بڑا پن

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 10, 2021 | 16:52 شام

میں یورپ سے آیا ہوں، یونیورسٹی کے لیے لائی گئی مشینوں کو دیکھنا ہے۔ کمپنی نے آج ہی معائنے کے لیے کہا ہے"۔فون پراتنا ہی کہا گیا۔ فون ریسیو کرنے والے کو پوری بات سمجھ آ گئی۔"میری اپنی بھی طے شدہ مصروفیات ہیں، کل شام سے پہلے ملاقات ناممکن ہے"۔اِس طرف سے جواب دیا گیا تو اگلے روز شام کا وقت ملاقات کیلئے طے پا گیا۔ مشینیں ایک سیکنڈے نیوین کنٹری سے قائداعظم یونیورسٹی میں استعمال کے نام پر لائی گئی تھیں۔ ایکس وائے زیڈ کمپنی کو درست مخبری ہوئی تھی کہ وہ کہیں اور استعمال ہو رہی ہیں۔ "ان کی پیکنگ سنبھال کر
رکھ لیں"۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے دست راست سے کہا تھا ۔ انہوں نے کوئی جواب تو نہ دیا البتہ حیران ضرورہوئے کہ آخر پیکنگ کی کیا ضرورت ہے؟ آج انہیں ڈاکٹر صاحب کاوہ فقرہ یاد آ رہا تھا اور ساتھ ہی پیکنگ کا بھی خیال آ گیا جو سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔ اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر دلبر خان تھے۔ ان سے گاڑیوں کے دو گیراج خالی کرانے کی درخواست کی۔ پیکنگ وہاں لائی گئی اور پھر....۔ یہ صاحب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دست راست اور کے آر ایل میں سب سے زیادہ با اعتماد ساتھی انجینئر ڈاکٹر محمد فاروق تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو2004ءمیں"حفاظت" میں لینے سے ڈیڑھ ماہ قبل ڈاکٹر فاروق کوحراست میں لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر نظر بندی کے دوران دارِ فانی سے دارالبقا منتقل ہو گئے۔ ڈاکٹر فاروق بدستور نظر بند ہیں۔ ڈاکٹر فاروق نے اس یورپیئن کو بہرحال مطمئن کر دیا۔ یہ ذراطویل کہانی ہے جومیں نے تین بار ڈاکٹر صاحب سنی اور ازبر ہوگئی۔اس پر بات پھر کبھی سہی۔ ڈاکٹر فاروق کے پاس ڈاکٹر قدیر خان کے وژن کے ایسے کئی واقعات ہیں۔ ان کے پیش نظر وہ ڈاکٹر اے کیو خان کو اپنا رہنما اور استادہی نہیں اس سے بڑھ کر مرشدتک سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق کہتے۔" میری پی آئی اے کے کارگو مینیجر سے تلخ کلامی ہو گئی۔ میںنے ڈاکٹر خان کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا۔ 'فاروق! جہاں روز کا واسطہ ہو وہاں جھگڑا نہیں کرتے'۔ ان کی یہ بات دل کی گہرائی تک اُتر گئی۔اگلے روز صبح میں کارگو مینیجر کے دفتر چلا گیا ۔ اس کے رویے میں خوشگواریت تو نہیں تھی مگر وضعداری سے کام لیتے ہوئے بیٹھنے کا ضرور کہہ دیا۔ 'کل جو کچھ ہوا، اس کامیں قصور وار ہوں، اور آپ سے معافی مانگنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ جب تک معاف نہیں کریں گے میں بیٹھوں گا نہیں'۔ یہ سن کر وہ حیرت زدہ ہوا۔ ایک روز قبل جھگڑے میں ہمارا ایک جتنا ہی قصور تھا۔ وہ میرے اس طرح معافی مانگنے پر بے حد متاثر ہوا۔ اُٹھ کر مجھے گلے لگایا اور کہا۔' معاف کیا'۔ اس کے بعد ہماری گہری دوستی ہوگئی۔ پھر کے آر ایل کا کام کبھی معمولی تاخیر کا بھی شکار نہیں ہوا۔