--- احسان سے بڑھ کر شائد کچھ نہیں ہوتا -----

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 08, 2017 | 18:07 شام

 بدبخت اور کتنا مجھے پھرائے گی۔ میرا کلیجا منہ کو آنے لگا ہے۔‘‘ مومنہ کی ساس نے رک کر لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے کہا۔’’کہاں گئی وہ تیری دکان؟‘‘
’’جی بس ذرا آگے ہے۔‘‘ سہمی ہوئی مومنہ نے جواب دیا۔
’’ذرا آگے کہتے کہتے تو مجھے میلوں چلا چکی۔‘‘
 مومنہ نے ہاتھ میں وزنی کارٹن پکڑا ہوا تھا۔ اسے زمین پر رکھ دیا۔ دم لیا۔ پھر اپنے برقع کا نقاب درست کیا۔ دوپٹے سے منہ کا پسینا پونچھا اور اِدھر اُد

ھر گھوم کر ساری دکانوں کو دیکھا جیسے اپنی مطلوبہ دکان ڈھونڈ رہی ہو۔
 اگرچہ اس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جس دکان سے اس کی امی نے یہ ڈنر سیٹ خریدا تھا، وہ اس نکڑ سے اندر جا کر گلی میں ہے۔ بہت بڑی دکان تھی… مگر وہ اسے ڈھونڈنے میں دانستہ تاخیر کر رہی تھی۔ وہ ڈرتی تھی کہ جانے اس دکان کے اندر جانے کے بعد اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہو…
 دو مہینے پہلے مومنہ کی شادی ہوئی تھی۔ اس کا باپ ایک کالج میں پروفیسر تھا۔ چھے بہن بھائی تھے۔ مومنہ سب سے بڑی تھی۔ ماں نے اپنی حیثیت کے مطابق جہیز میں ضرورت کی ہر چیز دی تھی۔ جب شادی طے ہو چکی تو مومنہ کی ساس نے مختلف طریقے سے پیغام بھیجنے شروع کیے… اور اپنے مطالبات کو زبان دینا شروع کر دی۔
 پہلے اس نے فرمائش کی کہ بیٹے کے لیے امپورٹڈ گرم سوٹ اور رولیکس گھڑی ہونی چاہیے۔ پھر امپورٹڈ ٹی وی‘ امپورٹڈ ریفریجریٹر مانگا۔ یہ تو اس نے خود سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کراکری اور ڈنر سیٹ بھی امپورٹڈ ہونا چاہیے۔
 مومنہ کی ساس نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا بیٹا سی ایس ایس کر کے اچھی ملازمت میں آ گیا تھا۔ لہٰذا اب وہ اپنا معیار زندگی اونچا کرنا چاہتی تھی۔ اس کا یہی ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ اپنے گھر کے لیے وہ ہر اسی کے ذریعے کر سکتی تھی۔
 مومنہ کے والد اب ریٹائر ہونے والے تھے ۔پھر بھی اس کی سلیقہ شعار ماں نے کوشش کی کہ بیٹی کی ساس کی ہر فرمائش پوری کرتی چلی جائے۔ اتفاق سے جب وہ ڈنرسیٹ خریدنے آئی تو اس کے پاس امپورٹڈ ڈنرسیٹ خریدنے کو پیسے نہیں بچے۔امپورٹڈ ڈنرسیٹ ایک لاکھ سے شروع ہو کر پانچ لاکھ تک جاتے تھے۔ دکان پوچھتی ہوئی وہ اس گلی والی دکان پہ پہنچ گئی… باہر لکھا تھا ’’جاپانی کراکری اسٹور‘‘ اندر گئی تو امپورٹڈ جاپانی اور چینی برتنوں کے علاوہ پاکستانی ڈنرسیٹ بھی پڑے ہوئے تھے جن کی قیمتیں مناسب تھیں۔ برتن دکھانے کے بعد اس کو سوچ میں مگن دیکھ کر دکاندار نے پوچھا ’’آپ کا مسئلہ کیا ہے؟‘‘ حیران ہو کر اس نے دکاندار کی طرف دیکھا‘ پچاس اور ساٹھ کے درمیان اس کی عمر تھی اور کاروباری انداز سے وہ ایک ایک چیز دکھا رہا تھا۔ مومنہ بھی ماں کے ساتھ تھی۔ ماں کو خاموش دیکھ کر وہ بولیـ:
 ’’ امپورٹڈ ڈنرسیٹ تو بہت مہنگے ہیں۔ ہم نہیں خرید سکتے۔ کیا آپ ہمیں کوئی ایسا پاکستانی ڈنرسیٹ دکھا سکتے ہیں جو دیکھنے میں بالکل امپورٹڈ لگتا ہو؟‘‘
