آچے کی میں خواتین کے لئے مراعات در مراعات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 30, 2016 | 05:46 صبح

جکارتہ (ویب ڈیسک)انڈونیشیا کا صوبہ آچے اپنے سخت اسلامی قوانین کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے۔ اب انسانی حقوق کچھ تنظیموں نے آچے میں متعارف کرائے گئے ایک نئے قانون کی پذیرائی کی ہے۔آچے میں میں متعارف کرائے جانے والے اس قانون کے مطابق سرکاری محکموں میں کام کرنے والی خواتین کو زچگی کے بعد چھ ماہ کی چھٹی دی جائے گی جبکہ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں اس دوران انہیں دگنا الاونس بھی دیا جائے گا۔آچے میں خواتین کو جس طرح ان کے حقوق دیئے جارہے ہیں وہ دوسرے مسلم ملکوں کے لئے قابل تقلید ہونے چاہئیں۔
اسے اس حوالے سے انڈونیشیا کی سب سے زیادہ فیاضانہ پالیسی قرار دیا جا رہا ہے۔ مقامی حکومت کے ترجمان فرنز دیلیان نے کہا کہ آچے کے گورنر نے گزشتہ مہینے ہی اس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ان کے بقول آچے کے نوزائیدہ بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور نئے قانون کے بعد خواتین اپنے بچوں کو زیادہ عرصے تک دودھ پلا سکیں گی۔آچے کی اس پالیسی کو اس لیے بھی بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ اس صوبے کی انتظامیہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس قانون کے متعارف کرائے جانے کے بعد سے جکارتہ کی مرکزی حکومت اور آچے کی صوبائی حکومت کے مابین ایک رسہ کشی سی شروع ہو گئی ہے۔ جکارتہ حکام اسے ملکی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں کیونکہ مرکزی حکومت زچگی کے بعد خواتین کو صرف تین ماہ کی چھٹی دیتی ہے۔ انڈونیشیا میں ہیومن رائٹس واچ رائٹس کے محقق آندریاز ہارسونو نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کے بقول آچے میں ابھی بھی بہت سے امتیازی قوانین ہیں، جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے:”یہ لوگ آہستہ آہستہ ترقی پسند ہوتے جا رہے ہیں۔“ انڈونیشیا کے مغرب میں واقع آچے کو ایک انتہائی مذہبی صوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے اور یہاں پر جوئے، شراب نوشی، جسم فروشی اور ہم جنس پرستی کی ممانعت ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سرعام شرعی پولیس کی جانب سے کوڑے مارے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے لیے حجاب پہننا بھی لازمی ہے۔ زچگی کے بعد رخصت سے متعلق نئے قانون سے آچے کے سرکاری محکموں میں کام کرنے والی 92 ہزار خواتین فائدہ اٹھا سکیں گی۔ سرکاری ہسپتال کی ایک نرس یینی لنڈا اس نئی قانون سازی سے مستفید ہونے والی پہلی خاتون ہیں:”میں بہت خوش ہوں، اب میں اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتی ہوں۔“