فوج کیخلاف ہرزہ سرائی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

سائفر کیس میں عمران خان  اور شاہ محمود قریشی کو اپیل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بری کر دیا۔اس کیس میں دونوں کو 10 دس سال کی سزا سنائی گئی تھی۔عمران خان پر اسی نوعیت کے بلکہ اس سے زیادہ سنگین کیس پر انکوائری جاری ہے۔یہ ٹویٹ کرنے کا کیس ہے جس میں پاک فوج کے افسروں کے خلاف نفرت  پھیلانے اور پیدا کرنے کا الزام ہے۔
فوج نام ہے سپاہی سے آرمی چیف تک ، سی مین سے نیول چیف اور ایئر مین سے ایئر چیف تک۔ مزید برآں سب سے اعلیٰ عہدیدار جائنٹ  سروسز چیف تک کے تمام سٹاف کا۔ اس

میں ایف سی رینجرز اور دیگر کچھ ادارے بھی آجاتے ہیں۔ کسی بھی فوج کی ابتدائی و بنیادی ذمہ داری جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ پاکستان اور دیگر کچھ ممالک میں فوج کو زلزلے، سیلاب اور کورونا جیسی  وباؤں پر قابو پانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مشرف دور  میں تو نہروں کی بھل صفائی اور واپڈا کے ساتھ مل کر میٹر چیکنگ پر بھی فوجی تعینات رہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاک افواج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ پاک افواج کی دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی دنیامیں انفرادی حیثیت ہے۔

ترجمان پاک فوج کا عمران خان کے الزامات پر ردعمل
ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر پاک فوج کو دہشتگردی کے خلاف ہی نہیں دیگر ہنگامی حالات میں بھی استعمال کیا جائے مگر فوج سیاسی معاملات سے دور رہے۔ جیسا کہ بہت سے ممالک میں ہوتا ہے۔ جن ممالک کی مثال دی جاتی ہے ایک تو وہاں سیاست دان ایسے نہیں ہیں جیسے ہمارے ہاں کچھ یا اکثر پائے جاتے ہیں ،دوسرے وہاں عدلیہ آزاد ،خود مختار اور مضبوط ہے۔ پاکستان میں ایسے سیاستدان بھی حکومت میں آئے جو پاکستان اور بھارت کے مابین بارڈر کو محض ایک لکیر قرار دیتے تھے۔ بھارت کے ساتھ تجارت اور تعلقات عروج پر لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا تھا۔یہ خواہش کوئی معیوب نہیں ہے مگر کشمیر اور کشمیریوں کو نظر انداز کر کے ایسا کرنا انسانیت کے خلاف جرم سے کم نہیں ہے۔ ایک وزیر اعظم نے راجیو گاندھی کے سامنے ایٹمی پروگرام رول پیک کرنے میں پاک فوج کی وجہ سے اپنی بے بسی کا اظہار کیا تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے راجیو کو ایٹم بم کی دھمکی دے کر انکو خوف میں مبتلا کر کے پتا پانی کر دیا تھا۔ ایسے بھی پاکستان میں حکمران آئے، ان پر نظر نہ ہوتی تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام حتیٰ کہ ملک کا ہی سودا کر جاتے۔
سیاسی معاملات میں فوج کی بطور ادارہ کبھی مداخلت نہیں ہوتی۔ ایسے فیصلے چند  پالیسی ساز سینئر جرنیل کرتے ہیں۔ جن کی سربراہی انکا ہیڈکرتا ہے۔ اس میں پاک افواج کے پورے سٹاف کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ اس میں جمہوری رویے  ہر جگہ کار فرمانہیں ہوتے۔دنیا بھر کی افواج میں انکی ضرورت ہوتی ہے نہ گنجائش۔ کمانڈر کا حکم چلتا ہے۔ جنگ کے دوران جو کمانڈر نے کہا ہے زیر کمانڈ ہر کسی نے وہی کرنا ہے۔ کسی کو آرگیوکرنے اور آئین اور قانون کے حوالے دینے کی اجازت نہیں۔ جنگ کے بعد تحفظات کے اظہار کی گنجائش اور اجازت البتّہ ضرور ہوتی ہے۔
آرمی چیف  سینئر ترین ساتھیوں کے ساتھ مل کر کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ اگر  مشاورت کو  ضروری نہیں سمجھتا تو بھی اس کا فیصلہ حتمی اور فوج کا فیصلہ سمجھا جاتاہے۔ جسے اوپر سے نیچے تک سب کو ماننا ہوتا ہے، اور ہر کوئی مانتا ہے۔ حکم عدولی کی گنجائش نہیں ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر ہوتے ہوئے جنرل آصف غفور دو حوالوں سے تا دیر یاد رکھے جائیں گے۔ ایک تو انہوں نے ڈان لیکس انکوائری پر ریجیکٹڈ کے ریمارکس دیئے تھے ۔دوسرے ان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ آرمی چیف جدھر دیکھتا ہے پوری فوج اُدھر دیکھتی ہے بلکہ اس میں اضافہ یہ کیا جانا چاہیے کہ جدھر آرمی چیف دیکھتا ہے  اُدھر پوری فوج دیکھتی ہے اور پوری قوم بھی اسی رخ دیکھتی اور چلتی ہے۔
فوجی سربراہان کے فیصلوں اور احکامات پر سویلین بات کر سکتے ہیں وہ بھی ایک حد تک، اس سے آگے سیکرٹ اور آرمی ایکٹ سدِ راہ بنے ہوتے ہیں۔مارشل لاؤں اور فوج کی سیاست میں مداخلت آزاد عدلیہ ہی روک سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی عدلیہ کوچراغِ رُخ زیبا لے کر ہی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ جس نے ہر مارشل لاءکو جائز قرار دیدیا۔ البتّہ  آج کی عدلیہ اپنی ایسی غلطیوں کو تسلیم کر کے کفارہ ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
 فوج میں ڈسپلن کی کارفرمائی کے لیے کمانڈر کے احکامات کی بجا آوری ناگریز ہے۔ بصورت دیگر فوج اورشوز یا صابن کمپنی میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ جو لوگ فوجی رینکس میں اختلافات پیداکرنے، نفرت پھیلانے کے لیے بیانیہ بناتے اپناتے اور افواج تک پہنچاتے ہیں ان کیخلاف کارروائی کیلئے قوانین موجود ہیں۔


آج کل عمران خان کا ایک ٹویٹ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے جس میں سوا تین منٹ کی ایک ڈاکومنٹری بھی لگائی گئی ہے۔ عمران خان کے نام پر بنے اس اکاؤنٹ پر جاری ہونے والے ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ قوم حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان شیخ مجیب الرحمن نے توڑا یا یحییٰ خان نے توڑا۔
عمران خان کی طرف سے یہ کوئی نئی بات نہیں کی گئی۔ ڈاکو منٹری میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں بھی زیادہ تر ایسا ہی ہے جو نیا نہیں مگر اس میں سب سے خطرناک آخری15سیکنڈ میں بات کی گئی جو عمران خان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے, بلکہ یہ سائفر سے بھی زیادہ سنگین اور شدت والا کیس ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ یہ ثابت ہو جائے کہ ٹویٹ عمران خان نے کیا ہے یا عمران خان کے ایما پر کیا گیا ہے۔(باقی آئیندہ )