انڈیا میں دوہزار کا نوٹ اوس سونے کے سکے رائج

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 14, 2016 | 17:57 شام

گائوں کی حالت ابتر، بینک اور کریڈٹ کارڈ کا چلن نہیں
نئی دہلی۔ (مانیٹرنگ) ممتاز ماہر معاشیات اور اکنامک ٹائمز کے کنسلٹنٹ ایڈیٹر سوامی ناتھن ایئر کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس بلیک منی (کالا دھن) موجود ہے ممکن ہے کہ وہ پکڑے جائیں گے لیکن اس سے زیادہ نقصان اور پریشانی عام آدمی کو ہوگی جن کے پاس 500 اور 1000 روپئے کے نوٹس ہیں کیوں کہ وہ فی الفور ان نوٹوں کے استعمال سے قاصر ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام انتہائی جراتمندانہ ہے۔ کیا یہ مطلوبہ نتائج برآمد کرسکتا ہے۔ کیوں کہ ایک ع

ام آدمی اپنی رقومات گھر میں جمع کرتا ہے اور نہ ہی بینک لاکر میں محفوظ کرواتا ہے اور وہ روز کماتا ہے تو روز کھاتا ہے تاہم حکومت کے اقدام سے ہر ایک کے لئے مصیبت آن پڑی ہے۔ اب تو زندگی شعبہ حیات کے ہر ایک شخص غریب سے لے کر امیر، سیاہ دھن سے سفید دھن رکھنے والوں تک مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں گو کہ یہ عمداً کیا گیا ہوا اور مودی نے اسے تسلیم بھی کیا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان مشکلات پر قابو پانے کے بعد فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مسٹر سوامی ناتھن نے بتایا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سال میں کرنسی نوٹوں کے چلن میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں ٹیکس چوری کے لئے گھنائونے طریقے اختیار کرتے ہیں لیکن اصل مسئلہ تو دیہاتوں میں ہے جہاں پر معاشی سرگرمیاں نقد رقم پر منحصر ہوتی ہے۔ یہاں پر چیک یا کریڈیٹ کارڈ کا استعمال نہیں ہوتا لہٰذا صرف 0.1 فیصد افراد کیلئے 100 فیصد لوگوں کو تختہ مشق بنادیا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں مایوسی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے برخلاف ہماری معیشت کا حقیقی چہرہ کچھ اور بیان کررہا ہے۔ جبکہ برقی کی خریداری میں زبردست خسارہ درپیش ہے اور جو لوگ اعلی قدر کے نوٹ قبول کررہے تھے اچانک یہ نوٹ لینے سے انکار کررہے ہیں جس کے باعث برقی کی خریداری کے لئے رقومات کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور غیر یقینی صوتحال پیدا ہوگئی ہے۔ کوئی بھی یہ نوٹ قبول کرتا ہے یا نہیں؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ پرانی نوٹوں کی جگہ نئے نوٹوں کا چلن لانے میں ایک طویل مدت چاہئے جس کے دوران کاروبار میں زبردست گراوٹ آجائے گی۔ مختلف اقسام کی اشیاء بالخصوص بہ آسانی دستیاب اشیاء ناکارہ ہوجائے گی۔ گو کہ 500 روپئے کوئی بڑی رقم نہیں ہے لیکن بعض مقامات پر میوہ 500 روپئے کیلو فروخت کیا جارہا ہے۔ معاشی تنگدستی کی صورت میں کوئی خرید سکتا ہے کیایہ قدم کالادھن کی روک تھام میں کارآمد ہوگا اور بلیک منی رکھنے والے اپنی رقومات کو سفید بنانے کے لئے مختلف طریقے اختیار کریں گے گو کہ انہیں تھوڑا بہت نقصان ہوگا لیکن مکمل خاتمہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ محض کرنسی نوٹوں کی تنسیخ کے ذریعہ بلیک منی کے صفایا کا دعوی نہیں کیا جاسکتا۔

اگرچہ کہ حکومت نے 2000 روپئے کی نئی نوٹ کا اجراء کیا ہے لیکن بعض لوگوں نے 31,000 روپئے مالیتی سونے کے سکے کا تبادلہ شروع کردیئے اور اب کرنسی نوٹ کی بجائے سونے کے سکے( گولڈ کائن) میں بلیک منی کا استعمال کررہے ہیں جس کے نتیجہ میں سونے کے سکوں کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ ہندوستانی معیشت پر منفی اثر مرتب کررہا ہے۔

آسٹریلوی شہر کی پرتھ منٹ نے دنیا کا سب سے بڑا سونے کا سکہ بنا کر دنیا کو حیران کردیا ہے۔یہ سکہ 99.99فیصد سونے سے بنایا گیا ہے اور اس کی اونچائی 80سینٹی میٹر اور یہ 12سینٹی میٹرچوڑا ہے۔
یہ سکہ ایک آسٹریلوی ڈاکٹر سٹورٹ ڈیولن نے ڈیزئن کیا ہے جس کے ایک جانب آسٹریلیا کے قومی جانور کینگرو کی تصویر ہے جبکہ دوسری جانب برطانوی ملکہ وکٹوریہ IIکی تصویر ہے۔اس سکے کا وزن ایک ٹن ہے اور یہ تمام کا تمام سونے کا بنایا گیا ہے۔اس سکے کی مالیت 10لاکھ آسٹریلوی ڈالر (10کروڑ روپے) ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا اور مہنگا ترین سکہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