کنٹینرزکی پکڑ دھکڑ نقصان کس کا؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 03, 2016 | 12:24 شام

 

لاہور(مانیٹرنگ)

پاکستان میں ہر بڑے احتجاج سے پہلے بڑی تعداد میں کنٹینرز کہاں سے آتے ہیں؟ کئی کنٹینرز سبزیوں، پھلوں اور ادویات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ آخر حکومت اور اپوزیشن کے اس کھیل میں نقصان کس کا ہوتا ہے اور قیمت کس کو چکانا پڑتی ہے؟رپورٹس کےمطابق پنجاب حکومت نے ہر تھانے کو پچاس کنٹینر فراہم کرنے کوکہا تھا۔کئی تھانوں نے ڈیڑھ دو سو بھی پکڑ لئے، پچاس کے اوپر والوں کو رشوت کے کر چھوڑ دیا۔اسلام آباد اور پنجاب سے سات ہزار کنٹینر پکڑے گئے تھے ان کو ادائیگی نہیں کی گئی۔ا

یسوسی ایشن کے ذمہ ار کہتے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے کوئی پالیسی بنائے،کنٹینرز کی ضرورت ہو تو ان سے بات کرے اور باقائدہ معاوضہ طے کرے۔ بہتر ہے کہ کراچی کاپوریشن کی طرح اپنے کنٹینر خرید لے۔اس کے ایسے کاموں کے لئے پانچ سو کنٹینر ہیں۔

Auseinandersetzungen zwischen Opposition und Regierunsanhängern in Lahore, Pakistan (Farooq Naeem/AFP/Getty Images)

 

اپوزیشن لیڈر عمران خان کی طرف سے اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کے اعلان کے بعد حکومت نے اسلام آباد کی طرف آنے والے تمام راستے بند کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس مرتبہ راستے بلاک کرنے کے لیے تقریباﹰ چار ہزار کنٹینرز استعمال کیے گئے۔ یہ سب وہ کنٹینرز تھے، جن کے ذریعے کراچی سے صوبے خیبر پختونخوا یا ملک کے دیگر حصوں تک اشیاء ٹرانسپورٹ کی جاتی ہیں۔

پاکستانی تاجروں کے مطابق حکومت بلا اجازت ان کے کنٹینرز پکڑ لیتی ہیں اور اس طرح انہیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ عمران خان نے منگل کو احتجاجی دھرنا منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا تھا لیکن سامان سے لدے ہوئے سینکڑوں کنٹینرز ابھی تک ان کے مالکان کو واپس نہیں ملے۔

کراچی میں پاکستان ٹرانسپورٹ فیڈریشن کے وائس چیئرمین چوہدری سعید اقبال کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’حکومت ہمارے ساتھ بہت زیادہ ظلم کر رہی ہے۔ 7 ہزار سے زائد کنٹینرز کو قبضے میں لے لیا گیا، جو سامان سے بھرے ہوئے تھے۔‘‘

پاکستان کے وفاقی ایوان صنعت و تجارت کے نائب صدر  ظفر بختاوری کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ راستے بند کرنے کے لیے کنٹینرز کو پکڑنے کی وجہ سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سینکڑوں فیکٹریوں کو اس وجہ سے بند کرنا پڑا کہ ان کے پاس اسٹوریج کے لیے جگہ نہیں تھی اور سامان لے جانے والے کنٹینرز ابھی تک حکومت نے پکڑ رکھے ہیں۔

ایک مقامی ٹرانسپورٹر بابر چوہدری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جب بھی سامان کی ترسیل تاخیر کا شکار ہوتی ہے، تو اس کے لیے جرمانہ ٹرانسپورٹرز کو ادا کرنا پڑتا ہے، ’’ہم کئی مرتبہ حکومت سے شکایت کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں کئی اجلاس بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک حکومت نے اپنا طریقہء کار نہیں بدلا۔‘‘ دوسری جانب حکومت کا کوئی بھی اہلکار اس حوالے سے کچھ بھی کہنے پر تیار نہیں تھا۔

بڑے شہروں میں بدامنی سے بچنے اور مظاہرین کو روکنے کے لیے سب سے پہلے سن دو ہزار سات میں کراچی کی سڑکوں پر کنٹینرز رکھے گئے تھے اور تب سے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اُس وقت پاکستان کے سابق حکمران جنرل پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کارکنوں سے خطاب کرنے سے روکنے کے لیے ایسا کیا تھا۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ یہ طریقہ اس وقت اپنایا گیا تھا، جب نواز شریف سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹنے کے بعد اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے تھے۔

اس کے بعد سے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے تواتر سے یہی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اب سیاسی یا مذہبی جلسوں کے دوران اسٹیج تیار کرنے کے لیے بھی کنٹینرز ہی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں عمران خان اور مذہبی رہنما طاہرالقادری نے بھی اپنے احتجاج کے دوران کنٹینروں کا استعمال کیا تھا۔

اکثر اوقات خالی کنٹینرز کو وزنی بنانے کے لیے ان میں ریت یا پھر مٹی بھی بھر دی جاتی ہے تاکہ مظاہرین انہیں راستے سے ہٹا نہ سکیں۔