16 دسمبر 2014 اے پی ایس حملہ اور 17 دسمبر 1971 سقوط ڈھاکہ کے پیچھے ایک ہی طاقت ہے، نامور خاتون صحافی نے بڑا انکشاف کر ڈالا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 02, 2017 | 07:56 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک) پاکستان کی بری بحری اور فضائی افواج  کے نمائندہ  میگزین ہلال   کی لکھاری صائمہ جبار  اپنے ایک خصوصی میگزین میں لکھتی ہیں ۔

 17دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ ہوا اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ اس تاریخ کے ساتھ ماضی قریب کی ایک اور انتہائی دکھی یاد وابستہ ہے جس نے ہر پاکستانی کی آنکھ نم کر دی۔ 2014کی اسی تاریخکو آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والی دہشت گردی

کو قوم کیسے بھلا سکتی ہے جب کمسن ،بے گناہ اور نہتے بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور 136کے قریب معصوموں کو شہید کر دیا گیا۔


سوال یہ اٹھتا ہے کہ 16دسمبر کو ہونے والا آرمی پبلک اسکول حملہ کیا محض اتفاق تھا یا اس کے پیچھے بھی وہی عناصر تھے جنہوں نے 16دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان کے قیام میں کردار ادا کیا؟اس کے بارے میں کوئی ڈاکومنٹری ثبوت تو نہیں ہے مگر شواہد کاِ سرا انڈین اور افغان خفیہ ایجنسیوں سے جا ملتا ہے۔ گاہے بہ گاہے بھارت کے وزرا اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرنے اپنی تقریروں میں اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ بھارت پاکستان میں موجود اپنے اثاثوں کو استعمال کرے گا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ تحریکِ طالبان پاکستان کو کوئی بھی اپنے مفاد میں پیسہ دے کر استعمال کر سکتا ہے ۔ اور یہ بات تو منظرِ عام پر آ چکی ہے کہ پشاور حملے میں ٹی ٹی پی کا ہی ایک گروپ شامل تھا اور حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔


مکتی باہنی کس نے بنائی؟

مکتی باہنی ایک چھاپہ مار گوریلا تنظیم تھی جس نے بنگلا دیش کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔بھارت کی مدد سے تخلیق کردہ اس،دہشت گرد بنگلالیوں پر مشتمل، گروہ نے 1971میں قتلِ عام اورخواتین کی عصمت دری کی۔اس میں نہ صرف بنگالی بلکہ بھارتی فوج کے لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے خصوصی گوریلاجنگ کی تربیت حاصل کر رکھی تھی۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس بنگلا دیش کا دورہ کیا اور اپنی ایک تقریر میں برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ مشرقی پاکستان کے قیام میں شامل بنگالی گوریلا فورس مکتی باہنی کو بھارت کی مدد حاصل تھی۔ مودی نے کہا کہ بھارتی فوج نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر اپنا خون گرایا اور آنے والی نسلوں کو یہ معلوم ہو نا چاہئے کہ بھارتی فوج ہی تھی جس نے مکتی باہنی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملایا ۔


پاکستان کی نوجوان نسل کو بھی اس حقیقت کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے۔ عام طور پر دنیا میں جو غلط تاثر دیا جاتا ہے اور بہت سے پاکستانی بھی اس پر یقین رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ شاید پاکستان کی فوج نے بنگالیوں پر ظلم کیااور یہ کہ اگر 1971میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو میں اتفاق ہو جاتا اور یکم مارچ 1971کے روز اسمبلی کا سیشن ہو جاتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔تاریخ کے مطالعے سے اور مختلف مصنفوں کی تحریروں سے اس بات کے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ بھارت تو بہت عرصے سے 1971کی جنگ کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے تو سالوں سے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔سوال یہ ہے کہ بھارت نے یہ منصوبہ کب بنایا تھا؟ جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو کس کس نے کیا کردار ادا کیا؟
نہ صرف نریندر مودی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مکتی باہنی کے ساتھ مل کر بھارتی فوج نے بنگلا دیش قائم کیا بلکہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایک سابق افسر آر کے یادیو اور 2014میں لکھی ایک کتاب
''Mission R&AW''
کے مصنف نے حال ہی میں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ مکتی باہنی ’را‘ کی ایک بے بی تھی اور بھارتی ایجنسی ’را‘ اور مکتی باہنی نے مل کر پاکستان کو کٹ ٹو سائز کیا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مکتی باہنی نے جو قتلِ عام کیا اس کی ذمہ داری بھی بھارت پر ہی آتی ہے۔


