وزیردفاع کے انکشافات اور اعترافات مگر آرمی چیف کی تعیناتی سے لاعلم

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 09, 2016 | 04:56 صبح

 

کراچی(مانیٹرنگ)وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے ابھی تک کسی بھی قسم کی مشاورت یا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام "نیوز آئی" میں بات چیت کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے ابھی تک کسی قسم کی مشاورت نہیں ہوئی۔

انھوں نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر فیصلے کے حوالے سے میڈیا پر آنے والی رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'نہ ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کی

ا گیا اور نہ ہی اب تک اس پر بات چیت کا آغاز ہوا ہے'۔

انھوں نے مزید کہا کہ جنرل راحیل شریف کی مدت سروس 29 نومبر تک کیلئے ہے اور نئے آرمی چیف کے حوالے سے 27 نومبر تک کسی بھی قسم کا فیصلہ ممکن ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فوج 8 سال سے ملک میں جمہوریت کو سپورٹ کر رہی ہے۔

نیوز گیٹ اسکینڈل پر بات نہیں کرنا چاہتا

ڈان نیوز کی خبر کی تحقیقات کے حوالے سے قائم کمیٹی پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ 'نیوز گیٹ اسکینڈل میرا موضوع نہیں، اس پر اور پرویز رشید کے استعفے پر بات نہیں کروں گا'۔

انھوں نے کہا کہ قومی سلامتی کی خبر کا معاملہ تحقیقاتی کمیٹی کے پاس ہے اور اسے معاملے کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار دیکھ رہے ہیں۔

نیوز گیٹ اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کے حوالے سے ان کا کہنا شریف فیملی اور جسٹس (ر) عامر رضا کے تعلقات کے بارے انھیں علم نہیں ہے۔

اپوزیشن کے پاس پاناما کرپشن کے ثبوت موجود نہیں

وزیر دفاع نے حکمرانوں کے احتساب کے حوالے سے کہا کہ 'پارلیمنٹ سے احتساب کا قانون بن جاتا تو اچھا ہوتا، احتساب بل کا کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا اگر پاناما بل کو پارلیمان کی اکثریت پاس کرے تو قبول ہے'۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس پاناما کرپشن کے ٹھوس ثبوت موجود نہیں اور وہ پاناما معاملے کو طول دینے کی کوشش کرے گی۔

اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کے احتساب کے مطالبے پر انھوں نے کہا کہ سب کا احتساب کریں، وزیراعظم کا سب سے پہلے کریں اور حکومت کو وزیراعظم کے احتساب میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف تو بہت پہلے ہی خود کو احتساب کیلئے پیش کرچکے ہیں۔

پروگرام کی میزبان مہر عباسی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 5 مرتبہ الیکشن جیتا اور پانچوں مرتبہ اسے چیلنج کیا گیا جبکہ عدالت نے پانچوں مرتبہ میرے حق میں فیصلہ دیا۔

انھوں نے کہا کہ عدالت کا احترام کرتا ہوں، ججز کے ریمارکس پر بات نہیں کروں گا۔

نیا آرمی چیف کون ہوگا؟

خیال رہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت نومبر کے آخر میں ختم ہورہی ہے اور یہ نواز شریف کے لئے پانچواں موقع ہوگا جب کو پاک فوج کے سربراہ کا تقرر کریں گے۔

وزیراعظم نواز شریف کو سب سے زیادہ مرتبہ آرمی چیفس کی تقرری کا اعزاز حاصل ہے اور اگر 1999 میں ان کی جانب سے جنرل مشرف کو ضیاء الدین بٹ سے تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کو بھی گن لیا جائے تو یہ چھٹا موقع ہوگا جب نواز شریف چیف آف آرمی اسٹاف کا انتخاب کریں گے۔

نواز شریف نے ماضی میں جن آرمی چیفس کو منتخب کیا ان میں جنرل آصف نواز جنجوعہ (1991) ، جنرل وحید کاکڑ(1993) ، جنرل پرویز مشرف(1998) اور جنرل راحیل شریف (2013) شامل ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے بعد آنے والے سات آرمی چیفس میں سے پانچ کا انتخاب نواز شریف نے کیا۔

جنرل راحیل شریف کے جانشین کے انتخاب کے حوالے سے حکومت نے اب تک باضابطہ طور پر غور شروع نہیں کیا لیکن اس معاملے سے واقف حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے سال کے آغاز سے ہی اس معاملے پر مشاورت شروع کررکھی ہے۔

جنوری میں جنرل راحیل شریف کی جانب سے دیے گئے اُس بیان کو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجائیں گے اندورنی معاملات سے واقف لوگ پس پردہ سیاسی چالبازی کا شاخشانہ قرار دیتے ہیں۔

جنرل راحیل کا یہ بیان سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی موضوع بحث بن گیا تھا اور آرمی چیف کو مدت ملازمت توسیع دینے کے حامیوں اور مخالفین کا سیلاب امڈ آیا تھا۔

پاک فوج کے سینئر افسران کی فہرست بہت حد تک واضح ہے، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات سینیئر ترین افسر ہیں اور ان کے بعد کور کمانڈر ملتان، لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد، کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور انسپکٹرجنرل ٹریننگ اینڈ ایویلوئیشن لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجودہ ہیں۔

جنرل زبیر اور جنرل اشفاق کے درمیان دو اور جنرلز بھی ہیں ، ایک ہیوی انڈسٹریل کمپلیکس ٹیکسلا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین اور دوسرے ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان۔

تاہم یہ دونوں افسران آرمی چیف کے عہدے کیلئے تکنیکی طور پر اہل نہیں کیوں کہ انہوں نے کسی کور کی کمانڈ نہیں کی ہے۔

اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل مقصود احمد جو اس وقت اقوام متحدہ میں ملٹری ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں وہ پہلے ہی توسیع پر ہیں اور وہ بھی مزید پروموشن کے اہل نہیں۔

جو چار جنرلز آرمی چیف کے عہدے پر ترقی پانے کے اہل ہیں ان تمام کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 62 ویں لانگ کورس سے ہے۔