دکاندار مسکرایا ’’بی بی! آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ہم تو روزانہ یہی کام کرتے ہیں۔‘‘اس نے کہا۔
اس نے ایک بند الماری کھول دی اور بولا ’’آئیے بہن جی آپ دیکھ لیں۔‘‘
 اس الماری میں تین چار پاکستانی ڈنرسیٹ رکھے ہوئے تھے۔ وہ ان جاپانی سیٹوں کی ہو بہو نقل تھے جو دو لاکھ روپے مالیت کے تھے اور انھوں نے باہر شوکیس میں دیکھے تھے۔
مومنہ نے جلدی سے پلیٹ ہاتھ میں لے کر اس کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پیچھے کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا۔
 دکاندار تحمل سے بولا ’’لوگ فرمائش کرتے ہیں کہ پاکستانی ڈنرسیٹ کے پیچھے ’’میڈاِن پاکستان‘‘ نہ لکھوایا جائے کیونکہ معیار میں یہ بالکل جاپانی سیٹ کے برابر ہیں ۔ بے شک ساتھ ساتھ رکھ کر دیکھ لیں۔‘‘ وہ باہر سے جاپانی ڈنر سیٹ کی ایک پلیٹ اُٹھا لایا اور دونوں برابر برابر رکھ دیں۔ واقعی بالکل ایک سا ڈیزائن تھا۔ ذرا بھی اصلی اور نقلی میں فرق نہیں لگ رہا تھا۔
 مومنہ نے ایم اے کیا ہوا تھا۔ سمجھدار تھی۔ پورا سیٹ اٹھا کر ایک ایک چیز پر غور کر رہی تھی پھر ماں سے بولی:
’’امی جی… یہ ٹھیک ہے۔‘‘
’’ہاں ہے تو ٹھیک… ماں سوچتے ہوئے بولی مگر پتا نہیں اس کی قیمت کیا ہے؟‘‘
دکاندار بولا ’’آپ کے پاس کتنی گنجائش ہے۔ میں ویسا سیٹ آپ کو دکھا دوں۔‘‘
’’نہیں… سیٹ یہی مناسب ہے۔ قیمت بتا دیں پلیز…!‘‘ مومنہ بولی۔
 ’’پورے مکمل سیٹ کی قیمت تو پچاس ہزار روپے ہے۔ اگر اس میں سے کچھ پیس کم کر دیے جائیں تو قیمت اور بھی کم ہو جائے گی۔‘‘
’’پچاس ہزار…‘‘ اس کی ماں حیرت سے بولی۔
’’آپ فیصلہ کریں میں کچھ اور کم کر دوں گا۔ آپ تو دیکھ چکی ہیں، جاپانی سیٹ دو لاکھ روپے کا تھا۔‘‘
’’اگر ہم کچھ پیسز کم کروائے بغیر لیں تو آپ کتنی رعایت دیں گے۔‘‘ مومنہ بولی۔
’’میں آپ کو پینتالیس ہزار میں دے دوں گا،‘‘ دکان دار نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے، ہم گھر جا کر فیصلہ کر لیتے ہیں۔‘‘ مومنہ کی امی نے کہا۔
 ’’نہیں بہن! ابھی فیصلہ کر لیں۔ چیزیں پڑی نہیں رہتیں بک جاتی ہیں۔ یہ تو بالکل امپورٹڈ لگتا ہے اور اب یہ آخری سیٹ رہ گیا ہے۔ اس کی بہت مانگ ہے۔ آپ لے جائیں پیسے کل دے جانا۔‘‘چناں چہ تھوڑی سے بحث کے بعد انھوں نے یہ سیٹ خرید لیا اور گھر آ گئے۔
 پچھلے ماہ مومنہ کی ساس نے کچھ مہمانوں کو مدعو کیا اور مومنہ سے کہا کہ وہ اپنی شادی کا ڈنرسیٹ نکال لائے۔سیٹ کے ہر برتن کو اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا… اور گھور کر پوچھا ’’کیا یہ امپورٹڈ ہے۔‘‘
مومنہ نے ہولے سے کہا’’ جی ہاں۔‘‘
’’وہ چمک کر بولی۔ اس پر تو کچھ لکھا ہوا نہیں۔‘‘
مومنہ نے ہلکی آواز میں کہا ’’دکاندار نے تو ہم سے یہی کہا تھا کہ جاپانی سیٹ ہے اور ہم نے خرید لیا۔‘‘
’’اور تم نے الٹ کر دیکھا ہی نہیں… جی نہیں۔‘‘
’’اتنی بے وقوف ہے تمہاری ماں اورتم… ‘‘
مومنہ چپ کر گئی۔
