70 اسلامی ممالک عافیہ صدیقی کو ملنے والی سزا پر خاموش کیوں ہیں ؟ اصل وجہ تو اب سامنے آئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 07, 2017 | 05:43 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک) عافیہ صدیقی کے حوالے سے گذشتہ کئی سالوں سے ایک جمود طاری ہے ۔ اور یہ جمود تب سے ہے جس دن عافیہ صدیقی کو 86 برس قید کی سزا سنائی گئی ۔ 

  ہمارے معاشرہ میں بھی ایک  گھر میں لوگوں کےمختلف گروپ ملے۔ جہاں ایک گروپ  کو اس سزا پہ افسوس تھا اور وہ اس عظیم دختر پہ کسی قسم کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتا ہے اور انکی ہر قسم کی مشکوک سرگرمیوں کو ایک سازش قرار دیتا ہے۔ وہاں دوسرا گروہ الزامات میں

موجود حقائق سے تو انکار نہیں کرتا البتہ ملنے والی سزا کو جائز قرار نہیں دیتا کہ یہ چوری کے جرم میں سزائے موت ہے۔  ایک تیسرا  جہادی گروپس سے بے زار گروہ بھی موجود تھا جو  قوم کی 'عظیم بیٹی'  بننے کے اس نسخے سے شدید اختلاف رکھتا تھا۔ اس طریقے سے عظمت حاصل کرنے کو بدعت قرار دیتا ہے اور سیاسی جماعتوں کی خوش قسمتی۔  وہ اسے امریکن ایجنٹ سمجھتے ہیں جسے ایک امریکی افسر پہ رائفل تاننے کی سزا نہیں ملی، بلکہ ڈبل کراسنگ کی سزا ملی ہے۔ 

عافیہ صدیقی کو مظلوم مسلم خاتون سمجھنے والوں سے جب انکی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ  اول تو اس سے قطعاً لا علم ہوتے یاپھر اسے بالکل سننا اور سمجھنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے جو کچھ کیا اسلام کی فتح کے لئے کیا۔  اپنے گھر اور بچوں کی قربانی تک دے ڈالی۔ اور تم میں سے کوئ اس وقت تک بھلائ حاصل نہیں کر سکتا جب تک اپنی سب سے پیاری چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کر دے۔  حوالہ ء قرآن۔

کچھ لوگ سوال کرتے ہیں ایک اچھی خاصی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے والی عورت اس ذہنی بیماری کا کیوں شکار ہوئ۔ جس کے لئے اس نے اپنی ذات ، اپنے والدین اور اپنی اولاد کے برے اور بھلے کا بھی نہیں سوچا۔  حتی کہ اس نے  دوسری شادی بھی ایک مبینہ القاعدہ کارکن سے کی۔ پہلے شوہر سے  تین بچے جو اس وقت واللہ اعلم کہ کہاں کہاں درگور ہو رہے ہیں۔  لیکن لوگوں کا ایک گروہ عافیہ صدیقی کو ایک مثالی مسلم عورت کے روپ میں پیش کرنے کی کوششوں میں مصروف۔ 

 ایک سوال کسی نے پوچھا، ایک عورت جب اپنے بچوں کو زہر دیتی ہے تو وہ معتوب ٹہرتی ہے لوگ کہتے ہیں کیسی ماں ہے، کیا زمانہ آگیا ہے ماں کو اپنے بچوں سے محبت نہیں رہی۔  مگرایک عورت جب اپنے بچوں کو  باپ اور ماں سے محروم کر کے  انہیں دنیا میں در بدر کر دیتی ہے تو حالات کی اصل نوعیت کو جانے بغیر یہ قابل حمد و ثناء ٹہرتا ہے۔ آخر کیوں؟

ایک اور گروہ یہ کہتا ہے کہ تقریباً ستر کے قریب اسلامی ممالک نے عافیہ کو ملنے والی سزا پہ ایک حرف نفرین نہیں کہا۔ عافیہ پہ جو بھی الزامات ہیں انکا تعلق صرف پاکستان سے نہیں۔ انکے تعلقات القاعدہ جیسی تنظیم سے بتائے جاتے ہیں۔ اس طرح اسکے حامیوں کے نزدیک تو وہ عالم اسلام کی سر بلندی کی جنگ لڑ رہی ہں۔ لیکن اس چیز کا دوسرے مسلم ممالک کو کیوں احساس نہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک نے اس آواز میں اپنی آواز کیوں شامل نہیں کی۔

شہر میں ایم کیو ایم نے عافیہ کے حق میں ایک ریلی نکالی۔ وہ شاید اس راستے سے ان مذہب پرستوں کے دل تک پہنچنا چاہتے ہیں جنہیں ہر چیز کسی مذہبی ایشو کی کوٹنگ میں قابل قبول ہوتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی انکے نمائیندے فاروق ستارعافیہ کے والدین سے مل چکےہیں اور انکے گھر جا چکے ہیں مگر جب سب عظمت کی اس گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں تو وہ اس سے کیوں محروم رہیں۔ امید ہے ایم کیو ایم کی  اس ریلی کے نتیجے میں شہر میں جو افراتفری پھیلے گی وہ سب کے لئے قابل قبول ہو گی۔

شہر سے گذرتے ہوئے اس سلسلے میں ایک احتجاجی بینر پہ نظر پڑی۔ ڈاٹرز آر ناٹ فار سیل۔  اس وقت پاکستانی قوم کی ایک ہی بیٹی ہے۔ ہر روز جو لاکھوں بیٹیاں بکتی ہیں انکا کوئ پرسان حال نہیں۔

تو جناب، عظیم بیٹی بننے کے لئے اگر حجاب پہن لیا جائے، جہادی تنظیموں کے لئے چندہ بھی جمع کر لیا جائے، انکے خفیہ نیٹ ورکنگ کے لئے فنڈنگ کا بندو بست بھی کر لیا جائے ایسے کہ ساتھ رہنے والے  شوہر کو اور گھر والوں کو سن گن بھی نہ لگے۔ پھر اس شوہر سےعلیحدگی ہو جانے کے بعد کسی القاعدہ کے کارکن سے شادی بھی کر لی جائے۔ اتنا حوصلہ پیدا کر لیا جائے کہ کسی بھی قسم کے تشدد کو برداشت کر لیا جائے۔

  لیکن ایک عورت جو اچھے خاصے کریئیر کے ساتھ زندگی گذار کے اپنے پیدا کئے ہوئے بچوں کو ایک پر سکون اور مطمئن زندگی دے سکتی تھی وہ  کتنے عظیم دل کی مالک تھی جو  انکی بر بادی کو اپنے ہاتھوں سے منتخب  سے کرتی ہے۔ کس کاز کے لئے اس نے کم از کم تین لوگوں کو عمر بھر کی اذیت میں مبتلا کیا۔ ایسے میں مجھے تو وہ عورت بہت عظیم لگتی ہے جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دینے کے لئے جسم فروشی کرتی ہے، لوگوں کی جھڑکیاں سنتی ہے، مگر انہیں خاطر میں نہیں لاتی ۔ کیا محض عظمت کے حصول کے لئے ممتا قربان کر دینا ایک مہنگا سودا نہیں۔