اچھالی جھیل

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 15, 2017 | 08:05 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): وادی سون شمال وسطی پنجاب کا ایک خوبصورت اور تاریخی علاقہ ہے۔ جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ انسانی ارتقاءکے چند مراحل کا آغاز یہاں سے ہی ہوا تھا۔ اچھالی اور دھدادو گاؤں کے درمیان کوہستان نمک کی اونچی‘ نیچی پہاڑیوں کے وسط میں تین جھیلیں اچھالی‘ جھلر اور کھبیکی واقع ہیں۔ تینوں جھیلوں پر مشتمل یہ علاقہ اچھالی کمپلیکس کہلاتا ہے۔ سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے مہمان پرندے قراقرم اور ہندوکش کی بلند چوٹیوں کے اوپر گرین روٹ سے پرواز کرتے ہوئے موسم سرما گزارنے یہاں آتے ہیں

۔

مسلمان فاتح ظہیر الدین بابر کا جب پوٹھوہار کے علاقے سے گزر ہوا تو راستے میں ایک وادی نے مغل بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ بادشاہ نے اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پڑاؤ ڈال دیا۔ وادی کا قدرتی حسن تو متاثر کن تھا ہی لیکن ظہیر الدین بابر نے بھی اس وادی کے حسن میں اضافے کے لئے کئی اقدامات کئے۔ اس نے وادی میں باغات لگانے کا حکم دیا اور وہ تاریخی کلمات ادا کئے جو آج بھی اس وادی کے لوگوں کے لئے فخر کا باعث ہیں۔ ظہیر الدین بابر نے کہا تھا۔ ”ایں وادی بچہ کشمیر است“ یعنی یہ وادی چھوٹا کشمیر ہے۔

وادی سون کی مٹی زیادہ تر بھربھری ہے۔ یہاں کے پہاڑ ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھروں پر مشتمل ہیں۔ یہاں کی زراعت کا دار ومدار برسات پر ہے۔ ڈھلوانی کھیت عام ہیں۔ وادی کے پہاڑوں میں نمک‘ گندھک‘ کوئلہ اور بجری موجود ہے۔ مارچ سے اکتوبر تک موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے۔ اس موسم میں یہاں سیرو سیاحت کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ وادی میں برسات کا موسم انتہائی پرلطف ہوتا ہے جب پہاڑوں سے بہتے نالوں کا شور خوبصورت منظر پیدا کرتا ہے۔ وادی سون کا علاقہ اپنی دلکش وادیوں‘ خوبصورت جھیلوں‘ دیدہ زیب باغات اور خوشگوار موسم کی وجہ سے سیاحوں کے لئے نہایت کشش کا باعث ہے۔ ہر سال سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے۔ وادی سون کی خوبصورتی کے حوالے سے اپنے آئندہ کسی پروگرام میں آپ کو تفصیل سے بتائیں گے فی الحال اچھالی جھیل کے بارے میں بتاتے ہیں۔

یہاںپہاڑی نالے کوہستان نمک سے بارشوں کا پانی جھیلوں میں لاتے ہیں۔ اس علاقے میں 300 سے 800 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ اچھالی‘ کھبیکی اور جھلر جھیلوں میں پانی کی مقدار اورجھیلوں کا رقبہ کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ بارشیں کم ہوں تو جھیل کا رقبہ بہت کم رہ جاتا ہے اور لوگ وہاں کھیتی باڑی شروع کر دیتے ہیں۔ جھیلوں کے اردگرد کے علاقوں میں بھی کاشت کاری کی جاتی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں جنگلی کیکر ہوا کرتے تھے لیکن اب انہیں کاٹ کر اراضی کو قابل کاشت بنا لیا گیا ہے۔ اب یہاں زیادہ تر سفیدے اور پاپولر کے درخت نظر آتے ہیں۔ خشک موسم میں جھیلوں کی گہرائی آدھے میٹر سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ جھیلوں کا پانی قدرے کھارا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پانی جلد کی کئی بیماریوں کا علاج ہے۔

ایس اے جے شیرازی NCS جریدے میں لکھتے ہیں کہ 1996ءمیں اچھالی کمپلیکس کو جنگلی حیات کے لئے محفوظ قرار دیا گیا۔ 1976ءمیں جب پاکستان نے رامسر کنونشن میں شمولیت اختیار کی تو ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی آماجگاہ ہونے کی وجہ سے اچھالی کمپلیکس کو بین الاقوامی آب گاہ کا درجہ دے دیا گیا۔ یوں اچھالی کمپلیکس پنجاب کی قدرتی جھیلوں کی پہلی آب گاہ ہے جسے رامسر آب گاہ کا درجہ اور بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ رامسر آب گاہوں میں شامل پنجاب کے دیگر آبی ذخائر قدرتی نہیں ہیں بلکہ دریاؤں پر بیراج بننے کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ رامسر آب گاہ کا درجہ ملنے کے بعد اچھالی کمپلیکس میں متعدد تحقیقاتی منصوبے شروع کئے گئے تھے۔

شمال سے ہجرت کرکے آنے والے مہمان پرندوں میں سب سے اہم سفید سر والی خوبصورت بطخیں ہیں جو دنیا میں ناپید ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ لم ڈھینگ‘ سارس‘ چتکبرا فار‘ سفید آنکھوں والی مرغابی اور شاہی عقاب بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ پرندوں کے علاوہ مچھلیاں بھی پائی جاتی ہے۔ 1982ءمیں یہاں فارس مچھلیاں چھوڑی گئیں اور تجارتی بنیادوں پر ماہی گیری کو وسعت حاصل ہوئی۔

اچھالی جھیل سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے لیکن اگر کوہستان نمک کی دوسری قدرتی جھیل کلر کہار کی طرح اچھالی کمپلیکس میں بھی سیاحت کو فروغ کے لئے اقدامات کئے جائیں تو دنیا بھر سے سیاح یہاں آئیں گے‘ ان حسین قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوں گے اور پاکستان میں سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو گا۔