ایڈجسٹمنٹ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 30, 2017 | 17:19 شام

نوجوان کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ وہ بار بار انگلی کی نوک سے آنسو صاف کرتا تھا اور شرمندگی سے دائیں بائیں دیکھتا تھا‘ میں اسے پچھلے پندرہ منٹ سے دیکھ رہا تھا ‘ اس کی زندگی طوفانوں میں گھری تھی‘ وہ تین سال کا تھا تو اس کی والدہ انتقال کرگئی ‘ والد نے دوسری شادی کرلی‘ سوتیلی ماں سوتیلی زیادہ تھی اور ماں کم لہٰذا جوانی تک گھر اس کےلئے گھر نہیں تھا‘ اس کا سارا بچپن ‘ سارا لڑکپن اور جوانی کا ایک لمبا حصہ محرومیوں میں گزرا‘ وہ معمولی معمولی خواہشو

ں کےلئے ترستا رہا‘ سکول میں اسے اچھے استاد اور ہمدرد دوست نہ ملے‘ اس نے ایف ایس سی کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگیا‘ ایف اے میں اس کے نمبر اچھے نہ آئے‘ اس نے سپورٹس مین بننے کی کوشش کی لیکن نہ بن سکا‘ نہ
نہ بن سکا‘ نہ بن سکا‘ اس نے اداکاری‘ صدا کاری اور مصوری کی کوشش کی لیکن فیل ہوگیا‘اس نے موسیقی سیکھنے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی آگے نہ بڑھ سکا‘ بی اے میں وہ معمولی نمبروں سے پاس ہوا‘ اس نے ایم اے کیا تو اس میں بھی اس کی کوئی پوزیشن نہ تھی‘ وہ نوکریاں تلاش کرتا رہا‘ ہر جگہ درخواست دی‘ ہر ٹیسٹ میں بیٹھا‘ ہر جگہ انٹرویو دیا لیکن ناکام رہا‘ اس نے اپنا کاروبار شروع کیا وہ بھی نہ چل سکا‘ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کسی ناکام شخص کے حوالے کرنے کےلئے تیار نہیں تھے لہٰذا245 ممالک پر پھیلی اس دنیا میں اس کا کوئی دوست نہ تھا‘ وہ کتابیں پڑھنے کی کوشش کرتا تھا لیکن آدھی سے زیادہ کتاب نہیں پڑھ سکتا‘ وہ آدھی فلم دیکھ کر اٹھ جاتا تھا اور کوئی گانا پورا نہیں سن سکتا تھا‘ وہ تبلیغی جماعت میں شامل ہوا لیکن راستے سے بھاگ آیا‘ وہ کبھی سگریٹ پینا شروع کردیتا تھا اور کبھی سگریٹ نوشی ترک کردیتا تھا‘ وہ کبھی مولوی بن جاتا تھا اور کبھی ڈانسروں کے ساتھ شامل ہوجاتا تھا
اور وہ کبھی کسی درگاہ پر بیٹھ جاتا تھا اور کبھی رندوں اور جواریوں کی محفل کا حصہ بن جاتا تھا‘ اسے سمجھ نہیں آتی تھی وہ کیا ہے‘ وہ کیوں ہے اور اس نے زندگی میں کیا کرنا ہے ؟ اس کا کہنا تھا‘ وہ دنیا کا ناکام ترین شخص ہے! میں بڑے غور سے اس کی کہانی سنتا رہا‘ وہ بول بول کر تھک گیا تو میں نے اسے پانی کا گلاش پیش کیا اور اس سے پوچھا ” تم جانتے ہو دنیا میں کتنے موسم ہیں“ وہ ذرا سوچ کر بولا ” سردی‘ گرمی‘ بہار اور خزاں چار موسم ہیں“
میں نے پوچھا ” سردیوں میں کیا ہوتا ہے!“ اس نے خفگی سے میری طرف دیکھا اور ناراض لہجے میں بولا ” سردیوں میں سردی ہوتی ہے!“ میں نے مسکرا کر گردن ہلائی اور اس سے سوال کیا ” ہم سردیوں میں سردی سے بچنے کےلئے کیا کرتے ہیں“ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا‘ میں نے عرض کیا” ہم کوئلوں کی انگیٹھی جلا لیتے ہیں‘ ہم ہیٹر کا بندوبست کرتے ہیں ‘ ہم گرم کپڑے پہنتے ہیں‘ سویٹر ‘جرسیاں‘ کوٹ اور جیکٹس پہنتے ہیں‘
