کاش ایسا نہ ہوتا!

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

جون آف آرک ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ جس نے غیبی آوازوں کے کہنے پر تلوار اُٹھائی اور اپنی جرات اور بہادری سے نہ صرف فرانس کو انگریزوں کے قبضے میں جانے سے بچا لیا بلکہ اس نے اپنے بادشاہ کی تاج پوشی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ کسی دور میں فرانس اور برطانیہ میں انتہا کو چھوتی ہوئی دشمنی تھی۔ جس کے اثرات ہنوز کسی حد تک باقی ہیں۔ 


پندرہویں ص

دی عیسوی سے برطانیہ کے خلاف سو سالہ جنگ کے آخری دنوں کے بعد سے جون آف آرک کو جرات مندانہ فتوحات کی وجہ سے فرانس میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ وہ فرانس کے دورافتادہ ایک گاؤں ڈومیلیہ میں 1412ءمیں پیدا ہوئیں اور انھیں ’میڈ آف لورین‘ بھی کہا جاتا ہے۔
صرف 17 برس کی عمر میں انھیں یہ یقین ہو گیا کہ غیب کی طرف سے انھیں یہ پیغام ملا ہے کہ وہ فرانس کو فتح سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔ 1429ءمیں چارلس ہفتم نے اورلیوں کے محاصرے کو توڑنے کی مہم ان کے سپرد کی اور انھوں نے اس مہم میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔
انھوں نے بہت سی دیگر جنگی مہمات میں شرکت کی لیکن 1430ءمیں وہ کومپینئے میں پکڑی گئیں۔ انگریزوں نے انھیں 1431ء میں توہمات پھیلانے کا مجرم قرار دے کر رون میں زندہ جلا دیا۔ان کی ہڈیاں تک جل کر راکھ ہو گئیں کیونکہ ان کی لاش جل جانے کے بعد ان کی ہڈیوں کو دوبارہ جلایا گیا اور راکھ کو دریائے سین میں بہا دیا گیا تاکہ ان کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے۔ 1455ءمیں اس وقت کے پوپ کالکسٹس سوئم نے ان کے مقدمے کی از سر نو سماعت کی اور ان کے خلاف فیصلے کو تبدیل کر دیا لیکن ان کو مقبولیت اور تکریم 1909ءمیں تب حاصل ہوئی جب ان کی جائے پیدائش اور ان کی شخصیت میں بیسویں صدی کے اوائل میں عوامی دلچسپی بڑھنے لگی۔پہلی عالمی جنگ کے دوران ایسی اطلاعات بھی ملیں کہ فرانسیسی فوجی جون آف آرک کے عکس اپنے ساتھ لے کر میدان جنگ میں جاتے ہیں اور ایک موقع پر جرمن فوج کی سرچ لائٹس میں بادلوں میں ایک عکس دیکھا گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ جون آف آرک کا تھا۔ 1920ءمیں انھیں باقاعدہ ایک روحانی شخصیت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور 'لورین کا کراس' دوسری عالمی جنگ میں فرانسیسی افواج میں ایک علامت بن گیا۔جون نے اپنے بارے میں کہاتھا۔’جب میں تیرہ برس کی تھی تو مجھے غیب سے آواز آئی کہ مجھے اپنی زندگی بدلنی ہو گی۔ میں نے اس دن روزہ نہیں رکھا تھا۔ مجھے یہ آواز چرچ کی دائیں طرف سے آئی۔ مجھے ان آوازوں کے ساتھ ہمیشہ چرچ کے دائیں طرف تیز روشنی بھی دکھائی دیتی ہے۔ تین مرتبہ یہ آواز سننے کے بعد مجھے یقین آ گیا کہ یہ آواز کسی فرشتے کی ہے۔‘
آج ہماری سیاست کا گھوڑا سر پٹ دوڑ رہا ہے۔ سوار کی مرضی کے مطابق دوڑے لگاموں کے اشارے سمجھے تو منزل پر جلد پہنچ جانا ہوتا ہے۔ بدک کر بھاگے تو بے منزل ہو جاتا ہے اور پیچھے چھوڑی ہوئی دھول سے آنیوالوں کا راستہ بھی گُم کر دیتا ہے۔سیاست میں اختلاف ہوتا ہے ۔شدید ترین بھی مگر اختلاف، اختلاف کی حد تک ہوتا ہے۔ اسی کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ ذاتیات اور دشمنی پر چلا جائے تو جمہوریت کے لیے خوف کی علامت بن جاتا ہے۔ اسی اختلاف کی بنا پر ہتھکڑیاں لگنے سے، جلا وطنیاں بھگتنے اور پھانسی تک لگنے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ مخالفین کو سیاسی بنیادوں پر ہتھکڑیاں لگوانے، سزائیں دلوانے والوں کو بالآخر پچھتانا اور کہنا پڑا کاش ایسا نہ ہوتا!۔
 90کی دہائی سیاسی نفرتوں کی انتہا کا عرصہ ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے لیے ناقابل برداشت ہوا کرتی تھیں۔2006ء میں میثاقِ جمہوریت ہوا۔ میاں نواز شریف اور بینظیربھٹو بھائی بہن بن گئے۔ نفرتیں جاتی رہیں۔ ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ محترمہ شہید ہو گئیں لیکن یہ مفاہمت کا سفر نشیب و فراز کے باوجود جاری رہا۔ آج دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ کہتی ہے کہ نوے کی دہائی میں اور اس سے چند سال قبل تک جو ہوتارہا کاش ایسا نہ ہوتا۔

