تلخ حقیقت

تحریر: رابعہ سکندر

| شائع |

انگریز کیونکہ مکمل فحاشی پر یقین رکھتا جسکی وجہ سے انکے معاشرے میں ترقی کرنا بہت آسان ہے، انکی زندگی کے سفر میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں اور ایک محسوس وقت میں وہ اپنی زندگی میں خود کفیل ہو جاتے ہیں، ریاست کا پورا تعاون اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا مکمل حق یعنی وہاں کی  ایک اکیلی عورت حکومت سے فنڈز لے کر جنگلوں میں ڈاکومنٹری بنانے نکل جائے یا دو مرد آپس میں شادی کر لیں اور اس طرح کی بیشتر مثالیں آپ کے گرد گھومتی ہیں جو ہمارے معاشرے میں قابل قبول نہیں۔

یہ سار

ی گندگی کھانے کے بعد انگریز پوری دنیا میں انسانیت کا علمبردار بن گیا اور پوری دنیا میں انسانیت کے لیے مل کر کام کرنے کی تبلیغ کرنے لگا۔ اس وقت امریکہ اور یورپ میں ستر فیصد انسانی حقوق کی تنظیمیں چلانے والی خواتین بچپن میں زیادتی کا شکار ہوئیں اور پھر انہوں نے ماڈلنگ کا شعبہ اپنایا اور دنیا میں اپنے جسم کی نمائش کر کے کئی گلوبل ایوارڈ لئے اور پھر انسانیت کا سبق سکھانے ساری دنیا میں گھومنے لگیں۔ انگریز فلسطین پر نسل کشی میں برابر کا شریک بن کر اپنی تنظیموں کے ذریعے دنیا کو مل کے انکی مدد کے لئے آواز بلند کرتا ہے، واہ کیا زبردست انسانی حقوق کی پالیسی ہے۔

 بڑے بڑے بزنس لیڈر انگریز کی بنائی تنظیموں کے ڈونرز بنتے ہیں اور اپنا نام چمکانے کے لئے اس مصنوعی کار خیر میں حصہ ڈالتے ہیں۔ انگریز کا دوسرا بڑا کارنامہ (اینٹرٹینمنمٹ) جسکی بنیاد جسمانی نمائش اور جسم فروشی پر مبنی ہے جو کہ پوری دنیا میں اشرافیہ کی بہترین خوراک ہے۔ انگریزی فلمیں، کنسرٹس، فیشن شو، ٹورزم اور سب سے زیادہ جوان بچے بچیوں کی زندگیاں برباد کرنے والی سوشل میڈیا ایپلیکیشنز جہاں سے یہ زہریلا  مواد ہمارے بچوں تک منتقل ہوتا ہے۔  پھر جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ شعیب اور ثانیہ کی طلاق، خاوند کا بیوی کے لیے چپس نہ لانے پر طلاق اور کسی فلمی اداکارہ نے ہتک عزت پر عدالت سے رجوع کر لیا۔ میرے معصوم دوستوں اداکاروں کا تو سودا بک رہا ہے آپ یہ خبریں سوشل میڈیا پر پھیلا کر کیا کما رہے ہیں صرف ذلالت۔ کاروباری آدمی جس سے ہم بزنس لینے جاتے ہیں وہ ایک منٹ میں ہماری اوقات جان لیتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں پھر بھی اسکی مہربانی وہ ہمیں ذلیل کر کے اپنے دفتر سے نہیں نکالتا بلکہ آپ سے کٹھن سوال کر کہ آپکی اصلاح اور آپکو کہیں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سٹار بننے کی جو شدت ہم میں آ چکی ہے جس کا سہرا سوشل میڈیا کو جاتا ہے یہ اب صدیوں میں ہی ختم ہو گی۔ ہماری باتیں، خود پسندی، غصہ اور سلف پروموشن کا نتیجہ پاکستان میں طلاق کی خطرناک شرح اور گھریلو ناچاقیاں ہیں، جن کی وجہ سے ہماری سوسائٹی تباہ ہو گئی ہے۔ خدارا اپنی قدر و قیمت جانئیے اور سٹار بننے کی بجائے اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا بنئیے جنہوں نے آپکو مصنوعی دنیا سے بچا کر معاشرے کی خدمت کے لیے اچھی صورت و اخلاق سے نوازا۔