میں ڈاکٹر خان کے کہے پر ہمیشہ کار بند رہا کہ جہاں روز کا واسطہ ہو وہاں جھگڑا نہیں کرتے۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اپنی غلطی پر معافی مانگنا بڑا پن ہے اور بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ معاف کرنا زیادہ بڑا پن ہوتا ہے۔" ڈاکٹر فاروق نے بتایا۔" ڈاکٹر خان کے پاس کوئی مہمان آتا تو اس کی تواضع اور مہمانداری کرتے۔عموماً ایسے موقع پر اپنے دوستوں میں سے بھی کسی کو بلا لیتے۔ مجھے تو بارہا بلایا۔ ایسے ہی ایک مہمان کی آمد پر مجھے بلا لیا، میں گیا تو ان کے ساتھ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ بیٹھے تھے۔ ان سے میرا تعارف کرایا۔وہ جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ انہوں نے بیان نہیں کیا تھا۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے جس طرح میرا تعارف کرایا تھا جسٹس نسیم حسن شاہ نے میرے سامنے بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا۔'مجھے تین راتوں سے نیند نہیں آئی بڑا پریشان ہوں'۔ جسٹس صاحب نے بڑی سنجیدگی اور ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔ 'جسٹس صاحب بتائیے کیا ہوا، کیا پریشانی ہے، ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟'۔اے کیو خان نے ان کی ڈھارس بندھائی۔'میں بے نظیر بھٹو سے معافی مانگنا چاہتا ہوں'۔ ”کیوں، کس لئے؟“۔ڈاکٹر خان نے حیرانی سے پوچھا۔ اس پر ذرا تفصیل سے بات کرتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا۔'ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دباو¿ پر کیا تھا۔ اُس کیس میں بھٹو کی پھانسی بنتی نہیں تھی۔دس فیصد فیصلے دباو¿ پر ہی ہوتے ہیں'۔ انہوں نے توقف کیا تو ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے۔' جسٹس صاحب کیا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دس فیصد والے مقدمات میں آتا ہے؟'۔اس کا انہوں نے کیا جواب دینا تھا۔ان کی زبان سے یہ اعتراف سن کر میں ششدر رہ گیا۔ ڈاکٹر خان بھی پریشان نظر آئے۔ ان کے دل میں بھٹو کے لئے ہمیشہ محبت اور احترام کے جذبات رہے تھے۔'ٹھیک ہے جسٹس صاحب ہم آپ کی مدد کریں گے'۔اس سوگوار ماحول میں چائے کیا پلانی تھی اور پینی تھی بہر کیف ایک رسم پوری کی گئی۔ اگلے روز ڈاکٹر خان کی درخواست پر وزیر اعظم بے نظیر چلی آئیں۔جی ہاں وہ ان دنوں وزیر اعظم تھیں۔ بے نظیر بھٹو اپنے والد کی طرح ڈاکٹر خان کا احترام اور ادب کرتی تھیں۔ اس روز کوئی لمبی چوڑی بات نہیں ہوئی۔ جسٹس نسیم شاہ نے دھیمے لہجے میں گزشتہ روز والی باتیں دہراتے ہوئے آخر میں کہا۔' میں آپ سے معافی مانگتا ہوں'۔ ماحول آج گزشتہ روز کی نسبت زیادہ افسردہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کی آنکھوں سے دو بڑے آنسو ٹپکے اور لرزیدہ لہجے میں انہوں نے کہا۔'میں نے معاف کیا'۔ میں سمجھتا ہوںکہ جسٹس نسیم شاہ نے بینظیر بھٹو سے معافی مانگ کر بڑے پن کا ثبوت دیا۔ بے نظیر بھٹو نے معاف کر کے ان سے کہیں زیادہ بڑے پن کا اظہار کیا۔" اس ارشاد کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔"ہر وہ شخص جو اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی کا خواست گار ہے، ا±سے چاہیے کہ پہلے سب کو خود معاف کردے کہ جس نے معاف کیا، وہ معاف کردیا جائے گا۔ دوسروں پر احسان کرنے سے ظلم کی یاد بھی ختم ہوجاتی ہے۔ حق والے کا حق ادا کردیں، بلکہ ا±سے حق سے بھی سِوا دیں، تو بس اس عمل سے ظلم ختم ہوجائے گا." ٭....٭....٭