سرےمحل سے پاناما لیکس تک:سیاستدانوں کےنادر بیانات - Opinions - Dawn News
ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف محاذبنا، بھٹو صاحب کو اقتدار سے جانا پڑا اور بعد ازاں تختہ دار تک۔بھٹو کو اس مقام تک لے جانے والی پارٹیاں آج بھٹو کی پارٹی کے ساتھ شِیر شَکر ہیں۔ بھٹو کو نامناسب القابات دینے والے آج ان کو شہید کا درجہ دیتے اور پھانسی کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ برملا کہتے ہیں کاش ایسا نہ ہوتا۔

کیا ذوالفقار علی بھٹو نے واقعی اقوامِ متحدہ کی قرارداد پھاڑی تھی؟ |  Independent Urdu
آج سیاسی فضا مکدر ہے اور اس حد تک بے یقینی کی دھول اور مٹی سے اٹ چکی ہے کہ اس کی اصل شکل ہی معدوم ہو رہی ہے۔ 1970ءکی دہائی اور نوے کی دہائی والی بادِ صرصر بھر سرسراتی نظر آ رہی ہے گو کچھ سیاسی کردار ضرور بدل گئے ہیں۔2018ءکے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کی مدت ابھی ڈیڑھ ، سوا سال باقی تھی کہ نئے انتخابات کے جھنجٹ میں اُلجھ گئے۔ یہ زلفِ یار الجھی ہوئی نہیں تھی جس سے کوئی دل بہلاتا۔ یہ معمہ الجھتا ہی چلا گیا جوں جوں سلجھانے کی کوشش ہوئی۔ 8فروری کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انعقاد پر شکوک و شبہاب کے میڈیا میں اظہار سے حکماً منع کیا ہے۔

آپ نے 2 زبانوں کا قتل کیا ہے، چیف جسٹس فائز عیسٰی وکیل پر برہم - Pakistan -  AAJ

اس کے باوجود چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ الیکشن بہر حال جلد یا بدیر ہونے ہیں۔ اگر شفافیت سے” پاک“ ہوئے تو نفرتیں دو چند ہو کر جمہوریت کومزیدگہنا دینگی۔ بلاول کے بیانات پر مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کا اسی لہجے میں جواب ایک بار پھر کم و بیش نوے کی دہائی کی روح فرسا یادوں کی راکھ کرید رہا ہے۔ مفاہمت ، مخاصمت میں بدل رہی ہے۔ بلاول الزام لگا رہے ہیں کہ نتائج طے ہو چکے ہیں۔ یہ بلاول کے دماغ میں سوچ کیوں اور کیسے پیدا ہوئی؟۔

وقت ثابت کرے گا اسٹیبلشمنٹ کتنی غیر جانبدار رہتی ہے، بلاول بھٹو زرداری
سیاسی حقیقتوں سے صرفِ نظر بلکہ اپنی مرضی کے مطابق معاملات کو ڈھالنے کی خواہش جمہوریت کے لیے تیغِ تیز دھار کی طرح ہوگی۔ کہیں آج بھی دوسروں کے لیے ناپسندیدگی ذاتیات اور دشمنی تک چلی گئی ہے۔ کسی نے کسی کو سمیش کرنے کی بات کی تھی۔ کوئی کریش کرنے کی دھمکی دیتا تھا۔ آج بھی ایسے رویے شمشیرِ بے نیام بنے ہوئے ہیں۔ شاید ایسی خواہش کی ماضی کی طرح بجا آوری بھی ہو جائے اور وقتی طور پر شادیانے بھی بجنے لگیں۔پھر خمار اترے تو کہنا ہی پڑے گا: کاش ایسا نہ ہوتا۔
جون آف آرک کو نفرت اور انتقام کی آگ میں  جلا ڈالا گیا تھااور پھروہی جون ایک فیصلے کے تحت فرانس کی ہیرو قرار پائی۔ہیروئن قرار دینے والوں نے بھی کہا تھا کاش ایسا نہ ہوتا۔ وہ نفرتیں ختم ہو گئیں ہماری اتنی منہ زور نہیں ہیں۔
یہ ساری کہانی تو سیاسی شدت کے بارے میں تھی۔ سیاسی حالات جو بھی ہیں ملک قائم ہے، وطن سلامت ہے، دشمن کے لیے یہ ناقابل برداشت ہے۔ میانوالی ایئر بیس پر دہشتگردی ہوئی، اس کے بعد بھی دشمن خاموش نہیں، اس کی کارروائیاں جاری ہیں، مگرہمارے سامنے شاید نہیں آ رہیں۔ آج دہشتگردی کے خلاف برسرپیکاراداروں کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونا ہوگا۔ اس حوالے سے کوئی امر مانع ہے تو کیوں ہے؟؟ ہم سب اپنے آپ سے پوچھیں تاکہ کل یہ نہ کہنا پڑے:کاش ایسا نہ ہوتا۔