سپر اور سیکرٹ مساج

تحریر: رابعہ عظمت

| شائع |

کیا ہمارے ہاں سیکس فری کلچر فروغ پا رہا ہے؟
دنیا بھر سے عیاش طبع امیر زادے اور امیر زادیاں مساج کرانے کے لیے کبھی فلپائن کا رخ کیا کرتی تھیں۔ کئی سیاستدان بیوروکریٹ اورصحافی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ساتھ دورے پرفلپائن گئے تھے۔کئی کی شوکت عزیز کے ساتھ خاصی بے تکلفی تھی۔ انہوں نے ا ن کو مساج کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے 5 پانچ ہزار ڈالر بھی انکے حوالے کر دیئے۔شوکت عزیز کو ان مساج سینٹرز بارے علم ہوگا اور ہو سکتا ہے وہاں وہ خود بھی مالش کرانے جاتے رہے ہوں۔ ان کو تو ریٹ تک کا علم تھا۔

5ہزار ڈالر آج سے ڈیڑھ دو دہائی قبل کی بات ہے۔ ویسے تو دیگر ممالک میں بھی مساج سینٹر بیوٹی سیلون اور ہیلتھ پوائنٹ قائم ہیں مگر فلپائن کے مساج سینٹر سٹیٹس سمبل بنے ہوئے ہیں۔ مساج یعنی مالش ہمارے ہاں سڑکوں پر گھوم پھر کر گاہک تلاش کرنے والے دو تین سو روپے میں بھی کر دیتے ہیں۔ یعنی صرف ایک ڈالر میں، جس میں مالش کا مٹیریل تیل وغیرہ مالشیے کا ہوتا ہے۔منیلا میں کسی ایونٹ کی وجہ سے رش ہونے پر ہو سکتا ہے بکنگ کرانی پڑتی ہو مگر عام دنوں میں بکنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیش دیں اور مساج کرائیں۔ آج تو کریڈٹ کارڈز کا دور ہے۔ ادائیگی کے بعد اگلے مرحلے میں کلائنٹ نے مساجر یعنی مساج کرنیوالی یا کرنیوالے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ مساجر میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوتے ہیں۔ جسے پسند کیا اس نے گاہک کو لگژری لاونج میں لے جانا ہوتا ہے۔ گاہک ایک بڑی رقم ادا کر چکا ہوتا ہے۔ اس لیے وقت یعنی مساج کی ڈیوریشن کی پابندی نہیں ہے۔ اس مالش کو سوپر اور سیکرٹ مساج کا نام دیا جاتا ہے۔ جس میں باڈی مساج کی جاتی ہے۔ باڈی مساج سے عموماً مراد پورے جسم کی مالش لی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں پہلوان ایسا ہی کرتے ہیں مگر مساج سنٹرز میں باڈی مساج کا مطلب مساج کرنے والی نے اپنی باڈی کے ذریعے مساج کرنا ہوتی ہے۔ مساج کرانے والے کے جسم کے ہر حصے کی ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں سے لے کر تمام اعضاءکی مالش کرنا ہوتی ہے۔ خاص محلول یا آئل استعمال کیے جاتے ہیں۔ آج کل ایسے مساج اور مالشوں کی اشتہارات کیلئے ویڈیوز اور تصاویر بھی انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔ جس میں دیکھاجا سکتا ہے کہ مرد کی مالش کرتے ہوئے عورت کس طرح اپنے جسم کا استعمال کرتی ہے۔ابتدا میں مالش کرانے والا مرد ہو یا عورت اسےبیڈ نما بنچ پر پہلے الٹا لٹا دیا جاتا ہے۔شروع میں صرف ہپ کو تولیے سے ڈھانپا جاتا ہے۔ بازو ، ٹانگوں، ہاتھوں، گردن کمر کی مالش کے بعد الٹے لیٹے مرد یا عورت کی ہپ سے بھی کپڑا ہٹا دیا جاتا ہے۔مرد کی مساج عموماً لڑکی کرتی ہے اگر کوئی چاہے تو لڑکے سے بھی کرا سکتا ہے جبکہ امیر زادوں کی مرضی ہے کہ وہ مساج کے لیے لڑکے کو پسند کرے یا لڑکی کو۔مختلف ویڈیوز میں لڑکی کی مساج کرتے لڑکی اور لڑکے دونوں کو دیکھاجا سکتا ہے۔زیادہ تر عیاش طبع خواتین مساج لڑکوں سے کرواتی ہیں۔


