ہر چہرہ ایک کہانی دو کتابیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

ہر شخص ہر چہرہ ہی نہیں ،کوئی بھی چیز ہے،اس کی ایک کہانی ہے۔ ایک سوئی کو لے لیں، پن، کاغذ حتیٰ کہ بال پوائنٹ اور پین کی نب کی بھی ایک کہانی ہے۔ میں اس وقت یہ تحریر جیل پین سے لکھ رہا ہوں میری نظر اس پین کی نب کے ساتھ کاغذ پر پڑ رہی ہے۔اس کے ساتھ ووٹ کاسٹ کرنے کے دوران انگوٹھے پر لگائے سیاہی کے نشان پر بھی جا رہی ہے۔ ان سب کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ یہ سیاہی کہاں سے آئی۔ کونسا کیمیکل ہے جو انمٹ بنا دیتا ہے۔اس کی پیکنگ کیسے ہوئی۔ اس کی ڈبیہ بنی اس سے قبل انک کو چھوٹی سی پلاسٹک کی شیشی میں

ڈالا گیا۔ اس کا ڈھکن الگ کلر کا تھا۔ کس کمپنی نے تیار کی؟ جب آپ کسی بھی چیز کی تفصیل میں جائیں گے۔ اس سے متعلقہ بہت کچھ سامنے آئے گا تو ایک کہانی بن جائے گی۔ کوئی بھی کہانی کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ہر چہرے کی ایک کہانی اورکم از کم دو کتابیں ہو سکتی ہیں۔ لکھنے والا ہو تو ایک کہانی اور سو کتابیں بھی ہو سکتی ہیں۔
میں عموماً گاڑی میں سفر کے دوران سگنل پر مانگنے والوں سے ایک ڈیڑھ منٹ بات کر لیتا ہوں۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی اور منفرد کہانی ہوتی ہے۔ میرے آفس کے قریب چوک میں مانگنے والے بابے اور مائیاں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے ہیں۔ ان کا نام کام حالات اورگھر بار روز کی کمائی کے بارے پوچھتا ہوں۔ بعض اوقات حیران کن معلومات ملتی ہیں۔ ایک سوال ضرور پوچھتا ہوں۔ مانگتے ہوئے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی؟۔ شرم نہیں آتی کبھی نہیں کہا۔ان کی عزت نفس ملحوظ ہوتی ہے ۔ وہ سمجھ جاتے ہیں ہچکچاہٹ کا مطلب شرم ہی ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے پہلے پہلے آئی تھی ، اب عادت ہو چکی ہے۔میں ان کی سنتا ہوں لیکچر نہیں دیتا۔ ایک منگتا سڑک پر کرسی رکھ کر بیٹھا ہوتا ہے ۔آنے جانے والوں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ اس سے کئی بار بات ہوئی۔ وہ ہمارے قریبی گاؤں کا نکل آیا۔ بزرگ ہے۔ ایمپوریم کی بیک سائیڈ پر جھگیوں میں رہتا ہے۔ اس نے بتایا کہ قوم کا قریشی ہے۔ میرے گاؤں کا اسے معلوم ہوا تو کہنے لگا اس گاؤں میں کبھی فلاں بھی رہتا تھا۔ تین چار ہفتے بعد  بات ہوئی اس نے پھر ان کا ذکر کیا،اور کہا وہ اس کا کزن تھا۔ یہ لوگ جو اب گاؤں سے جا چکے ہیں میراثی تھے جبکہ کام نائیوں کا کرتے تھے۔ قریشی صاحب ہمارے علاقے کے ایم این اے جو وفاقی وزیر بھی رہے ان کے گاؤں کے ہیں۔ ان کو وہ بڑے  لوگ اپنے بچوں کی شادی ویاہ پر بلاتے ہیں۔ ووٹ کاسٹ کروانے کے لیے لاہور سے 12 لوگوں کو گاڑی لے کے اور  چھوڑ کے بھی گئی۔ان قریشی کی اپنی کہانی ہے۔
ہمارے آفس قریب  بازار میں ایک خاتون بھٹی پر دانے بھونتی ہے۔ دیہات میں دانوں میں سے ”بھاڑا“ رکھ لیا جاتا تھا۔ شہر میں ایسا رواج نہیں ہے۔ یہ خاتون بہاولنگر کے کسی گاؤں سے جہاں آئی۔ اس کی الگ کہانی ہے۔ اس کی 5بیٹیاں ایک بیٹا ہے۔ سب بیٹیاں ویاہ دی ہیں۔ میاں فوت ہوگیا۔ ایک نواسی اس کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ بی بی ہر ماہ باقاعدگی سے میلاد کراتی ہے۔ کہہ رہی تھی سوہنے نبی دے در جان لئی پیسے جوڑ رہی ہوں۔