1971کی جنگ کاریکارڈ کہاں گیا؟
مئی 2010میں بھارت کے ایک مشہور اخبار
"Times of India" Truth lost? Most military records of Bangladesh war missing) (
اپنے مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 1971کی جنگ کا تمام ریکارڈ تلف کیا جا چکا ہے۔ جب ٹائمز آف انڈیا نے دو سابق بھارتی مشرقی کمانڈ کے افسروں سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ 1971 کے مشرقی کمانڈ کے چیف جے ایس ارورا کے کہنے پر تمام جنگی ریکارڈ ضائع کیا جا چکا ہے۔ 
اسی آرٹیکل میں بتایا گیا کہ اس جنگی ریکارڈ میں مکتی باہنی کی تخلیق،قیام کا وقت، ان کو دئیے گئے آرڈرز،کیمپوں کی جگہوں اور تمام حساس معلومات شامل تھیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ کون ان کو ہدایات دے رہا تھا اور ان کی ٹریننگ کیسے کی جاتی تھی۔1971 کی جنگ کا ریکارڈ اس طرح غائب ہو جانا ایک حیرت انگیز بات ہے۔جبکہ اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے 1971کی جنگ کی وضاحت دیتے ہوئے اپنے ایک انٹر ویو میں برملا کہا کہ مکتی باہنی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔اور اس طرز پر کوئی گوریلامشرقی پاکستان میں نہیں تھے۔اور یہ بھی کہا کہ بھارت نے یکم مارچ 1971کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی وجہ سے مداخلت کی تھی۔


بھارتی سازش کب اور کیسے بنائی گئی؟
اب یہ بات واضح ہونا شروع ہو چکی ہے کہ مشرقی پاکستان کو الگ کروانا بھارت کی پرانی سازش اور منصوبہ تھا۔ بھارت اس سے اپنے سٹریٹیجک ہدف حاصل کرنا چاہتا تھا۔1970میں گنگا جہاز کے اغوا کی جھوٹی کہانی بنائی گئی، اس میں دو کشمیری نوجوانوں کو استعمال کیا گیا۔ اس کا بہانہ بنا کر بھارت نے پاکستان کا بھارت کے اوپر سے مشرقی پاکستان جانے کا راستہ بند کروا دیا۔اس کے بعد پاکستان کا مشرقی پاکستان کے ساتھ رابطہ قائم رکھنا نہایت مشکل تھا۔
درحقیقت اس خانہ جنگی کا منصوبہ تو بھارت نے مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ 25دسمبر 1962میں ہی بنا لیا تھا۔ڈھاکہ میں بھارتی سفارت خانے میں 1962کے دورانِ تعینات ایک بھارتی سفارت کارایس بینر جی نے لندن سے اپنی کتاب شائع کروائی جس کا نام
"India, Mujibur Rahman, Bangladesh Liberation and Pakistan"