 مومنہ کی ساس نے کہا ’’اس کو اسی طرح واپس پیک کر دو۔ اور کل مجھے اس دکاندار کے پاس لے جانا۔ میں خود جا کے پوچھوں گی کہ یہ کہاں کا بنا ہوا ہے۔‘‘ مومنہ نے سیٹ پھر اسی طرح پیک کر دیا۔ لیکن اپنے شوہر کو یہ بات نہ بتا سکی کیونکہ وہ اپنے دفتری کام سے شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ اس نے ہفتے بعد آنا تھا۔
 مومنہ کی ساس اس کے جہیز کی ہر چیز میں سے کیڑے نکال چکی تھی۔ حتیٰ کہ اسے سونے کے وہ کنگن بھی پسند نہیں آئے جو اس کی ماں نے اسے دیے تھے۔ وہ سنار کے پاس جا کر ان کی قیمت بھی لگوا آئی اور کئی بار مومنہ کو سناچکی تھی۔ مومنہ کی چھوٹی تین بہنیں گھر بیٹھی ہوئی تھیں، اس لیے وہ ایسی جلی کٹی سن کر ہمیشہ خاموش رہتی۔
 آج جب اس کی ساس نے رکشا منگوا کر اسے ڈنرسیٹ لے کر بازارچلنے کو کہا تو وہ انکار یا احتجاج نہ کر سکی… اور ساتھ چل پڑی۔ گو اس نے دکان ڈھونڈنے میں کافی دیر لگائی۔ تاہم اسے دکان ڈھونڈنا ہی پڑی۔ بمشکل اتنا بھاری ڈبا اٹھا کر جب وہ اندر داخل ہوئی تو کائونٹر پر ایک جوان لڑکا بیٹھا تھا۔ وہ گھبرا گئی… آگے آ کے بولی ’’وہ جو بزرگ یہاں بیٹھتے ہیں‘ کہاں ہیں؟‘‘
 لڑکا کھڑا ہو گیا، بولا ’’وہ میرے والد ہیں۔ نماز پڑھنے گئے ہیں ابھی آ جائیں گے، فرمائیے! میں کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘
’’نہیں ہم اُن کا انتظار کر لیں گے۔‘‘مومنہ نے کہا۔
 اس کی ساس ایک اسٹول پر بیٹھ گئی اور ہانپنے لگی۔ مومنہ اِدھر اُدھر دیکھ کر بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈھ ہی رہی تھی کہ دکاندار آ گیا۔
 مومنہ نے اپنی آنکھوں میں نصیب کا سارا دکھ بھر کے اس کو دیکھا اور دیکھتی ہی رہی۔ وہ بھی حیران ہو کر برقع پوش لڑکی کو دیکھنے لگا پھر اسٹول پر بیٹھی اس کی ساس کو دیکھا اور آگے آ گیا۔
 ’’جی فرمائیے۔‘‘ ساس کے پاس آ کر بولا۔ اب مومنہ نے اپنا نقاب سرکا دیا تھا۔ ڈبا آگے کر کے بولی ’’یہ ڈنرسیٹ ہم نے آپ کی‘‘ … ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس کی ساس کھڑی ہو گئی اور کرخت لہجے میں بولی ’’کیا یہ ڈنرسیٹ امپورٹڈ ہے، بس اتنا بتا دیں۔‘‘
 دکاندار نے پہلے مومنہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور نمی میں ایک التجا تیر رہی تھی… یوں لگتا تھا ابھی روئی کہ روئی…
دکاندار نے کہا: ’’میں دیکھے بغیر کیسے بتا سکتا ہوں۔ ڈبا آپ کے آگے پڑا ہوا ہے کھول کر دیکھ لیں۔‘‘
 دکاندار ڈبا کھولنے لگا۔ اس کا بیٹا بھی آگے آ کے اس کا ہاتھ بٹانے لگا۔ پھر اس نے دو چار پلیٹیں نکال لیں اور الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ ایک نظر اس نے مومنہ پر ڈالی، اس کے چہرے پر عجیب بے چارگی تھی۔ ساس ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔ مومنہ منہ سے کچھ کہہ نہ سکتی تھی۔ بس آنکھوں ہی سے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی تھی۔
’’بی بی! آپ اس کی رسید لائی ہیں؟‘‘ دکاندار نے براہ راست مومنہ سے پوچھا۔
’’جی نہیں… پتا نہیں اب رسید ہو گی یا گم ہو چکی۔ میری شادی کو دو مہینے ہو گئے ہیں۔‘‘
دکاندار کی سمجھ میں ساری بات آ گئی۔
 ’’رسید سے کیا مطلب… آپ دکاندار ہیں۔ آپ نے سیٹ بیچا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے یہ پاکستانی ہے یا امپورٹڈ ساس تلخ لہجے میں بولی۔‘‘