کل بندر نچانے والا نظر آگیا۔ یہ دس سال قبل مظفر گڑھ سے لاہور آیا۔ اس نے10ہزار کا لاہور سے ہی ایک مارکیٹ سے بندر خریدا ۔اس کا نام شیدا رکھا ہوا ہے۔ اس بندر کی بھی کہانی ہے ۔اسے نچانے والے کا سارا خاندان باپ بھائیوں سمیت یہی کام کرتا ہے۔اس کے باپ کے پاس ریچھ ہے جو ایک لاکھ سوا لاکھ کا ملتا ہے۔ اس کا مسکن بھی قریشی صاحب کی طرح جھگیوں میں ہے۔ دو بچے ہیں جن کو وہ پڑھانا چاہتا ہے۔ اس کے پاس موبائل بھی ہے۔ 20روپے دے کر قریبی دکان سے چارج کراتا ہے۔
یہ مائی سکینہ ہے ۔ یہ گٹر کی تھڑی پر بیٹھ کر ہاتھ پھیلاتی ہے۔ اس کی اپنی کہانی ہے۔ یہ اوکاڑہ سے آئی ہے۔کرائے کے مکان میں رہتی ہے۔ 
یہ خاتون کوڑا اٹھاتی ہے۔ ماہانہ تنخواہ لینے آئی ، میں آفس کے لان میں بیٹھا تھا۔ اس کی بپتا سنی کئی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ اس کی الگ کہانی ہے۔محنت کو عظمت جبکہ مانگنے کو جمیلہ لعنت سمجھتی ہے۔ اس کی اپنے نام جمیلہ سے اتنی ہی نسبت ہے جتنی حسینہ واجد کی اپنے نام سے ۔اس کے دو مرغے چوری ہو گئے ، چور کو اس نے پکڑ لیا۔ نواسے نواسیوں ، پوتوں پوتیوں والی ہے۔ لاہور میں کہاں سے آئی؟ اسے اپنے گاؤں کا نام یاد نہیں۔
یہ ڈاکٹر صاحب ہیں راٹھور نام ہے۔ میں دوست کے ساتھ ان کے کلینک پر گیا۔ وہ باری باری مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ اس دوران ایک نوجوان آیا اس نے راٹھور صاحب سے ہاتھ ملایا اور اسی ایکشن میں اسے کھینچ کر سڑک پر لے آیا جہاں پانچ ڈنڈا برداروں نے برسات شروع کر دی ۔میں اور مختار باہر آئے۔ میں نے تھوڑی ہمت کی ۔ ذرا زور سے بولا کیوں مار رہے ہو۔ "کوئی قریب نہ آئے ورنہ۔۔۔-" ایک نے گرجدار آواز میں کہا  اور ساتھ ہی ڈاکٹر کو ڈالے میں ڈالا اور یہ جا وہ جا۔ یہ سیاہ ویگو ڈالا نہیں تھا۔ تیسرے چوتھے روز کلینک پر خصوصی طور پر پتہ لینے گئے ۔ کلینک بند ہونے کا اندیشہ تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب براجمان تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جن کے پاس لے گئے انہوں نے کہا تم غلط بندے کو اٹھا لائے ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے گھٹنے چھوتے ہوئے کہا آپ کی موجودگی کے باعث جان بچ گئی۔ انہوں نے نقوی صاحب کو بتایا کہ کلینک میں انٹیلی جنس کے لوگ بھی تھے۔ مجھے کئی بار انٹیلی جنس کا بندہ سمجھ لیا گیا۔ میرا قد 6فٹ اور کبھی ویٹ 90کے جی ہوا کرتا تھا۔ اب قد وہی ہے ویٹ74کلو ہے۔ایک مولانا صاحب نے کہا کہ اگر آپ امام ہوتے تو کتنے جچتے۔ ایک نے کہا فوج میں ہوتے تو کمانڈر ہوتے۔ایسی باتیں سن کر کبھی متکبر نہیں ہوا۔تین خاکروب دو پوڈے( سیڑھی کے زینے )لگا کر ٹرک میں کوڑا لوڈ کر رہے تھے۔ایک نے سر پر رکھا ٹوکرا ٹرک میں الٹتے ہوئے کہا یہ بابو ہمارے  کام میں ہوتا تو دس منٹ میں ٹرک لوڈ ہو جاتا۔ان کے کہے کا  برا نہیں منایا۔ان سب کی بھی اپنی اپنی کہانی ہے۔ میری بھی اپنی ایک کہانی ہے۔