انسانی حقوق کے کارکنوں کو پاکستانی ایجنسیاں اٹھا رہی ہیں ؟ افواج پاکستان سے خواہ مخواہ کی چڑ رکھنے والی خاتون نے ایک اور انکشاف کر ڈالا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 19, 2017 | 05:48 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان میں حقوق انسانی کی کارکن اور وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ لوگوں کو ایجنسیاں ہی اٹھاتی ہیں اور باہر سے کوئی نہیں آتا۔

عاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں حالیہ جبری گمشدگیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان عوام کے حقوق کی حفاظت کرنے میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سامنے بےبس ہیں تو انھیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔وزیراعظم اور وزیر داخلہ سمیت عوام ک

ے منتخب نمائندوں پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو خفیہ قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ سے گریز کرنا چاہیے کیوکہ آج کا نوجوان اپنے حقوق سے واقف ہے۔

بی بی سی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے زیادہ تر مبینہ جبری گمشدگیوں کا سبب چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر تنقید کو قرار دیا۔

'یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جہاں کسی نے سی پیک کا ذکر کیا وہاں ایجنسیاں آگ بگولہ ہو جاتی ہیں۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ویسے تو پاکستان میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کی بڑی تعریف کی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں بہترین ہیں۔ ’اگر ایسا ہے تو لوگ بازیاب کیوں نہیں کروائے جا سکتے؟ان کے بقول ایجنسیوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ لوگ ترقی کے خلاف نہیں ہیں، مگر وہ ایسی ترقی چاہتے ہیں جس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ جو لوگ بھی اس منصوبے سے متاثر ہو رہے ہیں انھیں اس کا فائدہ بھی ملنا چاہیے۔ 'گلگت بلستان کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سی پیک کے خلاف نہیں ہیں، مگر ان کے روزگار کا سہارا ان کے چھوٹے چھوٹے باغ ہیں اس کا کوئی متبادل ملنا چاہیے۔ اسی طرح گوادر والوں کو گوادر میں روزگار ملنا چاہیے۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا دہشت گردوں سے بھی قانون کے دائرے میں رہ کر نمٹا جائے۔'ہم نے تو فوجی عدالتوں کو بھی قبول کر لیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں پر گمشدگیوں کے معاملات کا سارا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ اگر گمشدہ افراد کو وزیر داخلہ اور وزیراعظم بازیاب نہیں کروا سکتے تو پھر سپریم کورٹ کیا کر سکتی ہے۔