10 سے 15 سال کا خوبصورت لڑکا ، اے کے 47 ، ڈبل کیبن گاڑی اور مسلح باڈی گارڈز : پھر تو کیا ہی بات ہے، افغانستان میں انتہائی شرمناک کلچر جڑ پکڑنے لگا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 21, 2016 | 06:40 صبح

کابل (ویب ڈیسک)  ایک عالمی شہرت یافتہ  نیوز ایجنسی  (اے ایف پی ) نے  کئی افغان خاندانوں سے رابطہ کیا ہے، جن کے بچوں کو ’بچہ بازی‘ یا ان کے جنسی استحصال کے لیے اغوا کر لیا گیا تھا۔ افغانستان میں اس طرح بچوں کا جنسی استحصال انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوں میں سے ہے جبکہ افغان معاشرے میں طالبان کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بچہ بازی کے شدید مخالف ہیں۔

 افغانستان میں بچوں کو بعض اوقات خواتین کے کپڑے پ

ہنا دیے جاتے ہیں، ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور نجی محفلوں کے دروان ان سے رقص بھی کروایا جاتا ہے۔ بچوں کا اس طرح جنسی استحصال اسلام میں تو سختی سے منع ہے لیکن اس کے باوجود مسلم ملک افغانستان میں ’ثقافتی سطح‘ پر اس کو قبول کیا جا چکا ہے۔ افغانستان میں ایک عام فقرہ یہ سننے کو ملتا ہے، ’’خواتین بچے پالنے کے لیے ہیں لیکن لڑکے خوشی حاصل کرنے کے لیے۔‘‘

طالبان نے سن 1996ء سے 2001ء تک اپنے دور اقتدار کے دوران اس قدیمی رواج پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران اس پریکٹس میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے جنوبی اور مشرقی  پختون دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شمال میں نسلی تاجک باشندوں کے علاقوں میں بچوں کا جنسی استحصال وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے۔انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق بچہ بازی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغان معاشرے میں مردوں کی خواتین تک رسائی محدود ہے اور اس وجہ سے بھی اس رواج میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں انسانی حقوق کمیشن کے مطابق عام طور پر بچہ بازی کے لیے جن لڑکوں کو استعمال کیا جاتا ہے ان کی عمریں دس سے اٹھارہ برس کے مابین ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے بچوں کو یا تو بااثر افراد کی طرف سے اغوا کر لیا جاتا ہے یابعض اوقات بااثر افراد ان کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں خرید لیتے ہیں۔انسانی حقوق کے اس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، ’’بچہ بازی سے متاثر لڑکے شدید صدمے سے دوچار ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں اکثر اوقات ریپ کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’متاثرہ بچے ذہنی پریشانی میں رہتے ہیں، بد اعتمادی، ناامیدی اور مایوسی کے احساس کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ایسے متاثرین بڑے ہو کر خود ایسے ہی لڑکے رکھ لیتے ہیں اور ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے

منظر عام پر آنے والے شواہد کے مطابق افغان سکیورٹی کے اداروں میں کام کرنے والے کئی عہدیدار بھی اس میں ملوث ہیں اور ارزگان جیسے صوبوں میں طالبان حکومتی اہلکاروں کی ایسی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔رواں برس امریکی کانگریس کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں میں اس رویے کی وجہ سے  عوام میں امریکی اور افغان حکومت کی حمایت کو خطرہ ہے۔ ہماری بہت بڑی سرمایہ کاری خطرے میں ہے۔‘‘ بتایا گیا تھا کہ حکومتی اہلکاروں میں بچہ بازی کی وجہ سے نہ صرف طالبان کے شریعت کے نفاذ کے نعرے کو تقویت مل رہی ہے بلکہ عسکریت پسندی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک مغربی عہدیدار کا کابل میں نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس طرح کے جنگلی رواج نوے کے دہائی کے آغاز میں بھی طالبان کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بنے تھے۔ طالبان نے ایسی ہی چیزوں کے خلاف نعرہ بلند کرتے ہوئے پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔ سن 2001ء کے بعد سے حکومتی فورسز کا ایسا رویہ دوبارہ عسکریت پسندی کو ہوا دینے کا سبب بن رہا ہے