طلسماتی جنگ
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع |
پاکستان اور ایران کے مابین کشیدگی اور محاذ آرائی آندھی کی طرح آئی اور بگولے کی طرح گزر گئی۔ تاریخ کے تناظر میں اس کی مدت کا تعین کیا جائے تو اس کا دورانیہ بُلبلے کی زندگی سے زیادہ نہیں تھا۔ ایران کے اندر سے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کی گئی۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جیش العدل کے دہشتگردوں کو پنجگور میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ایرانی بلوچ ہیں جو ایران میں دہشتگردی کرتے ہیں۔ ایران کا دعویٰ رہا کہ اس نے اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیا ۔یہ پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ تھا۔ ایران نے اعتراف اور دعوے کے ساتھ ساتھ پچھتاوے کا بھی اظہار کیا ۔ پاکستان میں بھی ایران کے اندر سے آکر دہشتگردکارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ پاکستان نے ایرانی حملے کے جواب میں سیستان میں موجود دہشتگردوں کو ٹارگٹ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے سات وہ دہشتگرد بھی مارے گئے جن کو ان کے لواحقین لاپتہ قرار دیتے تھے اور کل تک ان کی بازیابی کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیئے ہوئے تھے۔ان میں ماہ رنگ بلوچ عالمی میڈیا میں شناخت رکھنے والی ہیومین رائٹس ایکٹویسٹ بھی موجود تھیں۔ ان کے اپنے والد بھی لاپتہ ہونے کے بعد مارے گئے جن کو وزیر اطلاعات سولنگی اور جان اچکزئی دہشتگردوں کی لسٹ میں شامل کرتے ہیں۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کچھ تنظیموں کی طرف سے اسلام آباد میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے دھرنا دیا گیا تھا جب حکومت کی طرف سے ان لوگوں کے اعداد و شمار اور معلومات پیش کی گئیں جو سیستان میں پاکستان کی کارروائی میں مارے گئے اس کے بعد دھرنے کو جاری رکھنا ان کے لیے ممکن نہ رہا۔تو یہ کہہ کر دھرنا ختم کر دیا گیا کہ اب ہماری مہم سوشل میڈیا پر چلائی جائے گی۔پاکستان کے ان لوگوں کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جو ایسے لاپتا افراد کی باز یابی کے لیے سرگرم رہتے ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے دوسرے ممالک میں سرگرم عمل ہیں۔
پاکستان اور ایران کے مابین یہ محاذ آرائی ایک چھوٹی سی جنگ ہے۔ جس کا آغاز اور انجام طلسماتی انداز میں ہوا۔ ایسے معاملات بڑی جنگوں کا پیش خیمہ ہوا کرتے ہیں۔ مگر صورت حال معمول پر آ گئی۔ تجارت رُکی ہی نہیں ۔ ٹرکوں کی آمدورفت جاری رہی۔
امریکی حکام 26فروری 2019ء کو پاکستان کو مشورہ دے رہے تھے، رہنے دو کچھ نہیں ہوا۔ بھارت کے جہاز پاکستان میں آئے پے لوڈ گرا کر چلے گئے۔ کون سا کوئی نقصان ہوا۔ مگر پاکستان نے ایک نہ سنی اوراگلے روز بھارتی جہازوں کو گھیر کر پاکستان میں لا کر مارا۔ پاکستان نے24گھنٹے میں بدلہ لیا۔ پاکستان نے وہی معاملہ اب بھی دہرا دیا۔ مگر تھوڑے فرق کے ساتھ، اب امریکہ پاکستان کو منع کرنے نہیں آیا تھا۔ وہ ایران سے اپنا ادھار چکتا کرنے کے درپئےنظر آیا مگر پاکستان نے وہ کیا، جو اس کے لیے مناسب اور ناگزیر تھا۔
نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں روایتی اور جرآت مندانہ مؤقف اختیار کیا گیا۔ کابینہ بھی یکسو نظر آئی۔ پاکستان میں آج کل بدترین پولرائزیشن ہے۔ سیاسی نفرتیں عروج پر ہیں۔ اسی طرح سیاست میں بھی انتشار ہے مگر27فروری2019ءکی طرح آج عوام میں مثالی اتحاد نظر آیا۔ ایک نکتے پر تمام اختلافات ختم،جن عوام کو کل تک ہجوم اور بھیڑ کہا جاتا تھا وہ ایک قوم بن چکے تھے۔ پاکستان میں جارحیت کا جواب پاک افواج کی طرف سے دیا گیا۔ پوری قوم افواج کے پیچھے کھڑی نظر آئی۔
اس معرکے میں وہ جدید ہتھیار بھی آزمائے گئے جو جدت کی ایک مثال ہیں۔ ان کو اس طرح لائیو آزمانے اور چلانے کا شاید ہی موقع ملتا۔
یہ واقعہ نہ ہوتا تو بہتر تھا لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات پہلے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے۔ پاک ایران تعلقات ہمیشہ سے خوشگوار رہے ہیں جن میں کشیدگی در آئی محاذرائی ہوئی لیکن اس کے بعد پھر تعلقات معمول پر آتے چلے گئے بلکہ پہلے سے بھی بہتر ہو گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے سفیر جس طرح سے ایران کی جارحیت کے بعد اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے گئے تھے ان کی دوبارہ سے تعیناتی ہو گئی ہے بلکہ یہ بھی ہوا ہے کہ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے ہم منصب کو فون کیا اور انہیں پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ ان کے دورے کی دعوت پر حسین امیر عبداللہیان ایک دو روز میں پاکستان پہنچ رہے ہیں۔
جیسے ہی پاکستان ایران کشیدگی اور محاذ آرائی کا اغاز ہوا اس پر کچھ عالمی طاقتیں بھی میدان میں آئیں جو پاکستان کو شہہ دیتی ہوئی نظر آئیں لیکن پاکستان ایران دونوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اس سے ایسی طاقتوں کو مایوسی ہوئی۔
ایران نے نئےعالمی قوانین کے تحت پاکستان کے اندر سٹرائیک کی ، جس طرح اسرائیل ، اردن، شام، لبنان اور یمن میں کررہا ہے۔ پاکستان نے بھی اپنا حق استعمال کیا۔یہ قانون عالمی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ ہر ملک ایسے الزامات کے تحت دوسرے ملک میں سرجیکل سٹرائیک کرے گا تو جواب میں کارروائی ہوگی۔ پاکستان اور ایران کی طرح کی برداشت اور تحمل ہر کہیں نہیں ہوتا۔دورکونسا جا رہاہے۔ چنگاری شعلہ اور شعلہ الاؤ کو دہکااور بھڑکاکر عالمی امن کو بھسم کر سکتا ہے۔
پاکستان اور ایران کے مابین جو کچھ ہوا اس پر خوش گمانی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ایران نے پاکستان پر پاکستان نے ایران پر حملہ نہیں کیا، دونوں نے اپنے اپنے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا۔ یہ دہشتگرد دونوں ممالک میں پھر بھی کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ دہشت گرد ،دہشت گرد ہوتا ہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے کیوں نہ ہو۔بہتر ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے دہشتگردوں کا خود صفایا کردیں۔ ایسے دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا جائے تو دونوں ممالک کے مابین غلط فہمیاں کم از کم سطح پر رہ سکتی ہیں۔کچھ قوّتیں جان بوجھ کر ایسی غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں۔یہ تو اچھا ہوا کہ امریکہ میں آج کل انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔اس وجہ سے بھی پاکستان ایران بڑی محاذآرائی سے محفوظ رہا۔ضروری نہیں کہ ہر محاذ آرائی، کشیدگی، ٹارگٹ حملے اور سرجیکل سٹرائیک کا انجام طلسماتی جنگ پر ہی ہو۔ حالات تباہ کن بلکہ ایٹمی جنگ تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