’’جی… جی… وہ آرام سے بولا۔ میرا خیال تھا یہ شاید واپس لوٹانے کو لائی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ پہلے بتائو… کیا یہ جاپانی سیٹ ہے؟‘‘
 دکاندار ذرا سا مسکرایا۔ مومنہ کی سانس حلق میں پھنسنے لگی۔ وہ بولا…’’ محترمہ یہ امپورٹڈ ڈنرسیٹ ہے۔ ہم براہ راست جاپان سے کراکری منگواتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں آئے دن امپورٹ ایکسپورٹ کے قانون بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ہم انھیں ہدایت دیتے ہیں کہ کچھ برتنوں پر میڈ اِن جاپان نہ لکھا جائے۔ اس سے ہمیں فائدہ ہو جاتا ہے۔‘‘
’’اچھا…‘‘ اس کی ساس غصے سے چمک کر بولی۔
اچھا بتائو تم نے کتنے کا دیا تھا؟‘‘
’’ایک لاکھ کا…‘‘ اس کے منہ سے اچانک نکل گیا۔
مومنہ کا رنگ فق ہو گیا۔
 اس کی ساس اسی لہجے میں بولی۔ ہمیں یہ پسند نہیں آیا استعمال بھی نہیں ہوا یہ واپس لے لو… اور ہمیں رقم لوٹا دو…
 مومنہ جیسے پھانسی پہ لٹک گئی کہ اب بھانڈا پھوٹے گا… مگر دکاندار اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے دراز کھولی اور پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں والی گڈی میں سے بیس نوٹ نکال کر اس کی ساس کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ مومنہ کی آنکھوں میں ایک گھنٹے سے رکے آنسو جھرجھر بہنے لگے۔ اس نے منہ پربرقع کا نقاب ڈال لیا۔
 اس کی ساس نے نوٹ اپنے پرس میں رکھ لیے اور شرمندہ سے لہجے میں بولی’’… آئو… چلو… میں تمھیں کسی اور دکان سے اپنی پسند کا امپورٹڈ سیٹ خرید دیتی ہوں۔‘‘ مومنہ اس کے پیچھے پیچھے چلی۔ کائونٹر کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی دائیں ہاتھ میں پہنی ہوئی سونے کی چھ ماشے کی انگوٹھی اتار کر چپکے سے دکاندار کے آگے رکھ دی اور خود تیزی سے باہر نکل آئی۔ یہ انگوٹھی اس کی امی نے تب دی تھی ،جب اس نے ایم اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ اسے وہ سینے سے لگا کر رکھتی مگر آج اس عالی ظرف انسان نے جس طرح اس کا پردہ رکھا تھا اور اس کی ازدواجی زندگی بچا لی تھی، یہ اس کے عوض بہت کم تھی۔ مگر پھر بھی کچھ پیسے تو ادا ہو سکتے تھے۔
 ساس نے باہر نکل کر رکشا روکا اور اس میں بیٹھ گئی۔ جب دوسری طرف سے مومنہ بیٹھنے لگی تو دکاندار باہر آ گیا اور گلی کی نکڑ پر اُنھیں رکنے کا اشارہ دیا۔ پھر دوڑ کر ان کے پاس آ گیا۔
 اب مومنہ کا دل پھر زور زور سے دھڑکنے لگا اور کسی نئی مصیبت میں گرفتار ہونے کے آثار نظر آنے لگے۔
 دکاندار اُس طرف آیا جہاں مومنہ کھڑی تھی اس کی ساس بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دکاندار کو دیکھنے لگی۔
وہ مومنہ کے قریب آ گیا اور ہاتھ میں پکڑی انگوٹھی اس کی طرف بڑھا کر بولا:
 ’’بیٹی! یہ شاید آپ کی انگوٹھی ہے۔ جہاں آپ کھڑی تھیں، مجھے وہاں سے ملی ہے۔ اس کو سنبھال لیجیے۔ شکر ہے اس وقت دکان میں کوئی اور نہیں تھا۔‘‘

مومنہ بالکل ساکت کھڑی ا نہیں دیکھتی رہی۔۔۔۔اور آنسو کے دو موٹے موٹے قطرے اس کی گالوں پر پھسل گئے ۔۔۔

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