جسم کے ننگے حصوں کی مالش کے بعد مالش کرنے والی ہپ سے کپڑا ہٹا کر اپنا جسم آئل یا محلول سے تر کر کے الٹے لیٹے مرد کی اپنی چیسٹ سے  پشت کو سہلاتی ہے۔ یہ عمل آہستگی سے شروع ہوتا ہے اور تیز ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس دوران وہ پاؤں کی ایڑھیوں پر اپنی چیسٹ رکھ کے تیزی سے سر کی طرف پھسلتی چلی جاتی ہے۔ ان کی مالش کی مکمل تربیت کی گئی ہوتی ہے۔ الٹے لیٹے مرد کی جذباتی کیفیت کیا ہوگی۔ مگر ابھی مساج جاری ہے۔ جذبات تو بہر حال مساجر کے بھی ہوتےہیں جسے اجرت میں فی مالش دوتین ہزار ڈالر ملتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں مالش کرانے والے کو سیدھا لیٹنے کو کہہ کر مساجر اسے سیدھا لٹانے میں مدد کرتی ہے۔ اب جسم کے سامنے والے حصوں پر بھی مساج کا وہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ ہاتھوں کے ساتھ ساتھ باڈی سے بھی مالش یا مساج کی جاتی ہے۔ مساج کرنے والے تو عادی ہیں ہی مساج کرانے والے بھی اناڑی نہیں ہوتے۔وہ بھی کھلاڑی ہوتے ہیں۔مساج کو انجوائے کرنے گئے ہوتے ہیں۔ سیکس اسی مساج کا ہی ایک مرحلہ ہوتا ہے مگر اس سے پہلے بھی کئی مراحل آتے ہیں۔ عضوخاص کی مساج ہاتھ سے کرنے کے علاوہ خاص طریقے سے بھی کی جاتی ہے۔ عضو خاص کی مساج لڑکی اپنے خاص اعضاء سے کرتی ہے۔ مگر یہ سیکس کا عمل نہیں ہوتا۔ اس کی مزید وضاحت کھلی فحاشی میں آ سکتی ہے۔ لہٰذا اسی پر اکتفا کریں۔یہ سارا کچھ فلپائن میں ہوتا تھا۔ یو رپی ممالک اور کچھ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ممالک میں بھی یہ سیلون،پوائنٹ اور سنٹر کام کر رہے ہیں۔


عرصہ سے پاکستان میں بھی ایسے سنٹر کھل چکے ہیں جن کی تشہیر بھی باقاعدہ کی جاتی ہے۔پندرہ بیس سال قبل اسلام آباد میں لال مسجد والوں نے ایسے ہی ایک سنٹر پر دھاوا بولا تھا۔ وہاں چینی لڑکیاں مساج کرتی تھیں۔افسوس!پاکستان کے بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں قائم بیوٹی پارلرز مساج سنٹر کا روپ دھار گئے ہیں ، صد فیصد فلپائن کی طرز پر جس کا اوپر ذکر کیا ہے ۔ درحقیقت یہ جسم فروشی کا کاروبار کرنے والے مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں جن کے خلاف کارروائی کرنے کا مطلب کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افسر کا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ جدید دور کے عیاشی کے اڈے کراچی سے اسلام آباد ، لاہور تک کے پوش علاقوں میں ہیلتھ بیوٹی اور فٹنس سروس کے نام پر مساج پارلر، بیوٹی سیلون اور سپا (SPA) سنٹروں میں بدکاری کو بڑے منظم طریقے سے پھیلا رہے ہیں۔ سیاست دانوں سے لے کر بیورو کریٹس تک سب ہی چپ سادھے بیٹھے ہیں۔یہی لوگ جنسی تسکین کے لئے ان مساج سنٹرز اور بیوٹی سیلونز کا رخ کرتے ہیں جو بڑے بڑے بنگلوں اور کوٹھیوں میں قائم کئے گئے ہیں، ان مساج سنٹرز میں رشین، ازبک، تھائی، افغان اور پاکستانی لڑکیاں ہمہ وقت مساج کے بہانے مکرہ افعال انجام دینے کے لئے موجود رہتی ہیں، یہ لڑکیاں دو گھنٹوں سے لے کر ساری رات کے لئے یہ خدمت سرانجام دیتی ہیں۔اکثر مساج پارلر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ رجسٹرڈ ہیں اور ہر مساج سنٹر اپنی اپنی ویب سائٹ پر ان لڑکیوں کے حسن و جمال، ان کی عمر ، قد اور رنگ تک کی تفصیلات دے کر عیاش لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ مردوں کا مساج کرنے کے لئے لڑکیاں اور لڑکیوں کے مساج کے لئے لڑکے خدمت پر مامور ہیں۔سمپل مساج، بمبو مساج، ہربل مساج، ڈیپ ٹشوز مساج، سکن کیئر مساج ، کمر مساج ، جنرل فل باڈی مساج سمیت ”سکرٹ مساج” کی سہولیات فراہم کرتے ہیں تاکہ جنسی درندوں کی ہوس کو مکمل تسکین فراہم کی جائے۔ مائنڈ ریلکسنگ مساج سے لیکر فل باڈی مساج تک کے لئے الگ وقت اور الگ ریٹ مقرر ہیں۔اکثر مراکز ایسے ہیں جو صرف ایک ٹیلی فون کال پر لڑکی گھر پہنچانے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ان سنٹروں میں ہر مساج کے الگ الگ ریٹ مقرر ہیں۔ آج کل آپکے موبائل پر میسج آتاہے کہ فلاں بیماری کے خاتمے اور سکون کے لئے مساج کروایئے۔ آپ وہاں جائے تو آپ کو آپ کی استعداد کے مطابق سہولت دی جاتی ہے ،ایک کمرے میں لیجاکر سب سے پہلے اس عیاش پسند کو بے لباس کرکے ایک گاﺅن پہنایا جاتا ہے اور پھر مساج پر مامور لڑکیاں اسے ہر قسم کی سہولت فراہم کرتی ہیں جن میں جسم فروشی کا ریٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔جسم فروشی کو فروغ دینے والے عناصر سوشل میڈیا پر آن لائن ویب سائٹ پر کھلے عام لڑکیوں کی فراہمی ان کے ریٹ، عمریں، رنگت، خصوصیات اور ان کی مصروفیات وغیرہ صاف طور پر لکھ کر ہوس کے پجاریوں کے رابطوں کا انتظار کرتے ہیں۔


