جو دنیا میں کہیں اور نہیں ہوتا وہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ہماری سیاست میں سب چلتا ہے۔ آمریت میں جمہوریت چلتی ہے اورجمہوریت میں آمریت پھلتی ہے۔ آمریت عموماً لبادے میں نظر آتی ہے من چاہے تو بے لبادہ ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں افواہوں کے جھکڑ چلتے ہیں۔قیاس آرائیوں کے طوفان اٹھتے ہیں۔مبالغوں کے انبوہ سے سچائی تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے سمندر سے موتی اور گھاس کے ڈھیر سے سوئی۔چہ میگوئیوں کے باعث آٹھ فروری کے انتخابات غیر یقینی رہے۔انتخابات کے انعقاد کے دن تک افواہوں کے بگولے اٹھتے رہے۔نتائ
حکومت سازی کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہلچل مچاتی رہیں۔وہ بھی اس وقت جھاگ ہو گئیں جب تحریک انصاف کی طرف سے خیبر پختون خوا میں علی امین گنڈا پور کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیاگیا۔اسی دوران بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا کہ وہ مسلم لیگ نون کی حکومت بنانے میں سپورٹ کریں گے۔خود حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے۔زرداری صاحب نے ایک قدم آگے بڑھایا شہباز شریف سے ملاقات کی اور کہا کہ مل کر حکومت بنائیں گے۔اسی دوران ایک اور بڑی ڈویلپمنٹ ہوئی جب مسلم لیگ نون نے شہباز شریف کو وزیراعظم اور مریم نواز شریف کو وزیراعلی پنجاب کی امیدوار نامزد کر دیا۔ سندھ میں وزیر اعلیٰ کا قرعہ شرجیل میمن کے نام نکل سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو کے پی کے اور سندھ میں "شہد بھائیوں" کی حکومت ہوگی۔مراد علی اور قائم علی شاہ بھی بقائمی و ہوش و حواس امیدوار ہیں۔کچھ نامزدگیاں ہو چکیں کچھ ہو رہی ہیں۔جن کی نہیں ہوں گی ان کیلئے آرام زدگیاں، وہ آرام فرمائیں۔
لندن پلان کا بڑا شور تھاجس کے تحت میاں نواز شریف کووزیراعظم بنایا جانا تھا .اب شہباز شریف نامزد ہوئے ہیں۔میاں نواز شریف وزیراعظم بنتے تو معاملات وہیں سے آگے بڑھاتے جہاں نااہلی کیفیصلے کے بعدچھوڑے تھے۔اب شہباز شریف وزیراعظم بن رہے ہیں وہی جماعتیں پھر ساتھ ہونگی تو معاملات وہیں سے شروع کریں گے جہاں پہ 16 ماہ کی حکومت کے بعد چھوڑے تھے ! اللہ خیر کرے۔چند ہفتے قبل پارک میں واک کے دوران لکھویرا صاحب سے ملاقات ہو گئی۔انہوں نے بڑی رازداری سے کہا "طے"ہو گیا ہے،کیا کیا طے ہوا؟ ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف صدر بنیں گے شہباز شریف وزیراعظم اور مریم وزیراعلی پنجاب بنیں گی۔میں نے اسے افواہوں کے بازار میں درفنطنی سمجھا مگر اسے یکسر نظر انداز نہیں کیا. اسی روز اس پر وی لاگ بنایا۔بلاول نے ابا جی کیلئے صدارت ، سپیکر اور سینٹ کی چیئرمین شپ کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔اگر میاں نواز شریف صدر بن جاتے ہیں تو پھر لکھویرا صاحب کو سیاسی گورو تو ماننا پڑے گا۔
انتخابی نتائج کے حوالے سے تحریک انصاف سب سے زیادہ غصے میں نظر آتی ہے۔جماعت اسلامی اور جی ڈی اے بھی کم آنکھیں نہیں دکھا رہی۔جی ڈی اے نے دو سیٹیں سندھ سے سے جیتی تھیں۔ جن کی اس پارٹی کی طرف سے واپسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ نہ جانے پیر صاحب پگارا نے یہ سیٹیں کس کو واپس کی ہیں؟جماعت اسلامی انتخابی نتائج کے خلاف نگرانوں کا "جلوس "نکالنے کا اعلان کر چکی ہے۔پی ٹی آئی نے جو جلوس نکالنے تھے نو مئی کو نکال لیے۔اب اس کے اندر سے احتجاج ایسے نکل چکا ہے جیسے اندر سے جن۔انصافیوں کو ایسا ٹیکا لگا کہ اب ٹھمکا لگاتے ہوئے بھی خوف کھاتے ہیں۔خوف کھانا کٹ کھاکر ٹکوریں کرنے سے بہتر ہے۔گویا اب احتجاجوں مظاہروں سے توبہ کر لی۔ایک توبہ پرویز خٹک نے تحریک انصاف کو چھوڑتے ہوئے کی تھی۔اپنی پارٹی تحریک انصاف پارلیمنٹیرین بنا لی اور کے پی کے میں کلین سویپ کا دعویٰ کیا مگرکلین بولڈ ہو گئے۔ ووٹ ہزاروں، سیٹ صفر اور پارٹی صدارت چھوڑ دی۔ جہانگیر ترین نے جتنی تندی سے آئی پی پی کا ہمالہ کھڑا کیا اتنی تیزی سے گرگیا۔ انہوں نے پارٹی ہی نہیں چھوڑی سیاست سے بھی توبہ کر لی۔ بلاول نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا، نواز شریف کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے مگر اب ہاتھ ملا لیاہے۔ بلاول بھٹو زرداری سیاست کا پہلا زینہ چڑھتے ہی پختہ کار ہو گئے۔وعدہ وعدہ ہوتا ہے توڑ چڑھانا ضروری نہیں۔عمران خان پابند سلاسل ہیں۔وہ 34 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔جیل سے صحافیوں کے توسط سے پانچ باتیں باہر آئیں۔علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ نامزد۔ وضاحت کی کہ جیل میں ان کی کسی شخصیت سے ملاقات نہیں ہوئی۔ جیل سے بنی گالہ شفٹ نہیں کیا جا رہا۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے بات نہیں ہوگی۔یہ بھی کہا کہ انتخابی نتائج رکے تو یقین ہو گیا تحریک انصاف جیت رہی ہے۔خان صاحب کی آخری بات قابل غور ہے۔انتخابی نتائج ان تک کون پہنچا رہا تھا؟ خان صاحب قید کاٹ رہے ہیں اور وہ بھی با مشقت۔افواہوں کی بات کریں تو میاں نواز شریف کا وزیراعظم بننا سب سے بڑی افواہ ثابت ہوئی۔