عمران خان قاضی کوٹ اور فوج کا غصہ سوا نیزے پر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

قاضی فائز عیسی کی طرف سے خصوصی نشستوں کے حوالے سے تحریک انصاف کی اپیل پر 13 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے 13 رکنی اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس سے زیادہ جج ہی موجود نہیں تھے ججوں کی کل تعداد 14 ہے ان میں سے مسرت ہلالی کی طبیعت بہتر نہیں ہے اس لیے باقی جتنے بھی صاحبان دستیاب تھے ان پر مشتمل قاضی فائز نے بینچ بنا دیا۔اس پر کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید کی جا رہی ہے کہ قاضی فائز اپنی مرضی کا فیصلہ لانا چاہتے ہیں۔ان کو تین سال کی ایکسٹینشن دینے کا لالی پاپ دیا گیا ہے اگر یہ نشستیں تحریک انصاف کو و

اپس مل جاتی ہیں یا یہ نشستیں خالی چھوڑ دی جاتی ہیں تو قاضی فائز کی ایکسٹینشن کے لیے دو تہائی اکثریت اس حکومت کے پاس نہیں ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ قاضی فائز وہ خطرہ تھا کہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آ سکتا ہے  اسی لیے سات رکنی سینیئر ججوں پر بنچ نہیں بنایا اس کی بجائے انہوں نے اپنی سربراہی میں 13 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔کتنی بد قسمتی ہے کہ اگر سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جاتا  تو اس پر چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ فیصلہ چار کے مقابلے میں تین سے آئے گا۔اب بھی کہا جا رہا ہے کہ سات جج قاضی فائز عیسیٰ سمیت ایک طرف ہوں گے باقی چھ دوسری طرف فیصلہ دے سکتے ہیں۔لوگ کیا کہیں گے اس کی پروا کیے بغیر قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی سربراہی میں 13 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ عہدے سے کب ریٹائر ہوں گے؟
 6 مئی  کوسپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔ 3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہ۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتیں، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جو یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

قاضی فائز عیسیٰ کے تحریک انصاف کے ساتھ تعصب سے ہر کوئی آگاہ ہے ایک تو ان کی طرف سے بلے کا نشان تحریک انصاف سے چھین لیا گیا تھا۔جب تحریک انصاف کی طرف سے ان کی کورٹ میں یہ کہا گیا کہ لیول پلینئنگ فیلڈ تحریک انصاف کو نہیں مل رہا اس پر قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے بھی تحریک انصاف کے خلاف ہی فیصلہ دیا گیا تھا۔13 رکنی بینچ سے قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جو فیصلہ ا سکتا ہے اس سے تحریک انصاف کوئی اچھائی کی امید نہیں رکھ رہی۔
نیب ترامیم کے حوالے سے عمران خان کی مدعیت میں سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھے۔اس کی پہلی سماعت پر قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دی گئی لیکن یہ سماعت براہ راست نہ دکھائی گئی عمران خان کو بولنے کا موقع بھی نہیں مل سکا تھا البتہ عمران خان کی ایک تصویر ضرور سپریم کورٹ کے اندر سے باہر آگئی جس پر سپریم کورٹ کی طرف سے انکوائری بٹھا دی گئی تھی۔اسی کیس کی دوبارہ سماعت گزشتہ روز یعنی تیس مئی کو ہوئی۔اس میں عمران خان کو بولنے کا موقع تو ضرور ملا لیکن ایک باقاعدہ بینچ کی طرف سے فیصلہ بھی آگیا کہ عمران خان کی کیس کی لائیو سٹریمنگ نہیں ہوگی۔اس کو کوئی دہرا معیار کہے یا تہرا معیار کہے قاضی فائز نے کہا کہ یہ عوامی مفاد کا کیس نہیں ہے بلکہ ٹیکنیکل کیس ہے۔یہ الگ بات ہے کہ دنیا کی نظریں اسی کیس پر ٹکی ہوئی تھیں جو قاضی فائزہ کی طرف سے براہ راست نشر نہیں کیا گیا اس کی وجہ بھی یہی بتائی جا رہی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن کی ضرورت ہے۔اس روز کی روداد کچھ اس طرح سے ہے:
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کےخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر نے کی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل تھے۔بانی پی ٹی آئی عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے رائل بلیو کلر کی شرٹ اور ڈارک بلیو کلر کی جینز پہن رکھی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت لائیو نشر کرنے کی حمایت کر دی اور ریمارکس دیےکہ کیس پہلے لائیو چلتا تھا تو اب بھی لائیو چلنا چاہیے۔