لڑکیوں کی قابل اعتراض حالت تصاویر بھی لگائی جاتی ہیں تاکہ ان ویب سائٹس پر وزٹ کرنے والا رابطہ کرنے پر مجبور ہوجائے۔ امراءاپنی ہوس پوری کرنے کیلئے ان مساج سنٹروں اور ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں جہاں جسم فروش مافیا کی جانب سے جدید ترین خفیہ کیمروں کی مدد سے ان کی ویڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل بھی کیا جاتا ہے۔ نہ صرف عورتیں بلکہ مردوں کے لئے بھی الگ الگ مساج سنٹرز قائم ہیں۔ لوگ یہاں جا کر ”فل باڈی مساج” کراتے ہیں اور احمقانہ جواز یہ پیش کرتے ہیں: ”مساج سے جلد کے خلیے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈھیلے نہیں پڑتے اس لیے جلد فریش رہتی ہے اور جھریاں نہیں بننے پاتیں۔”حالا نکہ کسی بھی مسلمان، با حیا عورت کو یہ زیب نہیں دیتا، مگر ہماری یہ مغربی تہذیب کی ماری خواتین اس قبیح فعل کو کرواتے ہوئے ذرا بھی حیا محسوس نہیں کرتیں۔
 مساج کرنے کے دوران خواتین کے جسم کے مختلف حصوں کی تصاویر بنا لی جاتی ہیں اور ان تصاویر کو بیوٹیشنرز اپنے آشناؤں کو بھیج دیتی ہیں اور شیئر ہوتے ہوئے یہ تصاویر کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں اور خواتین کو علم بھی نہیں ہوتا ، کئی پارلرز کے اندر ویڈیو کیمرے بھی نصب ہیں ،ٹرائی روم میں جانیوالی خواتین اور لڑکیوں کی ویڈیو بنا لی جاتی ہیں اور پھر ان خواتین اور لڑکیوں کو لڑکوں کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اس سے اپنے ملک میں بڑھتے اس بے حیائی کے فروغ پاتے کلچر کا اندازہ لگا لیجئیے ۔