ہے اس کتاب میں انہوں نے بتایا کہ تفضل حسین نامی مشرقی پاکستان کے اخبار کے ایک ایڈیٹر کی مدد سے شیخ مجیب الرحمن نے ایس بینرجی سے ان کے دفتر میں 25دسمبر 1962کے روز ملاقات کی اور ایک خفیہ خط بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کے نام بھجوایا۔ جس میں شیخ مجیب نے بھارت سے مدد مانگی تھی۔اور مشرقی پاکستان کی آزادی کی بات کی تھی۔اور اس بات کی خواہش کی تھی کہ وہ خود لندن منتقل ہو کریکم مارچ 1963 تک مشرقی پاکستان کی آزادی کی تحریک کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ اس خط کا جواب اگرچہ بہت دیر سے دیا گیا لیکن بھارتی وزیرِ اعظم نے جواب میں شیخ مجیب کو ہدایات دیں کہ اس وقت حالات سازگار نہیں اور شیخ مجیب ڈھاکہ میں ہی رہ کر اپنی پارٹی کی تنظیم سازی کریں۔ اسے عطیات دینے والی پارٹی بنائیں۔ ممبر شپ بڑھائیں،ہر علاقے میں جلسے ریلیاں کریں ۔اور جب لوگ ان کو گاندھی جی کی طرز پر سراہنے لگیں گے تو مناسب وقت آنے پر حملہ کر کے مشرقی پاکستان کو آزاد کروایا جائے گا۔
2013میں امریکی مصنف جیری باس کی کتاب
"Blood Telegram"
اور بھارتی مصنف سری ناتھ راگھوان کی کتاب دی 1971میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے بھارت کی 1971کی جنگ میں اسلحہ سمیت ہر ممکن مدد کی تھی۔اور پروپیگنڈا کرنے میں بھی پیش پیش تھا۔
1971میں کتنی اموات ہوئیں اور مرنے والے کون تھے؟
گزشتہ برس ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلا دیش نے پاکستان سے تعلیمی روابط ختم کرنے کا اعلان کیا اور شرط عائد کی کہ جب تک پاکستان 1971 میں کئے گئے قتلِ عام کی معافی نہیں مانگتا تب تک تعلیمی روابط استوار نہیں کئے جائیں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسی ڈھاکہ یونیورسٹی میں جگن ناتھ ہال کے باہر جو اجتماعی قبر ہے اسے گزشتہ 44برس سے نہ تو یونیورسٹی اور نہ ہی حکومت نے کھدوایا اور اس بات کا پتا کیوں نہیں لگایا کہ یہاں کتنی لاشیں دفن ہیں اور ان کی شناخت کیا ہے؟در اصل ایسا نہ کرنے کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ اسی یونیورسٹی میں شریش تولہ کے مقام پر ایک میموریل ہے جس میں لگی لسٹیں بتاتی ہیں کہ 1971کے سال میں 149لوگ مارے گئے جن کا تعلق یونیورسٹی سے تھا۔ جن میں استاد،سٹاف اور طالب علم شامل ہیں۔
اسی تعداد کے حوالے سے بھارتی نژاد آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والی مشہور مصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب
"Dead Reckoning"
میں 1971 کی جنگ سے متعلق بہت سے انکشافات کئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 25مارچ کو یونیورسٹی میں مارے گئے افراد کی تعداد ہزاروں میں تو نہیں تھی مگر پاکستان آرمی کے بریگیڈ یئر اور کیپٹن کی وائرلیس بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ اس جگہ 300 کے قریب اموات ہوئیں۔ تو شرمیلا بوس سوال اٹھاتی ہیں کہ اگر یونیورسٹی میموریل میں 70سے 80 لوگ صرف یونیورسٹی کے تھے تو باقی 200لوگ کون تھے؟کیا وہ مکتی باہنی کے گوریلے تھے جنہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں رات کو پناہ لے رکھی تھی؟عوامی لیگ،بھارتی حکومت اور میڈیا اور مغربی زرائع ابلاغ گزشتہ 45سالوں سے جو نسل کشی کا الزام لگا رہے ہیں اس میں بہت بڑا ابہام ہے۔
شیخ مجیب الرحمن نے پہلی مرتبہ جنوری 1972میں ایک ریلی سے خطاب میں کہا کہ پاکستانی فوج نے 30لاکھ بنگالیوں کا قتلِ عام کیا۔ اسی مہینے 29جنوری میں شیخ مجیب نے ایک کمیٹی قائم کی جس کا کام ریکارڈ جمع کرنا تھا کہ کتنے لوگ مارے گئے اور کتنے زخمی ہوئے۔
امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائم کے ایک رپورٹر
(Wililam Drummond) 
ولیم ڈرومونڈ نے ایک آرٹیکل 
"The Missing Millions"
میں تحریر کیا کہ شیخ مجیب کی بنائی ہوئی تحقیقاتی کمیٹی نے مارچ 1972 کو جب کام کا آغاز کیا تو محض 2000 شکایات بنگلا دیش کی وزراتِ داخلہ کو (مارے گئے افراد کے حوالے سے) موصول ہوئیں۔اسی معاملے پر ایک بنگالی سکالر ڈاکٹر عبدالمومن چوہدری نے اپنی کتاب
"Behind the myth of three million"
میں حقائق سے پردہ اُٹھایا ۔ انہوں نے بتایا کہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ 30اپریل کو دینا تھی لیکن وہ تعطل کا شکار ہوئی۔ جب جولائی 1972میں 12رکنی کمیٹی نے شیخ مجیب کو رپورٹ پیش کی تو اس میں بتایا گیا کہ 1971میں مارے گئے افراد کی تعداد 56سے 57 ہزار کے قریب تھی۔جس میں بنگالی،مکتی باہنی کے لوگ، بہاری، مغربی پاکستان کے لوگ اور رضا کار بھی شامل تھے۔ شیخ مجیب اس رپورٹ کو دیکھ کر غصے میں آگیااور بولا کہ میں نے 30لاکھ افراد کے مارے جانے کی بات کی ہے اور رپورٹ میں تو تین لاکھ بھی نہیں بتائے گئے۔اس انکوائری رپورٹ کو کبھی پبلک نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس ذوالفقار بھٹو کے بنائے گئے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 1971میں 26 ہزار کے قریب لوگ ہلاک ہوئے تھے۔جن میں ساڑھے چار ہزار پاکستانی فوجی بھی تھے۔یہ رپورٹ اس اعدادو شمار پرمبنی تھی جو مشرقی پاکستان کمانڈ‘ جی ایچ کیو راولپنڈی بھیج رہی تھی۔