آمریت کی حمایت غداریوں کی توثیق؛جسٹس اطہر من اللہ کی ججوں کے کنڈکٹ پر شدید  تنقید

ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کا کہنا تھا یہ کیس عوامی مفاد اور دلچسپی کا ہے جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ کیس ٹیکنیکل ہے، اس میں عوامی مفاد کا معاملہ نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہم نے متفرق درخواست دائر کی ہے، سماعت براہ راست دکھائی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ عوامی مفاد کا مقدمہ نہیں آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا، سپریم کورٹ کی کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر ہوگی یا نہیں؟ فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔

لارجر بینچ میں شامل ججز آپس میں مشاورت کرنے چیمبر میں چلےگئے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی لائیو اسٹریمنگ کی درخواست چار ایک سے مسترد کر دی، چیف جسٹس نے بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان سے پوچھا کہ یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے، آپ اپنے دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لیں گے، عمران خان نے کہا میں جیل میں ہوں اور یہاں لائبریری اور دیگر مواد میرے پاس دستیاب نہیں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم آپ کو کیس سے متعلقہ تمام مواد فراہم کریں گے اور اگر آپ کو لیگل ٹیم سے متعلق رہنمائی درکار ہو تو اس کا بھی بندوبست کیا جاسکتا ہے، جس پر عمران خان نے کہا میرے لیے یہ کیس سپریم نیشنل انٹرسٹ کا کیس ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ حارث سے پوچھا آپ کتنے وکلا کے ساتھ عمران خان سے ملاقات کرنا چاہیں گے جس پر خواجہ حارث نے کہا میں چاہوں گا کہ میں خود جا کر عمران خان سے ملاقات کروں۔
عمران خان نے بینچ کو آگاہ کیا کہ آٹھ فروری اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر میری دو درخواستیں زیرالتوا ہیں۔ اس لیے آپ سے بات کرنے کا موقع شاید دوبارہ نہ ملے۔اس پر چیف جسٹس نے سابق وزیرِ اعظم سے استفسار کیا کہ ان کیسز میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ حامد خان ان کے وکیل ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ حامد خان کو معلوم ہے کیسز کیسے جلدی مقرر کرائے جاتے ہیں۔ آج کیس نیب ترامیم کے حوالے سے ہے۔عمران خان نے کہا کہ اڈیالہ میں سب کچھ کرنل صاحب کنٹرول کرتے ہیں۔

Roznama Dunya: عمران خان تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج 9 مئی کے دونوں مقدمات سے  بری
30 مئی کو ہی کور کمانڈر اور فارمیشن کمانڈر کانفرنس ہوئی جس کی سربراہی جنرل عاصم منیر نے کی ۔اس کانفرنس میں بھی عمران خان ہی کو ان کا نام لیا بغیر موضوع بحث بنایا گیا۔فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں کہا گیا  کہ پاکستانی قوم جھوٹ اور پروپیگنڈا کرنے والوں کے مذموم اور مکروہ عزائم سے پوری طرح باخبر ہے، جن کا مقصد جھوٹ اور پروپیگنڈے سے پاکستانی قوم میں مایوسی پیدا کرنا ہے۔فورم کے مطابق پروپیگنڈے کا مقصد قومی اداروں بالخصوص افواج پاکستان اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنا ہے۔اس موقع پر شرکائے کانفرنس نے کہا کہ اِن ناپاک قوتوں کے مذموم ارادوں کو مکمل اور یقینی شکست دی جائے گی۔فورم نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں، مجرموں اور سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، 9 مئی کے مجرمان کے خلاف فوری، شفاف عدالتی اور قانونی کارروائی کے بغیر ملک سازشی عناصر کے ہاتھوں یرغمال رہے گا۔
حکومت عدلیہ اور پاک فوج کی جانب سے عمران خان اور تحریک انصاف کا گھیرا مزید تنگ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
یہ سارا کچھ کرنے کے باوجود بھی عمران خان کے مخالفین کو سٹیبلٹی کی امید ہے۔