 فیس بک پر لگے ایک سپا سنٹر کی جانب سے اشتہار کی عبارت ملاحظہ کریں۔سپا مساج سینٹر میں خوش آمدید،معزز صارفین سپا مساج سینٹر میں صرف خواتین کو مساج فراہم کیا جاتا ہے۔سپا مساج سینٹر پاکستان کا واحد ادارہ جس میں پچھلے چار سال سے فری ہوم سروس مہیا کی جاتی ہے۔ سپا مساج سینٹر میں میل سٹاف بھی کام کرتا ہے جو کہ مکمل طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ ہمارے ورکرز سپا کا برانڈڈ آئل استعمال کرتے ہیں جس سے انسانی جسم کے تمام مسام اور پٹھے ٹھیک سے کام کرتے ہیں۔ سپا مساج سینٹر میں خواتین کو سپرم دینے کی سہولت موجود ہے جو فی میل اولاد کے لیے سپرم چاہتی ہیں ان کو سپرم دیا جاتا ہے اور ان سے کوئی چارجز وصول نہیں کیے جاتے۔سپا مساج سینٹر اب کپلز کو بھی اپنا سٹاف فراہم کرتا ہے ایسے کپلز جن کو بہترین سروسز چاہیے وہ ہم سے رابطہ کریں۔ سپا مساج سینٹر میں خواتین کی لانگ ٹرم ریلیشن شپ بھی کروائی جاتی ہے ۔ سپا مساج سینٹر میں ابھی میسج کر کے اپنا مساج بک کروائیں اور پائیں بہترین مساج ۔جلدی رابطہ کریں ،شکریہ۔
کچھ سنٹروں کی طرف سے کئی خدمات فری پیش کی گئی ہیں اور یہ صرف عورتوں کی مساج کرتے ہیں۔ مساج کرنے کے لیے لڑکیاں نہیں بلکہ لڑکے رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے اپنا نمبر بھی دیا گیا ہے جس پر رابطہ ہو سکتا ہے : یہ ان باکس میں کلائنٹ سے ڈیمانڈ مانگتے ہیں۔ایک اور مساج سینٹر کی ایڈ دیکھیے ،مساج سینٹر فار لیڈیز ۔یہ دو قدم آگے چلے گئے ہیں فیس بک پر لگی پوسٹ کی ہیڈ لائن SEX دی گئی ہے اس کی عبارت ملاحظہ کیجئے.
کیا آپ گھر بیٹھے بور ہوگئی ہیں؟کیا آپ کے شوہر آپ کو ٹائم دے پاتے ہیں؟
یا کوئی اچھا دوست چاہیے جس سے سب شیئر کر سکو؟تو پریشان نہ ہوں آپ کی ہر مشکل کا حل صرف ایک میسج کی دوری پر۔
باڈی مساج ،سمپل ڈیٹنگ ،لونگ ڈرائیو!
Rent A Boy
ایسی خواتین جو سیکس کی شوقین ہیں اور اپنے مردوں سے خوش نہیں وہ بھی رابطہ کر سکتی ہیں۔
ہر کام رازداری سے ہوگا۔عمر، مذہب کی کوئی قید یا بندش نہیں۔
اس سے اگلی پوسٹ میں کہا گیا ہے:کنواری، بیوہ آنٹیاں اور شوقین خواتین توجہ فرمائیں۔ہماری اس پوسٹ سے مطلب کسی کو بدنام کرنا نہیں ہے۔ وہ خواتین جو سیکس کی خواہش رکھتی ہو یا جن کے شوہر ان سے دور ہوں پوری رازداری کے ساتھ ہم سے ان باکس میں رابطہ کریں۔فضول لوگ اپنااور میرا وقت ضائع نہ کریں۔
  سوال یہ ہے کہ کیا ہم پرمسیو سوسائٹی بننے جا رہے ہیں آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ permissive سوسائٹی 
یا permissive  کلچر کیا ہے؟ یہ وہ کلچر یا سوسائٹی ہے جس میں سماجی اصول تیزی سے لبرل ہوتے جاتے ہیں، خاص طور پر جنسی آزادی کے حوالے سے۔ ثقافتی قدامت پسندوں کی طرف سے اس اصطلاح کو اکثر تنقید کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جسے روایتی اقدار میں خرابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے.جیسے شادی سے پہلے جنسی تعلقات کی زیادہ قبولیت، طلاق کی شرح میں اضافہ، اور غیر روایتی تعلقات جیسے کہ ہم جنس پرستی اور ہم جنس پرستی کی قبولیت.


پاکستان میں کئی لوگ گھروں میں ٹی وی تک چلانے کی اجازت نہیں دیتے۔ بچوں کے ہاتھ میں موبائل آگئے ہیں۔ کئی والدین بچوں کو موبائل سے دور رکھتے ہیں مگر وہ بچوں اور گھر والوں کو معاشرے سے دور نہیں رکھ سکتے ۔ لہٰذا ”جدت کے اثرات“ سے بچنا ممکن نہیں ہے۔مساج سینٹر بیوٹی پارلر ہیلتھ سیلون چلتے رہیں گے۔ شراب خانے جوا خانے میکدے آباد رہیں گے۔ دنیا جس طرف جا رہی ہے اس کا رخ موڑناممکن نہیں ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے کوئی مردِ کامل آجائے تو اصلاح ممکن ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی بنائی حکومتوں سے توقع نہ رکھیں۔ نئی نسل کو گھریلو تربیت کے ذریعے راہِ راست پر رکھنے کی کوشش کی جا سکی ہے۔ صراطِ مستقیم پر اللہ نے گامزن کرنا ہے۔