گردن کے گرد مفلر لپیٹ لیتے ہیں اور سر پر اونی ٹوپی پہن لیتے ہیں‘ ہم پاﺅں میں گرم جرابیں اور بند جوتے پہنتے ہیں اور کم سے کم باہر نکلتے ہیں‘ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟“ میں اس کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ ذرا دیر رک کر بولا ” ہم سردی سے بچنے کےلئے کرتے ہیں“ میں نے انکار میں سر ہلایا اور آہستہ سے جواب دیا ” نہیں ہم جانتے ہیں سردیاں چند دنوں کی بات ہے اگر ہم نے یہ دو تین ماہ گزار لئے تو موسم کھل جائے گا اور ہم گرم کپڑوں کے بغیر باہرنکل سکیں گے“ وہ خاموش رہا‘ میں نے عرض کیا ” گرمیوں میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہوتی ہے ہم ٹھنڈے کپڑے پہنتے ہیں‘ کمروں میں پنکھے‘ روم کولر اور ایئر کنڈیشنر لگا لیتے ہیں‘ درختوں کے نیچے بیٹھتے ہیں اور سایوں میں چلتے ہیں‘ ہم دن میں دو دو تین تین بار غسل کرتے ہیں‘ شربت پیتے ہیں اور گرم دوپہروں میں باہر نہیں نکلتے‘ کیوں؟“ میں نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں‘ وہ خاموشی سے میری طرف دیکھتا رہا‘ میں نے دوبارہ عرض کیا ” موسم خزاں میں پودوں کے پتے گرجاتے ہیں‘ ساری گھاس جل جاتی ہے اور درخت ٹنڈ ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد بہار آتی ہے‘ گھاس کی کونپلیں نکلتی ہیں‘ شاخیں ہری ہوتی ہیں‘ ان پر پتے نکلتے ہیں
اور پتوں کے ساتھ پھول کھلتے ہیں“ میں خاموش ہوگیا‘ اس نے کروٹ بدلی اور گرم آواز میں بولا ” لیکن سر ان موسموں کا میری کہانی کے ساتھ کیا تعلق ‘ جناب عالیٰ آپ بالکل لایعنی اور فضول بات کررہے ہیں‘ میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں اور آپ کچھ جواب دے رہے ہیں‘ مجھے آپ کی بالکل سمجھ نہیں آرہی“ میں نے قہقہہ لگایا اور نوجوان سے عرض کیا” میں دوباتیں ثابت کرنا چاہتا ہوں ہم لوگ موسم کی سختیاں اس لئے برداشت کرتے ہیں
کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے یہ سردیاں‘ یہ گرمیاں اور یہ خزاں چند دنوں کی بات ہے اور اس کے بعد وقت بدل جائے گا‘ اگر ہم اس حقیقت سے واقف نہ ہوں تو تم یقین کرو ہم لوگ سردیوں میں جم جائیں یا پھر گرمیوں میں پگھل جائیں‘ تمہار پہلا مسئلہ یہ ہے تم وقت کی حقیقت سے واقف نہیں ہو‘ تم یہ نہیں جانتے تبدیل ہونا وقت کی فطرت ہے‘ جب تک زندگی اور کائنات قائم ہے وقت تبدیل ہوتا رہے گا‘ سردیاں گرمیوں میں ضرور تبدیل ہوں گی اور گرمیاں سردیوں میں ضرور ڈھلیں گی‘ شام کی صبح ضرور ہوگی اور صبح شام کے پردوں میں ضرور گم ہو گی‘ ناکامی کامیابی میں ضرور بدلے گی‘ کمال ضرور زوال پذیر ہوگا اور طاقت کمزور‘ کمزور طاقت اور اختیار بے اختیاری میں ضرور تبدیل ہوگا‘ خوشبو بدبو اور بدبو خوشبو میں ضرور تبدیل ہو گی اور دوسرا تم