نسل کشی کس نے کی؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1971میں ہونے والا قتلِ عام اور نسل کشی کس نے کی؟بہت سے انٹرویوز ، آڈیوز اور ویڈیو زریکارڈ کا حصہ ہیں جس میں عینی شواہدین نے بتایا کہ مکتی باہنی نے قتلِ عام کیا۔جنگ کی کوریج کرنے والا ایک امریکی صحافی برٹ کوینٹ کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ جب ہمیں دریا کا دورہ کروایا گیا تو ہم نے بے شمار تیرتی لاشوں کو دیکھا اور وہاں موجود دیہاتیوں نے بتایا کہ یہ لوگ جنگ کے دوران نہیں مارے گئے بلکہ ان کو بعد میں قتل کیا گیا جب پاکستانی فوج علاقے سے واپس جا چکی تھی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کی تعداد مشرقی پاکستان میں کتنی تھی؟


امریکی سی آئی اے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹس سمیت بیشتر رپورٹس کے مطابق 25مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوج کی تعداد 20ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ بھارت نے پاکستان سے مشرقی پاکستان کا ہوائی راستہ بند کر رکھا تھا۔ نومبر دسمبر 1971میں فوجیوں کی کل تعداد 41ہزار کے لگ بھگ تھی۔جبکہ بھارت جو بات کرتا ہے کہ اس کے پاس 93ہزار جنگی قیدی تھے تو ان میں صرف 34ہزار پاکستانی سپاہی اور افسر تھے جبکہ باقی قیدیوں کا تعلق پولیس، کسٹم اور دوسرے سول اداروں سے تھا۔


اب اگر دیکھا جائے کہ صرف چند ہزار پاکستانی فوج تھی۔جس پر چاروں اطراف سے حملے ہو رہے تھے اور وہ ایک گوریلا جنگ لڑ رہے تھے۔تو کیسے یہ الزام تراشی کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں نسل کشی کی یا عصمت دری کی۔نسل کشی کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ نسل، رنگ، اور مذہب کی بنیاد پر عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو مارنا۔
شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پاکستانی فوج پر جن علاقوں میں مارنے کے الزام لگے ان میں تھانہ پرا، چپ نگر، بورائے تولا،جن جیرا اور ڈھاکہ یونیورسٹی شامل ہیں۔ یہاں پاکستانی فوج نے جنگجو نوجوانوں کو نشانہ بنایا جن پر مکتی باہنی کا گوریلا ہونے کا شک تھا۔یہ لوگ آبادی میں گھل مل جاتے تھے۔ جبکہ پاکستانی فوج نے عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو نشانہ نہیں بنایا۔ 
اس کے برعکس مکتی باہنی اور عوامی لیگ نے قتلِ عام کیا۔انہوں نے بلا تفریق مغربی پاکستان کے آباد کاروں، بہاریوں اور پاکستان کے ہمدرد قوم پرستوں کو مارا۔ حتیٰ کہ بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو بھی نہ بخشا۔

اس کے ثبوت بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ دریاؤں، ندیوں اور نالوں میں بہنے والی ہزاروں لاشیں بہاریوں کی تھیں جن کو مکتی باہنی اور عوامی لیگ نے نشانہ بنایا۔جہاں بھارت اور بنگلا دیش دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کی الزام تراشی کر رہے ہیں وہاں پاکستان میں رہنے والے ہر طبقے کو چاہئے کہ وہ تاریخی حقائق کومدِ نظر رکھے اور خطے میں بھارتی عزائم کو نظر اندازنہ کرے۔ بھارت نے ماضی میں بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں خانہ جنگی کروانے کی کوشش کی ہے ۔ جیسے کہ 1948 میں حیدر آباد میں آپریشن پولو،گووا ہو یا سقم، تامل گوریلہ موومنٹ ہو یا گزشتہ برس کی جانے والی نیپال کی ناکہ بندی بھارت اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد سے آگے جا سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بھارت کے ان منصوبوں کو اور بھارتی شاطر چالوں کو سمجھا جائے اور بچنے کی کوشش کی جائے۔ بھارت بلوچستان اور کراچی میں کچھ گروہوں کو استعمال کر کے بد امنی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارت کی سرگرمیاں ابھی بھی پاکستان میں موجود اپنے اثاثوں کے ذریعے جاری ہیں تاہم اب پاکستانی خفیہ ادارے کافی حد تک چوکنے ہیں اور بھارتی ایجنٹ کل بھوشن یادیود کی گرفتاری اس کا ایک ثبوت ہے۔