پانچ نیول افسروں کو سزائے موت کی مکمل تفصیلات سامنے  آگئیں

تحریر: شفق ڈاک کام رپورٹ

| شائع |

2014 میں ڈاک یارڈ حملے میں دہشت گردوں کے ساتھ دیا 2016 میں سزائے موت سنائی گئی معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں گیا اور اس کے بعد سے اب تک کی رودا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان نیوی کے پانچ سابق افسران کو جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد روکتے ہوئے حکم دیا  کہ مذکورہ درخواست پر حتمی عدالتی فیصلے تک نیوی کے اہلکاروں کو دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔
 نیوی ٹربیونل نے نیوی ڈاک یارڈ حملے کے مقدمے میں گرفتار نیوی کے پانچ افسروں کو ڈاک یارڈ

پر حملے اور نیوی کی قیادت کے خلاف سازش کے الزام میں مجرم ثابت ہونے پر 2016 میں موت کی سزا سنائی تھی۔ان افسران میں لیفٹینینٹ محمد حماد، لیفٹینینٹ ارسلان نذیر ستی، لیفٹینینٹ حماد احمد خان، سب لیفٹینینٹ محمد عرفان اللہ اور محمد طاہر رشید شامل ہیں۔

بی ںی سی کے مطابق کراچی میں نیوی ڈاک یارڈ پر ستمبر 2014 میں حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ پاکستان نیوی کی جانب سے اس وقت جاری ہونے والے بیان کے مطابق اس حملے میں دو شدت پسند ہلاک جبکہ ایک نیوی اہلکار شہید ہوئے تھے۔ پاکستان نیوی کے مطابق اس حملے کے بعد چار حملہ آوروں کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔

AFP

اس وقت کے پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بعد میں بیان دیا تھا کہ ’کراچی میں نیوی ڈاک یارڈ پر ہونے والے حملے میں نیوی کے اہلکار بھی شامل ہیں جن سے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔‘

2016 میں جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے موت کی سزا سنائے جانے کے بعد اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ میں چیلنج کیا گیا تاہم اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی (جو بعد میں سپریم کورٹ کے جج بنے اور ایک ریفرنس کی بنیاد بر طرف کر دیئے گئے تھے) اور لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس امیر حسین بھٹی نے دو سال تک اس درخواست پر فیصلہ نہ کیا جس کے بعد اس درخواست کو نمٹا دیا گیا کہ یہ درخواست عدالت کے دائرہ سماعت میں نہیں۔

Family
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیا ہوا؟گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے پانچ نیوی اہلکاروں کی جانب سے دائر ایک درخواست پر سماعت کی جس میں ان سزاوں پر عمل درآمد روکنے اور کورٹ مارشل کی کارروائی کی دستاویز فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔پاکستان بحریہ کی جانب سے ڈپٹی جج ایڈووکیٹ جنرل کمانڈر حامد حیات نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان نیوی رولز 1961 کے تحت اگر نیول چیف یہ رائے قائم کر لیں کہ کسی ایسی قسم کی دستاویز، جن کے عوامی سطح پر آنے سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تو نیول چیف کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ دستاویزات کی فراہمی کے لیے دائر کی گئی درخواست کو مسترد کر سکتے ہیں۔

درخواست گزاروں کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت میں سماعت کے دوران موقف اپنایا کہ ان کے موکلوں کو 2014 میں پاکستان بحریہ نے حراست میں لیا تھا جس کے بعد ان کے اہلخانہ نے نیوی کے اعلی حکام سے رابطہ کیا۔ ان کے مطابق 2016 میں ان افسران کی اہلخانہ سے ملاقات کروائی گئی۔

درخواست گزاروں کے وکیل کا کہنا تھا کہ گرفتاری سے قبل موکلین پی این ایس ذوالفقار پر تعینات تھے اور جب انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا اس وقت ان کی مدت ملازمت کو دو سے تین سال ہوئے تھے۔