خان کیخلاف صدارتی آرڈیننس، آج پھر لیگی ناٹک،سات سپوت قوم پر قربان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

عمران خان کے دور حکومت میں آر ڈیننسز کے اجراء کی مخالفت کرنے والی اس وقت کی اپوزیشن جو آج کل حکومت میں ہے اس کی طرف سے آرڈیننسز کی بوریوں کے منہ کھول دیے گئے ہیں ۔نیب ترامیم کیس جو پہلے ہی سپریم کورٹ میں پڑا ہوا ہے اس میں اس حکومت کی طرف سے ترمیم کرتے ہوئے 90 دن کے ریمانڈ کو 14 دن کا ریمانڈ بنا دیا گیا تھا اور اب جب کہ ان کو یہ نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کو کسی بھی طریقے فکس کر کے رکھنا ہے اب 40 روز کا ریمانڈ اسی لیے رکھا گیا ہے۔ عمران خان کو کسی نیب کیس میں گرفتار کیا جاتا ہے تو 40

روز سے پہلے ان کی ضمانت نہ ہو سکے۔حکومت کی طرف سے یہ آرڈیننس بھیجا گیا صدر زرداری جو آرڈیننسز کی پہلے مخالفت کرتے رہے ہیں ان کی ہداہت پر قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کی طرف سے آرڈیننس پڑھے بغیر ہی اس پر سائن کر دیے کہ اس میں تھوڑا سا بھی پڑھنے میں جو وقت لگنا ہے اتنا بھی ڈیلے نہ ہو۔

عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنا آخری کام کیا کیا؟

یہ آرڈیننس بھی جاری کیا گیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز پہلے تو حاضر سروس ججوں پر مشتمل ہوا کرتے تھے اب کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ جج بھی ٹربیونلز میں شامل کیے جا سکتے ہیں گویا یہ بھی عمران خان اور ان کی پارٹی کی طرف سے رجوع کرنے والوں کے ریلیف میں مینگنیاں ڈالنے والی بات ہے ٹربیونلز کے جج کی تعیناتی کا اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہے اب جو ریٹائرڈ جج لگائے جائیں گے وہ ہو سکتا ہے حکومت اپنی من مرضی کے لگا دے۔

آج قوم کے سامنے ایک اور بہت بڑا ناٹک پیش کیا جا رہا ہے ۔اس ڈرامے کے شاہکار میاں محمد نواز شریف ہیں شہباز شریف مسلم لیگ نون کے صدر بنائے گئے تھے ان کو صدارت سے ہٹانے کا کہہ کر میاں نواز شریف کو آج مسلم لیگ نون کی جنرل کونسل کے لوگ ایک ڈرامہ کر کے مرکزی صدر منتخب کریں گے۔ رانا ثنا اللہ جو مزاحمتی بیانیہ کے بہت بڑے علم بردار تھے وہ میاں نواز شریف کی صدارت کے لیے پہلی اینٹ رکھنے والے تھے اس کے بعد کئی اور بھی میاں نواز شریف کی صدارت کے لیے غش کھا کر گرتے ہوئے نظر آئے۔کہا جاتا ہے کہ چھ سات لوگوں کی طرف سے میاں نواز شریف کا مقابلہ کرنے کے لیے کاغذات حاصل کیے گئے۔

