سب جعلی ۔۔۔
تحریر: ستارچوہدری
| شائع |
کسی جنگل میں ایک "خرگوش" کی اسامی نکلی۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے بھی اس کیلئے درخواست جمع کرا دی۔ اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔
ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس نا انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقفکاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف باتیں کیں، سب دوستوں اور ہم خیالوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔
ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی، ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کیلئے چند سینیئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔ دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔ کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعویٰ دائر کرنے پر پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔
کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیئے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کیا جواب دیا۔۔۔ بعد میں بات کرتے ہیں ۔۔۔پہلےجنگل کے ’’ جعلی عہدیداروں‘‘ کی طرح پاکستان کے ’’جعلی حکام ‘‘پر بات کرلیں۔۔۔
ملک آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں،جہاں آئین ہی جعلی ہووہاں دوسری بات کیا کرنا۔۔۔71میں جو انتخابات ہوئے،انہیں تسلیم نہ کیا گیا تھا،شیخ مجیب اور انکی پارٹی کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو عمران خان اور اسکی پارٹی کے ساتھ کیا جارہا ہے،اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے،ہزاروں فوجی قید ہوگئے،ملک دولخت ہوگیا۔۔۔اتنا کچھ ہونے کے بعد اس انتخابات کی کیا حیثیت رہ گئی تھی؟اب تو چاہیے تھا مغربی پاکستان میں نئے انتخابات کرائے جاتے جس کو عوام منتخب کرتے وہ وزیراعظم بن جاتا،لیکن ایسا نہ ہوا،جس الیکشن کی وجہ سے ملک ٹوٹ گیا تھا،اسی نتائج پر بھٹو وزیراعظم بن گیا،اگر ہم سیاسی وابستگیوں سے نکل کر سوچیں تو بھٹو جعلی طریقے سے وزیراعظم بنا،ظاہر ہے وہ کابینہ بھی جعلی تھی اور اس کابینہ نے جتنے قانون پاس کئے وہ بھی جعلی تھے۔۔۔ اور اسی کابینہ نے آئین بھی پاس کیا تھا اس طرح تو وہ بھی جعلی بنتا ہے۔
پاکستان میں فوج تقریباً تین دہائیوں تک برسراقتدار رہی،باقی عرصہ وہ اپنی مرضی کے کٹھ پتلی حکمران لاتے رہے۔۔۔ دونوں جعلی۔۔۔حالیہ انتخابات کی طرف نظر دوڑائیں،ن لیگ کو فارم 45 کے مطابق قومی اسمبلی کی صرف 17 سیٹیں ملیں جنہیں 108 تک پہنچا دیا گیا ہے،ایم کیو ایم کو صرف ایک سیٹ ملی جنہیں22تک پہنچا دیا گیا،پیپلزپارٹی کا ا بھی زیادہ پتلا حال ہے۔فارم45کے مطابق پی ٹی آئی کو پنجاب،پختونخوا اور وفاق میں دوتہائی اکثریت ملی لیکن ان کی سیٹیں دیگر پارٹیوں کو بانٹ دی گئیں،فارم45 کو کوئی عدالت یا الیکشن کمیشن تسلیم ہی نہیں کررہا۔۔۔ کیوں تسلیم کریں؟ وہاں بھی سارے افراد ’’ جعلی‘‘ بیٹھے ہوئے ہیں۔جعلی عہدیدار جعلی کام ہی کروائیں گے،معلوم نہیں ان سے کیوں توقعات وابستہ کرلی جاتیں ہیں۔
دنیا میں کوئی ایک مثال بتادیں جہاں ایک وکیل کو چیمبر سے اٹھا کر ڈائریکٹ چیف جسٹس ہائی کورٹ بنایا گیا ہو؟جب وہی شخص آگے جاکر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنے گاتو کیا وہ انصاف کرپائے گا؟ سوچنا بھی ناں۔۔۔جعلی ارکان اسمبلی نے حلف بھی اٹھا لیئے،جعلی سپیکر،ڈپٹی سپیکر بن رہے،وزرائے اعلیٰ بھی جعلی ہونگے،وزیراعظم،صدر بھی جعلی ہونگے۔بچی کچھی پی ٹی آئی کو توابھی مخصوص نشستیں ملی ہی نہیں،ایوان پورے ہی نہیں ہوئے،سپیکر،وزیراعلیٰ بنائے جارہے۔ بابا جی کی بات یاد آگئی،انہوں نے کہا تھا بیٹا !! جہاں پورا گاؤں شرابی ہو وہاں ایک نمازی فتنہ کہلاتا ہے،جہاں ملک میں صدر،وزیراعظم سمیت طاقتور اداروں کے سربراہ جعلی ہوں وہاں ایمانداری،میرٹ کا کیا کام ؟؟؟ ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا، میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے ارکان چیتے در اصل گدھے تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