہ پاکستان میں جاری افواہوں ، طنز اور تنقید سے بچ سکیں مگر جہاں بھی وہ سب ہورہا ہے۔ احمد نورانی کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ۔ اس کے ساتھ تمام رابطے جون2020ءکے بعد سے منقطع ہیں۔ اس نے پہلی بیوی صباحت کے خلاف زہر اگل کر مجھ سے شادی کی۔اس نے کہا صباحت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں،اس کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتا۔اس سے شدید نفرت کرتا ہوں ایسی باتیں کرکے مجھے قائل کیامگر یہ سب جھوٹ تھا۔اس کے پہلی بیوی کے ساتھ تعلقات موجود تھے۔میں نے اعتراض کیا تو بات اختلاف پھر ان میں اضافے اور بالآخر علیحدگی پر پہنچ گئی ۔ اس کی طرف سے یہ جھوٹ بھی بولا گیا کہ مجھے طلاق دے دی ہے۔نادرا میں اب بھی طلاق کا ریکارڈ نہیں۔ ایسے گھٹیا اور”بے شرم“ شخص کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہوں ۔ اسی لئے خلع کا دعویٰ دائر کیا ہے ۔مجھ پر حملہ ہوا تو اس نے مجھے ایجنسیوں کا ایجنٹ بھی کہنا شروع کردیا۔ عنبرین نے یہ بھی بتایا کہ میرے بیٹے فہد احمدکی عمر14ماہ ہے مگر اس کے باپ نے اسے دیکھا تک نہیں ۔بیٹی اریبہ احمدکی عمر اڑھائی سال ہے۔ امریکہ میں صرف ایک ہی اہلیہ کے ساتھ رہا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس نے صباحت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔مزید براں اب وہ بچوں کاخرچہ بھی نہیں دے رہا۔ جو لوگ ڈرامہ بازی کی بات کرتے ہیں وہ خدا کا خوف کریں ۔ مجھے نہیں معلوم وہ کہاں رہتا ہے ۔اس نے طلاق کا جھوٹا دعویٰ تو کردیا مگر بچوں کے معاملات کی بات نہیں کی۔ میری 29 جنوری کی واپسی کی سیٹیں بک ہیں۔ اس گفتگو کے دوران عنبرین کی بہن فرح عماد نے بھی بات کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ عنبرین شدید ذہنی دباو میں سے ایک بار خود کشی کی کوشش کر چکی ہے، ہمیں آج پاکستان میں مدد کی ضرورت ہے۔انہوں نے پاکستان میں انصاف نہ ملنے کا شکوہ بھی کیا۔ یہ بھی بتایا کہ یہ رشتہ رحمت علی رازی صاحب نے کرایا تھا۔ جواب دنیا میں نہیں رہے۔احمد کی والدہ بھی صباحت کے بارے میں کہتی تھی کہ وہ تعویز دھاگے کرتی ہے۔احمد فراڈ کرکے امریکہ آیا۔ایک کال پر اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے مگر ہم اب بھی برداشت سے کام لے رہے ہیں مگر کب تک صبر کیا جاسکتاہے۔احمد کا ساتھ دینے والے اللہ کے سامنے کیسے جائیں گے۔عنبرین فاطمہ نے اپنی تحریر میں جو بپتا بیان کی ہے وہ بھی ملاحظہ کیجئے۔”بطور صحافی اور ایک عام انسان میرے لیے پچھلے چند ہفتے زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ قاتلانہ حملے کے بعد ایک طرف اپنی اور بچوں کی جان کی فکر تو دوسری طرف اپنے رشتے کے بارے میں لوگوں کو صفائیاں دینا۔ یہ سب اس انسان کے لیے جس کے لیے میں نے دوسری بیوی بننا بھی گوارا کیا، شادی کے بعد اس کی مسلسل بے رخی جھیلی، اس کی لاتعلقی سے تنگ آ کر حمل کے دوران اپنی جان لینے کی کوشش تک کی۔میرے اوپر حملہ ہوا تو جیسے میرے شوہر کو میرے خلاف زہر اگلنے کا موقع مل گیا ۔میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا اور حساس ادارے کی ایجنٹ بتایا گیا، قاتلانہ حملے کو حساس ادارے کی سازش کہا گیا۔ الزامات کی ایسی بارش کی گئی کہ مشکلات کی شکار عورت کا جینا مشکل کر دیا گیا۔ ایک مرد نے جو کہا باقی مردوں نے یقین کر کے پوری شدت کے ساتھ ایک بے قصور اور کمزور عورت کو خوب رسوا کیا۔دوہری مصیبت میں پھنسی اس عورت نے بیرون ملک بہن کے پاس جا کر سُکھ کاسانس لینے کی کوشش کی تو اتنی شدت سے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا کہ مجھ پر ہوئے حملے سے زیادہ میرا نکاح اور طلاق اہم ہو گئی۔ افسوس یہ کہ میرے شوہر نے تو کسی مقصد کے تحت طلاق یافتہ، حساس ادارے کی ایجنٹ کہا لیکن اس کے دوستوں نے جس طرح سے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کے جھوٹ پر اعتبار کیا اور میرے خلاف مہم میں حصہ لیا اس کو دیکھ کر میری نظر میں ان کے اپنے کردار مشکوک ہو گئے ہیں۔ وہ مرد و خواتین جو عورتوں کے حقوق پر بھاشن دیتے نہیں تھکتے، ان میں سے کسی نے اس شخص سے یہ تک پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ بھائی صاحب طلاق ہو چکی ہے تو طلاق نامہ کہاں ہے؟ ہر خبر کے ثبوت پاس رکھنے کا دعویٰ کرنے والے سے یہ نہیں پوچھا کہ میرے حساس ادارے کی ایجنٹ ہونے کا ثبوت کہاں ہے؟ کچھ خواتین اینکرز نے فون پر تو مجھ سے اصل کہانی تو سن لی لیکن سوشل میڈیا پر سچ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ان ساتھیوں سے یہی کہوں گی کہ جب آپ کسی بات کی حقیقت جانتے ہوں تو کسی کا ”ذاتی مسئلہ“ کہہ کر آگے نکل جانا آپ کے بزدل ہونے کی دلیل ہے۔ ان رویوں نے سوسائٹی میں موجود فرق اور پاور کی اہمیت کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔وعدوں پہ اعتبار کر کے میں نے شادی بڑے چاﺅ سے کی تھی۔اپنی زندگی ایک آدمی کے حوالے کردی لیکن بد قسمتی یہ رہی کہ میں ایک دن کی دلہن بھی نہیں تھی۔ دوسری بیوی ہونے کی وجہ سے ظلم اور زیادتیاں سہنے کی ہر حد کو عبور کیا، اپنا ہر کام اکیلے کیا، کسی لمحے کسی جگہ مجھے شوہر کے نام اور اس کے پیار کی چھاﺅں محسوس نہیں ہوئی، دوسری بیوی ہونے کی وجہ سے مجھے سسرال والوں نے اپنی خوشیوں اور غموں سے دور رکھا۔ وہ سسرال والے جو باقاعدہ رشتہ لینے آئے، نکاح اور شادی میں بخوشی شامل ہوئے لیکن شادی کے بعد مجھے اون نہیں کیا گیا۔ بند کمروں میں بھابھی اور بہو کہا جاتا تھا لیکن دنیا کے سامنے سب مجھے پہچاننے سے انکاری ہو جاتے۔ میرے شوہر نے امریکہ جانے سے پہلے مجھ سے جو ملاقات کی وہ آخری ملاقات تھی۔ یہ اسے پتہ تھا لیکن مجھے نہیں، کیونکہ امریکہ جیسے ملک میں وہ اپنے ساتھ رہنے کے لیے کاغذات میں پہلی بیوی کا نام دے چکا تھا جس سے میں لاعلم تھی۔ اس کے چھ ماہ بعد جب مجھ پہ بتا کر بجلی گرائی گئی کہ پہلی بیوی ساتھ رہے گی، تم نہیں، تم لاہور میں رہو گی۔ میں نے پوچھا کہ بیٹی کا اور میرا کیا ہو گا؟ جو بچہ اس دنیا میں آ رہا ہے، اس کا کیا ہو گا؟ تو کہا گیا کہ ماہانہ خرچ مل جایا کرے گا۔ سوال کیا گیا کہ بچوں اور مجھے جو ضرورت ہوگی آپ کی، اس کا کیا ہو گا؟ تو جواب ملا بچے پل جایا کرتے ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ مجھے تو آپ نے یہ کہہ کر قائل کیا تھا کہ پہلی شادی میں نفرت والے معاملات ہیں، مجھے تمہارے ساتھ ہی رہنا ہے۔ تو کیا یہی تعلق کی خرابی تھی؟ جواب میں رابطہ منقطع کر دیا گیا۔چھ ماہ کے بعد میرے والد محترم نے معاملات سلجھانے کے لیے داماد کو کال کی تو داماد نے فون نہ اٹھایا اور دوست کے ذریعے مجھے پیغام بھجوایا کہ وہ کسی سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتا، کوئی رابطہ نہ کرے۔ یہ پیغام اس باپ کو بھجوایا گیا جس کو میری ہی طرح رو رو کے شادی کے لیے قائل کیا تھا۔ اس کے بعد ذلت محسوس کرتے ہوئے میں نے جب کہا کہ اس سے بہتر ہے کہ طلاق دے دو لیکن معاملات طے کرو۔ اس عرصے میں کی گئی ایسی ای میلز کو بعد ازاں اس وقت خوب استعمال کیا گیا جب مجھ پہ حملہ ہوا کہ عنبرین نے مجھ سے طلاق مانگی تھی۔ تاہم لوگوں کو سیاق و سباق نہیں بتایا گیا ۔ اسی طرح پونے دو سال گزر گئے۔اپنے شوہر کے ہائی پروفائل صحافی ہونے کی وجہ سے پریشر رہتا تھا، دھمکیاں ملتی تھیں، ٹینشن دی جاتی تھی۔ لیکن میں نے کبھی سوشل میڈیا پر یہ گمان بھی نہیں ہونے دیا کہ ہمارے معاملات ٹھیک نہیں یا میں مشکلات سے گزر رہی ہوں۔ یہاں تک کہ دوسرا بچہ پیدا ہوا تو اس کی سیریس حالت کا ڈاکٹر کا لکھا پیپر دیکھ کر شوہر نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بیٹی کی آنکھ کا آپریشن ہوا باپ نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پونے دو سال طرح طرح کی آپشنز دیں۔ رشتہ قائم رکھنے کی لیکن کسی کو یہ نہ بتایا گیا کہ اس نے بہت ساری چیزوں پر کمپرومائز کر لیا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پونے دو سال ایک عرصہ ہوتا ہے اس میں مجھ سے رابطہ ختم کر کے پہلی بیوی کی طرف سارا رجحان تھا۔ وعدے وعید ہو چکے تھے۔ شاید یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ مجھے چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن حملہ ہوا تو بات پھر سے کھل گئی کہ عنبرین تو ابھی بھی بیوی ہی ہے۔ اس لیے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ طلاق دے دی ہے۔ چلو اس سے پہلا گھر تو بچ گیا لیکن خود کی حقیقت بھی میرے سامنے واضح کردی کہ میں اس عورت کے سامنے تمہارا بوجھ نہیں اٹھا سکتا جس سے نفرت کا تعلق بتا کر تمہیں شادی کے لیے قائل کیا تھا۔“ آج واقعی مشکل کی گھڑی میں عنبرین کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ عنبرین ایک ڈیسینٹ،سوبر اور بہادر خاتون ہے۔ چند سال قبل ان کو موٹروے پر بدترین حادثے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے کارڈیوائیڈر سے ٹکرا کر دوسری طرف جا گری اور الٹ کر گھومنے لگی۔ والد گاڑی چلا رہے تھے۔یہ خود بھی باقی لوگوں کے ساتھ شدید زخمی ہوئیں۔ آنکھوں کے گرد شیشے چُبھ گئے۔ عنبرین نے اپنے حواس بحال رکھے ۔ گاڑی سے نکلیں مدد کے لیے پکارا مگر گاڑیاں رک نہیں رہی تھیں ۔ایک بس رکی ۔ سواریوں نے گاڑی سے زخمیوں کو نکالا۔ والد ،والدہ اور بہن کو کوئی ہوش نہیں تھا۔مدد کرنے والے ان کے موبائل اور دوسرا سامان بھی لے گئے۔والدین کئی ماہ ہسپتال میں داخل رہے۔اس خاندان پر وہ ایک بڑی آزمائش تھی مگر آج جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہاہے وہ اس سے بھی بڑی آزمائش ہے۔احمد نورانی کا موقف لینے کیلئے ان کے فون پر کال کی گئی مگر ان کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا۔