نوازشریف کو امریکی ڈاکٹر نے بغیر علاج پاکستان واپسی سے منع کر دیا

رانا ثنا اللہ یہ الیکشن کنڈکٹ کروا رہے ہیں جو مسلم لیگ پنجاب کے صدر ہیں اور ان کی ڈھٹائی اور بے شرمی دیکھیے کہ وہ اپنا الیکشن ہار گئے اس کے باوجود وہ مسلم لیگ پنجاب کے صدر ہیں جاوید لطیف کہتے ہیں کہ یہ بندہ استعفیٰ کیوں نہیں دے رہا۔ اپنی شکست پر مسلم لیگ نون کی پنجاب کی صدارت سے استعفی دینا تو دور کی بات ہے رانا ثنا اللہ نے ہارنے کے باوجود مرکز میں وزارت بھی قبول کر لی۔ آج ان کی سربراہی میں مسلم لیگ نون کا ڈرامہ شروع ہوگا جس میں آخری وقت میں سارے کے سارے امیدوار جن کی تعداد سات آٹھ بتائی جاتی ہے جنہوں نے صدارت کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل کیے تھے وہ اپنے کاغذات واپس لے لیں گے اور میاں نواز شریف کو بلا مقابلہ مسلم لیگ نون کا صدر منتخب کر لیا جائے گا۔ یہاں پہ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف صدر مسلم لیگ نون بن کے آخر کار کون سا تیر مارنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے اندر جتنے بھی فیصلے ہوتے ہیں میاں نواز شریف کی مرضی کے مطابق ہی ہوتے ہیں تو پھر شہباز شریف کو صدارت سے کیوں ہٹایا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شہباز شریف کو صدارت سے ہٹانا ان پر نواز شریف کا عدم اعتماد ہے یہ بہرحال خورشید شاہ صاحب کی رائے ہو سکتی ہے۔مگر میاں نواز شریف کو شہباز شریف پر اعتماد تو ہے وہ آپ نے سنا ہوگا کہ شاہجہاں کو جب اس کے بیٹے نے قید میں ڈالا تو اس نے کہا تھا کہ مجھے فرصت میں کوئی بچے دے دیئے جائیں جن کو میں قرآن پاک پڑھا دیا کروں تو اس پر اورنگزیب عالمگیر نے کہا تھا کہ والد صاحب قید ہو گئے بادشاہت جاتی رہی لیکن خوئے شاہی نہ گئی ۔میاں نواز شریف نے سوچا چلو میں وزیراعظم تو نہیں بن سکا مسلم لیگ نون کا صدر بن کر ہی دل بہلاتا رہوں گا۔

رانا ثنا اللہ میاں نواز شریف کو صدر مزاحمتی بیانیے کے لیے بنوانا چاہتے تھے یہ باتیں اس وقت انہوں نے کیں جب وہ شہباز شریف کے سیاسی مشیر نہیں بنے تھے سیاسی مشیر بننے کے بعد رانا ثنا اللہ کا مزاحمتی بیانیہ موت کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔اب وہ سب سے حتیٰ کہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔

رانا ثناء اللہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کیخلاف درخواست نمٹادی گئی -  Pakistan - AAJ

ویسے مسلم لیگ نون مزاحمتی بیانیہ افورڈ ہی نہیں کر سکتی اگر ایسا ہوگا تو مرکز سے شہباز شریف پنجاب سے مریم نواز شریف صاحبہ نہ صرف اقتدار سے جائیں گے بلکہ یہ جاتی عمرہ میں اور ماڈل ٹاؤن میں رہائش پذیر ہونے کی بجائے ان کا اگلا مسکن جیلوں میں ہوگا اس چیز کا ان کو ادراک ہے اس لیے مزاحمت نہیں بلکہ مفاہمت کی سیاست پر کار فرما رہنا ان کی مجبوری اور ناگزیری ہے۔

مسلم لیگ نون کے بوٹ اور رو بوٹ عطاءاللہ تارڑ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ امداد نہیں چاہتے تجارت چاہتے ہیں کشکول توڑنے کا ارادہ ہے۔چڑیا کے بچے کو جو اپنے گھونسلے میں بھی بیٹھنے کی پوزیشن اور سکت میں نہیں ہوتا وہاں سے بھی گر جاتا ہے ایسے ہی تارڑ صاحب بوٹ ہیں اور یہ دعوے بڑے بڑے کر رہے ہیں کشکول توڑنے کے ۔امداد نہیں تجارت کے تو یہ کس کو سارا کچھ کہہ رہے ہیں جبکہ شہباز شریف صاحب کشکول بردار ہیں اور یہ ان کے پیچھے پیچھے جس طرح سے چار پانچ اندھے بڑے اندھے کے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں یہ اسی طرح سے بھیک مانگتے ہیں ملک ملک جاتے ہیں وہاں جا کر اور یہاں آ کر بس ایک ہی بات کرتے ہیں کہ کشکول توڑ دیا امداد نہیں تجارت ۔کون ان کی بات مانے گا۔یہ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں بلکہ خود ہی بیوقوف بن رہے ہیں

خیبر پختونخوا میں ایک اور انتہائی زیادہ افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں سات سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے تاہم دہشت گردوں کا بھی کام تمام کر دیا گیا۔26 اور 27 مئی کو تین الگ آپریشنز میں 23 دہشت گردوں کو انجام تک پہنچا دیا جبکہ 7 سیکیورٹی اہلکار بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔شہید ہونے والے پاک وطن کے جری سپوت ہیں جو اپنا آج قوم کے کل پر قربان کر رہے ہیں ان کی لازوال قربانیاں پاکستان میں امن کی صورت میں انشاءاللہ جلد رنگ لائیں گے۔

عطا تارڑ کو بھیجے گئے نوٹس میں والد کا نام غلط لکھ دیا گیا