یہ نہیں جانتے دنیا کی کوئی طاقت موسموں کو نہیں بدل سکتی‘ دنیا کے سارے حکمران‘ سارے اختیارات اور ساری قوتیں مل کر سردیوں کو نہیں رو ک سکتیں‘ دنیا کا کوئی شخص گرمیوں کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور دنیا کی کوئی طاقت خزاں اور بہار کو نہیں روک سکتی‘ دنیا کا کوئی شخص ناکامی‘ مشکل‘ سختی اور بیماری سے نہیں بچ سکتا اور دنیا کا کوئی شخص سدا کامیاب ‘ ہمیشہ خوشحال‘ تامرگ صحت مند اور پوری زندگی سکھی نہیں رہ سکتا‘
وقت اور کیفیت کبھی یکساں نہیں رہتی“ وہ خاموشی سے سنتا رہا‘ میں نے عرض کیا ” ہم لوگ موسموں‘ وقت اور کیفیتوں کو تبدیل نہیں کر سکتے‘ ہم ان کے ساتھ صرف ایڈجسٹ کر سکتے ہیں‘ آندھی آئے تو ہمیں نیچے بیٹھ جانا چاہیے‘سردیاں ہوں تو آگ جلا کر سردی گزرنے کا انتظار کریں‘ گرمیاں آئیں تو ٹھنڈی جگہ بیٹھ جائیں اور ہلکے پھلکے کپڑے پہن لیں‘ خزاں آئے تو ٹنڈ منڈ درختوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلیں اور بہار آئے تو چند دن کی بہار سے لطف اٹھا ئیں‘ ہمارے پاس وقت اور موسموں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا‘ اسی طرح ہم نے برے وقتوں ‘ ناکامیوں‘ خرابیوں ‘ بیماریوں اور پریشانیوں کے ساتھ بھی ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے‘ اگر ہماری ماں تین سال میں ہمیں چھوڑ گئی تو ہم اسے واپس نہیں لا سکتے چنانچہ ہم نے ماں کی کمی کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا ہے‘ ہمیں اچھے سکول‘ اچھے استاد اور اچھے کلاس فیلو نہیں ملے‘ ہم کسی کلاس میں اچھے نمبر نہیں لے سکے‘ ہمیں نوکری نہیں ملی‘ ہم بزنس میں ناکام ہوگئے اور ہماری شادی مرضی کے مطابق نہیں ہوئی تو ہم نے ان کمیوں کے ساتھ بھی ایڈجسٹ کرنا ہے‘ ہم نے کبھی اپنی خواہشوں پر کمبل دے دینا ہے اور کبھی اپنی حسرتوں کو سائے میں لٹا دینا ہے‘ ہم نے کبھی اپنی آرزوﺅں کو دو دو بار غسل دینا اور کبھی انہیں ہیٹر کے سامنے بٹھا دینا ہے‘
ہم نے کبھی آندھیوں میں زمین پر لیٹ کر وقت بدلنے کا انتظار کرنا ہے اور کبھی درختوں پر چڑھ کر صبح کی راہ تکنی ہے‘ ہم نے زندگی کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا ہے“ میں رکا اور ذرا دیر بعد بولا”ہم میں سے جو لوگ موسموں کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرتے وہ جم جاتے ہےں یا پگھل جاتے ہےں“ میں خاموش ہو گیا‘ وہ سوچتا رہا اور سوچتے سوچتے بولا
” لیکن سر میں نے کب تک ایڈجسٹ کرنا ہے“ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور ہنس کر جواب دیا ” جب تک تمہارے مقدر کی آندھی نہیں تھم جاتی‘ یاد رکھو دنیا کی کوئی سختی ساڑھے سات برس سے لمبی نہیں ہوتی اور دنیا کا کوئی شخص جس کیفیت میں پیدا ہوتا ہے اس کیفیت میں فوت نہیں ہوتا اور دنیا کا کوئی ناکام شخص پوری زندگی ناکام نہیں رہتا کیونکہ تبدیلی وقت کا مقدر بھی ہے اور فطرت بھی“