وکلاء کل بھی نعروں کا شکار ہوئے تھے اور آج پھر تیاری کی جا رہی ہے.... صابر حسین بھروانہ کی حیران کن تحریر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 13, 2021 | 17:29 شام

وکلاء کل بھی نعروں کا شکار ہوئے تھے اور آج پھر تیاری کی جا رہی ہے۔ علی احمد کرد صاحب آپ سب سے آگے تھے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال کروانے میں۔ کیا کیا گل نہیں کھلائے اس نے پھر۔ اور اس بحالی کے بعد جس طرح انصاف کا تماشا ہوتا رہا آپ کو کیوں نظر نہیں آیا۔ چہروں کے نام پر انصاف کا رواج پڑا۔ چند شرفا نے کروڑوں کمائے۔ وہ سب آپ کو کیوں نظر نہ آیا۔ اور آج جو تم کہ رہے ہو نہ کہ ایک جانب بائیس کروڑ عوام ہیں اور دوسری جانب ایک جرنیل۔ کیسے کر لیتے ہو یہ سب۔ آپ کہ رہے ہیں کہ ہمارا عدالتی نظام اگر 1
26 نمبر پر موجود ہے تو اس کی وجہ بھی ایک جرنیل ہے کیسے سچ کے نام پر اتنا بڑا جھوٹ بول لیتے ہو۔ آؤ میں آپ کو یہاں وہ محمد اکرم دکھاتا ہوں جس سے کسی جرنیل کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کے گھر پر قبضہ ہوا ہوا ہے کرنے والا ایک وکیل ہے۔ کیا میں یہ بھی جرنیل کے کھاتے میں ڈال دوں۔ ہم کب اپنا احتساب کریں گے۔ آؤ میں آپ کو وہ سعدیہ ملاؤں جو گھر سے ایک لڑکے کے ساتھ نکاح کیلئے نکلی تھی۔ جس وکیل کے پاس گئے اس نے لڑکے کو دس دن تک قید کر کے رکھا لڑکی کو زنا کا نشانہ بناتا رہا اور آج بھی آزاد ہے اور اس وکیل کے خلاف کوئی وکیل بھی کھڑا نہیں ہوتا۔ کیا اس کا سبب بھی جرنیل ہے آؤ میں آپ کو محمد ریاض ملاتا ہوں جس کی پچاس ایکڑ زمین پر ایک وکیل نے قبضہ کر لیا ہے اور پچھلے تیس سال سے زبانی معائدہ کے نام پر قابض ہے۔ قسم سے اس کے ساتھ بھی کسی جرنیل کا کچھ نہیں لینا دینا۔ جناب آؤ میرے ٹیبل پر ایک فائل پڑی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ سے کیس بحث پر لگا ہے۔ آپ کے نام نہاد وکالت کے بڑے نام اس میں تین سال تک بحث نہیں کرتے۔ غریب ہر تاریخ پر اس امید کے ساتھ آتا ہے کہ آج تو کچھ بنے گا۔ غریب کہتا ہے مجھے ریلیف بیشک نہ ملے۔ میرے ہی خلاف فیصلہ صادر فرما دیا جائے لیکن فیصلہ تو کیا جائے۔ لیڈر صاحب اس کیس سے بھی کسی جرنیل کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آؤ میں آپ کو لاکھوں وہ کیس دکھاتا ہوں جو سالوں سے زیر التوا ہیں۔ غریب انصاف کیلئے دہائیاں دے رہا ہے۔ ظالم آزاد دندناتا پھر رہا ہے۔ کہیں سے انصاف نہیں مل رہا اور ان سے کسی جرنیل کا کچھ لینا دینا نہیں۔ جناب جس شدت سے آپ جرنیل جرنیل جرنیل جرنیل کا علم بلند کر رہے تھے کبھی اتنی شدت سے عدالتی اصلاحات کیلئے بھی بلند کیا ہے۔ جس غریب کے نام پر جرنیل کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے کیا اس غریب سے بھی پوچھا ہے کہ آپ کے دکھ کی وجہ جرنیل ہے یا وکیل یا عدالتی نظام۔ جناب پہلے نظام ٹھیک کرنے کیلئے میدان میں نکلو پھر جرنیل جرنیل کرنا۔ اور جو سامنے بیٹھ کر آزادی آزادی کر رہے تھے کاش انہیں علم ہوتا جس غریب کو انصاف نہ ملنے کی بابت وہ آزادی کا نعرہ لگا رہے تھے وہ غریب جرنیل سے تو پتہ نہیں لیکن اس عدالتی نظام اور اس سے جڑے اداکاروں سے ضرور آزادی چاہتا ہے۔ جناب جرنیل کو برا بھلا کہنے سے پہلے آؤ ایک ایسا عدالتی نظام تشکیل دلوانے کیلئے جدوجہد کریں جو اس اپاہج نظام سے ہماری جان بخشی کروا دے۔ جناب آؤ کوشش کریں ایسے نظام کی تشکیل کی کہ اگر کسی کے مکان پر قبضہ ہو جائے تو پچاس سال کی بجائے ایک سال میں انصاف مل جائے۔ کسی کا کوئی قتل ہو جائے تو اسے انصاف لینے کیلئے ایک اور قتل نہ کرنا پڑے۔ کسی کی بیٹی کو کوئی دھکے دے کر گھر سے نکال دے تو اسے انصاف سالوں کی بجائے مہینوں میں ملے۔ جناب آؤ اس نظام سے جڑے لوگوں کیلئے بھی کسی کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کیلئے جدوجہد کریں۔ لیکن شاید نہیں یہاں آپ کے پر جلیں گے۔ آپ کا لیڈر بننا خطرے میں پڑ جائے گا۔ پاک صاف لوگ واہ واہ کرنے کی بجائے آپ کو گالیاں دیں گے۔ ہماری نام نہاد شرافت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ہمارا احتساب ہونے لگے گا۔ جناب آج ہم وکلاء کو بینک قرض نہیں دیتا۔ ہمیں مکان کرایہ پر نہیں ملتا۔ ہمیں عوام شیطان سے تشبیہ دیتی ہے۔ اس سب کا قصوروار کون ہے۔ کیا یہ سب بھی کسی جرنیل کا کرنا ہے۔ خدا کیلئے اپنا احتساب کرو پہلے۔ کرپٹ لوگوں کو خود سے جدا کرو۔ جس نظام سے تم جڑے ہو اس میں اصلاحات کیلئے کوشش کرو۔ پھر جرنیل جرنیل بھی کر لیں گے۔ ہمیں معلوم ہے جرنیل جرنیل کیوں کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس نظام کے سوداگر اس سب سے کچھ وصول نہیں کر پا رہے۔ اشرافیہ اور مافیا کو من پسند انصاف نہیں مل رہا۔ تحریر صابر حسین بھروانہ